بھائی چھوٹے اور سر سے باپ کا سایا گیا
لب پہ عابدؓ کے مگر شکرِ خدا پایا گیا

خون آنکھوں نے بہایا ، دل کے ٹکڑے ہو گئے
قصّۂ کرب و بلا جس وقت دُہرایا گیا

وہ جفا تھی کون سی جس میں کمی رکھی گئی
ظلم ایسا کون سا تھا جو نہیں ڈھایا گیا

جس جواں بیٹے کے سہرے کی تمنّا دل میں تھی
وہ بھی بوڑھے باپ کے ہاتھوں سے دفنایا گیا

جس کے دادا ساقئ کوثر ہیں اُس معصوم کو
تشنہ لب رکھا گیا، پانی کو ترسایا گیا

آیۂ تطہیر جن کی شان میں نازل ہوئی
اُن کو بے پردہ بھرے دربار میں لایا گیا

ہم سے تو حامدؔ گدا اُس در کا ہو جانے کے بعد
پھر کسی کے سامنے دامن نہ پھیلایا گیا

حامد حسین مرزا المعروف حامدؔ امروہوی (شکاگو)
صفحہ 193-صفحہ 194، مدحت کے پھول، اشاعت ثانی 2001ء​
 
Top