سید سیف اللہ حسینی
محفلین
گھر اپنی خواہشوں کا ہوا اک سراب تھا،
گلشن سجا سجایا بنا کشتِ آب تھا۔
جوڑا تھا تنکا تنکا جو پانی میں بہہ گیا،
خوابوں کا آشیاں تھا سو پھر خواب رہ گیا۔
منظر وہ خوفناک بڑے دل خراش تھے،
بہتے ہوئے تھے لوگ تو گھر پاش پاش تھے۔
سینے سے ماں لگا کے جو بیٹی کو مرگئی،
ممتا کی اس مثال پہ ہر آنکھ بہہ گئی۔
تھا قہر یہ خدا کا کہ اپنوں کی غفلتیں،
اک دوسرے پہ لوگ لگاتے ہیں تہمتیں۔
قہرِ وبا سےبس ابھی سنبھلا غریب تھا،
سیلاب میں وہ گھر گیا، یہ بھی نصیب تھا۔
کتنے ہی ہاتھ بڑھ کے انہیں تھامنے لگے،
خطروں میں خود کو بہرِ خدا ڈالنے لگے۔
مجبور کے جو درد میں غم خوار بن گئے،
خالق کے وہ کرم کے بھی حقدار بن گئے۔
کچھ خیر خواہ ایسے بھی منظر پہ آگئے،
تصویر کے وہ شوق میں لقمے تھما گئے۔
بربادی کا مری وہ تماشہ بنا دیا،
تشہیر کیلئے جو فسانہ سنا دیا۔
بارش دو دن کی سیؔف یوں بیدار کر گئی،
مخلوق سے پرے، سوئے خالق نظر گئی۔
از سیف اللہ سیف گلبرگوی
گلشن سجا سجایا بنا کشتِ آب تھا۔
جوڑا تھا تنکا تنکا جو پانی میں بہہ گیا،
خوابوں کا آشیاں تھا سو پھر خواب رہ گیا۔
منظر وہ خوفناک بڑے دل خراش تھے،
بہتے ہوئے تھے لوگ تو گھر پاش پاش تھے۔
سینے سے ماں لگا کے جو بیٹی کو مرگئی،
ممتا کی اس مثال پہ ہر آنکھ بہہ گئی۔
تھا قہر یہ خدا کا کہ اپنوں کی غفلتیں،
اک دوسرے پہ لوگ لگاتے ہیں تہمتیں۔
قہرِ وبا سےبس ابھی سنبھلا غریب تھا،
سیلاب میں وہ گھر گیا، یہ بھی نصیب تھا۔
کتنے ہی ہاتھ بڑھ کے انہیں تھامنے لگے،
خطروں میں خود کو بہرِ خدا ڈالنے لگے۔
مجبور کے جو درد میں غم خوار بن گئے،
خالق کے وہ کرم کے بھی حقدار بن گئے۔
کچھ خیر خواہ ایسے بھی منظر پہ آگئے،
تصویر کے وہ شوق میں لقمے تھما گئے۔
بربادی کا مری وہ تماشہ بنا دیا،
تشہیر کیلئے جو فسانہ سنا دیا۔
بارش دو دن کی سیؔف یوں بیدار کر گئی،
مخلوق سے پرے، سوئے خالق نظر گئی۔
از سیف اللہ سیف گلبرگوی