حرف کیسے خیال تک پہنچے۔محمد خالد

عمر سیف

محفلین
حرف کیسے خیال تک پہنچے
روشنی ہو، جمال تک پہنچے


میں کوئی آئینہ نہ بن جاؤں؟
حُسن میرے کمال تک پہنچے

ایک خلقت کہ اُن کی زائر ہے
جو شبیہہ و مثال تک پہنچے

ایسا حُزن و ملال میں کیا ہے
لوگ وجہِ ملال تک پُہنچے

کچھ تو ماضی کا غم رہا ہو گا
کچھ تجربات حال تک پہنچے

وقت، رُک جا کہ ہم کو لگتا ہے
پہنچے، پہنچے وصال تک پُہنچے

کھینچ رکھا ہے اُس نے خط ایسا
خال ہی کوئی خال تک پہنچے

ہم نے دیکھے ہیں صید بھی ایسے
دیکھ کر جال، جال تک پہنچے

آن پہنچے تمہارے سینہ سپر
تیر و تلوار ڈھال تک پہنچے

حُسن والوں کو جانے کیوں ضد تھی
عشق بھی قیل و قال تک پہنچے

آنکھ میں آنکھ ڈال کر بولے
عشق جاہ و جلال تک پہنچے

لوٹ آئے ہو محفلِ شب میں
تم بھی آخر زوال تک پہنچے

یہ کسی درد کی عطا ٹھہری
جو بھی فضل و کمال تک پہنچے

گریۂِ شب ہو اور آہِ رسا
دیکھئیے ذوالجلال تک پہنچے

(محمد خالد)
 

نایاب

لائبریرین
بلا شبہ بہت خوب کلام کیا ہے محترم محمد خالد جی نے
بہت شکریہ بہت دعائیں شراکت پر محترم عمر سیف بھائی
 
Top