ملک حبیب
محفلین
حسنِ ازل کی شان حسینوں میں آ کے دیکھ
آنکھیں خدا نے دی ہیں تو جلوے خدا کے دیکھ
کیا کر رہی ہے جام میں رکھی ہوئی شراب
ساقی اس آفتاب کو گردش میں لا کے دیکھ
کب تک رہے گا خواب میں اُٹھ سبزۂ چمن
جلوے گلوں کے دیکھ، کرشمے صبا کے دیکھ
برق و شرر اُگیں گے زمیں سے بجائے گُل
تو خاک میں مرا دلِ مضطر ملا کے دیکھ
فتنے اُٹھا رہے ہیں وہ چل پھر کے، اور،حشر
قدموں پہ لوٹتا ہے کہ مجھ کو اُٹھا کے دیکھ
تجھ کو جو اپنی گرمیٔ محفل کا ہے خیال
شب کو بجائے شمع کوئی دل جلا کے دیکھ
پردے یہ سامنے ہیں تو دیکھے گا کیا اُسے
دونوں جہاں کو اپنی نظر سے گرا کے دیکھ
کیا پوچھتا ہے تو مری بربادیوں کا حال
تھوڑی سی خاک لے کے ہوا میں اُڑا کے دیکھ
منظر بہت ہیں دید کے قابل یہاں جلیل
تو بھی جنوں کو اپنے تماشا بنا کے دیکھ
کلام حافظ جلیل حسن مانک پوری
آنکھیں خدا نے دی ہیں تو جلوے خدا کے دیکھ
کیا کر رہی ہے جام میں رکھی ہوئی شراب
ساقی اس آفتاب کو گردش میں لا کے دیکھ
کب تک رہے گا خواب میں اُٹھ سبزۂ چمن
جلوے گلوں کے دیکھ، کرشمے صبا کے دیکھ
برق و شرر اُگیں گے زمیں سے بجائے گُل
تو خاک میں مرا دلِ مضطر ملا کے دیکھ
فتنے اُٹھا رہے ہیں وہ چل پھر کے، اور،حشر
قدموں پہ لوٹتا ہے کہ مجھ کو اُٹھا کے دیکھ
تجھ کو جو اپنی گرمیٔ محفل کا ہے خیال
شب کو بجائے شمع کوئی دل جلا کے دیکھ
پردے یہ سامنے ہیں تو دیکھے گا کیا اُسے
دونوں جہاں کو اپنی نظر سے گرا کے دیکھ
کیا پوچھتا ہے تو مری بربادیوں کا حال
تھوڑی سی خاک لے کے ہوا میں اُڑا کے دیکھ
منظر بہت ہیں دید کے قابل یہاں جلیل
تو بھی جنوں کو اپنے تماشا بنا کے دیکھ
کلام حافظ جلیل حسن مانک پوری