سر پر ہے سبز پگڑی باتیں رٹی رٹائی
توتا ہی لگ رہے ہیں بالکل خطیب صاحب
محترم:
یاسر شاہ محمد وارث الف عین اور دیگر صاحبانِ علم و ذوق اور اساتذہ کرام کی رائے جاننا چاہوں گا۔
منیب صاحب، یہ مضمون بہت پرانا ہے بلکہ اب تو شاید فرسودہ بھی ہو چکا ہے یعنی زاہد، واعظ، خطیب، محتسب، ناصح وغیرہ کو ریا کار کہنا، ان پر طنز کرنا، پھبتی کسنا، لتے لینا وغیرہ، کوئی فارسی اردو شاعر ایسا نہیں ہے جس کے ہاں اس مضمون کے کچھ یا بہت سے اشعار نہ ہوں، خود وہ چاہے جیسا بھی ہو۔
اب آئیے دوسری بات پر، آپ نے یقینی طور پر سبز، توتا (طوطا) اور رٹے اور خطیب کو مناسبات کی بنا پر شعر میں باندھ دیا لیکن جیسا کہ اعتراض سے ظاہر ہے کہ آج کل یہ نشانیاں ایک معروف جماعت کی ہیں، اور اس سے بچنا ہی اُولیٰ ہے، اور شعر میں عمومی بات ہی کی جانی چاہیئے۔ مثال کے طور پر اگر ایک زاہدِ خشک کو ظاہر کرنے کے لیے (اور یہ ایک قدیمی شعری روایت ہے) کوئی شاعر، سفید پگڑی، کمر پر بستر، بغل میں لوٹا، ٹخنوں سے اوپر شلوار کو شعر میں باندھ کر لاکھ کہے کہ میں نے ایک عمومی بات کی ہے لیکن یہ نشانیاں آج کل ایک معروف جماعت کے ساتھ اس قدر منسلک ہیں کہ کوئی شاعر کی وضاحت کو نہیں مانے گا اور کہے گا کہ ایک جماعت کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا ہے۔
تیسری بات، وہ شاعر ہی کیا جو عموم کے پردے میں اپنا مدعا بیان نہ کر سکے۔ آپ تلاش کیجیے، دستار (پگڑی) پر بے شمار اشعار مل جائیں گے، سرِ دست مجھے ایک آدھ فارسی شعر یاد آ گیا:
خانۂ شرع خراب است کہ اربابِ صلاح
در عمارت گریِ گنبدِ دستارِ خود اند
طالب آملی
شرع کے گھر میں ویرانی چھائی ہوئی ہے کیونکہ اربابِ صلاح اپنی دستار کے گنبد کی عمارت گری میں لگے ہوئے ہیں۔
اور
تا شود قبرَش زیارت گاہِ اربابِ ریا
خویش را زاہد بزیرِ گنبدِ دستار کُشت
غنی کاشمیری
تا کہ اُس کی قبر ریا کار لوگوں کے لیے زیارت گاہ بن جائے، زاہد نے اپنے آپ کو دستار کے گنبد کے نیچے دفنا دیا۔
یہ دو اشعار عموم کا رنگ لیے ہوئے ہیں لیکن ان کی کاٹ قاری بخوبی سمجھ سکتا ہے۔
آخری بات، کسی شاعر کے لیے اپنے شعر کو قلم زد کرنا ایک انتہائی مشکل کام ہے، سو میرا مشورہ تو یہی ہے کہ مذکورہ شعر کو قلم زد مت کریں ہاں اس کو بہتر ضرور کریں۔
والسلام