La Alma
لائبریرین
گزشتہ کچھ عرصے سے ناموسِ رسالت کے نام پر جو خون ریزی کا سلسلہ چل نکلا ہے، وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ خدا جانے اب یہ کہاں جا کر رکتا ہے۔قرائن تو یہی بتا رہے ہیں کہ ادھر کسی فاسق و فاجر کے منہ سے کوئی توہین آمیز جملہ نکلا ، وہیں اس کو واجب القتل قرار دے دیا گیا۔ خدا بھی نافرمان قوموں کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک ان پر حق پوری طرح واضح نہیں کر دیتا اور ان پرحجت تمام نہیں ہو جاتی۔ یہ کہاں حکم ہے کہ جونہی کسی زبان سے کوئی کفریہ کلمہ ادا ہو، سیدھا اس کا سر تن سے جدا کر دیا جائے۔
فرعون، نمرود، شداد یا ابو جہل جیسے لوگ ہر دور میں پیدا ہوتے آئے ہیں۔ چشمِ فلک نے ایسے کتنے ہی سرکش اور ظالم دیکھے، جو خدا کی خدائی کے منکر تھے۔وہ اللہ کے مبعوث کیے گئے نبیوں اور پیغمبروں کے نہ صرف انکاری تھے بلکہ بیشتر کو قتل بھی کر دیا کرتے تھے۔ خدا کے ان فرستادہ نبیوں کو کیا کیا اذیتیں اور تکلیفیں نہیں پہنچائی گئیں۔ جن مشکلات اور صعوبتوں سے انہیں گزرنا پڑا،آج کے دور میں اس کا تصور بھی محال ہے۔ خود ہمارے نبی آخری الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر ہر طریقے سے ستایا گیا۔ طرح طرح کے القابات سے نوازا گیا۔جن کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے۔ وہ مشرکین اورکفار کے ہاتھوں زخمی اور لہولہان ہوئے۔ ان (ص)کے دندان مبارک شہید کئے گئے۔ ان (ص) پر کوڑا کرکٹ پھینکا گیا ۔ دورانِ نماز ان کی پشت مبارک پر غلاظتیں رکھی گئیں۔ اپنی ہی سرزمین ان پر اتنی تنگ کر دی گئی کہ وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے قریبی ساتھیوں کوبے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا توہینِ رسالت ہوگی!! لیکن اس ساری صورتحال میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا طرزعمل رہا، کیا ہمارے نبی انہیں دعوتِ حق دینے سے رک گئے تھے؟
حضور ﷺ کی حیاتِ طیبہ سے اگر کوئی ایک آدھ ایسی مثال ملتی بھی ہےجس میں انہوں نے کسی گستاخ کو جان سے مارنے کا حکم دیا ہو تو دوسری طرف بیسیوں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں، جہاں آپ نے عفو و درگزر سے کام لیا۔ حتی کہ اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف کر دیا۔ ان سے احسان اور بھلائی کا معاملہ روا رکھا۔ آپ کو سخت سے سخت ایذا پہچانے والے بھی آپ کےحسن سلوک اور اندازِ تبلیغ سے متاثر ہو کر بعد میں ایمان لے آئے۔
اب نبوت کا سلسلہ تو ہمیشہ کے لیے بند ہو چکاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ کیا اب امتِ محمدیہ ﷺکے کاندھوں پر یہ عظیم ذمہ داری نہیں کہ وہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ مسلمانوں کو اپنا منصب پہچاننے کی ضرورت ہے۔
قرآن میں اللہ فرماتاہے۔
“اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں، اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں”
وہ جماعت کہاں ہے؟ جب بھی معاشرے میں کوئی ایسا فتنہ سر اٹھاتا ہے تواصلاح سے پہلو تہی کیوں کی جاتی ہے۔ آج تک کوئی ایسی سنجیدہ کوشش کیوں نظر نہیں آئی جس میں توہینِ رسالت جیسے عظیم گناہ کا ارتکاب کرنےوالے عاصیوں کی آخرت کی فکر کی گئی ہو۔ ان جیسے لوگوں کی ہدایت یا رہنمائی کے لیے کوئی ادنی سا اہتمام بھی کیا گیا ہو۔کون جانتا ہے،کب کس کے ہاتھوں کسی کو ہدایت نصیب ہو جائے۔ بلکہ روش تو یہ چل نکلی ہے کہ جو جتنی جلدی انکے خون سے اپنے ہاتھ رنگے گا اتنا ہی سچا عاشقِ رسول کہلائے گا۔
حضور (ص) کے امتی ہونے کی حیثیت سے کیا یہ درست رویہ ہے کہ ایک قتلِ عمد کوشرعی طور جائز ثابت کرنے کے لیے اس کی نسبت نبی کی طرف کر دی جائے۔ جبکہ جن روایات کی بنیاد پر ایسا کرنے کا جواز فراہم کیا جاتا ہے، ان پربھی علمائے کرام کی رائے انتہائی منقسم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آئے تھے ۔ انہوں نے کسی کو بھی اپنی ذاتی رنجش یا انتقام کا نشانہ نہیں بنایا۔ کسی ایسی بات کی نسبت حضور کی طرف کرنا، جس کا حکم انہوں نے نہ دیا ہو ، پیغمبر پر جھوٹ یا بہتان باندھنے کےمترادف ہے ۔ کیا ایسا کرنا بذات خود توہینِ رسالت نہیں؟
بالفرض اگر تمام مسالک کا اس بات پر اجماع بھی ہو کہ ایک گستاخِ رسول کی سزا موت ہے اور اسے توبہ یا اصلاح کا کوئی موقع نہیں دیا جا سکتا، تو پھر بھی ایسا کرنے کا اختیار صرف اور صرف قانون نافذ کرنے والوں اداروں کےپاس ہی ہونا چاہیے۔ ماورائے عدالت ایسے اقدامات کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے تاکہ ایسے واقعات سے فساد فی الارض کی راہ ہموار نہ ہو۔ کچھ بعیدنہیں کہ تخفظِ ناموسِ رسالت کے نام پر لوگوں کو ذاتی انتقام کا نشانہ بنانے کاایک نیا سلسلہ چل نکلے۔ یا پھر مذہبی طبقات کی جانب سے قاتلوں کی اتنی پذیرائی دیکھ کر، کم عمر نوجوان راتوں رات مشہور ہونے کے چکر میں ماورائے عدالت اقدام قتل کرتے پھریں۔ ایسے ایشوز پر تمام مصلحتیں بالائے طاق رکھ کر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ آنے والے دنوں میں کسی کی بھی جان محفوظ نہیں رہے گی۔
حبِ نبوی کا تقاضا تو یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہماری محبت محض ہمارے جذبات و احساسات کے تابع نہ ہو بلکہ صرف اور صرف حضور ﷺ کے اسوۂ حسنہ اور ان کی تعلیمات سے ہم آہنگ ہو۔ یہ نہ ہو کہ ہمارا شمار بھی ان لوگوں میں ہو جائے جنہوں نے خواہش نفسانی کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔
فرعون، نمرود، شداد یا ابو جہل جیسے لوگ ہر دور میں پیدا ہوتے آئے ہیں۔ چشمِ فلک نے ایسے کتنے ہی سرکش اور ظالم دیکھے، جو خدا کی خدائی کے منکر تھے۔وہ اللہ کے مبعوث کیے گئے نبیوں اور پیغمبروں کے نہ صرف انکاری تھے بلکہ بیشتر کو قتل بھی کر دیا کرتے تھے۔ خدا کے ان فرستادہ نبیوں کو کیا کیا اذیتیں اور تکلیفیں نہیں پہنچائی گئیں۔ جن مشکلات اور صعوبتوں سے انہیں گزرنا پڑا،آج کے دور میں اس کا تصور بھی محال ہے۔ خود ہمارے نبی آخری الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر ہر طریقے سے ستایا گیا۔ طرح طرح کے القابات سے نوازا گیا۔جن کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے۔ وہ مشرکین اورکفار کے ہاتھوں زخمی اور لہولہان ہوئے۔ ان (ص)کے دندان مبارک شہید کئے گئے۔ ان (ص) پر کوڑا کرکٹ پھینکا گیا ۔ دورانِ نماز ان کی پشت مبارک پر غلاظتیں رکھی گئیں۔ اپنی ہی سرزمین ان پر اتنی تنگ کر دی گئی کہ وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے قریبی ساتھیوں کوبے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا توہینِ رسالت ہوگی!! لیکن اس ساری صورتحال میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا طرزعمل رہا، کیا ہمارے نبی انہیں دعوتِ حق دینے سے رک گئے تھے؟
حضور ﷺ کی حیاتِ طیبہ سے اگر کوئی ایک آدھ ایسی مثال ملتی بھی ہےجس میں انہوں نے کسی گستاخ کو جان سے مارنے کا حکم دیا ہو تو دوسری طرف بیسیوں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں، جہاں آپ نے عفو و درگزر سے کام لیا۔ حتی کہ اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف کر دیا۔ ان سے احسان اور بھلائی کا معاملہ روا رکھا۔ آپ کو سخت سے سخت ایذا پہچانے والے بھی آپ کےحسن سلوک اور اندازِ تبلیغ سے متاثر ہو کر بعد میں ایمان لے آئے۔
اب نبوت کا سلسلہ تو ہمیشہ کے لیے بند ہو چکاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ کیا اب امتِ محمدیہ ﷺکے کاندھوں پر یہ عظیم ذمہ داری نہیں کہ وہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ مسلمانوں کو اپنا منصب پہچاننے کی ضرورت ہے۔
قرآن میں اللہ فرماتاہے۔
“اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں، اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں”
وہ جماعت کہاں ہے؟ جب بھی معاشرے میں کوئی ایسا فتنہ سر اٹھاتا ہے تواصلاح سے پہلو تہی کیوں کی جاتی ہے۔ آج تک کوئی ایسی سنجیدہ کوشش کیوں نظر نہیں آئی جس میں توہینِ رسالت جیسے عظیم گناہ کا ارتکاب کرنےوالے عاصیوں کی آخرت کی فکر کی گئی ہو۔ ان جیسے لوگوں کی ہدایت یا رہنمائی کے لیے کوئی ادنی سا اہتمام بھی کیا گیا ہو۔کون جانتا ہے،کب کس کے ہاتھوں کسی کو ہدایت نصیب ہو جائے۔ بلکہ روش تو یہ چل نکلی ہے کہ جو جتنی جلدی انکے خون سے اپنے ہاتھ رنگے گا اتنا ہی سچا عاشقِ رسول کہلائے گا۔
حضور (ص) کے امتی ہونے کی حیثیت سے کیا یہ درست رویہ ہے کہ ایک قتلِ عمد کوشرعی طور جائز ثابت کرنے کے لیے اس کی نسبت نبی کی طرف کر دی جائے۔ جبکہ جن روایات کی بنیاد پر ایسا کرنے کا جواز فراہم کیا جاتا ہے، ان پربھی علمائے کرام کی رائے انتہائی منقسم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آئے تھے ۔ انہوں نے کسی کو بھی اپنی ذاتی رنجش یا انتقام کا نشانہ نہیں بنایا۔ کسی ایسی بات کی نسبت حضور کی طرف کرنا، جس کا حکم انہوں نے نہ دیا ہو ، پیغمبر پر جھوٹ یا بہتان باندھنے کےمترادف ہے ۔ کیا ایسا کرنا بذات خود توہینِ رسالت نہیں؟
بالفرض اگر تمام مسالک کا اس بات پر اجماع بھی ہو کہ ایک گستاخِ رسول کی سزا موت ہے اور اسے توبہ یا اصلاح کا کوئی موقع نہیں دیا جا سکتا، تو پھر بھی ایسا کرنے کا اختیار صرف اور صرف قانون نافذ کرنے والوں اداروں کےپاس ہی ہونا چاہیے۔ ماورائے عدالت ایسے اقدامات کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے تاکہ ایسے واقعات سے فساد فی الارض کی راہ ہموار نہ ہو۔ کچھ بعیدنہیں کہ تخفظِ ناموسِ رسالت کے نام پر لوگوں کو ذاتی انتقام کا نشانہ بنانے کاایک نیا سلسلہ چل نکلے۔ یا پھر مذہبی طبقات کی جانب سے قاتلوں کی اتنی پذیرائی دیکھ کر، کم عمر نوجوان راتوں رات مشہور ہونے کے چکر میں ماورائے عدالت اقدام قتل کرتے پھریں۔ ایسے ایشوز پر تمام مصلحتیں بالائے طاق رکھ کر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ آنے والے دنوں میں کسی کی بھی جان محفوظ نہیں رہے گی۔
حبِ نبوی کا تقاضا تو یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہماری محبت محض ہمارے جذبات و احساسات کے تابع نہ ہو بلکہ صرف اور صرف حضور ﷺ کے اسوۂ حسنہ اور ان کی تعلیمات سے ہم آہنگ ہو۔ یہ نہ ہو کہ ہمارا شمار بھی ان لوگوں میں ہو جائے جنہوں نے خواہش نفسانی کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔