احسن عثمانی
محفلین
ڈاکٹر بشیر بدر کی کتاب "آسمان" سے کچھ منتخب اشعار
مرے لبوں پہ کوئی بوند ٹپکی آنسو کی
یہ قطرہ کافی تھا جلتے ہوئے مکاں کے لئے
میں کیا دکھاؤں مرے تار تار دامن میں
نہ کچھ یہاں کے لئے ہے نہ کچھ وہاں کے لئے
غزل بھی اس طرح اس کے حضور لایا ہوں
کہ جیسے بچہ کوئی آئے امتحاں کے لئے
---
رات موسم بہت فتنہ انگیز تھا اس پہ یادوں کی زلف لہرا گئیں
دیر تک دل سے تیری ہی باتیں رہی بھولی بسری کہانی سناتے رہے
---
سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا
اتنا مت چاہو اسے وہ بے وفا ہوجائے گا
میں خدا کا نام لے کر پی رہا ہوں دوستو
زہر بھی اس میں اگر ہوگا۔۔۔۔ دوا ہوجائے گا
---
ایک عورت سے وفا کرنے کا یہ تحفہ ملا
جانے کتنی عورتوں کی بد دعائیں ساتھ ہیں
---
میں اداس رستہ ہوں شام کا تری آھٹوں کی تلاش ہے
یہ ستارے سب ہیں بجھے بجھے مجھے جگنوؤں کی تلاش ہے
مرے دوستوں نے سکھا دیا مجھے اپنی زندگی سے کھیلنا
مری زندگی تجھے کیا خبر مجھے قاتلوں کی تلاش ہے
---
سبھی چار دن کی ہیں چاندنی یہ امارتیں وزارتیں
مجھے اس فقیر کی شان دے کہ زمانہ جس کی مثال دے
مری صبح تیرے سلام سے مری شام ترے نام سے
ترے در کو چھوڑ کے جاؤں گا یہ خیال دل سے نکال دے
---
کبھی کبھی تو چھلک پڑتی ہیں آنکھیں یونہی
اداس ہونے کا کوئی سبب نہیں ہوتا
میں والدین کو یہ بات کیسے سمجھاؤں
محبتوں میں حسب نسب نہیں ہوتا
---
اپنا دل ہے ایک پرندہ جس کے بازو ٹوٹے ہیں
حسرت سے بادل کو دیکھے بادل اڑا جاتا ہے
ہم نے تو بازار میں دنیا بیچی اور خریدی ہے
ہم کو کیا معلوم کسی کو کیسے چاہا جاتا ہے
---
کرچیں چبھتی ہیں بہت سینے میں
آئینہ ٹوٹ گیا ہو جیسے
---
ان کی نظر میں پیار گناہِ عظیم ہے
توفیق دے خدا انہیں ایسے گناہ کی
اپنے کو رشکِ میر سمجھتے ہیں بدر جی
گمراہ کرگئی ہے صدا واہ واہ کی
---
مطلع میں دمک اٹھتا ہے اس ماتھے کا مطلع
اشعار میں آجاتی ہے رخسار کی خوشبو
---
پتھر لے کر گلیوں گلیوں لڑکے پوچھا کرتے ہیں
ہر بستی میں مجھ سے آگے شہرت میری پہنچی ہے
---
سب نظر کا فریب ہے ورنہ
کوئی ہوتا نہیں کسی کی طرح
سناتے ہیں مجھے خوابوں کی داستاں اکثر
کہانیوں کے پر اسرار لب تمہاری طرح
---
میری آنکھوں میں اتر آئے ہیں کالے بادل
جاؤ سوجاؤ کہ موسم بڑا جذباتی ہے
---
بارشوں کے چہرے پہ آنسوؤں سے لکھنا ہے
کچھ نہ کوئی پڑھ پائے ایسی روشنائی دی
---
نظم غزل افسانہ گیت ایک ترا ہی غم تھا جس کو ہم نے
کیسا کیسا نام دئے ہیں کیسے کیسے بانٹ دیا ہے
بدر تمہاری فکرِ سخن پر اک علامہ ہنس کر بولے
یہ لڑکا نو عمر پرندہ اونچا اڑنا سیکھ رہا ہے
---
سناٹے کی شاخوں پر کچھ زخمی پرندے ہیں
خاموشی بذاتِ خود آواز کا صحرا ہے
ٹھہری ہوئی جھیلوں میں اک برقِ رواں جیسے
ان حیرتی آنکھوں میں یوں دوڑتی دنیا ہے
---
تیرا جسم اشعار کے آئینہ میں ایسا لگتا ہے
چاند کو جیسے قید کیا ہو شیشے کی دیواروں میں
---
تصویر میری پردۂ تخلیق بن گئی
چڑیا نے اس کی آڑ میں گھر بسالیا
---
ٹہنی گلاب کی مرے سینے سے لگ گئی
جھٹکے کے ساتھ کار کا رکنا غضب ہوا
---
خدا کی نظموں کی کتاب ساری کائنات ہے
غزل کے شعر کی طرح ہر ایک فرد۔۔۔۔۔۔۔ فرد ہے
حیات آج بھی کنیز ہے حضورِ جبر میں
جو زندگی کو جیت لے وہ زندگی کا مرد ہے
----
مری غزل کی طرح اس کی بھی حکومت ہے
تمام ملک میں وہ سب سے خوبصورت ہے
----
دونوں کو پیاسا مار رہا ہے کوئی یزید
یہ زندگی حسین ہے اور میں فرات ہوں
---
وہ لب ہیں کہ دو مصرعے اور دونوں برابر
زلفیں کہ دلِ شاعر پہ چھائی ہوئی غزلیں
اس جانِ تغزل نے جب کہا "کچھ کہئیے"
میں بھول گیا اکثر یاد آئی ہوئی غزلیں
----
خندۂ گل فریب ہے گل کا
رات بھر چپکے چپکے رویا ہے
----
تمہیں ضرور کوئی چاہتوں سے دیکھے گا
مگر وہ آنکھیں ہماری کہاں سے لائے گا
نجانے کب تیرے دل پہ نئی سی دستک ہو
مکاں خالی ہوا ہے تو کوئی آئے گا
----
بھلا ہم ملے بھی تو کیا ملے وہی دوریاں وہی فاصلے
نہ کبھی ہمارے قدم بڑھے نہ کبھی تمہاری جھجھک گئی
مجھے لکھنے والا لکھے بھی کیا مجھے پڑھنے والا پڑھے بھی کیا
جہاں میرا نام لکھا گیا وہیں روشنائی الٹ گئی
---
تو جانتا نہیں مری چاہت عجیب ہے
تو مجھکو منا رہا کبھی خود خفا بھی ہو
اس کے لئے تو میں یہاں تک دعائیں کیں
میری طرح سے کوئی اسے چاہتا بھی ہو
----
میں یہ مانتا ہوں مرے دئے تری آندھیوں نے بجھا دئے
مگر ایک جگنو ہواؤں میں ابھی روشنی کا امام ہے
---
میں سنہرے پتوں کا پیڑ ہوں میں خزاں کا حسن و وقار ہوں
مرے بال چاندی کے ہوگئے مرے سر پہ دھوپ ٹھہر گئ
تری آرزو تری جستجو میں بھٹک بھٹک رہا تھا گلی گلی
مری داستاں تری زلف ہے جو بکھر بکھر کے سنور گئی
نہ غموں کا میرے حساب لے نہ غموں کا اپنے حساب دے
وہ عجیب رات تھی کیا کہیں جو گزر گئی سو گزر گئی
---
رات یوں دل میں پھر تم نے آواز دی
جیسے صحرا کی مسجد میں شب کی اذاں
بدر صاحب ادھر کا نہ رخ کیجے
دلی لاہور ہیں شہرِ جادو گراں
---
جس کو دیکھو مرے ماتھے کی طرف دیکھے ہے
درد ہوتا ہے کہاں اور کہاں رووشن ہے
چاند جس آگ میں جلتا ہے اسی شعلے سے
برف کی وادی میں کہرے کا دھواں روشن ہے
منتخِب: احسن عثمانی
مرے لبوں پہ کوئی بوند ٹپکی آنسو کی
یہ قطرہ کافی تھا جلتے ہوئے مکاں کے لئے
میں کیا دکھاؤں مرے تار تار دامن میں
نہ کچھ یہاں کے لئے ہے نہ کچھ وہاں کے لئے
غزل بھی اس طرح اس کے حضور لایا ہوں
کہ جیسے بچہ کوئی آئے امتحاں کے لئے
---
رات موسم بہت فتنہ انگیز تھا اس پہ یادوں کی زلف لہرا گئیں
دیر تک دل سے تیری ہی باتیں رہی بھولی بسری کہانی سناتے رہے
---
سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا
اتنا مت چاہو اسے وہ بے وفا ہوجائے گا
میں خدا کا نام لے کر پی رہا ہوں دوستو
زہر بھی اس میں اگر ہوگا۔۔۔۔ دوا ہوجائے گا
---
ایک عورت سے وفا کرنے کا یہ تحفہ ملا
جانے کتنی عورتوں کی بد دعائیں ساتھ ہیں
---
میں اداس رستہ ہوں شام کا تری آھٹوں کی تلاش ہے
یہ ستارے سب ہیں بجھے بجھے مجھے جگنوؤں کی تلاش ہے
مرے دوستوں نے سکھا دیا مجھے اپنی زندگی سے کھیلنا
مری زندگی تجھے کیا خبر مجھے قاتلوں کی تلاش ہے
---
سبھی چار دن کی ہیں چاندنی یہ امارتیں وزارتیں
مجھے اس فقیر کی شان دے کہ زمانہ جس کی مثال دے
مری صبح تیرے سلام سے مری شام ترے نام سے
ترے در کو چھوڑ کے جاؤں گا یہ خیال دل سے نکال دے
---
کبھی کبھی تو چھلک پڑتی ہیں آنکھیں یونہی
اداس ہونے کا کوئی سبب نہیں ہوتا
میں والدین کو یہ بات کیسے سمجھاؤں
محبتوں میں حسب نسب نہیں ہوتا
---
اپنا دل ہے ایک پرندہ جس کے بازو ٹوٹے ہیں
حسرت سے بادل کو دیکھے بادل اڑا جاتا ہے
ہم نے تو بازار میں دنیا بیچی اور خریدی ہے
ہم کو کیا معلوم کسی کو کیسے چاہا جاتا ہے
---
کرچیں چبھتی ہیں بہت سینے میں
آئینہ ٹوٹ گیا ہو جیسے
---
ان کی نظر میں پیار گناہِ عظیم ہے
توفیق دے خدا انہیں ایسے گناہ کی
اپنے کو رشکِ میر سمجھتے ہیں بدر جی
گمراہ کرگئی ہے صدا واہ واہ کی
---
مطلع میں دمک اٹھتا ہے اس ماتھے کا مطلع
اشعار میں آجاتی ہے رخسار کی خوشبو
---
پتھر لے کر گلیوں گلیوں لڑکے پوچھا کرتے ہیں
ہر بستی میں مجھ سے آگے شہرت میری پہنچی ہے
---
سب نظر کا فریب ہے ورنہ
کوئی ہوتا نہیں کسی کی طرح
سناتے ہیں مجھے خوابوں کی داستاں اکثر
کہانیوں کے پر اسرار لب تمہاری طرح
---
میری آنکھوں میں اتر آئے ہیں کالے بادل
جاؤ سوجاؤ کہ موسم بڑا جذباتی ہے
---
بارشوں کے چہرے پہ آنسوؤں سے لکھنا ہے
کچھ نہ کوئی پڑھ پائے ایسی روشنائی دی
---
نظم غزل افسانہ گیت ایک ترا ہی غم تھا جس کو ہم نے
کیسا کیسا نام دئے ہیں کیسے کیسے بانٹ دیا ہے
بدر تمہاری فکرِ سخن پر اک علامہ ہنس کر بولے
یہ لڑکا نو عمر پرندہ اونچا اڑنا سیکھ رہا ہے
---
سناٹے کی شاخوں پر کچھ زخمی پرندے ہیں
خاموشی بذاتِ خود آواز کا صحرا ہے
ٹھہری ہوئی جھیلوں میں اک برقِ رواں جیسے
ان حیرتی آنکھوں میں یوں دوڑتی دنیا ہے
---
تیرا جسم اشعار کے آئینہ میں ایسا لگتا ہے
چاند کو جیسے قید کیا ہو شیشے کی دیواروں میں
---
تصویر میری پردۂ تخلیق بن گئی
چڑیا نے اس کی آڑ میں گھر بسالیا
---
ٹہنی گلاب کی مرے سینے سے لگ گئی
جھٹکے کے ساتھ کار کا رکنا غضب ہوا
---
خدا کی نظموں کی کتاب ساری کائنات ہے
غزل کے شعر کی طرح ہر ایک فرد۔۔۔۔۔۔۔ فرد ہے
حیات آج بھی کنیز ہے حضورِ جبر میں
جو زندگی کو جیت لے وہ زندگی کا مرد ہے
----
مری غزل کی طرح اس کی بھی حکومت ہے
تمام ملک میں وہ سب سے خوبصورت ہے
----
دونوں کو پیاسا مار رہا ہے کوئی یزید
یہ زندگی حسین ہے اور میں فرات ہوں
---
وہ لب ہیں کہ دو مصرعے اور دونوں برابر
زلفیں کہ دلِ شاعر پہ چھائی ہوئی غزلیں
اس جانِ تغزل نے جب کہا "کچھ کہئیے"
میں بھول گیا اکثر یاد آئی ہوئی غزلیں
----
خندۂ گل فریب ہے گل کا
رات بھر چپکے چپکے رویا ہے
----
تمہیں ضرور کوئی چاہتوں سے دیکھے گا
مگر وہ آنکھیں ہماری کہاں سے لائے گا
نجانے کب تیرے دل پہ نئی سی دستک ہو
مکاں خالی ہوا ہے تو کوئی آئے گا
----
بھلا ہم ملے بھی تو کیا ملے وہی دوریاں وہی فاصلے
نہ کبھی ہمارے قدم بڑھے نہ کبھی تمہاری جھجھک گئی
مجھے لکھنے والا لکھے بھی کیا مجھے پڑھنے والا پڑھے بھی کیا
جہاں میرا نام لکھا گیا وہیں روشنائی الٹ گئی
---
تو جانتا نہیں مری چاہت عجیب ہے
تو مجھکو منا رہا کبھی خود خفا بھی ہو
اس کے لئے تو میں یہاں تک دعائیں کیں
میری طرح سے کوئی اسے چاہتا بھی ہو
----
میں یہ مانتا ہوں مرے دئے تری آندھیوں نے بجھا دئے
مگر ایک جگنو ہواؤں میں ابھی روشنی کا امام ہے
---
میں سنہرے پتوں کا پیڑ ہوں میں خزاں کا حسن و وقار ہوں
مرے بال چاندی کے ہوگئے مرے سر پہ دھوپ ٹھہر گئ
تری آرزو تری جستجو میں بھٹک بھٹک رہا تھا گلی گلی
مری داستاں تری زلف ہے جو بکھر بکھر کے سنور گئی
نہ غموں کا میرے حساب لے نہ غموں کا اپنے حساب دے
وہ عجیب رات تھی کیا کہیں جو گزر گئی سو گزر گئی
---
رات یوں دل میں پھر تم نے آواز دی
جیسے صحرا کی مسجد میں شب کی اذاں
بدر صاحب ادھر کا نہ رخ کیجے
دلی لاہور ہیں شہرِ جادو گراں
---
جس کو دیکھو مرے ماتھے کی طرف دیکھے ہے
درد ہوتا ہے کہاں اور کہاں رووشن ہے
چاند جس آگ میں جلتا ہے اسی شعلے سے
برف کی وادی میں کہرے کا دھواں روشن ہے
منتخِب: احسن عثمانی
آخری تدوین: