علی فاروقی
محفلین
حجرہ جاں میں باغ کی جانب ایک نیا در باز کیا
ہم نے میر سے رو تابی کی بدعت کا آغاز کیا
خوابوں کی پسپائ کے چرچے گلی گلی تھے جب ہم نے
دل کے ہاتھ پہ بیعت کر لی دنیا کو ناراض کیا
جانے وہ کیسا موسم تھا جس نے بھری بہار کے بعد
اُ س گُل کو شادابی بخشی ہم کو دست دراز کیا
زندہ لفظ کے مدّ مقابل کیا اورنگ و طبل و علم
سارے سحر بکھر جائیں گے جب ہم نے اعجاز کیا
درد کی لئے کا مدھم رکھنا عین ہنر تھا اور ہم نے
باغِ نوا کے خلوتیوں کو خلق کا ہم آواز کیا
ہم نے میر سے رو تابی کی بدعت کا آغاز کیا
خوابوں کی پسپائ کے چرچے گلی گلی تھے جب ہم نے
دل کے ہاتھ پہ بیعت کر لی دنیا کو ناراض کیا
جانے وہ کیسا موسم تھا جس نے بھری بہار کے بعد
اُ س گُل کو شادابی بخشی ہم کو دست دراز کیا
زندہ لفظ کے مدّ مقابل کیا اورنگ و طبل و علم
سارے سحر بکھر جائیں گے جب ہم نے اعجاز کیا
درد کی لئے کا مدھم رکھنا عین ہنر تھا اور ہم نے
باغِ نوا کے خلوتیوں کو خلق کا ہم آواز کیا