سردار محمد نعیم
محفلین
حج وعمرہ کے لیے جو طریقہ شریعت میں مقرر کیا گیا ہے، وہ یہ ہے
حج
عمرے کی طرح حج کے لیے بھی پہلا کام یہی ہے کہ اِس کی نیت سے اِس کا احرام باندھا جائے۔
باہر سے آنے والے یہ احرام اپنے میقات سے باندھیں؛ مقیم خواہ وہ مکی ہوں یا عارضی طور پر مکہ میں ٹھیرے ہوئے ہوںیا حدود حرم سے باہر، لیکن میقات کے اندر رہتے ہوں، اُن کی میقات وہی جگہ ہے، جہاں وہ مقیم ہیں، وہ وہیں سے احرام باندھ لیں اور تلبیہ پڑھنا شروع کر دیں۔
آٹھ ذوالحجہ کو منیٰ کے لیے روانہ ہوں اوروہاں قیام کریں۔
نو ذوالحجہ کی صبح عرفات کے لیے روانہ ہوں۔
وہاں پہنچ کر امام ظہر کی نماز سے پہلے حج کا خطبہ دے، پھر ظہر اور عصر کی نماز جمع اور قصر کر کے پڑھی جائے۔
نماز سے فارغ ہوکر جتنی دیر کے لیے ممکن ہو، اللہ تعالیٰ کے حضور میں تسبیح وتحمید، تکبیر وتہلیل اور دعا و مناجات کی جائے۔
غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ کے لیے روانہ ہوں۔
وہاں پہنچ کر مغرب اورعشا کی نماز جمع اورقصر کر کے پڑھی جائے۔
رات کو اِسی میدان میں قیام کیا جائے۔
فجر کی نماز کے بعد یہاں بھی تھوڑی دیر کے لےے عرفات ہی کی طرح تسبیح وتحمید، تکبیر وتہلیل اور دعا و مناجات کی جائے۔
پھر منیٰ کے لےے روانہ ہوں اوروہاں جمرہ عقبہ کے پاس پہنچ کر تلبیہ پڑھنا بند کر دیا جائے اور اِس جمرے کو سات کنکریاں ماری جائيں۔
ہدی کے جانور ساتھ ہوں یا نذر اور کفارے کی کوئی قربانی واجب ہوچکی ہو تو یہ قربانی کی جائے۔
پھر مر د سرمنڈوا کر یا حجامت کراکے اور عورتیں اپنی چوٹی کے آخر سے تھوڑے سے بال کاٹ کر احرام کا لباس اتار دیں۔
پھر بیت اللہ پہنچ کر اُس کا طواف کیا جائے۔
احرام کی تمام پابندیاں اِس کے ساتھ ہی ختم ہوجائیں گی، اِس کے بعد اگر شوق ہو تو بطورتطوع صفا و مروہ کی سعی بھی کر لی جائے۔
پھر منیٰ واپس پہنچ کر دو یا تین دن قیام کیا جائے اورروزانہ پہلے جمرۃالاولیٰ، پھر جمرۃ الوسطیٰ اوراِس کے بعد جمرۃ الاخریٰ کو سات سات کنکریاں ماری جائیں۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے حج وعمر ہ کے مناسک یہی ہیں۔ قرآن مجید نے اِن میں کوئی تبدیلی نہیں کی،
حج
عمرے کی طرح حج کے لیے بھی پہلا کام یہی ہے کہ اِس کی نیت سے اِس کا احرام باندھا جائے۔
باہر سے آنے والے یہ احرام اپنے میقات سے باندھیں؛ مقیم خواہ وہ مکی ہوں یا عارضی طور پر مکہ میں ٹھیرے ہوئے ہوںیا حدود حرم سے باہر، لیکن میقات کے اندر رہتے ہوں، اُن کی میقات وہی جگہ ہے، جہاں وہ مقیم ہیں، وہ وہیں سے احرام باندھ لیں اور تلبیہ پڑھنا شروع کر دیں۔
آٹھ ذوالحجہ کو منیٰ کے لیے روانہ ہوں اوروہاں قیام کریں۔
نو ذوالحجہ کی صبح عرفات کے لیے روانہ ہوں۔
وہاں پہنچ کر امام ظہر کی نماز سے پہلے حج کا خطبہ دے، پھر ظہر اور عصر کی نماز جمع اور قصر کر کے پڑھی جائے۔
نماز سے فارغ ہوکر جتنی دیر کے لیے ممکن ہو، اللہ تعالیٰ کے حضور میں تسبیح وتحمید، تکبیر وتہلیل اور دعا و مناجات کی جائے۔
غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ کے لیے روانہ ہوں۔
وہاں پہنچ کر مغرب اورعشا کی نماز جمع اورقصر کر کے پڑھی جائے۔
رات کو اِسی میدان میں قیام کیا جائے۔
فجر کی نماز کے بعد یہاں بھی تھوڑی دیر کے لےے عرفات ہی کی طرح تسبیح وتحمید، تکبیر وتہلیل اور دعا و مناجات کی جائے۔
پھر منیٰ کے لےے روانہ ہوں اوروہاں جمرہ عقبہ کے پاس پہنچ کر تلبیہ پڑھنا بند کر دیا جائے اور اِس جمرے کو سات کنکریاں ماری جائيں۔
ہدی کے جانور ساتھ ہوں یا نذر اور کفارے کی کوئی قربانی واجب ہوچکی ہو تو یہ قربانی کی جائے۔
پھر مر د سرمنڈوا کر یا حجامت کراکے اور عورتیں اپنی چوٹی کے آخر سے تھوڑے سے بال کاٹ کر احرام کا لباس اتار دیں۔
پھر بیت اللہ پہنچ کر اُس کا طواف کیا جائے۔
احرام کی تمام پابندیاں اِس کے ساتھ ہی ختم ہوجائیں گی، اِس کے بعد اگر شوق ہو تو بطورتطوع صفا و مروہ کی سعی بھی کر لی جائے۔
پھر منیٰ واپس پہنچ کر دو یا تین دن قیام کیا جائے اورروزانہ پہلے جمرۃالاولیٰ، پھر جمرۃ الوسطیٰ اوراِس کے بعد جمرۃ الاخریٰ کو سات سات کنکریاں ماری جائیں۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے حج وعمر ہ کے مناسک یہی ہیں۔ قرآن مجید نے اِن میں کوئی تبدیلی نہیں کی،