ناصر علی مرزا
معطل
کامیاب ماں نے کہا:’’نہیں! میں اپنے بچوں سے کچھ بھی نہیں چھپاتی۔ جیسا کہ اپنے اپنے تجربات کے ذریعے ہم میں سے اکثر لوگ جانتے ہیں کہ حالات اس وقت بہتری کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جب ہم کھلے دل سے لوگوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں اور ان سے کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں رکھتے۔ اس انداز فکر کے باعث مسائل پیدا نہیں ہوتے۔ میں نے اپنے بچوں کو بتا دیا تھا کہ میں ان کے ساتھ برا رویہ ااختیار نہیں کرنا چاہتی اور نہ ہی میں نے انہیں اپنے ساتھ برا رویہ اختیار کرنے کی اجازت دی۔ میرا خیال ہے کہ میں نے کہا تھا کہ میں آمر اور مطلق العنان نہیں بننا چاہتی۔ میں نے اپنے بچوں کے لیے یہ تین طریقے استعمال کرنے سے پہلے انہیں ان کے متعلق بتا دیا تھا۔ میں نے یہ طریقے انہیں اپنی عمومی سمجھ بوجھ کے ذریعے بتائے۔ میں نے بہت تگ و دو اور کوشش کے بعد یہ سبق سیکھا کہ اپنے بچوں کے ساتھ ان طریقوں کا استعمال، دو طرفہ راستے پر کار چلانے کے مترادف ہے۔ یہ طریقے اس وقت مفیداور کارگر ثابت ہوتے ہیں جب دونوں فریقین کھلے دل اور کھلے ذہن سے کام لیں۔‘‘کامیاب ماں نے نوجوان خاتون کوخبردار کرتے ہوئے کہا:’’یہ طریقے سیکھتے ہوئے براہ کرم یہ یادرکھو کہ یہ طریقے اس وقت بہت ہی زیادہ مفید اور کارگر ثابت ہوتے ہیں جب تم اپنے بچوں میں یہ حوصلہ پیدا کر دیتی ہو کہ وہ بھی تمہاری مانند، اپنے حقوق اور کیفیات کا آزادانہ اظہار کریں۔‘‘ نوجوان خاتون نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا:’’میں ایسا ہی کروں گی۔‘‘ پھر اس نے اپنی میزبان سے مصافحہ کیا اور رخصت ہوگئی۔ جب یہ نوجوان خاتون اپنی کار میں اکیلی بیٹھی تھی تو اس نے اپنی کاپی کھولی اور کامیاب ماں کی تینوں بیٹیوں کے نام دیکھنے لگی۔ اس نے ان خواتین کے ساتھ ملاقات کا فیصلہ کر لیا۔ ان کے نام پیٹریکاگیون، سوسان سانڈز اور الزبتھ فرنیکلن تھے۔(سپینسر جانسن کی کتاب ’’ون منٹ مدر‘‘ سے ماخوذ)٭…٭…٭