حال احوال والی نظم

نور وجدان

لائبریرین
کل صابرہ امین بہنا ، دوست اور جانے کیا کیا ، سے بات چیت کے دوران یہ احساس دلایا گیا کہ میں نے جوابا نظم ، کہی ہے ۔ یہ یقینا کسی میٹر کی پابندی برداشت نہ کرسکی اس لیے خیال کی طنابیں ذرا ڈھلیں پڑیں تو یہ اک شکل ان کی مہربانی سی تشکیل پائی ۔

میں، مزاج بخیر
اور عافیت سے ہوں اور سوچا
دوست کی خیریت مطلوب کرلوں وگرنہ
وقت کا پہیہ گھومتے کس کو خبر
کون جانے کس نگر کی خاک چھانے
اور گھڑی گھڑی میں بنیں کتنے افسانے.
یہ بس وقت ہے
جس نے اک گھڑی کا ملن اک گھڑی
اور اک ساعت کی جدائی دوسری سے رکھی ہوئی
اور فاصلے مقرر کیے ہوئے مابین.
بس تار ملتے اور دور ہوتے رہتے ہیں
گویا مقناطیس کی لہریں کشش کریں
اور کبھی دوری
کسی اور جانب برق کی مانند لیے جائے.
آپ کہیں گی کیا بات لمبی کردی.
بس بہانہ تھا
کہ بہانہ ہو
اور بہانے سے بات ہو


مجھے بہانہ چاہیے تھا مزید کچھ کہنے کا ، سو جوابا اتنی لمبی نظم کہی کہ بس !



لفظ پروانہ ء حسن ہیں اور حسن کو قید کیسی؟
بس آپ نے سراہا ہے تو سراہا اس حسن کو،
جس کی تپش سے آپ مخمور ہیں،،
جس کی شعاع خاص درز درز ہوتی
مجھے نہ جانے کتنے شمسی،
کتنے قمری سالوں مدہوش رکھتی ہے.
نیم واہی میں زمانے دیکھتے
جب رفتگی کو کوچ کرتی ہوں،
تو عدم ہی ظہور لگتا ہے،
ظہور پر عدم کا گمان ہوتا ہے
تب احساس ہوتا ہے ،
دامن دل میں بے پایاں موتی ہیں ،
جوکسی جوہری نے لعل بمانند رکھے ہیں. ،
جو فلک نشین ہے
وہ دل کے قرین بھی ہے ،
قربت سے نوازے تو
تو ارض و سما حسین لگتے ہیں
. یہی جب میں کہتی ہوں،
تو نہ جانے۔۔
اس کہنے سننے کی صدا ،
کوہ ندا پر کھڑا ہو گویا کوئی عاشق،
جس کی پکار گونج بن جائے
کچھ سن کے صدائے دل
سربزم رسوا کردیں
اہل ہنر دندان میں انگلیاں داب کے حیرت کناں
یہ کس منصور نے جرات کردی،
کوہ ندا سے نالہ دل کو،
آتش ذوق سے نکلتے،
وہ قوت وجلا ملی کہ مجمع لگ گیا
 

صابرہ امین

لائبریرین
کل صابرہ امین بہنا ، دوست اور جانے کیا کیا ، سے بات چیت کے دوران یہ احساس دلایا گیا کہ میں نے جوابا نظم ، کہی ہے ۔ یہ یقینا کسی میٹر کی پابندی برداشت نہ کرسکی اس لیے خیال کی طنابیں ذرا ڈھلیں پڑیں تو یہ اک شکل ان کی مہربانی سی تشکیل پائی ۔

میں، مزاج بخیر
اور عافیت سے ہوں اور سوچا
دوست کی خیریت مطلوب کرلوں وگرنہ
وقت کا پہیہ گھومتے کس کو خبر
کون جانے کس نگر کی خاک چھانے
اور گھڑی گھڑی میں بنیں کتنے افسانے.
یہ بس وقت ہے
جس نے اک گھڑی کا ملن اک گھڑی
اور اک ساعت کی جدائی دوسری سے رکھی ہوئی
اور فاصلے مقرر کیے ہوئے مابین.
بس تار ملتے اور دور ہوتے رہتے ہیں
گویا مقناطیس کی لہریں کشش کریں
اور کبھی دوری
کسی اور جانب برق کی مانند لیے جائے.
آپ کہیں گی کیا بات لمبی کردی.
بس بہانہ تھا
کہ بہانہ ہو
اور بہانے سے بات ہو


مجھے بہانہ چاہیے تھا مزید کچھ کہنے کا ، سو جوابا اتنی لمبی نظم کہی کہ بس !



لفظ پروانہ ء حسن ہیں اور حسن کو قید کیسی؟
بس آپ نے سراہا ہے تو سراہا اس حسن کو،
جس کی تپش سے آپ مخمور ہیں،،
جس کی شعاع خاص درز درز ہوتی
مجھے نہ جانے کتنے شمسی،
کتنے قمری سالوں مدہوش رکھتی ہے.
نیم واہی میں زمانے دیکھتے
جب رفتگی کو کوچ کرتی ہوں،
تو عدم ہی ظہور لگتا ہے،
ظہور پر عدم کا گمان ہوتا ہے
تب احساس ہوتا ہے ،
دامن دل میں بے پایاں موتی ہیں ،
جوکسی جوہری نے لعل بمانند رکھے ہیں. ،
جو فلک نشین ہے
وہ دل کے قرین بھی ہے ،
قربت سے نوازے تو
تو ارض و سما حسین لگتے ہیں
. یہی جب میں کہتی ہوں،
تو نہ جانے۔۔
اس کہنے سننے کی صدا ،
کوہ ندا پر کھڑا ہو گویا کوئی عاشق،
جس کی پکار گونج بن جائے
کچھ سن کے صدائے دل
سربزم رسوا کردیں
اہل ہنر دندان میں انگلیاں داب کے حیرت کناں
یہ کس منصور نے جرات کردی،
کوہ ندا سے نالہ دل کو،
آتش ذوق سے نکلتے،
وہ قوت وجلا ملی کہ مجمع لگ گیا
پیاری نور وجدان،
آداب
کیا ہی پیاری آزاد نظم ہے ۔ ۔ ۔ ن م راشد ہوتے تو بڑی شاباش دیتے ۔ ۔
ہمارے بارے میں اس قدر حسنِ ظن کا شکریہ ۔ ۔ اچھے لوگوں کو سب ہی اچھے لگتے ہیں ۔ ۔ کہ ان کا ظرف عالی ہوتا ہے ۔ ۔
لکھتی رہیئے کہ ہم بھی لطف اندوز ہوں ۔ ۔ :):)
 

نور وجدان

لائبریرین
پیاری نور وجدان،
آداب
کیا ہی پیاری آزاد نظم ہے ۔ ۔ ۔ ن م راشد ہوتے تو بڑی شاباش دیتے ۔ ۔
ہمارے بارے میں اس قدر حسنِ ظن کا شکریہ ۔ ۔ اچھے لوگوں کو سب ہی اچھے لگتے ہیں ۔ ۔ کہ ان کا ظرف عالی ہوتا ہے ۔ ۔
لکھتی رہیئے کہ ہم بھی لطف اندوز ہوں ۔ ۔ :):)

ادب والےدِل ایسے تخاطب ہوا کرتے ہیں کہ ہر بات میں شعری و جمالیاتی حسن کی نمود ہوتی ہے کہ جیسے کہ آپ نے اک خاکہ کھنیچا اک نقشہ کہ ن ،م، راشد صاحب ہوتے تو شاباش دیتے ۔ یہ ہے تو نثری نظم مگر داد کے تصور نے وادی میں دھکیل دیا ، ایسی جس میں ن۔م۔ راشد خود کھڑے کہہ رہے ہوں ' ارے ، واہ خوب نظم ہے ' پھر اک زور دار قسم آواز حقیقت کی جانب کھینچ لاتی ہے اور داد سے بے نیاز کردیتی ہے کہ یہ تو خواب تھا اور خواب کبھی حقیقت ہوا ہے؟ :)
 

سیما علی

لائبریرین
کل صابرہ امین بہنا ، دوست اور جانے کیا کیا ، سے بات چیت کے دوران یہ احساس دلایا گیا کہ میں نے جوابا نظم ، کہی ہے ۔ یہ یقینا کسی میٹر کی پابندی برداشت نہ کرسکی اس لیے خیال کی طنابیں ذرا ڈھلیں پڑیں تو یہ اک شکل ان کی مہربانی سی تشکیل پائی ۔

میں، مزاج بخیر
اور عافیت سے ہوں اور سوچا
دوست کی خیریت مطلوب کرلوں وگرنہ
وقت کا پہیہ گھومتے کس کو خبر
کون جانے کس نگر کی خاک چھانے
اور گھڑی گھڑی میں بنیں کتنے افسانے.
یہ بس وقت ہے
جس نے اک گھڑی کا ملن اک گھڑی
اور اک ساعت کی جدائی دوسری سے رکھی ہوئی
اور فاصلے مقرر کیے ہوئے مابین.
بس تار ملتے اور دور ہوتے رہتے ہیں
گویا مقناطیس کی لہریں کشش کریں
اور کبھی دوری
کسی اور جانب برق کی مانند لیے جائے.
آپ کہیں گی کیا بات لمبی کردی.
بس بہانہ تھا
کہ بہانہ ہو
اور بہانے سے بات ہو


مجھے بہانہ چاہیے تھا مزید کچھ کہنے کا ، سو جوابا اتنی لمبی نظم کہی کہ بس !



لفظ پروانہ ء حسن ہیں اور حسن کو قید کیسی؟
بس آپ نے سراہا ہے تو سراہا اس حسن کو،
جس کی تپش سے آپ مخمور ہیں،،
جس کی شعاع خاص درز درز ہوتی
مجھے نہ جانے کتنے شمسی،
کتنے قمری سالوں مدہوش رکھتی ہے.
نیم واہی میں زمانے دیکھتے
جب رفتگی کو کوچ کرتی ہوں،
تو عدم ہی ظہور لگتا ہے،
ظہور پر عدم کا گمان ہوتا ہے
تب احساس ہوتا ہے ،
دامن دل میں بے پایاں موتی ہیں ،
جوکسی جوہری نے لعل بمانند رکھے ہیں. ،
جو فلک نشین ہے
وہ دل کے قرین بھی ہے ،
قربت سے نوازے تو
تو ارض و سما حسین لگتے ہیں
. یہی جب میں کہتی ہوں،
تو نہ جانے۔۔
اس کہنے سننے کی صدا ،
کوہ ندا پر کھڑا ہو گویا کوئی عاشق،
جس کی پکار گونج بن جائے
کچھ سن کے صدائے دل
سربزم رسوا کردیں
اہل ہنر دندان میں انگلیاں داب کے حیرت کناں
یہ کس منصور نے جرات کردی،
وہ قوت وجلا ملی کہ مجمع لگ گیا
پیاری سی نور !!!!!!
جو دھیرے دھیرے میرے دل کا سرور بنتی جارہی ہیں۔
آپکی نذر؀
ناصر میرے منہ کی باتیں یوٗں تو سچّے موتی ہیں!!!!!
لیکن ان کی باتیں سن کر بھُول گئے سب باتوں کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈھیروں دعائیں آج ہم آپکی نظر اتارتے ہیں ۔۔۔۔۔
ملے کسی سے نظر تو سمجھو غزل ہوئی
رہے نہ اپنی خبر تو سمجھو غزل ہوئی۔۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
ادب والےدِل ایسے تخاطب ہوا کرتے ہیں کہ ہر بات میں شعری و جمالیاتی حسن کی نمود ہوتی ہے کہ جیسے کہ آپ نے اک خاکہ کھنیچا اک نقشہ کہ ن ،م، راشد صاحب ہوتے تو شاباش دیتے ۔ یہ ہے تو نثری نظم مگر داد کے تصور نے وادی میں دھکیل دیا ، ایسی جس میں ن۔م۔ راشد خود کھڑے کہہ رہے ہوں ' ارے ، واہ خوب نظم ہے ' پھر اک زور دار قسم آواز حقیقت کی جانب کھینچ لاتی ہے اور داد سے بے نیاز کردیتی ہے کہ یہ تو خواب تھا اور خواب کبھی حقیقت ہوا ہے؟ :)
ن، م راشد نے آزاد نظمیں کہیں اور اردو میں اس نئ جہت کو متعارف کروایا اور آزاد شاعری کا پہلا مجموعہ بھی انھوں نے لکھا ۔ ۔ آج کل امجد اسلا امجد کی شاعری بہت پسند کی جاتی ہے ۔ ۔ ۔یعنی بہت کم شعراء لکھتے ہیں ۔ ۔ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ ہر شاعر ایک دو آزاد نظمیں کہہ ہی دیتا ہے ۔ ۔ فیس بک پر تو ہے ہی زیادہ تر آزاد شاعری ۔ ۔ :):) (کبھی کبھی تو شتر بے مہار شاعری بھی لگتی ہے ۔ ۔:ROFLMAO::D)
 

صابرہ امین

لائبریرین
پیاری سی نور !!!!!!
جو دھیرے دھیرے میرے دل کا سرور بنتی جارہی ہیں۔
آپکی نذر؀
ناصر میرے منہ کی باتیں یوٗں تو سچّے موتی ہیں!!!!!
لیکن ان کی باتیں سن کر بھُول گئے سب باتوں کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈھیروں دعائیں آج ہم آپکی نظر اتارتے ہیں ۔۔۔۔۔
ملے کسی سے نظر تو سمجھو غزل ہوئی
رہے نہ اپنی خبر تو سمجھو غزل ہوئی۔۔
واہ واہ ۔ ۔ ۔ بہت خوب بھئ ۔ ۔ ما شا اللہ ۔ ۔ اللہ محبتیں سلامت رکھے ۔ ۔ آمین:):)
 

سیما علی

لائبریرین
ن، م راشد نے آزاد نظمیں کہیں اور اردو میں اس نئ جہت کو متعارف کروایا اور آزاد شاعری کا پہلا مجموعہ بھی انھوں نے لکھا ۔ ۔ آج کل امجد اسلا امجد کی شاعری بہت پسند کی جاتی ہے ۔ ۔ ۔یعنی بہت کم شعراء لکھتے ہیں ۔ ۔ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ ہر شاعر ایک دو آزاد نظمیں کہہ ہی دیتا ہے ۔ ۔ فیس بک پر تو ہے ہی زیادہ تر آزاد شاعری ۔ ۔ :):) (کبھی کبھی تو شتر بے مہار شاعری بھی لگتی ہے ۔ ۔:ROFLMAO::D)
سچ کہا آپُ نے شتر بے مہار شاعری:):):):)
 

سیما علی

لائبریرین
ادب والےدِل ایسے تخاطب ہوا کرتے ہیں کہ ہر بات میں شعری و جمالیاتی حسن کی نمود ہوتی ہے کہ جیسے کہ آپ نے اک خاکہ کھنیچا اک نقشہ کہ ن ،م، راشد صاحب ہوتے تو شاباش دیتے ۔ یہ ہے تو نثری نظم مگر داد کے تصور نے وادی میں دھکیل دیا ، ایسی جس میں ن۔م۔ راشد خود کھڑے کہہ رہے ہوں ' ارے ، واہ خوب نظم ہے ' پھر اک زور دار قسم آواز حقیقت کی جانب کھینچ لاتی ہے اور داد سے بے نیاز کردیتی ہے کہ یہ تو خواب تھا اور خواب کبھی حقیقت ہوا ہے؟ :)

اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لی!!
تو قطعناً پریشان ہونے کی ضرورت وہ ہوتے تو اسی طرح داد دیتے میری پیاری سی نوری کو ۔۔۔۔۔۔۔:in-love::in-love::in-love::in-love::in-love:
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
پیاری سی نور !!!!!!
جو دھیرے دھیرے میرے دل کا سرور بنتی جارہی ہیں۔
آپکی نذر؀
ناصر میرے منہ کی باتیں یوٗں تو سچّے موتی ہیں!!!!!
لیکن ان کی باتیں سن کر بھُول گئے سب باتوں کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈھیروں دعائیں آج ہم آپکی نظر اتارتے ہیں ۔۔۔۔۔
ملے کسی سے نظر تو سمجھو غزل ہوئی
رہے نہ اپنی خبر تو سمجھو غزل ہوئی۔۔
بہت محبت آپ کی جانب سے مل رہی ہے ، آپ کو عید کی از حد مبارک باد اور بے پناہ محبت
 

نور وجدان

لائبریرین
ن، م راشد نے آزاد نظمیں کہیں اور اردو میں اس نئ جہت کو متعارف کروایا اور آزاد شاعری کا پہلا مجموعہ بھی انھوں نے لکھا ۔ ۔ آج کل امجد اسلا امجد کی شاعری بہت پسند کی جاتی ہے ۔ ۔ ۔یعنی بہت کم شعراء لکھتے ہیں ۔ ۔ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ ہر شاعر ایک دو آزاد نظمیں کہہ ہی دیتا ہے ۔ ۔ فیس بک پر تو ہے ہی زیادہ تر آزاد شاعری ۔ ۔ :):) (کبھی کبھی تو شتر بے مہار شاعری بھی لگتی ہے ۔ ۔:ROFLMAO::D)
وہ شاعری بحر کی پابند ہے جو انہوں نے لکھی ۔۔۔ میرا خیال ہے ۔۔۔۔ فیس بک پر اکثر نثمیں ہوتی ہیں
 
ن، م راشد نے آزاد نظمیں کہیں اور اردو میں اس نئ جہت کو متعارف کروایا اور آزاد شاعری کا پہلا مجموعہ بھی انھوں نے لکھا ۔ ۔ آج کل امجد اسلا امجد کی شاعری بہت پسند کی جاتی ہے ۔ ۔ ۔یعنی بہت کم شعراء لکھتے ہیں ۔ ۔ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ ہر شاعر ایک دو آزاد نظمیں کہہ ہی دیتا ہے ۔ ۔ فیس بک پر تو ہے ہی زیادہ تر آزاد شاعری ۔ ۔ :):) (کبھی کبھی تو شتر بے مہار شاعری بھی لگتی ہے ۔ ۔:ROFLMAO::D)
بہن آزاد شاعری اور نثری (غیر) شاعری کو خلط نہ کریں ۔۔۔ آزاد شاعری آزاد ہوتی ہے، مگر مادر پدر آزاد نہیں :)
آزاد نظم کا اسلوب یہ ہے کہ یہ نظم کی کسی رائج ہئیت پر نہیں کہی جاتی ۔۔۔ جیسے نظموں کی قسمیں معروف ہیں، مثنوی، مخمس، مسدس وغیرہ۔
آزاد نظم اپنی اصل میں تو بس قافیہ کی قید سے آزاد ہوتی ہے، عروض کی، نیم دلی سے ہی سہی، پابند بہرحال ہوتی ہے کہ کسی ایک بحر یا ایک افاعیل کی پابندی پوری نظم میں کی جاتی ہے، مصرعوں کی لمبائی کا تعین شاعر کی صوابدید پر منحصر ہے۔
جناب ن۔م راشدؔ کی مثال آپ نے دی، ان کی شاعری اسی اسلوب کی ترجمان۔ مثال کے طور ان کی مشہور نظم ’’زندگی سے ڈرتے ہو‘‘ کا یہ ٹکڑا دیکھیے

حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
اس سے تم نہیں ڈرتے
''ان کہی'' سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی اس گھڑی سے ڈرتے ہو
اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا افاعیلی نقشہ بنایا جائے تو کچھ یوں بنے گا
فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن
فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن
فاعلن مفاعیلن
فاعلن مفاعیلن
فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن
فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن

تو یہ ایک طرح سے بحر ہزج کی ہی ایک شکل ہوئی، جس میں ارکان کی تعداد شاعر نے اپنی سہولتِ بیان کی خاطر گھٹا بڑھا رکھی ہے۔

اسی طرح امجد اسلام امجد کی نظم ’’خواب سراب‘‘ کا ابتدائی حصہ دیکھیے

اب جو سوچیں بھی تو خوف آتا ہے
کس قدر خواب تھے جو خواب رہے
کس قدر نقش تھے جو نقش سر آب رہے
کس قدر لوگ تھے جو
دل کی دہلیز پہ دستک کی طرح رہتے تھے اور نایاب رہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا افاعیلی نقشہ کچھ ایسا بنتا ہے
فاعلاتن فعلاتن فعلن
فاعلاتن فعلاتن فعلن
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
فاعلاتن فعلن
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن فاعلاتن فعلن

تو یہاں نہ صرف یہ کہ بحر رمل کی گردان ہے بلکہ شاعر نے کسی حد تک قافیہ کا بھی التزام کیا ہے، بس ارکان کی تعداد کہیں کم کردی ہے تو کہیں بڑھا دی ہے۔
حاصلِ کلام یہ کہ آزاد نظم کو آپ اردو شاعری کی وہ اولاد سمجھ لیں جو پڑھنے کے لئے یورپ چلی گئی تو ذرا ماڈرن ہوگئی، مگر اپنی تہذیب سے رشتہ بہرحال ختم نہیں کیا۔
نثری (غیر)نظم کی مثال اس اولاد کی سی ہے جس کو اگر ملک سے باہر جانے کا موقع مل جائے تو سیدھا ملحد بن جاتی ہے :)

دعاگو،
راحلؔ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
بہن آزاد شاعری اور نثری (غیر) شاعری کو خلط نہ کریں ۔۔۔ آزاد شاعری آزاد ہوتی ہے، مگر مادر پدر آزاد نہیں :)
آزاد نظم کا اسلوب یہ ہے کہ یہ نظم کی کسی رائج ہئیت پر نہیں کہی جاتی ۔۔۔ جیسے نظموں کی قسمیں معروف ہیں، مثنوی، مخمس، مسدس وغیرہ۔
آزاد نظم اپنی اصل میں تو بس قافیہ کی قید سے آزاد ہوتی ہے، عروض کی، نیم دلی سے ہی سہی، پابند بہرحال ہوتی ہے کہ کسی ایک بحر یا ایک افاعیل کی پابندی پوری نظم میں کی جاتی ہے، مصرعوں کی لمبائی کا تعین شاعر کی صوابدید پر منحصر ہے۔
جناب ن۔م راشدؔ کی مثال آپ نے دی، ان کی شاعری اسی اسلوب کی ترجمان۔ مثال کے طور ان کی مشہور نظم ’’زندگی سے ڈرتے ہو‘‘ کا یہ ٹکڑا دیکھیے

حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
اس سے تم نہیں ڈرتے
''ان کہی'' سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی اس گھڑی سے ڈرتے ہو
اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا افاعیلی نقشہ بنایا جائے تو کچھ یوں بنے گا
فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن
فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن
فاعلن مفاعیلن
فاعلن مفاعیلن
فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن
فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن

تو یہ ایک طرح سے بحر ہزج کی ہی ایک شکل ہوئی، جس میں ارکان کی تعداد شاعر نے اپنی سہولتِ بیان کی خاطر گھٹا بڑھا رکھی ہے۔

اسی طرح امجد اسلام امجد کی نظم ’’خواب سراب‘‘ کا ابتدائی حصہ دیکھیے

اب جو سوچیں بھی تو خوف آتا ہے
کس قدر خواب تھے جو خواب رہے
کس قدر نقش تھے جو نقش سر آب رہے
کس قدر لوگ تھے جو
دل کی دہلیز پہ دستک کی طرح رہتے تھے اور نایاب رہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا افاعیلی نقشہ کچھ ایسا بنتا ہے
فاعلاتن فعلاتن فعلن
فاعلاتن فعلاتن فعلن
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
فاعلاتن فعلن
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن فاعلاتن فعلن

تو یہاں نہ صرف یہ کہ بحر رمل کی گردان ہے بلکہ شاعر نے کسی حد تک قافیہ کا بھی التزام کیا ہے، بس ارکان کی تعداد کہیں کم کردی ہے تو کہیں بڑھا دی ہے۔
حاصلِ کلام یہ کہ آزاد نظم کو آپ اردو شاعری کی وہ اولاد سمجھ لیں جو پڑھنے کے لئے یورپ چلی گئی تو ذرا ماڈرن ہوگئی، مگر اپنی تہذیب سے رشتہ بہرحال ختم نہیں کیا۔
نثری (غیر)نظم کی مثال اس اولاد کی سی ہے جس کو اگر ملک سے باہر جانے کا موقع مل جائے تو سیدھا ملحد بن جاتی ہے :)

دعاگو،
راحلؔ۔
آداب
آزاد شاعری کے بارے میں اتنی معلومات دینے کا شکریہ بہت سی باتوں کا علم ہوا جزاک اللہ ۔ ۔ :)
زیادہ تر لوگ واقعی آزاد شاعری کو بالکل یہی سمجھتے ہیں کہ وہ کسی بھی بحر کی پابند نہیں ۔ ۔
اگر میں اس کے بارے میں مزید سمجھنا چاہوں تو رہنمائی کیجیئے گا ۔ ۔ کیا پڑھا جائے ۔ ۔ (مضمون، کتاب وغیرہ)
ایک بار پھرآپ کا بے حد شکریہ ۔ ۔
 
Top