تقلید کی وجہ سے بے شمار بدعات نے جنم لیا ۔ لوگوں نے اپنے آباء و اجداد کو جو کرتے دیکھا اسی کو دین سمجھ لیا اور سنتِ رسول ﷺ کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ جب لوگ سنت سے واقفیت ضروری نہیں سمجھتے اس وقت بدعات کا پودا سر سبز ہوتا ہے ۔ کچھ مولویوں نے اپنے پیٹ کی خاطر بدعات کو فروغ دیا ۔ بعض لوگ کسی کام کو اچھا سمجھ کر دین بنا لیتے ہیں اور مسلسل اس پر عمل شروع کر دیتے ہیں ۔ ’’ وہ کام جسے نیکی یا برکت سمجھ کر کیا جائے لیکن قرآن و حدیث سے اس کی کوئی دلیل نہ ہو اسے بدعت کہتے ہیں ۔ ‘‘
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ آپ کہیے کہ کیا ہم تم کو ایسے لوگ بتائیں جو اعمال کے اعتبار سے بالکل خسارہ میں ہیں ۔ وہ ہیں جنکی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بیکار ہو گئیں اور وہ اسی گمان میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں ‘‘ ، ( الکہف : ۱۰۳ تا ۱۰۴ ) ۔
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ ( کام ) رد ہے ‘‘ ، ( بخاری : ۲۶۹۷ ) ۔ سیدنا جابر بن عبداﷲؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ حمد و ثنا کے بعد جانو کہ ہر بات سے بہتر اﷲ کی کتاب ہے اور ہر طریقہ سے سے بہتر محمد ﷺ کا طریقہ ہے اور سب کاموں سے برے نئے کام ہیں اور ہر بدعت ( نیا کام ) گمراہی ہے ‘‘ ، ( مسلم : ۲۰۰۵ ) ۔ امیر المومنین حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ اﷲ لعنت کرے اس پر جو لعنت کرے اپنے باپ پر اور لعنت کرے اﷲ اس پر جو جانور ذبح کرے اﷲ کے علاوہ کسی اور کے لیے اور لعنت کرے اﷲ اس پر جو پناہ دے کسی بدعتی کو اور لعنت کرے اﷲ اس پر جو زمین کی حدیں تبدیل کرے ‘‘ ، ( مسلم : ۵۱۲۴ ) ۔
مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد بدعات کو ہی دین سمجھ بیٹھی ہے ۔ معاشرے میں کثیر التعداد بدعات پر عمل کیا جا رہا ہے ۔ مثلاََ : ’’ تقلید شخصی ، جشنِ عید میلاد النبی ﷺ ،آذان سے پہلے کوئی آیت یا درود، شبِ براء ت ، کونڈے اور رسومات محرم ۔ گیارھویں ، قبروں پر عرس و میلے ، قرآن خوانی ، ختم ، قل ، تیجا ، ساتا ، دسواں ، چالیسواں یا چہلم ، عرس اور قبر پر آذان کہنا ۔ سہرا باندھنا ، محافلِ میلاد ، خود ساختہ درود پڑھنا ، انگھوٹھے چومنا ، زبان سے نیت کرنا ، ندائے غیراﷲ ، سلسلہ ہائے طریقت ، قوالیاں اور تعویذ گنڈے ۔ قبروں پر گنبد بنانا ، غسل دینا ، چراغاں کرنا اور پھول چڑھانا ۔ ہرفرض نماز کے بعد اجتماعی دعا اور خانقاہیں تعمیر کرنا ۔ وضو میں گردن کا مسح ، وضو کے دوران کلمہ شہادت پڑھنا ، غیر اﷲ کیلئے قیام تعظیمی کرنا ، بعد نماز جمعہ ظہر احتیاطی پڑھنا ، نماز غوثیہ ، عقیق کی انگھوٹی پہننا اور قبرستان میں مساجد بنانا ‘‘ ۔ جن بدعات کا میں نے ذکر کیا ہے ان اور مزید بدعات کے متعلق تفصیل سے پڑھیے ، کتاب ’’ چند بدعات اور ان کا تعارف ‘‘ ۔
ضعیف آدمی نے تو اس مرتبہ ’’ حد ہی کر دی ! ‘‘ گالیوں کی ایسی بارش برسائی کہ : ’’ ایک ، ایک سانس میں معلوم نہیں کتنی ہی گالیاں نکال دیتے ‘‘ ۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے بوڑھے شخص نے گالیوں میں پی ایچ ڈی ( Ph.D.) کی ڈگری حاصل کی ہے ۔ گالیوں سے روکے تو الزامات کی بوچھاڑ کر دی ۔ حتی کہ نوجوان لڑکا بو ل ہی پڑا :
بابا جی ! اب بس بھی کر دیں ۔ جب مولوی آپ کو ٹریننگ ( Training) دے رہا تھا تو میں بھی آپ کے ساتھ ہی تھا کہ : ’’ جب کوئی قرآن و حدیث کی بات کرے تو پیٹ بھر کر گالیاں دو ، الزامات کی جھڑی لگا دو اور جس چیز کو دین بنانا ہو اس کے ساتھ شریف کا اضافہ کر دو ۔ مثلاََ : ختم شریف ، گیارھویں شریف اور لاہور شریف وغیرہ وغیرہ ‘‘ ۔ اگرمجھ میں تعصب ہوتا تو میں بھی کب کی گالیاں نکال کر چلا جاتا لیکن یہ تو ہماری عزت ، جان ، آخرت ، ہمارے مال اور وقت کا ہی محافظ ہے ۔ ہم شرک کریں گے تو آخرت خراب ، قبروں پر مردوں اور عورتوں کے مخلوط رقص سے عزت گئی اور بدعات پر عمل کریں گے تو ہمارا مال اور وقت ضائع ہو گا ۔ ضعیف آدمی بڑے سنجیدہ انداز میں :
دیکھو بیٹا ! یہ ( یعنی عبدالرحمن ) ہمارے ہر عقیدے کو شرک ، بدعت ، شرک ، بدعت کہہ رہا ہے ۔ اسے کہو کچھ تو نرمی اختیار کرے ۔ اس نے تو : ’’ جشنِ عید میلاد النبی ﷺ ،آذان سے پہلے درود ، ختم ، قل ، تیجا ، ساتا ، دسواں اور چالیسواں ۔ قبروں پر عرس و میلے لگانا، قبروں پر چراغاں کرنا اور زبان سے نیت کرنے کو بھی بدعت کہہ دیا ہے ‘‘ ۔ ان اعمال میں برائی کیا ہے ۔
نوجوان لڑکا :
’’ بابا جی ! اگر آپ کے پاس ان کے جائز ہونے کی کوئی دلیل ہے تو بتائیے ، بصورت دیگر صاف ظاہر ہے کہ یہ بدعات ہیں ۔ ‘‘
بوڑھا شخص :
’’ یہ ( عبدالرحمن ) بڑا قرآن و حدیث ، قرآن و حدیث کر رہا ہے ۔ اسے کہو کسی حدیث سے منع دیکھا دے کہ نبی پاک ﷺ نے ان اعمال سے روکا ہو ‘‘ ۔ دوسری بات : ’’ ہم اتنی محنت سے یہ اعمال کرتے ہیں ، ہمیں کچھ نہ کچھ تو اجر ملے گا ہی؟ ‘‘ بلال نے عبدالرحمن سے ضعیف آدمی کو جواب دینے کی اجازت طلب کی ۔
عبدالرحمن نے اجازت دے دی ۔
بلال :
بابا جی ! پہلی بات : ’’ جو کام قرآن و حدیث میں منع ہو وہ کرنا تو نافرمانی ہے بدعت نہیں ‘‘ ۔ مثلاََ : ’’ قرآن و حدیث سے واضح ہے کہ سود لینا ، دینا ، لکھنا اور ربا کا گواہ بننا حرام ہے ۔ اب اگر کوئی یہ کام کرتا ہے تو وہ اﷲ اور رسول اﷲ ﷺ کی نافرمانی کر رہا ہے ، بدعت نہیں ‘‘ ۔ بدعت کے متعلق عبدالرحمن انکل نے پہلے ہی تفصیل سے بتا دیا ہے کہ : ’’ وہ کام جسے نیکی یا برکت سمجھ کر کیا جائے لیکن قرآن و حدیث سے اس کی کوئی دلیل نہ ہو اسے بدعت کہتے ہیں ‘‘ ۔
دوسری بات میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ :’’ اگر آپ درزی کے پاس جائیں اور اپنے کپڑوں کا ناپ دیں ۔ جس طرح آپ سلائی کروانا چاہتے ہیں وہ بھی بتا دیں ۔ جب آپ جوڑا لینے جائیں تو درزی نے کپڑے توسلائی کر دیے ہوں مگر اپنی مرضی سے پورے بازو بنانے کی بجائے ہاف کر دیے ہوں اور سارے سوٹ میں رنگا رنگ کے پھول بنا دیے ہوں ‘‘ ۔ تو آپ کیا کریں گے ؟
ضعیف آدمی :
’’ میں جوڑا نہیں لوں گا بلکہ اس سے اپنے کپڑوں کے بھی پیسے واپس لے لوں گا ۔ ‘‘
بلال ، مسکراتے ہوئے :
’’ کیوں ! کیا اس نے محنت نہیں کی ؟ ‘‘
بوڑھا شخص :
’’ ارے ! اس کی محنت بھاڑ میں جائے اس نے تو میرا کپڑا خراب کر دیا ہے ۔ ‘‘
بلال ، بڑے سنجیدہ انداز میں :
’’ اس نے ٹھیک کیا ہے ، آپ نے اسے منع تو نہیں کیا تھا کہ وہ ایسے نہ سلائی کرے ۔ ‘‘
ضعیف آدمی :
’’ دیکھو بیٹا ! میں نے اسے روکا تو نہیں تھا لیکن کہا بھی تو نہیں تھا ۔ ‘‘
بلال :
’’ ہاں ! ٹھیک اسی طرح دین میں بھی ہمیں کتاب و سنت پر ہی عمل کرنا چاہیے ۔ اگر اپنی مرضی سے کوئی عمل دین بنا لیں گے تو ہمیں اجر کی بجائے گناہ ملے گا چاہیے جتنی مرضی محنت کی ہو‘‘ ۔ کیونکہ دین مکمل ہے اس میں نئی چیز وں کے اضافے کی ضرروت نہیں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’ : آج میں نے تمہارے لیے دین کامل کر دیااور تم پر اپنا انعام بھر پور کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہو گیا ‘‘ ، ( المائدۃ : ۳ ) ۔ انکل ، بابا جی کے باقی اعتراضات کا آپ جواب دیں ۔
عبدالرحمن :
بابا جی نے اعتراض کیا ہے کہ : ’’ جشنِ عید میلاد النبی ﷺ ،آذان سے پہلے درود ، ختم ، قل ، تیجا ، ساتا ، دسواں اور چالیسواں ۔ قبروں پر عرس و میلے لگانا، چراغاں کرنا اور زبان سے نیت کرنے کو بدعت کیوں کہا ہے ‘‘ ۔میں ان پوائنٹس پر یکے بعد دیگرے روشنی ڈالتا ہوں ۔
جشن عید میلاد النبی ﷺ ایک بدعت ہے ۔ عیسائی حضرت عیسی ؑ کا میلاد مناتے ہیں ، مسلمانوں نے کہا : ’’ ہم بھی کسی سے کم نہیں ‘‘ ۔ سید المرسلین ﷺ نے ساری زندگی یہ جشن نہیں منایا اور نہ ہی صحابہ کرامؓ سے ثابت ہے ۔ بد قسمتی سے مسلمان جشن بھی اس دن مناتے ہیں جس روز آپ ﷺ نے وفات پائی ۔ ۱۲ ربیع الاول تیز میوزک ، گانے اور قوالیوں سے منایا جاتا ہے ۔ بڑے بڑے علامہ ایسے ڈانس کرتے ہیں جیسے ان کا پیشہ ہی ناچنا ، گانا ہے ۔ اب تو صرف مولوی ہی نہیں بلکہ ڈانسر عورتوں کو نچا کر میلاد منایا جاتا ہے ۔ بے حیائی کو فروغ دیا جاتا ہے ۔ جشن کے دنوں میں نعت خوانوں کا بھی خوب کاروبار چلتا ہے ۔نعتیں پڑھنے والوں کا حال یہ ہے کہ : ’’ نبی پاک ﷺ کی سنتوں کے تارک اور اگر عورت ہے تو فل میک اپ اور بے پردہ ہو کر نعت پڑ رہی ہے ‘‘ ۔ کیا یہی رسول ﷺ کی تعلیم ہے ؟ اگر جشن عید میلاد النبی ﷺ منانا دین ہوتا تو سب سے پہلے صحابہ کرامؓ مناتے ۔
شیطان بھی کیا عجیب کھیل کھیلتا ہے نواسے کی شہادت پر ماتم اور نانا کی وفات پر جشن
ختم ، قل ، تیجا ، ساتا ، دسواں اور چالیسواں سب بدعات ہیں ۔ یہ ہندووں اور سکھوں کی رسمیں ہیں جو مسلمانوں میں رواج پا گئیں ہیں ۔ ختم ، تیجا اور چالیسواں وغیرہ میں ایسے ایسے کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جیسے کوئی مرا نہیں بلکہ ولیمہ ہو رہا ہے ۔ جس دن ختم وغیرہ ہو ، مولوی ، برادری اور علاقے والے ناشتہ بھی نہیں کرتے کہ آج فلاں کے گھر ختم کی دعوت ہے ۔ کچھ غریب پیسے نہ ہونے کی صورت میں برادری کی لعن ، طعن سے بچنے کے لیے چوری کر کے ختم کا اہتمام کرتے ہیں ۔ ارے نادانوں ! اگر ختم ، قل ، تیجا ، ساتا ، دسواں، چالیسواں اور دوسری ، تیسری رسمیں دین ہوتیں تو سب سے پہلے نبی پاک ﷺ ، حضرت خدیجۃ الکبریؓ کا ختم کرتے اور صحابہ کرامؓ ، آپ ﷺ کی وفات کے بعد ان پر عمل کرتے ۔ جب کسی کو علم ہو جاتا ہے کہ یہ سب بدعات ہیں تو وہ برادری کی ملامت سے ڈرتا عمل جاری رکھتا ہے ۔ میرے بھائی ! جب وہ بدعات پر عمل کرتے نہیں ہچکچاتے تو آپ اﷲ کی رضا کے لیے کیوں شرماتے ہیں ۔
’’ جو مولوی حضرات ہمارے سامنے شرک ، تقلید اور بدعات کو دین بنا کر پیش کرتے ہیں ، ان کا کیا علاج ہے ؟ ‘‘ نوجوان لڑکے نے پوچھا ۔
عبدالرحمن :
’’ قرآن و حدیث کا ترجمے کے ساتھ مطالعہ ان کا حل ہے ۔ انہیں دیکھایا اور سمجھایا جائے کہ کتاب و سنت کی تعلیم کیا ہے اور آپ لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں، اﷲ تعالیٰ کے لیے حق کو قبول کر لیجئے ‘‘ ۔ جو لوگ حق کو چھپاتے ہیں ، ان کے متعلق اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیما ت اور ہدایات کو چھپاتے ہیں ، درآنحالیکہ ہم انھیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں ، یقین جانو کہ اﷲبھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی اُن پر لعنت ہیں ۔البتہ جو اس روش سے باز آجائیں اور اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کر لیں اور جو کچھ چُھپاتے تھے ، اُسے بیان کر نے لگیں ،اُن کو میں معاف کردوں گا اور مَیں توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔( البقرۃ : ۵۹ ۱تا ۱۶۰)
قبروں پر عرس و میلے لگانااور چراغاں کرنا بدعت ہے ۔ ہم عرصہ دراز سے ہندووں کے ساتھ رہ رہے ہیں ۔ جن کی رسمیں مسلمانوں نے اپنا لیں ہیں ۔ ہندو اپنے مندروں پر چراغاں کرتے ہیں ، مسلمان قبروں پر ۔ ہندو جالیوں کے ساتھ دھاگے لٹکا کر منت مانتے ہیں مسلمان بھی ۔میلوں پر دور ، دور سے لوگ ڈھول بجا کر چادریں لاتے ، قبروں کی مٹی چاٹتے اور سجدے کرتے ہیں ۔ عرس و میلے اور قبروں پر چراغاں کرنا نہ نبی پاک ﷺ کا طریقہ ہے اور نہ صحابہ کرامؓ سے ثابت ہے ۔ عرسوں و میلوں پر کتوں کی لڑائی ، جوا بازی ، کھسروں کا ڈانس اور گانا بجانا ہی ہوتا ہے ۔ کھانے ، پینے اور خرید و فروخت کے دوران مردوں اور عورتوں کی بھیڑ ، کیا یہ دین محمد ﷺ ہے ؟
زبان سے نیت کرنا اور آذان سے پہلے درودبھی بدعت ہے ۔ ہر عمل میں نیت ضروری ہے ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ’’ انما الاعمال بالنیات : اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے ‘‘ ، ( بخاری : ۱ ) ۔ نیت دل کا ارادہ ہے ، الفاظ بولنا قول و قرار ہے ۔ جب کوئی وضو کرئے گا ، نماز کی نیت ہے تو وضو کر رہا ہے ۔ اگر نیت زبان سے ہے تو پھر تمام کاموں میں نیت ضروری ہے ، پھر سب اعمال میں نیت کرئے ۔ مثال کے طور پر کھانے کے وقت نیت کرے : ’’ میں نیت کرتا ہوں کھانے کی جو ماں کے ہاتھ کا پکا ہوا ہے ۔کھا رہا ہوں ہاتھ کے ذریعے ، واسطے پیٹ کے بسم اﷲ الرحمن الرحیم ‘‘ ۔ اس نیت کے بدعت ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ اردو ، پنجابی اور پشتو وغیرہ زبانوں میں کی جاتی ہے ۔ کیونکہ اگر زبان سے نیت حدیث سے ثابت ہوتی تو عربی میں ہوتی ۔ ’’ عبدالرحمن بھائی ، اگر نیت دل کے ارادے کا نام ہے تو پھر ہم روزے کی نیت زبان سے کیوں کرتے ہیں ‘‘ ، نوجوان لڑکے نے پوچھا ۔
عبدالرحمن :
’’ زورے کی نیت بھی دل سے ہی ہے ۔ میں جانتا ہوں کہ اکثر رمضان کیلنڈروں ( Calendars) پر روزے کی نیت کے الفاظ لکھے ہوتے ہیں ، جو قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ‘‘ ۔ وہ نیت ہے بھی غلط ، اس کے الفاظ بھی ٹھیک نہیں ۔ لکھا ہوتا ہے : ’’ و بصو م غد نویت من شھر رمضان : اور میں نے رمضان کے کل کے روزے کی نیت کی ‘‘ ۔ روزہ آج کا رکھا ہے اور نیت کل کی کر رہا ہے ۔ روزہ انتیسواں یا تیسواں اور نیت عید کے دن کی ۔ یہ کہاں کی سمجھ داری ہے ؟
درود پاک پڑھنے سے اﷲ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتیں ہیں ، گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہے ، مصیبتوں اور غموں سے نجات ملتی ہے ۔ ہر نماز میں اور دعا سے پہلے درود شریف پرھنا ضروری ہے ۔ لیکن نبی پاک ﷺ نے آذان کے بعد درود پاک پڑھنے کا حکم دیا ہے اس لیے پہلے پڑھنا بدعت ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ جب موذن کی اذان سنو تو تم وہی کہو جو موذن کہتا ہے پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ جو کوئی مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ‘‘ ، ( مسلم : ۸۴۹ ) ۔
’’ پہلے پڑھ لو یا بعد میں اس سے کیا فرق پڑتا ہے ‘‘ ، ضعیف آدمی سنجیدہ انداز میں بولا ۔
عبدالرحمن :
اگر آپ کو ڈاکٹر کہے کہ : ’’ دوا کھانے کے بعد لینی ہے ‘‘ ، تو آپ دوائی کھانے کے بعد کھائیں گے یا پہلے ؟
’’ یہ کوئی پوچھنے والی بات ہے ، بعد میں ہی کھاؤں گا کیونکہ اس میں بھی کوئی حکمت ہو گی ‘‘ ، بوڑے شخص نے جواب دیا ۔
عبدالرحمن :
’’ ڈاکٹر کی بات میں حکمت ہے اور نبی پاک ﷺ کی حدیث میں کوئی حکمت نہیں ؟ دعوے محبت کے اور عمل من مانی کے ۔ جھوٹی وفا کی تجارت کرتے ہو ، اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے فرمان سے اچھی اور بہتر بات کس کی ہو سکتی ہے ؟
’’ انکل ، ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا ہے ، بلال بولا ۔ ‘‘
ابوبکر بھائی مسجد کہاں ہے ، عبدالرحمن نے پوچھا۔
ابوبکر :
’’ مسجد نزدیک ہی ہے ۔ دو گلیاں چھوڑ کر تیسری گلی میں بڑی سڑک کے ساتھ ہی ہے ۔ ‘‘
عبدالرحمن :
لوگوں سے متوجہ ہو کر : ’’ میرے عزیزو ! نماز کا وقت ہو گیا ہے ، آئیے صلاۃ ادا کر لیں ۔ ‘‘
’’ ضرور ان شاء اﷲ ! سب لوگ ایک ساتھ بلند آواز سے بولے ۔ ‘‘