حج اور عمرے کو مذہبی پکنک نہ سمجھیں

تاریخ: 27ستمبر، 2015
حج اور عمرے کو مذہبی پکنک نہ سمجھیں
تحریر: سید انور محمود

تیل کی دریافت سے پہلےبیسویں صدی کے وسط تک حج سیزن سے حاصل ہونے والی آمدنی سعودی اقتصادیات میں اہم کردار ادا کرتی تھی۔ بعد ازاں تیل کی دریافت کے بعد سعودی عرب کی قسمت بدل گئی اور یوں یہ خطے کے امیر ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا۔ سعودی شاہی خاندان نے علاقائی سطح پر سیاسی اور اقتصادی معاملات میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔ 1970ء سے پہلے تک پاکستانی اخبارات میں سعودی ایر لائن کا ایک اشتہار دیکھنے کو ملاکرتا تھا جو کچھ یوں ہوا کرتا تھا "اگرآپ لندن کا سفر کرنے والے ہیں تو عمرہ کرتے ہوئے لندن جایں"، لیکن پھر 1973ء میں عرب اسرائیل جنگ میں پہلی بار تیل کا ھتیاراستمال ہوا تو تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور سعودی ایر لائن کا لندن والا اشتہار پھرکبھی نظر نہیں آیا۔ 1990ء میں گلف کی جنگ کے بعد تیل کی قیمتوں میں کمی آنا شروع ہوئی تو سعودی عرب کے بجٹ پر بھی اُسکا اثر دیکھنے کو ملا لیکن اس بات کا یہ مطلب ہرگز نہ نکالا جائے کہ سعودی عرب غریب ملک ہوگیا ہے، لیکن یہاں سے سعودی حکمراں کاروباری ضرور ہوگئے۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر تیل کے علاوہ حج اورعمرےکواپنی آمدنی میں اضافہ کا زریعہ بنالیا ہے۔

سال 1990ء سے پہلے جن دوستوں نے بھی حج یا عمرہ کیا ہے اُنکو یاد ہوگا کہ خانہ کعبہ سے باہر جاتے وقت زیادہ ترباب عبدالعزیز کا استمال ہوتا ہے۔ 1990ء تک باب عبدالعزیز کے سامنے والی جو گلیاں جو اجیاد محلہ کے نام سے پہچانی جاتی تھیں اُن میں چھوٹے چھوٹے گھر تھے جو عام غریب سعودیوں کے تھے، اُن سے سعودی حکومت نے یہ کہہ کر کہ حرم کی توسیع ہورہی ہے وہ گھر خرید لیے جن کی معقول رقم بھی ادا کی گئی لیکن درحقیقت یہ گھر خریدنے والے سعودی شہزادے تھے جنہوں نے وہاں پانچ ستارئے والے ہوٹلوں کا جمعہ بازار لگادیا ہے۔ آج سعودی عرب میں واقع مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات کے ارد گرد فائیو اسٹار ہوٹلوں، شاپنگ مالز اور لگژری اپارٹمنٹس کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی حکومت نے عمرے اور حج کے مذہبی فریضوں کو ایک اقتصادی سرگرمی میں بدل دیا ہے۔ حج ریسرچ سینٹر کے بانی سمیع انگاوی نے 2012ء میں دی گارڈین سے مکہ توسیع منصوبے پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ “یہ اس مقام مقدس کو ایک ایسی مشین میں بدل رہے ہیں جس کی کوئی ثقافت، کوئی ورثہ، کوئی شناخت اور کوئی فطری ماحول نہیں”۔

گیارہ ستمبر کو مسجد الحرام میں کرین کے حادثے میں 107 زائرین شہید ہوئے جبکہ 200 سے زائد زخمی ہوئے، متاثرہ افراد نماز مغرب کی ادائیگی کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ حاجیوں کی سہولت اور حفاظت کے نام پر تعمیرات کے لیے کئی سالوں سے مکہ مکرمہ میں نصب ان کرینوں نے جہاں مکہ مکرمہ کے ثقافتی چہرہ کو بدلا وہاں ہی اب انسانی جانوں کا خراج بھی وصول کرلیا۔ جمعرات 24 ستمبر کو مناسک حج کے دوران منیٰ کے مقام پر شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے جو بھگدڑ مچی، اس میں ابتک 769 افراد شہید ہوچکے ہیں جبکہ 934 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ سعودی وزیر صحت خالد الفالح کے مطابق سانحہ حجاج کے ایک گروپ کی بدنظمی کے باعث پیش آیا ، انہوں نے منیٰ کے مقام پر اس بھگدڑ کا الزام ’بدنظم‘ افریقی حاجیوں پر عائد کیا ہے۔ سعودی حکومت کے مطابق ان حاجیوں نے ہدایات پر عمل نہ کیا، جس کی وجہ سے یہ سانحہ رونما ہوا۔ اس سال بیس لاکھ سے زائد اُن مسلمانوں نے حج کا فریضہ ادا کیا ہےجودنیا بھر سے سعودی عرب آئے ہیں۔ ایک دستیاب ریکارڈ کے مطابق دوسرئے ممالک سے سعودی عرب آنے والے حاجیوں کی تعداد 1920ء میں 58 ہزار 584، 1996ء میں 10 لاکھ 80 ہزار 465 تھیں جبکہ 2015ء میں یہ تعداد 20 لاکھ کے قریب ہے۔

سعودی عرب کا سب سے بڑا انگریزی اخبار'عرب نیوز' جو اب سعودی شہزادوں کی ملکیت ہے اپنے اداریئے میں لکھتاہے کہ "جمعرات 24 ستمبر کو ہونیوالے سانحہ نے ہرایک شخص کو افسردہ کردیاہے اور مزید حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اخبار نے لکھاکہ 164مختلف ممالک اور کلچرز کے دو یا تین ملین مسلمانوں کو کنٹرول کرنا بہت بڑا کام ہے ، دنیا میں ایسا کسی ملک کو تجربہ نہیں جویہاں کے حکام نے خوشگوار انداز میں حج انتظامات سے سیکھاہے ، حجاج کو 10ملین کیوبک پانی چاہیے ہوتاہے، لاکھوں سیکیورٹی اہلکار اور رضاکار کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور یہ تمام امور سیاست سے بالاتر ہوتے ہیں ، بلاشبہ اس سال درجہ حرارت میں غیر معمول اضافہ بھی حکام کیلئے ایک امتحان تھا۔آخر میں اخبارلکھتا ہے کہ سعودی عرب آنیوالے حجاج کرام کی خریداری اور ہوٹلوں میں قیام سمیت دیگر اخراجات سے سعودی معیشت کو کافی سہارا ملتاہے"۔

سعودی حکومت حج انتظامات پر اربوں ریال خرچ کرتی ہے اور مقامات مقدسہ پر عظیم الشان منصوبوں پر عمل درآمد کیلئے ذرائع استعمال کررہی ہے، کہاجاتاہے کہ حکومت کو بھی اربوں ریال کامنافع ہوتاہے۔ ایک تبصرہ نگار 'شامل شمس' نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ " مسجد الحرام میں تعمیراتی مقاصد کےلیے نصب کردہ کرین کے گرنے کا حادثہ اور بھگدڑ کا سبب دراصل سعودی حکومت کی لالچ تھی، عازمین حج کی تعداد میں کمی کرتے ہوئے سعودی حکومت حج کے دوران ہلاکت خیز بھگدڑ کا قبل از وقت ہی تدارک کر سکتی تھی۔ تبصرہ نگار کےمطابق اب سعودی حکومت کے نزدیک مذہب ایک بزنس اور پیسہ بنانے کا آلہ ہے، جبکہ سعودی حکومت کو زیادہ رقوم عازمین حج کے تحفظ پر خرچ کرنا چاہیں نہ کہ مکہ میں غیر ضروری تعمیراتی کاموں پر۔ تبصرہ نگار کے مطابق سعودی حکومت ان تعمیراتی کاموں کے لیے غیر ملکی کمپنیوں کو ٹھیکے دیتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو حج سیزن کے دوران سعودی عرب آنے کی ترغیب دی جاسکے۔تبصرہ نگار مزید لکھتے ہیں کہ عازمین حج کی تعداد میں آسانی سے کمی کی جا سکتی ہے، سعودی حکومت کو اپنی لالچ ختم کر دینی چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو مستقبل میں ایسے مزید حادثات بھی رونما ہو سکتے ہیں۔ تبصرہ نگار کے مطابق کچھ حلقے سعودی عرب میں لینڈ مافیا کے سرگرم ہونے کا ذکر بھی کرتے ہیں"۔

بہت برا ہوا ہے جن گھرانوں کے افراد شہید ہوئے یقینا تکلیف دہ بات ہے لیکن اسکا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ ہے ایک سے زیادہ بار حج اور عمرہ پر جانا۔ ایک بھارتی ڈاکٹر علیم خان فلکی (موصوف سے میری ملاقات جدہ میں ہوچکی ہے) نے ایسے لوگوں کے بارئے ایک کتاب "خدارا حج اور عمرہ کو ایک مذہبی پکنک نہ بنائیے" لکھی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ "ایک سے زیادہ بار حج اور عمرہ پر آنے والوں کے نام ایک کھلا خط"۔۔۔۔۔
میرے عزیزسادہ لوح تاجر جو باربار پورے خاندان کے ساتھ( فائیو اسٹار) حج یا عمرہ کرنے کو عبادت عظیم سمجھتے ہو۔ میرے قابل احترام عالمو، فاضلو،مرشدوجو نفل کو بھی فرض کا درجہ دے کر بار بار چلے آتے ہو۔ قوم کے چالاک امیرو جو زمینات پر ناجائز قبضوں سے یا دوسری ناجائز آمدنیوں سے عمرے پر عمرے کئے جاتے ہو۔میرے پیارے ابا جانو اور امی جانو جو اولاد کی محنت کی کمائی پر عبادت عظمی کا لطف اٹھاتے ہو۔ میری قوم کے سیاسی لیڈرو جو بار بار سیاسی عمرے اور حج کرکے اپنے ووٹروں کو اپنی خدا خوفی کا ثبوت دیتے ہو۔ سعودی عرب میں مقیم رفیقو جو بار بار حج کرکے نہ صرف قانون شکنی کرتے ہو بلکہ دوسروں کیلئے زحمت بن جاتے ہو۔
میرے عزیزو۔آوُ حج بیت اللہ ، عمرے اور مدینے کی زیارتوں کیلئے ۔ بار بارآوُ ۔ لیکن اپنے شوق عبادت کو پورا کرنے کیلئے نہیں بلکہ اُس عظیم مقصد کو اپنی زندگی کا مقصد بنانے کے عزم کے ساتھ آوُ جس کی خاطر اللہ تعالی نے ان عبادتوں کا حکم دیا ہے ۔ مدینے والے پر اپنی جان ومال لٹادینے کے دعوے کرنے والوآوُ مدینے والے کے ایک ایک فرمان کو پورا کرنے کے لئے اپنی جان لٹادینے کی قسم کھانے کوآوُ ۔
اُن کا فرمان ہے کہ مسلمان سب کچھ ہوسکتا ہے جھوٹا نہیں ہوسکتا ۔ اُن کا فرمان ہے کہ دوسرے کیلئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو ۔ اُن کا فرمان ہے کہ سچا تاجر قیامت کے روز انبیاء کے ساتھ اٹھایا جائیگا ۔ اُن کا فرمان ہے کہ جس شخص کی کمائی میں ناجائز آمدنی کا ایک لقمہ بھی شامل ہو اُسکی دعائیں زمین سے ایک ہاتھ بھی اوپر نہیں اٹھائی جائیں گی ۔ اُن کا فرمان ہے کہ جو بندہ اوروں کی خدمت میں لگ جاتا ہے فرشتے اُس کے کاموں میں لگ جاتے ہیں ۔ اگر مدینے والے سے محبت کا دعوی ہے تو اُ ن کے ان فرمانوں کو اپنی زندگی کا مقصد بنانے کی قسم کھانے ایک بار آجاوُ اور پھر دیکھو کہ کیسے زمانے بھر میں انقلاب آتا ہے اور اگر اس مقصد کے بغیر آنا چاہتے ہوتو یاد رکھو یہ فقط ایک مذہبی پکنک کے علاوہ کچھ نہیں ۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ معاشرے کی فلاح کے کسی کام میں یہ پیسہ لگادو تاکہ دوسرے انسانوں کی زندگی کو فائدہ پہنچے اور اُن کی دعائیں آپ کی آخرت کا سامان بن جائیں ۔ اللہ تعالی ہم تمام کو یہ نکات سمجھنے کی توفیق عطافرمائے ۔

کُند ہوکر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام
ہے طواف وحج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا​

سعودی حکومت نے ایک طویل عرصے پہلے حاجیوں کی بہتری کےلیے ایک حج ریسرچ سینٹر قائم کیا تھا، اتفاق سے اس سینٹر کی کچھ ریسرچ میں کام کرنے کا موقعہ مجھے بھی ملا ہے۔ اس سینٹر کی ریسرچ کی بدولت بہت سی اصلاحات بھی کی گیں ، مثلا حج سیزن میں مکہ المکرمہ میں چھوٹی گاڑیوں کا داخلہ بند کیا گیا، جن لوگوں نے 1980ء سے پہلے حج کیا ہے اُنکو یاد ہوگا کہ صرف جدہ ایرپورٹ پر امیگریشن اور معلم کی نامزدگی میں آٹھ سے دس گھنٹے لگتے تھے، لیکن حج ریسرچ سینٹرکی اصلاحات کی بدولت اب حاجی دو گھنٹے سے پہلے مکہ کےلیے روانہ ہوجاتا ہے، ایسی بہت سی ریسرچ ہیں جن میں جمرات کے دوران حاجیوں کو پیش آنے والے حادثات سے کیسے بچا جائے شامل ہیں۔ سعودی حکومت 11 ستمبرکو کرین حادثے اور 24 ستمبر کو مینا میں بھگدڑ جیسے حادثے سے بچنے کےلیے حج ریسرچ سینٹرکی سفارشات پر لازمی عمل کرئے۔ سعودی حکومت کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر بین الاقوامی برادری عمومی طور پر خاموش رہتی ہے تاہم حج کا معاملہ مذہبی حوالوں کے باعث کچھ زیادہ ہی حساس ہے۔ اب اس بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہے اور سعودی حکومت کو حجاج کی حفاظت کےلیے کچھ کرنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہے۔ میری اپنے مسلمان بھائیوں سے بھی درخواست ہے کہ حج اور عمرہ کو مذہبی پکنک نہ سمجھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ فرمایں: محترم دوستوں اور موڈیٹر صاحب میں نے یہ مضمون لکھتے وقت پوری کوشش کی ہے کہ کسی کی بھی دل آزاری نہ ہو، لیکن اسکے باوجود اگر اس ویب سائٹ کے موڈیٹر صاحب کو اس مضمون سے اختلاف ہو اور وہ نہیں چاہتے ہوں کہ یہ مضمون اس ویب سائٹ پر موجود رہے تو وہ اس مضمون کو ہٹاسکتے ہیں، بس ایک گذارش ہے کہ ایک ای میل کے زریعے مطلع ضرور فرمادیں۔
 
Top