اوشو
لائبریرین
24 مارچ 1928 بمطابق یکم شوال (عیدالفطر) 1346ہجری بروز ہفتہ صبح سوا آٹھ بچے حبیب احمد نامی بچہ پیدا ہوا۔ یہ مشرقی پنجاب (انڈیا) تحصیل وسوہہ، ضلع ہوشیارپور کا گاؤں میانی افغاناں تھا، جہاں عنایت اللہ کے گھر رابعہ بصری کے بطن سے اس بچے نے جنم لیا۔ مٹی گارے کا بنا ہوا کوٹھا، جہاں غربت کے ڈیرے تھے، مگر غیرت مندی کی روایت بھی بزرگوں سے چلی آرہی تھی، یوں غربت اور غیرت کے ماحول میں حبیب احمد نے شعور کی آنکھ کھولی۔ باپ جفت ساز تھا، اس کے بنائے ہوئے پنجابی طلع دار کھسے علاقے بھر میں مشہور تھے۔ ماں بھی محنت مزدوری کرتی تھی۔ ماں باپ کی خواہش تھی کہ بچے پڑھ لکھ جائیں اور پھر یوں ہو بھی گیا۔ حبیب کے بڑے بھائی مشتاق (اردو کے ممتاز شاعر مشتاق مبارک) نے میٹرک پاس کرلیا۔
یہ 1939 تھا، جب مشتاق مرکزی محکمہ اطلاعات و نشریات حکومت ہند میں بطور کلرک بھرتی ہوگیا، اور وہ بابو بن کر گاؤں سے بانکے شہر دہلی آگیا۔ مشتاق کے محکمے سے معروف رسالہ ’’آج کل‘‘ شایع ہوتا تھا، اس کے مدیر حضرت جوش ملیح آبادی تھے۔ 1942 میں حبیب بھی درجہ پنجم پاس کرکے گاؤں سے دہلی آگیا جہاں اینگلو عربک اسکول میں اسے داخل کروادیا گیا۔ اب صورت یہ تھی کہ گھر میں رسالہ ’’آج کل‘‘ آتا تھا، اور حبیب احمد بڑے بھائی مشتاق کے ساتھ مشاعروں میں بھی جاتا تھا، جہاں اس نے حضرت سائل و بیخود کو سنا کہ جنھوں نے غالب و داغ کو سن رکھا تھا، ان کے علاوہ جرأت و جگر کو بھی سنا، یوں مٹی زرخیز ہوگئی، شعری ماحول کا نم ملا تو ساتویں جماعت کے امتحانی پرچے میں ’’وقت سحر‘‘ کا جملہ بناتے ہوئے شعر ہوگیا۔
وعدہ کیا تھا آئیں گے امشب ضرور وہ
وعدہ شکن کو دیکھتے ’’وقت سحر‘‘ ہوا
حبیب احمد کا پہلا شعر، والد صاحب تو سخن فہم تھے۔ شعر کہتے تھے، نثر بھی خوب تھی، وہ تو خوش ہوئے، مگر والدہ شعر کی خبر سن کر بے ہوش ہوگئیں۔ وہ تو بڑے بیٹے مشتاق کی طرح حبیب کو بھی سرکاری بابو بنانا چاہتی تھیں، مگر قدرت نے کچھ اور ہی فیصلہ کر رکھا تھا، پھر بھی والدہ صاحبہ نے بڑا زور لگایا مگر وہ کامیاب نہ ہوسکیں۔
ہندوستان کا بٹوارہ ہوا تو حبیب اپنے گھر والوں کے پاس کراچی پاکستان آگیا۔ جہاں بڑے بھائی مشتاق نے محکمہ اطلاعات و مطبوعات میں شمولیت اختیار کی۔ حبیب کو والدین نے گورنمنٹ ہائی اسکول جیکب لائن کراچی میں داخل کرادیا۔ دلی میں ہی حبیب نے دوسرا شعر بھی کہہ دیا تھا۔ اسکول کے سامنے مسجد تھی اساتذہ اور طلبا نماز پڑھتے تھے، نماز کے بعد دعا بھی ہوتی تھی تو حبیب نے شعر کہا:
مدتیں ہوگئیں خطا کرتے
شرم آتی ہے اب دعا کرتے
کراچی آکر حبیب احمد نے اپنے نام کے ساتھ بطور تخلص مست لگالیا اور شاعری جاری رکھی۔ حبیب احمد مست کے اسکول میں اپنے زمانے کے معروف کالم نگار نصراللہ خاں اردو پڑھاتے تھے، وہ مست کے بڑے معترف تھے۔ اس کے گھر کے حالات سے بھی وہ بخوبی واقف تھے۔ ایک دن وہ مست کے گھر آئے اور اس کے والدین سے کہا کہ مست کو ان کے حوالے کردیں، وہ اس کی تعلیم کا خیال بھی رکھیں گے۔ والدین بیٹے کی آوارہ گردی سے پریشان تھے لہٰذا انھوں نے یہ پیشکش قبول کرلی۔
نصراللہ خاں جہانگیر روڈ کراچی کے سرکاری کوارٹر میں رہتے تھے، انھوں نے مست کا بستر برآمدے میں لگادیا۔ ایک رات دو ڈھائی بجے مست نے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ نصر اللہ خاں کی بیگم نے شوہر کو جگایا کہ ’’دیکھو! شاید مست کی طبیعت خراب ہوگئی ہے۔‘‘ نصراللہ خاں نے اندر ہی سے پوچھا ’’کیا بات ہے مست!‘‘ جواباً مست نے کہا ’’حضور! ایک غزل ہوگئی ہے، سن لیں‘‘ نصراللہ خاں نے کہا ’’صبح سن لیں گے، ابھی سو جاؤ‘‘ مگر مست نے کہا ’’جناب! ابھی سن لیں۔‘‘ آخر دونوں میاں بیوی اٹھے اور مست کی غزل سنی۔ نصراللہ خاں نے اپنے کالم میں لکھا کہ ’’مست کا شاداب ترنم اور غزل! وہ تو اپنا بوجھ اتار کر لمبی تان کے سوگیا اور ہم میاں بیوی نے باقی رات غزل و ترنم کے سحر میں گزاری۔‘‘
یہ 1951-52 کا زمانہ تھا، اور مست گھر سے غائب رہنے لگا۔ اب وہ اکثر صدر (کراچی) کے چائے خانوں میں نظر آتا جہاں شاعروں، ادیبوں اور سیاسی ورکروں کے ساتھ اس کے دن رات گزرتے تھے۔ ان ہی چائے خانوں میں ایک دن مست کو شاعر ابن انشا نے حبیب جالب بنا دیا۔
والدہ نے ابھی تک ہمت نہیں ہاری تھیں اور وہ والد صاحب کو لے کر حبیب کی تلاش میں رہتی، جو گھر چھوڑ گیا تھا۔ ایک دن اطلاع ملی کہ آج رات پرانی نمائش (کراچی) کے میدان میں مشاعرہ ہے، اور حبیب بھی وہاں آئے گا۔ اماں رات کا انتظار کرنے لگیں، رات آئی تو اماں نے اپنی چادر میں ڈنڈا چھپایا اور والد صاحب کو ساتھ لے کر مشاعرہ گاہ پہنچ گئیں۔
اسٹیج سیکریٹری نے نام پکارا، اور اب حبیب جالب اپنا کلام پیش کریں گے۔‘‘ اماں نے دیکھا ان کا بیٹا حبیب غزل پڑھ رہا تھا، اماں نے آہستہ آہستہ اسٹیج کی طرف بڑھنا شروع کیا، حبیب جالب غزل سرا تھے۔
آج اس شہر میں، کل نئے شہر میں، بس اسی لہر میں
اڑتے پتوں کے پیچھے اڑاتا رہا، شوق آوارگی
اس گلی کے بہت کم نظر لوگ تھے، فتنہ گر لوگ تھے
زخم کھاتا رہا، مسکراتا رہا، شوق آوارگی
کوئی پیغام گل تک نہ پہنچا مگر، پھر بھی شام و سحر
ناز باد چمن کے اٹھاتا رہا، شوق آوارگی
کوئی ہنس کے ملے، غنچۂ جاں کھلے، چاک دل کا سلے
ہر قدم پر نگاہیں بچھاتا رہا، شوق آوارگی
دشمن جاں فلک، غیر ہے یہ زمیں، کوئی اپنا نہیں
خاک سارے جہاں کی اڑاتا رہا، شوق آوارگی
اور آخر اماں جان گئی کہ حبیب ’’سرکاری بابو‘‘ نہیں! حبیب جالب ہے۔ اور پھر اصل کام شروع ہوگیا۔ 1954 میں حیدر بخش جتوئی کی ہاری تحریک کے کارکن کی حیثیت سے ریگل چوک (کراچی) سے پہلی گرفتاری ہوئی۔ بعد کو جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیا الحق کے ادوار میں حبیب جالب عوام کے ساتھ کھڑا رہا اور جیلیں آباد رکھیں۔ جالب کے چار مصرعے:
اشکوں کے جگنوؤں سے اندھیرا نہ جائے گا
شب کا حصار توڑ، کوئی آفتاب لا
ہر عہد میں رہا ہوں، میں لوگوں کے درمیان
میری مثال دے، کوئی میرا جواب لا
یہ بے مثال شاعر 12 اور 13 مارچ 1993 کی درمیانی رات ساڑھے 12 بجے شیخ زید اسپتال لاہور میں اس وعدے کے ساتھ آگے بڑھ گیا کہ:
’’میں ضرور آؤں گا اک عہد حسیں کی صورت‘‘
ہاں! ایسا ضرور ہوگا، جالب عہد حسیں کی صورت ضرور آئے گا۔
دیوان عام: سعید پرویز (روزنامہ ایکسپریس -16 مارچ 2015ء)
یہ 1939 تھا، جب مشتاق مرکزی محکمہ اطلاعات و نشریات حکومت ہند میں بطور کلرک بھرتی ہوگیا، اور وہ بابو بن کر گاؤں سے بانکے شہر دہلی آگیا۔ مشتاق کے محکمے سے معروف رسالہ ’’آج کل‘‘ شایع ہوتا تھا، اس کے مدیر حضرت جوش ملیح آبادی تھے۔ 1942 میں حبیب بھی درجہ پنجم پاس کرکے گاؤں سے دہلی آگیا جہاں اینگلو عربک اسکول میں اسے داخل کروادیا گیا۔ اب صورت یہ تھی کہ گھر میں رسالہ ’’آج کل‘‘ آتا تھا، اور حبیب احمد بڑے بھائی مشتاق کے ساتھ مشاعروں میں بھی جاتا تھا، جہاں اس نے حضرت سائل و بیخود کو سنا کہ جنھوں نے غالب و داغ کو سن رکھا تھا، ان کے علاوہ جرأت و جگر کو بھی سنا، یوں مٹی زرخیز ہوگئی، شعری ماحول کا نم ملا تو ساتویں جماعت کے امتحانی پرچے میں ’’وقت سحر‘‘ کا جملہ بناتے ہوئے شعر ہوگیا۔
وعدہ کیا تھا آئیں گے امشب ضرور وہ
وعدہ شکن کو دیکھتے ’’وقت سحر‘‘ ہوا
حبیب احمد کا پہلا شعر، والد صاحب تو سخن فہم تھے۔ شعر کہتے تھے، نثر بھی خوب تھی، وہ تو خوش ہوئے، مگر والدہ شعر کی خبر سن کر بے ہوش ہوگئیں۔ وہ تو بڑے بیٹے مشتاق کی طرح حبیب کو بھی سرکاری بابو بنانا چاہتی تھیں، مگر قدرت نے کچھ اور ہی فیصلہ کر رکھا تھا، پھر بھی والدہ صاحبہ نے بڑا زور لگایا مگر وہ کامیاب نہ ہوسکیں۔
ہندوستان کا بٹوارہ ہوا تو حبیب اپنے گھر والوں کے پاس کراچی پاکستان آگیا۔ جہاں بڑے بھائی مشتاق نے محکمہ اطلاعات و مطبوعات میں شمولیت اختیار کی۔ حبیب کو والدین نے گورنمنٹ ہائی اسکول جیکب لائن کراچی میں داخل کرادیا۔ دلی میں ہی حبیب نے دوسرا شعر بھی کہہ دیا تھا۔ اسکول کے سامنے مسجد تھی اساتذہ اور طلبا نماز پڑھتے تھے، نماز کے بعد دعا بھی ہوتی تھی تو حبیب نے شعر کہا:
مدتیں ہوگئیں خطا کرتے
شرم آتی ہے اب دعا کرتے
کراچی آکر حبیب احمد نے اپنے نام کے ساتھ بطور تخلص مست لگالیا اور شاعری جاری رکھی۔ حبیب احمد مست کے اسکول میں اپنے زمانے کے معروف کالم نگار نصراللہ خاں اردو پڑھاتے تھے، وہ مست کے بڑے معترف تھے۔ اس کے گھر کے حالات سے بھی وہ بخوبی واقف تھے۔ ایک دن وہ مست کے گھر آئے اور اس کے والدین سے کہا کہ مست کو ان کے حوالے کردیں، وہ اس کی تعلیم کا خیال بھی رکھیں گے۔ والدین بیٹے کی آوارہ گردی سے پریشان تھے لہٰذا انھوں نے یہ پیشکش قبول کرلی۔
نصراللہ خاں جہانگیر روڈ کراچی کے سرکاری کوارٹر میں رہتے تھے، انھوں نے مست کا بستر برآمدے میں لگادیا۔ ایک رات دو ڈھائی بجے مست نے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ نصر اللہ خاں کی بیگم نے شوہر کو جگایا کہ ’’دیکھو! شاید مست کی طبیعت خراب ہوگئی ہے۔‘‘ نصراللہ خاں نے اندر ہی سے پوچھا ’’کیا بات ہے مست!‘‘ جواباً مست نے کہا ’’حضور! ایک غزل ہوگئی ہے، سن لیں‘‘ نصراللہ خاں نے کہا ’’صبح سن لیں گے، ابھی سو جاؤ‘‘ مگر مست نے کہا ’’جناب! ابھی سن لیں۔‘‘ آخر دونوں میاں بیوی اٹھے اور مست کی غزل سنی۔ نصراللہ خاں نے اپنے کالم میں لکھا کہ ’’مست کا شاداب ترنم اور غزل! وہ تو اپنا بوجھ اتار کر لمبی تان کے سوگیا اور ہم میاں بیوی نے باقی رات غزل و ترنم کے سحر میں گزاری۔‘‘
یہ 1951-52 کا زمانہ تھا، اور مست گھر سے غائب رہنے لگا۔ اب وہ اکثر صدر (کراچی) کے چائے خانوں میں نظر آتا جہاں شاعروں، ادیبوں اور سیاسی ورکروں کے ساتھ اس کے دن رات گزرتے تھے۔ ان ہی چائے خانوں میں ایک دن مست کو شاعر ابن انشا نے حبیب جالب بنا دیا۔
والدہ نے ابھی تک ہمت نہیں ہاری تھیں اور وہ والد صاحب کو لے کر حبیب کی تلاش میں رہتی، جو گھر چھوڑ گیا تھا۔ ایک دن اطلاع ملی کہ آج رات پرانی نمائش (کراچی) کے میدان میں مشاعرہ ہے، اور حبیب بھی وہاں آئے گا۔ اماں رات کا انتظار کرنے لگیں، رات آئی تو اماں نے اپنی چادر میں ڈنڈا چھپایا اور والد صاحب کو ساتھ لے کر مشاعرہ گاہ پہنچ گئیں۔
اسٹیج سیکریٹری نے نام پکارا، اور اب حبیب جالب اپنا کلام پیش کریں گے۔‘‘ اماں نے دیکھا ان کا بیٹا حبیب غزل پڑھ رہا تھا، اماں نے آہستہ آہستہ اسٹیج کی طرف بڑھنا شروع کیا، حبیب جالب غزل سرا تھے۔
آج اس شہر میں، کل نئے شہر میں، بس اسی لہر میں
اڑتے پتوں کے پیچھے اڑاتا رہا، شوق آوارگی
اس گلی کے بہت کم نظر لوگ تھے، فتنہ گر لوگ تھے
زخم کھاتا رہا، مسکراتا رہا، شوق آوارگی
کوئی پیغام گل تک نہ پہنچا مگر، پھر بھی شام و سحر
ناز باد چمن کے اٹھاتا رہا، شوق آوارگی
کوئی ہنس کے ملے، غنچۂ جاں کھلے، چاک دل کا سلے
ہر قدم پر نگاہیں بچھاتا رہا، شوق آوارگی
دشمن جاں فلک، غیر ہے یہ زمیں، کوئی اپنا نہیں
خاک سارے جہاں کی اڑاتا رہا، شوق آوارگی
اور آخر اماں جان گئی کہ حبیب ’’سرکاری بابو‘‘ نہیں! حبیب جالب ہے۔ اور پھر اصل کام شروع ہوگیا۔ 1954 میں حیدر بخش جتوئی کی ہاری تحریک کے کارکن کی حیثیت سے ریگل چوک (کراچی) سے پہلی گرفتاری ہوئی۔ بعد کو جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیا الحق کے ادوار میں حبیب جالب عوام کے ساتھ کھڑا رہا اور جیلیں آباد رکھیں۔ جالب کے چار مصرعے:
اشکوں کے جگنوؤں سے اندھیرا نہ جائے گا
شب کا حصار توڑ، کوئی آفتاب لا
ہر عہد میں رہا ہوں، میں لوگوں کے درمیان
میری مثال دے، کوئی میرا جواب لا
یہ بے مثال شاعر 12 اور 13 مارچ 1993 کی درمیانی رات ساڑھے 12 بجے شیخ زید اسپتال لاہور میں اس وعدے کے ساتھ آگے بڑھ گیا کہ:
’’میں ضرور آؤں گا اک عہد حسیں کی صورت‘‘
ہاں! ایسا ضرور ہوگا، جالب عہد حسیں کی صورت ضرور آئے گا۔
دیوان عام: سعید پرویز (روزنامہ ایکسپریس -16 مارچ 2015ء)