عبد الرحمن بھٹی
محفلین
حدیث اور اہلحدیث
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو (صحیح بخاری)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دیکھا اور وہ اسی طرح نماز پڑھتے رہے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے ۔
بعد والوں کے لئے صحابہ کرام نمونہ تھے عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان کے مطابق کہ میں اسی طرح نماز پڑھتا ہوں جس طرح اپنے ساتھیوں کو دیکھتا ہوں (صحیح بخاری)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد تم شدید اختلاف دیکھو گے اس وقت تم خلفاء راشدین کے طریقہ کو لازم پکڑنا (ابو داؤد)۔
تابعین کرام رحمہم اللہ نے خلفاء راشدین کا زمانہ پایا اور اسی طرح نمازیں پڑھتے تھے جس طرح خلفاء راشدین پڑھتے۔
خلفاء راشدین آخر دم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور نماز کی تبدیلیوں سے آشنا تھے۔ جب کہ کئی دیگر صحابہ کرام یہ آگاہی نہیں رکھتے تھے کہ وہ بہت دور دراز کے علاقوں میں جہاد و تبلیغ دین کے سبب قیام پذیر ہوگئے تھے۔ اس زمانہ میں اطلاعات ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے میں مہینوں لگ جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صحابہ کرام بعض اوقات نماز کی تبدیلیوں سے بروقت مطلع نہ ہوپاتے تھے۔ بلکہ وہ ناسخ سے مطلع نہ ہونے کے سبب منسوخ طریقہ پر ہی گامزن رہے ۔ ان کی اتباع کرنے والوں نے وہی یاد رکھا اور بیان کیا ۔
خلفاء راشدین میں سے آخری خلیفہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بوجوہ کوفہ کو اپنا دار الخلافہ مقرر کیا۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کثیر تعداد جلیل القدر صحابہ کرام کی بھی کوفہ میں قیام پذیر ہوئی۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری نماز کا نمونہ تھی۔ کوفہ والے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معیت میں پانچ وقتہ نمازیں ادا کرتے رہے۔ انہوں نے نماز کے اس طریقہ کو نہ صرف یاد رکھا بلکہ لکھ بھی لیا۔ یہی طریقہ نماز صحیح ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول اور منشائے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق بھی۔
بعد میں جن لوگوں نے احادیث کی روشنی میں نماز کے مسائل کو اخذ کرنے کی کوشش کی وہ اختلاف کا شکار ہوگئے۔ انہی میں سے موجودہ دور کے غیر مقلد، اہلحدیث اور سلفی وغیرہ ہیں۔ یہ لوگ اس حد تک آگے نکل گئے کہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں بلکہ حدیثِ نفس پر عمل کرنے لگ گئے ہیں اور اپنے زعم میں باقی سب کو گمراہ یقین رکھتے ہیں۔
درج ذیل سطور میں ان کے فہم کی چند صریح غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ملاحظہ فرمائیں۔
نماز کی ابتدا کی رفع الیدین
ان کی رفع الیدین کسی حدیث کے مطابق نہیں بلکہ اپنے خود ساختہ فہم کے مطابق ہے۔ احادیث میں رفع الیدین کے لئے جو الفاظ آئے ہیں وہ یہ ہیں؛
’’يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ‘‘(صحيح البخاري) ہاتھوں کو کندھوں کے برابر تک اٹھایا
’’يَرْفَعُ إِبْهَامَيْهِ فِي الصَّلَاةِ إِلَى شَحْمَةِ أُذُنَيْهِ ‘‘(ابو داؤد) نماز میں انگوٹھوں کو کانوں کی لو تک اٹھایا
’’ يَرْفَعُ يَدَيْهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حَتَّى يَبْلُغَ بِهِمَا فُرُوعَ أُذُنَيْهِ‘‘(ابو داؤد) ہاتھوں کو اٹھایا ۔۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ وہ کانوں کی لو تک پہنچ گئے
’’يرفع يديه في الصلاة مدا ‘‘(نسائی) نماز میں ہاتھوں کو اونچا اٹھاتے
توضیح: اوپر درج صحیح بخاری کی حدیث میں لفظ ’ید‘ استعمال ہؤا ہے ۔ عربی میں ید ہاتھ کی درمیانی انگلی سے لے کر کندھے تک کے حصہ پر بولا جاتا ہے۔ ہاتھ کا کوئی سا بھی حصہ کندھے کے مقابل آجائے تو عرف میں اس کو ’حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ‘ (کندھے کے برابر) کہیں گے اور ایسا کرنے سے حدیث پر عمل ہو جائے گا۔ دوسرے اور تیسرے نمبر پر درج احادیث ایک مخصوص جگہ کی متقاضی ہیں کہ انگوٹھا کان کی لو کے قریب ہو آخری حدیث سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔
مگر غیر مقلد، اہلحدیث اور سلفی ہاتھوں کی صرف انگلیاں کانوں یا کندھوں کے برابر کرتے ہیں اس طرح وہ کسی بھی حدیث پر نہیں بلکہ حدیثِ نفس پر عمل کر رہے ہوتے ہیں۔
ثناء
ثنا کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور تسبیح بیان کرنا۔ نماز کی ابتدا اللہ تعالیٰ کی تعریف اور تسبیح سے کی جاتی ہے اور یہی فرمانِ باری تعالیٰ عز و جل(وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ) ہے۔ احادیث میں ثنا کے لئے جو الفاظ آئے ہیں وہ یہ ہیں؛
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَفْتَحَ الصَّلَاةَ قَالَ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرَكَ (ابوداؤد)
أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ يَجْهَرُ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ يَقُولُ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ تَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ (صحیح مسلم)
مگر قرآن و حدیث کی بجائے حدیث نفس پر عمل کرتے ہوئے غیر مقلد، اہلحدیث اور سلفی نماز کی ابتدا میں دعاء پڑھنے پر مصر ہیں۔
نماز میں ہاتھ باندھنا
نماز میں ہاتھ باندھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر گٹ کے پاس رکھے اور دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو (انگوٹھے اور چھنگلیا سے) پکڑ لے اور باقی کو کلائی پر بچھا دے۔ احادیث میں ہاتھ باندھنے کے لئے جو الفاظ آئے ہیں وہ یہ ہیں؛
كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ الْيَدَ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ(صحیح بخاری)
وَوَضَعَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَفَّهُ عَلَى رُسْغِهِ الْأَيْسَرِ (صحیح بخاری)
فَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا أُذُنَيْهِ ثُمَّ أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ (ابوداؤد)
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤمنا فيأخذ شماله بيمينه (ترمذی)
ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى كَفِّهِ الْيُسْرَى وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ (نسائی)
توضیح: صحیح بخاری کی اوپر درج پہلی حدیث میں لفظ ’ساعد‘ ہے۔ عربی میں ’ساعد‘ ہاتھ کی بڑی انگلی کے کنارے سے لے کر کہنی تک کے حصہ کو کہتے ہیں۔ اگر کسی نے اس حصہ پر کہیں بھی ہاتھ رکھا تو اس کا عمل حدیث پر ہوگیا، اگر کسی نے ہاتھ کی انگلیاں کہنی کے قریب رکھیں تو بظاہر تو اس حدیث پر عمل ہو گیا مگر ساتھ ہی اوپر درج دوسری احادیث کی مخالفت بھی لازم آئے گی۔
مگر غیر مقلد، اہلحدیث اور سلفی علماء اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ انگلیاں کہنی کے قریب تک پہنچائی جائیں۔ جب کہ ایسا کرنے سے دیگر تمام احادیث کی مخالفت لازماً ہوگی۔
یا پھر وہ صرف ہتھیلی پر ہتھیلی رکھتے ہیں اس سے بھی کئی دوسری احادیث کی مخالفت لازم آتی ہے۔
قراءت
سورۃ الفاتحہ قرآن کا حصہ اور اس کی 114 سورتوں میں سے ایک سورت بلکہ قرآن العظیم ہے (دیکھئے سورۃ الحجر آیت 87 اور صحیح بخاری)۔
مگر صد افسوس کہ غیر مقلد، اہلحدیث اور سلفی سورۃ الفاتحہ کو قراءت تسلیم نہیں کرتے اور اسے قرآن ہی سے خارج کرنے کے در پے ہیں۔
فاتحہ خلف الامام
اللہ تعالیٰ نے (امام کی) قراءتِ قرآن کے وقت اسے توجہ سے خاموش رہ کر سننے کا حکم (مقتدی کو) دیا (سورۃ الاعراف)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی امام کی قراءت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا حکم صادر فرمایا (صحیح مسلم)۔
مگر صد افسوس کہ غیر مقلد، اہلحدیث اور سلفی قرآن و حدیث کی مخالفت کرتے ہوئے امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھتے ہیں۔
یہ سارے دلائل اس پر دال ہیں کہ غیر مقلد، اہلحدیث اور سلفی حدیثِ رسول پر نہیں بلکہ حدیثِ نفس پر عمل کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو (صحیح بخاری)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دیکھا اور وہ اسی طرح نماز پڑھتے رہے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے ۔
بعد والوں کے لئے صحابہ کرام نمونہ تھے عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان کے مطابق کہ میں اسی طرح نماز پڑھتا ہوں جس طرح اپنے ساتھیوں کو دیکھتا ہوں (صحیح بخاری)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد تم شدید اختلاف دیکھو گے اس وقت تم خلفاء راشدین کے طریقہ کو لازم پکڑنا (ابو داؤد)۔
تابعین کرام رحمہم اللہ نے خلفاء راشدین کا زمانہ پایا اور اسی طرح نمازیں پڑھتے تھے جس طرح خلفاء راشدین پڑھتے۔
خلفاء راشدین آخر دم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور نماز کی تبدیلیوں سے آشنا تھے۔ جب کہ کئی دیگر صحابہ کرام یہ آگاہی نہیں رکھتے تھے کہ وہ بہت دور دراز کے علاقوں میں جہاد و تبلیغ دین کے سبب قیام پذیر ہوگئے تھے۔ اس زمانہ میں اطلاعات ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے میں مہینوں لگ جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صحابہ کرام بعض اوقات نماز کی تبدیلیوں سے بروقت مطلع نہ ہوپاتے تھے۔ بلکہ وہ ناسخ سے مطلع نہ ہونے کے سبب منسوخ طریقہ پر ہی گامزن رہے ۔ ان کی اتباع کرنے والوں نے وہی یاد رکھا اور بیان کیا ۔
خلفاء راشدین میں سے آخری خلیفہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بوجوہ کوفہ کو اپنا دار الخلافہ مقرر کیا۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کثیر تعداد جلیل القدر صحابہ کرام کی بھی کوفہ میں قیام پذیر ہوئی۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری نماز کا نمونہ تھی۔ کوفہ والے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معیت میں پانچ وقتہ نمازیں ادا کرتے رہے۔ انہوں نے نماز کے اس طریقہ کو نہ صرف یاد رکھا بلکہ لکھ بھی لیا۔ یہی طریقہ نماز صحیح ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول اور منشائے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق بھی۔
بعد میں جن لوگوں نے احادیث کی روشنی میں نماز کے مسائل کو اخذ کرنے کی کوشش کی وہ اختلاف کا شکار ہوگئے۔ انہی میں سے موجودہ دور کے غیر مقلد، اہلحدیث اور سلفی وغیرہ ہیں۔ یہ لوگ اس حد تک آگے نکل گئے کہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں بلکہ حدیثِ نفس پر عمل کرنے لگ گئے ہیں اور اپنے زعم میں باقی سب کو گمراہ یقین رکھتے ہیں۔
درج ذیل سطور میں ان کے فہم کی چند صریح غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ملاحظہ فرمائیں۔
نماز کی ابتدا کی رفع الیدین
ان کی رفع الیدین کسی حدیث کے مطابق نہیں بلکہ اپنے خود ساختہ فہم کے مطابق ہے۔ احادیث میں رفع الیدین کے لئے جو الفاظ آئے ہیں وہ یہ ہیں؛
’’يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ‘‘(صحيح البخاري) ہاتھوں کو کندھوں کے برابر تک اٹھایا
’’يَرْفَعُ إِبْهَامَيْهِ فِي الصَّلَاةِ إِلَى شَحْمَةِ أُذُنَيْهِ ‘‘(ابو داؤد) نماز میں انگوٹھوں کو کانوں کی لو تک اٹھایا
’’ يَرْفَعُ يَدَيْهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حَتَّى يَبْلُغَ بِهِمَا فُرُوعَ أُذُنَيْهِ‘‘(ابو داؤد) ہاتھوں کو اٹھایا ۔۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ وہ کانوں کی لو تک پہنچ گئے
’’يرفع يديه في الصلاة مدا ‘‘(نسائی) نماز میں ہاتھوں کو اونچا اٹھاتے
توضیح: اوپر درج صحیح بخاری کی حدیث میں لفظ ’ید‘ استعمال ہؤا ہے ۔ عربی میں ید ہاتھ کی درمیانی انگلی سے لے کر کندھے تک کے حصہ پر بولا جاتا ہے۔ ہاتھ کا کوئی سا بھی حصہ کندھے کے مقابل آجائے تو عرف میں اس کو ’حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ‘ (کندھے کے برابر) کہیں گے اور ایسا کرنے سے حدیث پر عمل ہو جائے گا۔ دوسرے اور تیسرے نمبر پر درج احادیث ایک مخصوص جگہ کی متقاضی ہیں کہ انگوٹھا کان کی لو کے قریب ہو آخری حدیث سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔
مگر غیر مقلد، اہلحدیث اور سلفی ہاتھوں کی صرف انگلیاں کانوں یا کندھوں کے برابر کرتے ہیں اس طرح وہ کسی بھی حدیث پر نہیں بلکہ حدیثِ نفس پر عمل کر رہے ہوتے ہیں۔
ثناء
ثنا کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور تسبیح بیان کرنا۔ نماز کی ابتدا اللہ تعالیٰ کی تعریف اور تسبیح سے کی جاتی ہے اور یہی فرمانِ باری تعالیٰ عز و جل(وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ) ہے۔ احادیث میں ثنا کے لئے جو الفاظ آئے ہیں وہ یہ ہیں؛
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَفْتَحَ الصَّلَاةَ قَالَ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرَكَ (ابوداؤد)
أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ يَجْهَرُ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ يَقُولُ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ تَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ (صحیح مسلم)
مگر قرآن و حدیث کی بجائے حدیث نفس پر عمل کرتے ہوئے غیر مقلد، اہلحدیث اور سلفی نماز کی ابتدا میں دعاء پڑھنے پر مصر ہیں۔
نماز میں ہاتھ باندھنا
نماز میں ہاتھ باندھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر گٹ کے پاس رکھے اور دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو (انگوٹھے اور چھنگلیا سے) پکڑ لے اور باقی کو کلائی پر بچھا دے۔ احادیث میں ہاتھ باندھنے کے لئے جو الفاظ آئے ہیں وہ یہ ہیں؛
كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ الْيَدَ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ(صحیح بخاری)
وَوَضَعَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَفَّهُ عَلَى رُسْغِهِ الْأَيْسَرِ (صحیح بخاری)
فَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا أُذُنَيْهِ ثُمَّ أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ (ابوداؤد)
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤمنا فيأخذ شماله بيمينه (ترمذی)
ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى كَفِّهِ الْيُسْرَى وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ (نسائی)
توضیح: صحیح بخاری کی اوپر درج پہلی حدیث میں لفظ ’ساعد‘ ہے۔ عربی میں ’ساعد‘ ہاتھ کی بڑی انگلی کے کنارے سے لے کر کہنی تک کے حصہ کو کہتے ہیں۔ اگر کسی نے اس حصہ پر کہیں بھی ہاتھ رکھا تو اس کا عمل حدیث پر ہوگیا، اگر کسی نے ہاتھ کی انگلیاں کہنی کے قریب رکھیں تو بظاہر تو اس حدیث پر عمل ہو گیا مگر ساتھ ہی اوپر درج دوسری احادیث کی مخالفت بھی لازم آئے گی۔
مگر غیر مقلد، اہلحدیث اور سلفی علماء اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ انگلیاں کہنی کے قریب تک پہنچائی جائیں۔ جب کہ ایسا کرنے سے دیگر تمام احادیث کی مخالفت لازماً ہوگی۔
یا پھر وہ صرف ہتھیلی پر ہتھیلی رکھتے ہیں اس سے بھی کئی دوسری احادیث کی مخالفت لازم آتی ہے۔
قراءت
سورۃ الفاتحہ قرآن کا حصہ اور اس کی 114 سورتوں میں سے ایک سورت بلکہ قرآن العظیم ہے (دیکھئے سورۃ الحجر آیت 87 اور صحیح بخاری)۔
مگر صد افسوس کہ غیر مقلد، اہلحدیث اور سلفی سورۃ الفاتحہ کو قراءت تسلیم نہیں کرتے اور اسے قرآن ہی سے خارج کرنے کے در پے ہیں۔
فاتحہ خلف الامام
اللہ تعالیٰ نے (امام کی) قراءتِ قرآن کے وقت اسے توجہ سے خاموش رہ کر سننے کا حکم (مقتدی کو) دیا (سورۃ الاعراف)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی امام کی قراءت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا حکم صادر فرمایا (صحیح مسلم)۔
مگر صد افسوس کہ غیر مقلد، اہلحدیث اور سلفی قرآن و حدیث کی مخالفت کرتے ہوئے امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھتے ہیں۔
یہ سارے دلائل اس پر دال ہیں کہ غیر مقلد، اہلحدیث اور سلفی حدیثِ رسول پر نہیں بلکہ حدیثِ نفس پر عمل کرتے ہیں۔