زماں مکاں تھے مرے سامنے بکھرتے ہوئے
میں ڈھیر ہو گیا طولِ سفر سے ڈرتے ہوئے
دکھا کے لمحۂ خالی کا عکسِ لا تفسیر
یہ مجھ میں کون ہے مجھ سے فرار کرتے ہوئے
بس ایک زخم تھا دل میں جگہ بناتا ہوا
ہزار زخم مگر بھولتے بسرتے ہوئے
وہ ٹوٹتے ہوئے رشتوں کا حسنِ آخر تھا
کہ چُپ سی لگ گئ دونوں کو بات کرتے ہوئے
عجب نظارہ تھا بستی کاا اس کنارے پر
سبھی بچھڑ گئے دریا سے پار اترتے ہوئے
میں ایک حادثہ بن کر کھڑا تھا رستے میں
عجب زمانے مرے سر سےتھے گزرتے ہوئے
وہی ہوا کہ تکلّف کا حسن بیچ میں تھا
بدن تھے قربِ تہی لمس سے بکھرتے ہوئے