کاشفی
محفلین
غزل
(محبوب خزاں)
حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں
ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں
زیر لب آہ بھی محال ہوئی
درد اتنا نہیں کہ تم سے کہیں
تم زلیخا نہیں کہ ہم سے کہو
ہم مسیحا نہیں کہ تم سے کہیں
سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں
کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں
کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیا ہے
ہجر میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں
اب خزاںؔ یہ بھی کہہ نہیں سکتے
تم نے پوچھا نہیں کہ تم سے کہیں
(محبوب خزاں)
حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں
ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں
زیر لب آہ بھی محال ہوئی
درد اتنا نہیں کہ تم سے کہیں
تم زلیخا نہیں کہ ہم سے کہو
ہم مسیحا نہیں کہ تم سے کہیں
سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں
کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں
کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیا ہے
ہجر میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں
اب خزاںؔ یہ بھی کہہ نہیں سکتے
تم نے پوچھا نہیں کہ تم سے کہیں