حبّت میں یہ بھی کڑا امتحاں ہے ---برائے اصلاح

الف عین
-----------
فعولن فعولن فعولن فعولن
-----
( محترم میری بھی تمنّا ہے کہ کبھی آپ فرمائیں : ارشد تمہاری یہ غزل ٹھیک ہے،خامیاں دور کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہوں۔ انشاءاللہ وہ وقت ضرور آئےگا)
--------------
محبّت میں یہ بھی کڑا امتحاں ہے
تھا میں جس پہ قرباں وہی بد گماں ہے
----------------
یہ سینہ ہے شق ، دل سے اُٹھتا دھواں ہے
ترے بعد جینا بھی جینا کہاں ہے
----------
جدائی کا اک پل ہی کوہِ گراں تھا
یہاں تجھ کو دیکھے یہ دن آٹھواں ہے
--------
بہاریں ہیں برپا چمن میں ہیں دُھومیں
مگر دل میں طوفانِ آہ و فغاں ہے
-----------
میں تیرے سوا دردِ دل کس سے کہتا
------یا
میں کس کو سناتا یہ غم کی کہانی
------یا
کسے دل کی حالت میں اپنی بتاتا
کہ تُو ہی مرے غم کا اک رازداں ہے
--------
بڑھاپا نہیں یہ ہے تعظیمِ حوراں
ضعیفی میں جُھک کر کمر جو کماں ہے
-------------
غمِ ہجر کیا ہے تجھے کھو کے جانا
اگر کہنے بیٹھوں تو اک داستاں ہے
----------
خدا ہی ملا ہے نہ پایا صنم کو
گئی زندگی ساری یوں رائگاں ہے
--------
یوں آیا ہے میت پہ تیری وہ ارشد
ہے خاموش لیکن سراپا فغاں ہے
-------------یا
ہیں آنکھوں میں آنسو تو چُپ سی زباں ہے
----------------------
 

الف عین

لائبریرین
اسی غزل میں اغلاط یا خامیاں نسبتاً کم ہیں! شاید میرا مشورہ مان لیا گیا ہے! البتہ موضوع کے نئے پن کا اظہار صرف ایک شعر میں ہوا ہے۔
محبّت میں یہ بھی کڑا امتحاں ہے
تھا میں جس پہ قرباں وہی بد گماں ہے
---------------- دوسرا مصرع شاید یوں بہتر ہو
ہوں قربان جس پر، وہی....
ظاہر ہے کہ قربان صرف ماضی میں ہی نہیں ہوں گے!
مکمل قربان، غنہ والے قرباں کی بہ نسبت زیادہ رواں لگتا ہے

یہ سینہ ہے شق ، دل سے اُٹھتا دھواں ہے
ترے بعد جینا بھی جینا کہاں ہے
---------- درست

جدائی کا اک پل ہی کوہِ گراں تھا
یہاں تجھ کو دیکھے یہ دن آٹھواں ہے
-------- شعر نکال دیں۔ مزاحیہ لگتا ہے!

بہاریں ہیں برپا چمن میں ہیں دُھومیں
مگر دل میں طوفانِ آہ و فغاں ہے
----------- ٹھیک

میں تیرے سوا دردِ دل کس سے کہتا
------یا
میں کس کو سناتا یہ غم کی کہانی
------یا
کسے دل کی حالت میں اپنی بتاتا
کہ تُو ہی مرے غم کا اک رازداں ہے
-------- پہلے مصرع کی کون سی شکل بہتر لگتی ہے، یہ آپ کی پسند پر چھوڑ دیتا ہوں۔ مجھے تینوں قبول ہیں۔ البتہ دوسرے مصرعے میں 'اک رازدان' سے کلام وہ نہیں ہوتا جو مطلوب ہے۔ یعنی نثر 'اک تو ہی' یا 'تنہا تو ہی' رازداں ہونا چاہیے تھا

بڑھاپا نہیں یہ ہے تعظیمِ حوراں
ضعیفی میں جُھک کر کمر جو کماں ہے
------------- نیا خیال ہے ماشاء اللہ، لیکن 'حوراں' رواں نہیں۔
بڑھاپا نہیں، یہ ہے حوروں کی تعظیم
کیا جا سکتا ہے
پھر ایک تضاد پیدا ہو گیا ہے ۔ ایک طرف تو کہہ رہے ہو کہ بڑھاپا نہیں، دوسرے مصرعے میں قبول کر رہے ہیں کہ ضعیفی ہے! ضعیفی کے بغیر کہیں،

غمِ ہجر کیا ہے تجھے کھو کے جانا
اگر کہنے بیٹھوں تو اک داستاں ہے
---------- واضح نہیں ہوا

خدا ہی ملا ہے نہ پایا صنم کو
گئی زندگی ساری یوں رائگاں ہے
-------- یوں نہیں، 'یوں ہی' کا محل ہے

یوں آیا ہے میت پہ تیری وہ ارشد
ہے خاموش لیکن سراپا فغاں ہے
-------------یا
ہیں آنکھوں میں آنسو تو چُپ سی زباں ہے
-------------- دوسرا متبادل بہتر لگا مجھے۔
 
الف عین
بڑھاپا نہیں، یہ ہے حوروں کی تعظیم
ہوئی میری جھک کر کمر جو کماں ہے
-----------یا
حسینوں کے ڈیرے ابھی تک ہیں دل میں
ہوا جسم بوڑھا مگر دل جواں ہے
-----------
خدا ہی ملا ہے نہ پایا صنم کو
ہوئی زندگی یوں مری رائگاں ہے
-----------
ہجر والے شعر کا متبادل
----------
تجھے کھو دیا جب تری یاد آئی
مرے آنسوؤں کا سمندر رواں ہے
 

الف عین

لائبریرین
حسینوں کے ڈیرے ابھی تک ہیں دل میں
ہوا جسم بوڑھا مگر دل جواں ہے
سے تو خیال ہی بدل گیا جو مجھے پسند آیا تھا!
حوروں والا ہی خیال رکھو، دوسرا مصرع یوں کیا جا سکتا ہے
کمر میری جھک کر جو مثلِ کماں ہے

یوں ہی' تو اب بھی استعمال نہیں کیا گیا!
آنسوؤں والا شعر بے ربط ہے، پہلے مصرع کا درست بیانیہ نثر میں یوں ہونا تھا کہ
تجھے کھونے کے بعد اب جو تیری یاد آئی ہے تو.....
 
Top