حرفَِ معتبر۔۔۔۔ بانی

الف عین

لائبریرین
نام : راجندر منچندہ
پیدائش: 12 نومبر 1932ء
تعلیم: ایم ایے اقتصادیات
وطن: ملتان (مغربی پاکستان)

صلاح کار : راج نارائن راز
انتخاب : چندر پرکاش شاد
ترتیب : مہدی حیدر زیدی
 

الف عین

لائبریرین
انتساب

والدِ محترم گوبند رام منچندہ (مرحوم) کے نام
مکرّم کیول کرشن وڈیرہ کے نام


اے صفِ ابرِ رواں تیرے بعد
اک گھنا سایہ شجر سے نکلا
 

الف عین

لائبریرین
زماں مکاں تھے مرے سامنے بکھرتے ہوئے
میں ڈھیر ہو گیا طولِ سفر سے ڈرتے ہوئے
دکھا کے لمحۂ خالی کا عکسِ لا تفسیر
یہ مجھ میں کون ہے مجھ سے فرار کرتے ہوئے
بس ایک زخم تھا دل میں جگہ بناتا ہوا
ہزار زخم مگر بھولتے بسرتے ہوئے
وہ ٹوٹتے ہوئے رشتوں کا حسنِ آخر تھا
کہ چُپ سی لگ گئ دونوں کو بات کرتے ہوئے
عجب نظارہ تھا بستی کاا اس کنارے پر
سبھی بچھڑ گئے دریا سے پار اترتے ہوئے
میں ایک حادثہ بن کر کھڑا تھا رستے میں
عجب زمانے مرے سر سےتھے گزرتے ہوئے
وہی ہوا کہ تکلّف کا حسن بیچ میں تھا
بدن تھے قربِ تہی لمس سے بکھرتے ہوئے
 

الف عین

لائبریرین
پتّہ پتّہ بھرتے شجر پر ابر برستا دیکھو تم
منظر کی خوش تعمیری کو لمحہ لمحہ دیکھو تم!
مجھ کو اس دلچسپ سفر کی راہ نہیں کھوٹی کرنی
میں عجلت میں نہیں ہوں یارو، اہنا رستہ دیکھو تم
آنکھ سے آنکھ نہ جوڑ کے دیکھو سوئے اُفق اے ہم سفرو!
لاکھوں رنگ نظر آئیں گے، تنہا تنہا دیکھو تم!
آنکھیں٬ چہرے٬ پاؤں سبھی کچھ بکھرے پڑے ہیں رستے میں
پیش روؤں پر کیا کچھ بیتی، جا کے تماشہ دیکھو تم
کیسے لوگ تھے٬ چاہتے کیا تھے کیوں وہ یہاں سے چلے گئے
گُنگ گھروں سے کچھ مت پوچھو، شہر کا نقشہ دیکھو تم
میرے سر ہے شراپ کسی کا، چھوڑ دو میرا ساتھ یہیں
جانے اس ویران ڈگر پر آگے کیا کیا دیکھو تم
اب تو تمھارے بھی اندر کی بول رہی ہے مایوسی
مجھ کو سمجھانے بیٹھے ہو٬ اپنا لہجہ دیکھو تم!
پلک پلک من جوت سجا کر کوئ گگن میں بکھر گیا
اب ساری شب ڈھونڈو اس کو، تارا تارا دیکھو تم
بھاری رنگوں سے ڈرتا سا، رنگ جدا اک ہلکا سا
صاف کہیں نہ دکھائ دے گا، آڑھا ترچھا دیکھو تم
پانی سب کچھ اندر اندر دور بہا لے جاتا ہے۔۔۔۔
کوئ شے اس گھاٹ نہ ڈھونڈو، ساتوں دریا دیکھو تم
جیسے میرے سارے دشمن مرے مقابل ہوں اک ساتھ
پاؤں نہیں آگے اٹھ پاتے، زور ہوا کا دیکھو تم
ابھی کہاں معلوم یہ تم کو ویرانے کیا ہوتے ہیں
میں خود ایک کھنڈر ہوں جس میں وہ آنگن آ دیکھو تم
ان بن گہری ہو جائے گی یوں ہی سمے گزرنے پر
اس کو منانا چاہوگےجب، بس نہ چلے گا۔۔۔ دیکھو تم
ایک ایسی دیوار کے پیچھے، اور کیا کیا دیواریں ہیں
اِک دیوار بھی راہ نہ دے گی، سر بھی ٹکرا دیکھو تم
ایک اتھاہ گھنی تاریکی کب سے تمھاری راہ میں ہے
ڈال دو ڈیرہ وہیں، جہاں پر نور ذرا سا دیکھو تم
سچ کہتے ہو! ان راہوں پر چَین سے آتے جاتے ہو
اب تھوڑا اس قید سے نکلو، کچھ ان دیکھا دیکھو تم
خالی خالی سے لمحوں کے پھول ملیں گے پوجا کو
آنے والی عمر کے آگے دامن پھیلا دیکھو تم
ہم پہنچے ہیں بیچ بھنور کے روگ لئے دنیا بھر کے
اور کنارے پر دنیا کو لَوٹ کے جاتا دیکھو تم
اِک عکسِ موہوم عجب سا اِس دھندلے خاکے میں ہے
صاف نظر آئے گا تم کو، اب جو دوبارہ دیکھو تم
اپنی خوش رقدیری جانو، اب جو راہیں سہل ہوئیں
ہم بھی اِدھر ہی سے گزرے تھے، حال ہمارا دیکھو تم
رات، دعا مانگی تھی بانی ہم نے سب کے کہنے پر
ہاتھ ابھی تک شل ہیں اپنے، قہر خدا کا دیکھو تم
 

الف عین

لائبریرین
مرے بدن میں پگھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
اِک اور ذات میں ڈھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
مری صدا نہ سہی۔۔ہاں۔۔ مرا لہو نہ سہی
یہ موج موج اچھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
کہیں نہ آخری جھونکا ہو مِٹتے رِشتوں کا
یہ درمیاں سے نکلتا ہوا سا کچھ تو ہے
نہیں ہے آنکھ کے صحرا میں ایک بوند سراب
مگر یہ رنگ بدلتا ہوا سا کچھ تو ہے
جو میرے واسطے کل زہر بن کے نکلے گا
تِرے لبوں پہ سنبھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
یہ عکسِ پیکرِ صد لمس ہے، نہیں۔۔ نہ سہی
کسی خیال میں ڈھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
بدن کو توڑ کے باہر نکلنا چاہتا ہے
یہ کچھ تو ہے، یہ مچلتا ہوا سا کچھ تو ہے!
کسی کے واسطے ہوگاپیام یا کوئ قہر
ہمارے سر سے یہ ٹلتا ہوا سا کچھ تو ہے
یہ میں نہیں۔۔ نہ سہی۔۔۔ اپنے سرد بستر پر
یہ کروٹیں سی بدلتا ہوا سا کچھ تو ہے
وہ کچھ تو تھا، میں سہارا جسے سمجھتا تھا
یہ میرے ساتھ پھسلتا ہوا سا کچھ تو ہے
بکھر رہا ہے فضا میں یہ دودِ روشن کیا
اُدھر پہاڑ کے جلتا ہوا سا کچھ تو ہے
مِرے وجود سے جو کٹ رہا ہے گام بہ گام
یہ اپنی راہ بدلتا ہوا سا کچھ تو ہے!
جو چاٹتا چلا جاتا ہے مجھ کو اے بانی!
یہ آستین میں پلتا ہوا سا کچھ تو ہے!!
 

الف عین

لائبریرین
نہ منزلیں تھیں، نہ کچھ دل میں تھا،۔۔ نہ سر میں تھا
عجب نظارۂ لا سمتیت نظر میں تھا
عتاب تھا کسی لمحے کا اِک زمانے پر
کسی کو چین نہ باہر تھا، اور نہ گھر میں تھا
چھُپا کے لے گیا دُنیا سے اپنے دل کے گھاؤ
کہ ایک شخص بہت طاق اس ہنر میں تھا
کسی کے لَوٹنے کی جب صدا سنی تو کھُلا
کہ میرے ساتھ کوئ اور بھی سفر میں تھا
کبھی میں آب کے تعمیرکردہ قصر میں ہپوں
کبھی ہوا میں بنائے ہوئے سے گھر میں تھا
جھجھک رہا تھا وہ کہنے سے کوئ بات ایسی
میں چُپ کھڑا تھا۔ کہ سب کچھ مِری نظر میں تھا
 

الف عین

لائبریرین
یہی سمجھ کے اسے خود صدا نہ دی میں نے
وہ تیزگام کسی دور کے سفر میں تھا
کبھی ہوں تیری خموشی کے کٹتے ساحل پر
کبھی میں لَوٹتی آواز کے بھنور میں تھا
ہماری آنکھ میں آ کر بنا اک اشک، وہ رنگ
جو برگِسبز کے اندر، نہ شاخِ تر میں تھا
کوئ بھی گھر میں سمجھتا نہ تھا مرے دُکھ سُکھ
اِک اجنبی کی طرح میں خود اپنے گھر میں تھا
ابھی نہ برسے تھے بانی گھِرے ہوئے بادل
میں اُڑتی خاک کی مانند رہگذر میں تھا
 

الف عین

لائبریرین
اِک گلِ تر بھی شرش سے نکلا
بسکہ ہر کام ہُنر سے نکلا
میں ترے بعد۔۔ پھر اے گمشدگی
خیمۂ گردِ سفر سے نکلا
غم نکلتا نہ کبھی سینے سے
اک محّبت کی نظر سے نکلا
اے صفِ ابرِ رواں تیرے بعد
اِک ھگھنا سایہ شجر سے نکلا
راست میں کوئ دیوار بھی تھی
وہ اسی ڈر سے نہ گھر سے نکلا
ذکر پھر اپنا، وہاں،مدّت بعد
کسی عنوانِ دِگر سے نکلا
ہم کہ تھے نشٓۂ محرومی میں،
ءیہ نیا درد کدھر سے نکلا!
ایک ٹھوکر پہ سفر ختم ہوا
ایک سودا تھا کہ سر سے نکلا
ایک اک قصّۂ بے معنی کا
سلسلہ تیری نظر سے نکلا
لمحے، آدابِ تسلسل سے چھُٹے
میں کہ امکانِ سحر سے نکلا
سرِ منزل ہی کھُلا اے بانی
کون کس راہگزر سے نکلا
 
Top