حامد میر۔تینوں رب دیا ںرکھاں...صبح بخیر۔۔۔۔۔ڈاکٹر صفدر محمود
ایک نہایت عابد و زاہد مہربان کا پیغام آیا کہ مجھے بہت صدمہ ہوا ہے حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ میں اس کی صحتیابی اور عمر دراز کے لئے دعا کررہا ہوں۔ میں اس وقت تک اس خبر سے لاعلم تھا، فوراً ٹی وی آن کیا ،خبر کی تفصیلات پڑھتے ہوئے آنکھیں بھیگ گئیں اور میں حامد میر کیلئے ہمہ تن دعا بن گیا کہ ایسے موقعوں پر دعا ہی انسان کا سب سے بڑا سہارا ہوتی ہے۔ کہتے ہیں دکھی دل کی دعا آسمانوں کو چیر کر خالق حقیقی کے پاس پہنچ جاتی ہے اور قبول و منظور ہوتی ہے۔ شام اور رات دیر تک مجھے اس حوالے سے پیغامات ملتے رہے۔ یوں لگتا تھا جیسے ساری قوم حامد میر کی صحت یابی اور عمر درازی کے لئے دعائیں مانگ رہی ہے۔ جب لوگ اس طرح خلوص اور محبت سے بے لوث جذبے کے ساتھ دعائیں مانگیں تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رب رحیم و کریم ان دعائوں کو قبول و منظور نہ فرمائیں اور رب رحیم کا رحم جوش میں نہ آئے!!!
حامد میر ایک حق گو اور بیباک صحافی ہے۔ اس نے ثابت کردیا ہے کہ وہ ایک نڈر قلمکار ہے۔ یہ خوبیاں یا صفات اسے ورثے میں ملی ہیں کیونکہ اس کے والد ماجد پروفیسر وارث میر مرحوم بھی حق گوئی و بیباکی کی تصویر تھے۔ وہ میرے مہربان تھے اور ہمیشہ شفقت سے پیش آتے۔ حامد میر سے میں اپنی طویل زندگی میں صرف ایک بار ملا ہوں اگر وہ چند برس قبل مجھے یوم قائد اعظم کے پروگرام کے لئے اسلام آباد نہ بلاتا تو شاید عمر بھر ہماری ملاقات نہ ہوتی ۔ یہ ملاقات بھی صحیح معنوں میں ملاقات نہیں تھی کہ میں ریکارڈنگ سے چند منٹ پہلے پہنچا، پروگرام ریکارڈ ہوا اور میں ہوٹل واپس چلا گیا۔ نہ اس نے مجھے بٹھایا ،نہ میں نے ہی پروگرام کے بعد بیٹھنا مناسب سمجھا۔ مطلب یہ کہ میری حامد میر سے کوئی ذاتی دوستی نہیں کہ میں اس کی’’ناجائز‘‘ تعریف کروں۔ پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ملاقات سے کیا ہوتا ہے؟ ہم لاکھوں لوگوں سے ملتے ہیں اور انہیں بھول جاتے ہیں، نہ ان سے کوئی تعلق قائم ہوتا ہے اور نہ ہی قلب و ذہن کا رشتہ پھر یہ کہ ہم درجنوں لوگوں سے ہر روز یا بار بار ملتے ہیں لیکن ان سے کوئی رشتہ’’تعمیر‘‘ نہیں ہوتا لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے ملے بغیر رشتہ قائم ہوجاتا ہے اور وہ رشتہ دائمی نوعیت کا ہوتا ہے۔ محبت کے یہ رشتے نظریاتی ہم آہنگی ، مشترک اقدار اور جذباتی وابستگی کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں اور وقت کے ساتھ پروان چڑھتے رہتے ہیں۔ حامد میر سے میرا ایسا ہی رشتہ ہے۔ شاید میں کبھی اس کا اظہار نہ کرسکتا، کبھی اس کو لفظوں کا پیرہن نہ پہنا سکتا اگر حامد میر پر حملہ نہ ہوا ہوتا اور وہ نڈھال نیم بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال میں نہ پڑا ہوتا۔ یہ یکطرفہ رشتہ کیسے قائم ہوا؟ پہلے تو میں حامد میر کی جرأت رندانہ، حب الوطنی، پاکستانیات، اسلامی اقدار اور فکری صلاحیتوں یا تجزیاتی انداز سے متاثر ہوا۔ پھر حامد میر کے قائد اعظم سے عشق، اقبال سے بے پناہ عقیدت، تحریک پاکستان کے جذبے اور مشاہیر پاکستان سے محبت نے مجھے حامد میر کی محبت کا اسیر بنا دیا جس کا حامد میر کو علم بھی نہیں۔ اسی لئے میں اسے یکطرفہ محبت کہتا ہوں۔ میں اس کی جرأت رندانہ، حق گوئی،حب الوطنی اور محروم طبقوں کے لئے محبت کا کب قائل ہوا؟ جب اس نے گم شدہ افراد، اٹھائے گئے پاکستانیوں اور غائب کردہ حضرات کے حق میں پرزور آواز اٹھانا شروع کی جن میں ملک بھر سے مسنگ (Missing)حضرات کے علاوہ بلوچستان کے پاکستانی بھی شامل تھے۔ سپریم کورٹ میں مقدمہ چلا تو وہ متحرک رہا۔ ہر مظاہرے میں وہ صف اول میں کھڑا نظر آتا۔ میں نے سرکار کی نوکری میں عمر گزاری ہے۔ مجھے اندازہ تھا کہ ان غائب شدہ پاکستانیوں اور ملنے والی لاشوں کے خون سے کن کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں، کون لوگ ہیں اور کون سی ایجنسیاں ہیں جو ان خون آلود ہاتھوں پر دستانے پہنے ہمارے درمیان موجود ہیں اور ہاں!مجھے یہ بھی علم تھا کہ یہ لوگ، یہ ایجنسیاں نہایت طاقتور، منہ زور، بگٹٹ اور آمرانہ سوچ رکھتی ہیں۔ وہ نہ صرف اختلاف برداشت کرتی ہیں نہ کوئی محبت بھرا مشورہ۔ وہ طاقت کے نشے میں دھت ہیں اور ہر مخالف یا تنقیدی آواز کو کچل دینا چاہتی ہیں۔ مجھے احساس تھا کہ انہیں حامد میر کا یہ جرأت مندانہ رویہ ہرگز برداشت نہیں ہوگا۔ وہ پہلے وارننگ دیں گی، کار کے ساتھ بم باندھ دیا جائے گا لیکن وہ پھٹے گا نہیں، اگر پھر بھی حامد میر باز نہ آیا اور اس نے اپنی زبان کو تالا نہ لگایا تو پھر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ وہ ’’کچھ‘‘ اس سے پہلے بھی ہوچکا ہے، کوئی ہاتھ ان کے گریبان تک نہیں پہنچ سکا اس لئے وہ آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ میں نے دیکھا کہ حامد کے پایۂ استقلال میںلغزش نہ آئی، وہ اپنے موقف پہ ڈٹا، اس لئے سچی بات یہ ہے کہ میں اندیشوں میں مبتلارہا اور انہی اندیشوں نے میرے دل میں حامد میر کیلئے جگہ بنادی، ورنہ نہ ہماری میل ملاقات، نہ دوستی، ذاتی تعلق۔ میں سوچتا تھا کہ حامد میر یقیناً باخبر صحافی ہے، اسے یقیناً وارننگ بھی ملی ہوگی، اپنے ذرائع سے اطلاع بھی ملی ہوگی اور اسے ان خطرات کا بخوبی انداز ہ ہوگا لیکن اسکے باوجود وہ اپنے نقطہ پر ڈٹا ہوا ہے۔ آخر کیوں؟ ذرا غور کیجئے کہ کیا یہ اس کا ذاتی ا یجنڈا تھا؟ ہرگز نہیں۔ کیا وہ سیاستدان تھا کہ اپنا سیاسی
حلقہ بنارہا تھا؟ ہرگز نہیں۔ کیا اس سے اسے کوئی مادی منعفت حاصل ہوسکتی تھی؟ ہرگز نہیں۔ وہ اپنی جان ہتھیلی پہ رکھے کس کیلئے جدوجہد کررہا تھا؟ پاکستان کے استحکام، جمہوریت کے فروغ، جمہوری اداروں کی مضبوطی، عدلیہ کی آزادی، انسانی حقوق، انصاف اور محروم و مظلوم خاندانوں کی حمایت اس کا ایجنڈا، اس کا مقصد اور حاصل تھا اور اسی منزل کے حصول کیلئے وہ زندگی کی پرواہ کئے بغیر رواں دواں تھا۔
وہ بار بار لکھتا تھا کہ ہمیں پاکستان کو قائد ا عظم اور اقبال کا پاکستان بنانا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے کوششیں کرتا رہا وہ نظریاتی حوالے سے قائد ا عظم کا سپاہی ہے اور انشا ء اللہ رہے گا۔ یہی وہ حوالے، علامتیں، نظریاتی بنیادیں اور ذہنی ہم آہنگی ہے جس نے مجھے حامد میر کا دعاگو بنایا۔ انہی حوالوں سے حامد میر سے غائبانہ ملاقات رہتی تھی ورنہ ہماری جسمانی ملاقات تو صرف چند منٹوں پر محیط تھی۔حامد میر کی ایک اور ادا جس نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا وہ تھا ہندوستانی صحافیوں کو لاجواب کرنا۔ ہندوستان جاکر پاکستان کے موقف کی آواز بلند کرنا اور مخالف آوازوں کو دلائل سے چپ کروانا۔ بے شک تمام تر مصروفیات کے باوجود حامد میر مطالعے کا عادی ہے، کتابیں شوق سے پڑھتا اور کالموں میں ان کے حوالے دیتا ہے، ورنہ میں اکثر دانشوروں کو دیکھتا ہوں کہ وہ ہندوستان کی دوستی میں مال مست حال مست ہو چکے ہیں اور اپنے مشاغل کے سبب کتاب سے رشتہ توڑ چکے ہیں۔ نوجوان اور خوبرو حامد میر ان کے عزائم کو بھی طریقے سے بے نقاب کرجاتا تھا۔حامد میر ہسپتال میں زیر علاج ہے اور وہ اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ کروڑوں لوگ اس کے لئے مغموم اور دعا گو ہیں۔ یہ سعادت کتنے لوگوں کو حاصل ہوتی ہے؟ مجھے یقین ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ان معصوم اور پرخلوص دعائوں کے صدقے حامد میر کو صحت کاملا عطا فرمائے گا اور وہ پھر مزید توانا و مضبوط ہو کر آواز اٹھائے گا۔ جدوجہد جاری رکھے گا اور پاکستان سے شدید محبت کے تقاضے نبھائے گا۔ مجھے یقین ہےکہ رحیم و کریم رب کو ابھی حامد میر سے پاکستان کی خدمت کا کام لینا ہے اور وہ اسے انشاء اللہ عمر دراز عطا فرمائے گا، بقول اقبال؎
ہو سچائی کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے