حرمتِ رسول ﷺ

La Alma

لائبریرین
گزشتہ کچھ عرصے سے ناموسِ رسالت کے نام پر جو خون ریزی کا سلسلہ چل نکلا ہے، وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ خدا جانے اب یہ کہاں جا کر رکتا ہے۔قرائن تو یہی بتا رہے ہیں کہ ادھر کسی فاسق و فاجر کے منہ سے کوئی توہین آمیز جملہ نکلا ، وہیں اس کو واجب القتل قرار دے دیا گیا۔ خدا بھی نافرمان قوموں کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک ان پر حق پوری طرح واضح نہیں کر دیتا اور ان پرحجت تمام نہیں ہو جاتی۔ یہ کہاں حکم ہے کہ جونہی کسی زبان سے کوئی کفریہ کلمہ ادا ہو، سیدھا اس کا سر تن سے جدا کر دیا جائے۔
فرعون، نمرود، شداد یا ابو جہل جیسے لوگ ہر دور میں پیدا ہوتے آئے ہیں۔ چشمِ فلک نے ایسے کتنے ہی سرکش اور ظالم دیکھے، جو خدا کی خدائی کے منکر تھے۔وہ اللہ کے مبعوث کیے گئے نبیوں اور پیغمبروں کے نہ صرف انکاری تھے بلکہ بیشتر کو قتل بھی کر دیا کرتے تھے۔ خدا کے ان فرستادہ نبیوں کو کیا کیا اذیتیں اور تکلیفیں نہیں پہنچائی گئیں۔ جن مشکلات اور صعوبتوں سے انہیں گزرنا پڑا،آج کے دور میں اس کا تصور بھی محال ہے۔ خود ہمارے نبی آخری الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر ہر طریقے سے ستایا گیا۔ طرح طرح کے القابات سے نوازا گیا۔جن کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے۔ وہ مشرکین اورکفار کے ہاتھوں زخمی اور لہولہان ہوئے۔ ان (ص)کے دندان مبارک شہید کئے گئے۔ ان (ص) پر کوڑا کرکٹ پھینکا گیا ۔ دورانِ نماز ان کی پشت مبارک پر غلاظتیں رکھی گئیں۔ اپنی ہی سرزمین ان پر اتنی تنگ کر دی گئی کہ وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے قریبی ساتھیوں کوبے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا توہینِ رسالت ہوگی!! لیکن اس ساری صورتحال میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا طرزعمل رہا، کیا ہمارے نبی انہیں دعوتِ حق دینے سے رک گئے تھے؟
حضور ﷺ کی حیاتِ طیبہ سے اگر کوئی ایک آدھ ایسی مثال ملتی بھی ہےجس میں انہوں نے کسی گستاخ کو جان سے مارنے کا حکم دیا ہو تو دوسری طرف بیسیوں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں، جہاں آپ نے عفو و درگزر سے کام لیا۔ حتی کہ اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف کر دیا۔ ان سے احسان اور بھلائی کا معاملہ روا رکھا۔ آپ کو سخت سے سخت ایذا پہچانے والے بھی آپ کےحسن سلوک اور اندازِ تبلیغ سے متاثر ہو کر بعد میں ایمان لے آئے۔
اب نبوت کا سلسلہ تو ہمیشہ کے لیے بند ہو چکاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ کیا اب امتِ محمدیہ ﷺکے کاندھوں پر یہ عظیم ذمہ داری نہیں کہ وہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ مسلمانوں کو اپنا منصب پہچاننے کی ضرورت ہے۔
قرآن میں اللہ فرماتاہے۔
“اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں، اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں”
وہ جماعت کہاں ہے؟ جب بھی معاشرے میں کوئی ایسا فتنہ سر اٹھاتا ہے تواصلاح سے پہلو تہی کیوں کی جاتی ہے۔ آج تک کوئی ایسی سنجیدہ کوشش کیوں نظر نہیں آئی جس میں توہینِ رسالت جیسے عظیم گناہ کا ارتکاب کرنےوالے عاصیوں کی آخرت کی فکر کی گئی ہو۔ ان جیسے لوگوں کی ہدایت یا رہنمائی کے لیے کوئی ادنی سا اہتمام بھی کیا گیا ہو۔کون جانتا ہے،کب کس کے ہاتھوں کسی کو ہدایت نصیب ہو جائے۔ بلکہ روش تو یہ چل نکلی ہے کہ جو جتنی جلدی انکے خون سے اپنے ہاتھ رنگے گا اتنا ہی سچا عاشقِ رسول کہلائے گا۔
حضور (ص) کے امتی ہونے کی حیثیت سے کیا یہ درست رویہ ہے کہ ایک قتلِ عمد کوشرعی طور جائز ثابت کرنے کے لیے اس کی نسبت نبی کی طرف کر دی جائے۔ جبکہ جن روایات کی بنیاد پر ایسا کرنے کا جواز فراہم کیا جاتا ہے، ان پربھی علمائے کرام کی رائے انتہائی منقسم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آئے تھے ۔ انہوں نے کسی کو بھی اپنی ذاتی رنجش یا انتقام کا نشانہ نہیں بنایا۔ کسی ایسی بات کی نسبت حضور کی طرف کرنا، جس کا حکم انہوں نے نہ دیا ہو ، پیغمبر پر جھوٹ یا بہتان باندھنے کےمترادف ہے ۔ کیا ایسا کرنا بذات خود توہینِ رسالت نہیں؟
بالفرض اگر تمام مسالک کا اس بات پر اجماع بھی ہو کہ ایک گستاخِ رسول کی سزا موت ہے اور اسے توبہ یا اصلاح کا کوئی موقع نہیں دیا جا سکتا، تو پھر بھی ایسا کرنے کا اختیار صرف اور صرف قانون نافذ کرنے والوں اداروں کےپاس ہی ہونا چاہیے۔ ماورائے عدالت ایسے اقدامات کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے تاکہ ایسے واقعات سے فساد فی الارض کی راہ ہموار نہ ہو۔ کچھ بعیدنہیں کہ تخفظِ ناموسِ رسالت کے نام پر لوگوں کو ذاتی انتقام کا نشانہ بنانے کاایک نیا سلسلہ چل نکلے۔ یا پھر مذہبی طبقات کی جانب سے قاتلوں کی اتنی پذیرائی دیکھ کر، کم عمر نوجوان راتوں رات مشہور ہونے کے چکر میں ماورائے عدالت اقدام قتل کرتے پھریں۔ ایسے ایشوز پر تمام مصلحتیں بالائے طاق رکھ کر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ آنے والے دنوں میں کسی کی بھی جان محفوظ نہیں رہے گی۔
حبِ نبوی کا تقاضا تو یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہماری محبت محض ہمارے جذبات و احساسات کے تابع نہ ہو بلکہ صرف اور صرف حضور ﷺ کے اسوۂ حسنہ اور ان کی تعلیمات سے ہم آہنگ ہو۔ یہ نہ ہو کہ ہمارا شمار بھی ان لوگوں میں ہو جائے جنہوں نے خواہش نفسانی کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔
 

فاخر رضا

محفلین
ناموس رسالت کے لیے ہم اپنی جان دے سکتے ہیں مگر کسی کو سزا دینے سے پہلے اسے دفاع کا موقع ملنا چاہئے
سزا بھی وہ دے جسکا اپنا کردار رسول اللہ کی سنت کے مطابق ہو.
 

نور وجدان

لائبریرین
.آپ کی بات سے کافی حد تک متفق ہوں

توہین رسالت کے قانون ہونا چاہیے میرے خیال میں ، یورپ ہو یا کوئی مذہب اور وہ تو اپنے اپنی جانب مبعوث ہوئے پیامبروں کے خاکے یا کارٹون بناتے ہیں ، اس لیے یہ اک عام سی بات ہوتی ہے ان کے لیے ۔ دنیا اب گلوبل ویلج ہے اس بات سے ہر اک متفق ہے ۔

معافی یا سزا کا اختیار عدالت کے پاس ہونا چاہیے ۔۔ یہ اک بہت اٹل حقیقت کے طور پر لاگو ہونا چاہیے مگر اسکے لیے عدلیہ پر اعتماد ضروری ہے ۔ دیکھیں غازی علم دین شہید تک یہ تاریخ جاتی ہے اور ایسے ایسے واقعات منسوب ہے ان سے ، جس پر آپ یا میں بات کریں تو کہیں کوئی گستاخی نہ ہوجائے ۔۔

میں نے یہ سنا ہے کورٹ میں معاملہ دو سال تک چلتا رہا ۔۔ اس حوالے پاکستان میں قانون موجود ہے اور ایسے کیسز ملتوی اس لیے ہوتے ہیں کہ اندرونی و بیرونی پریشر گروپس ہوتے ہیں ، ان گروپس کا دباؤ جب اک بچے کی عقل سے پرے ہوجاتا ہے تو وہ ایسے قدم اٹھاتا ہے ۔۔ میرا تو خیال ہے نصاب میں ہمیں سکھانا چاہیے کہ ایسے کیسز میں کیا کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے ۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
آپ کی بات سے کافی حد تک متفق ہوں

توہین رسالت کے قانون ہونا چاہیے میرے خیال میں ، یورپ ہو یا کوئی مذہب اور وہ تو اپنے اپنی جانب مبعوث ہوئے پیامبروں کے خاکے یا کارٹون بناتے ہیں ، اس لیے یہ اک عام سی بات ہوتی ہے ان کے لیے ۔ دنیا اب گلوبل ویلج ہے اس بات سے ہر اک متفق ہے ۔

معافی یا سزا کا اختیار عدالت کے پاس ہونا چاہیے ۔۔ یہ اک بہت اٹل حقیقت کے طور پر لاگو ہونا چاہیے مگر اسکے لیے عدلیہ پر اعتماد ضروری ہے ۔ دیکھیں غازی علم دین شہید تک یہ تاریخ جاتی ہے اور ایسے ایسے واقعات منسوب ہے ان سے ، جس پر آپ یا میں بات کریں تو کہیں کوئی گستاخی نہ ہوجائے ۔۔

میں نے یہ سنا ہے کورٹ میں معاملہ دو سال تک چلتا رہا ۔۔ اس حوالے پاکستان میں قانون موجود ہے اور ایسے کیسز ملتوی اس لیے ہوتے ہیں کہ اندرونی و بیرونی پریشر گروپس ہوتے ہیں ، ان گروپس کا دباؤ جب اک بچے کی عقل سے پرے ہوجاتا ہے تو وہ ایسے قدم اٹھاتا ہے ۔۔ میرا تو خیال ہے نصاب میں ہمیں سکھانا چاہیے کہ ایسے کیسز میں کیا کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے ۔۔
نور بٹیا!!!!!
آپ میرے دل کی باتیں کیسے جان لیتی ہیں
؀
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا!!!!!!!!!!
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
غازی علم الدین شہید عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آج بھی زندہ جبکہ شاتم تاریخ میں نابود ہو گیا۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کبھی کسی ناعاقبت اندیش نے ناموس رسالت پر طعنہ زنی کی ہے عشاقان مصطفی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے سربلندی ملت میں اپنا حصہ ڈالا ہے.عشق مصطفی صلہ اللہ علیہ و و آلہ وسلم ایسا خذینہ ہے جس کی نہ تو قیمت کا تعین ممکن ہے اور نا ہی تمام کائنات میں مثل ہی ڈھونڈنا ممکن ہے...
تاریخ میں ایسے چند ایک ہی کردار موجود ہیں جن کے غیر فطری و غیر ارادی افعال نے تاریخ انسانی پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں اور غازی علم الدین شہید کا تاریخی کردار بھی انہی میں سے ایک ہے۔۔۔میں دل سے ایک بہت ادنیٰ سی عاشق رسول صلہ اللہ علیہ و و آلہ وسلم ہوں ۔۔پر غازی علم دین کی پرستار ہوں۔۔شائد کہ زاد راہ بخششش ہوجائئے۔۔
یہ روایت بھی نقل کی جاتی ہے کہ بعد از یقین ایک رات غازی علم دین کا دل بہت بے قرار تھا جہاں پھر ایک رات انہیں خواب میں ایک بزرگ ملے، انہوں نے کہا: پیارے نبی صلی اللہ علیہ و و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی ہو رہی ہے اور تم ابھی تک سورہے ہو! اٹھو جلدی کرو۔ علم الدین ہڑبڑا کر اٹھے اور سیدھے شیدے کے گھر پہنچے۔پتہ چلا کہ شیدے کو بھی ویسا ہی خواب نظرآیا تھا۔ دونوں ہی کو بزرگ نے "راجپال" کو قتل کرنے کو کہا گیا ہے ۔ دونوں میں بحث ہوئی کہ کون قتل کرے گا پرچی ڈالی گئی تو تین مرتبہ علم دین کے نام نکلی ۔آخر علم دین نے راجپال شاتم رسول صلی اللہ علیہ و و آلہ وسلم کو کیفر کردار تک پہنچا دیا ۔۔۔
یہاں یہ روایت بھی مشہور ہے کہ حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے غازی علم الدین کو کہا کہ ''آپ اس قتل کا انکار کر دو کہ آپ نے قتل نہیں کیا! آپ کی سزا ختم کروانا میری ذمہ داری ہے'' جس کے جواب میں غازی علم الدین نے جواب دیا کہ '' تمام زندگی میں ایک ہی تو کام کیا ہے اور آپ اس سے بھی مکرنے کا مشورہ دے رہے ہیں!''
میرا سلام ہے اس عاشق پر ۔۔۔۔بالکلُ توہین رسالت کے قانون ہونا چاہیے اور فیصلے شتاب ہونا چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اہل ایمان کے لیے آپﷺسے دل کی گہرائیوں سے محبت کرنا ضروری ہے: علامہ اقبال رح

غازی علم الدین شہیدؒ کا مکمل واقعہ
غازی علم الدین شہیدؒ کا مکمل واقعہ
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
غازی علم الدین شہید عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آج بھی زندہ جبکہ شاتم تاریخ میں نابود ہو گیا۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کبھی کسی ناعاقبت اندیش نے ناموس رسالت پر طعنہ زنی کی ہے عشاقان مصطفی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے سربلندی ملت میں اپنا حصہ ڈالا ہے.عشق مصطفی صلہ اللہ علیہ و و آلہ وسلم ایسا خذینہ ہے جس کی نہ تو قیمت کا تعین ممکن ہے اور نا ہی تمام کائنات میں مثل ہی ڈھونڈنا ممکن ہے...
تاریخ میں ایسے چند ایک ہی کردار موجود ہیں جن کے غیر فطری و غیر ارادی افعال نے تاریخ انسانی پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں اور غازی علم الدین شہید کا تاریخی کردار بھی انہی میں سے ایک ہے۔۔۔میں دل سے ایک بہت ادنیٰ سی عاشق رسول صلہ اللہ علیہ و و آلہ وسلم ہوں ۔۔پر غازی علم دین کی پرستار ہوں۔۔شائد کہ زاد راہ بخششش ہوجائئے۔۔
یہ روایت بھی نقل کی جاتی ہے کہ بعد از یقین ایک رات غازی علم دین کا دل بہت بے قرار تھا جہاں پھر ایک رات انہیں خواب میں ایک بزرگ ملے، انہوں نے کہا: پیارے نبی صلی اللہ علیہ و و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی ہو رہی ہے اور تم ابھی تک سورہے ہو! اٹھو جلدی کرو۔ علم الدین ہڑبڑا کر اٹھے اور سیدھے شیدے کے گھر پہنچے۔پتہ چلا کہ شیدے کو بھی ویسا ہی خواب نظرآیا تھا۔ دونوں ہی کو بزرگ نے "راجپال" کو قتل کرنے کو کہا گیا ہے ۔ دونوں میں بحث ہوئی کہ کون قتل کرے گا پرچی ڈالی گئی تو تین مرتبہ علم دین کے نام نکلی ۔آخر علم دین نے راجپال شاتم رسول صلی اللہ علیہ و و آلہ وسلم کو کیفر کردار تک پہنچا دیا ۔۔۔
یہاں یہ روایت بھی مشہور ہے کہ حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے غازی علم الدین کو کہا کہ ''آپ اس قتل کا انکار کر دو کہ آپ نے قتل نہیں کیا! آپ کی سزا ختم کروانا میری ذمہ داری ہے'' جس کے جواب میں غازی علم الدین نے جواب دیا کہ '' تمام زندگی میں ایک ہی تو کام کیا ہے اور آپ اس سے بھی مکرنے کا مشورہ دے رہے ہیں!''
محترمہ سیما صاحبہ!
بالا تبصرہ آپ کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے، یا پھر آپ نے غازی علم الدین پر یہ مضمون کہیں سے نقل کیا ہے؟
موخر الذکر کی صورت میں رائٹر کا نام بھی لکھ دیجئے ۔ ورنہ اصل لکھاری کے ساتھ زیادتی متصور ہو گی اور ایسا کرنا سرقہ کہلائے گا۔ بہت شکریہ !
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
گزشتہ کچھ عرصے سے ناموسِ رسالت کے نام پر جو خون ریزی کا سلسلہ چل نکلا ہے، وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔یہ نہ ہو کہ ہمارا شمار بھی ان لوگوں میں ہو جائے جنہوں نے خواہش نفسانی کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔

بہت اچھا لکھا ہے لاالمیٰ ! ایک اہم مسئلے پر قلم اٹھایا ہے آپ نے اوراس کے اہم پہلوئوں کو بہت خوبی سے اجاگر کیا ہے ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مذہب سے لاعلمی اس قدر عام ہوگئی ہے کہ اب یہ بنیادی باتیں بھی لکھ لکھ کر واضح کرنا پڑتی ہیں ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔
 

فہد مقصود

محفلین
گزشتہ کچھ عرصے سے ناموسِ رسالت کے نام پر جو خون ریزی کا سلسلہ چل نکلا ہے، وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ خدا جانے اب یہ کہاں جا کر رکتا ہے۔قرائن تو یہی بتا رہے ہیں کہ ادھر کسی فاسق و فاجر کے منہ سے کوئی توہین آمیز جملہ نکلا ، وہیں اس کو واجب القتل قرار دے دیا گیا۔ خدا بھی نافرمان قوموں کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک ان پر حق پوری طرح واضح نہیں کر دیتا اور ان پرحجت تمام نہیں ہو جاتی۔ یہ کہاں حکم ہے کہ جونہی کسی زبان سے کوئی کفریہ کلمہ ادا ہو، سیدھا اس کا سر تن سے جدا کر دیا جائے۔
فرعون، نمرود، شداد یا ابو جہل جیسے لوگ ہر دور میں پیدا ہوتے آئے ہیں۔ چشمِ فلک نے ایسے کتنے ہی سرکش اور ظالم دیکھے، جو خدا کی خدائی کے منکر تھے۔وہ اللہ کے مبعوث کیے گئے نبیوں اور پیغمبروں کے نہ صرف انکاری تھے بلکہ بیشتر کو قتل بھی کر دیا کرتے تھے۔ خدا کے ان فرستادہ نبیوں کو کیا کیا اذیتیں اور تکلیفیں نہیں پہنچائی گئیں۔ جن مشکلات اور صعوبتوں سے انہیں گزرنا پڑا،آج کے دور میں اس کا تصور بھی محال ہے۔ خود ہمارے نبی آخری الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر ہر طریقے سے ستایا گیا۔ طرح طرح کے القابات سے نوازا گیا۔جن کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے۔ وہ مشرکین اورکفار کے ہاتھوں زخمی اور لہولہان ہوئے۔ ان (ص)کے دندان مبارک شہید کئے گئے۔ ان (ص) پر کوڑا کرکٹ پھینکا گیا ۔ دورانِ نماز ان کی پشت مبارک پر غلاظتیں رکھی گئیں۔ اپنی ہی سرزمین ان پر اتنی تنگ کر دی گئی کہ وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے قریبی ساتھیوں کوبے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا توہینِ رسالت ہوگی!! لیکن اس ساری صورتحال میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا طرزعمل رہا، کیا ہمارے نبی انہیں دعوتِ حق دینے سے رک گئے تھے؟
حضور ﷺ کی حیاتِ طیبہ سے اگر کوئی ایک آدھ ایسی مثال ملتی بھی ہےجس میں انہوں نے کسی گستاخ کو جان سے مارنے کا حکم دیا ہو تو دوسری طرف بیسیوں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں، جہاں آپ نے عفو و درگزر سے کام لیا۔ حتی کہ اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف کر دیا۔ ان سے احسان اور بھلائی کا معاملہ روا رکھا۔ آپ کو سخت سے سخت ایذا پہچانے والے بھی آپ کےحسن سلوک اور اندازِ تبلیغ سے متاثر ہو کر بعد میں ایمان لے آئے۔
اب نبوت کا سلسلہ تو ہمیشہ کے لیے بند ہو چکاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ کیا اب امتِ محمدیہ ﷺکے کاندھوں پر یہ عظیم ذمہ داری نہیں کہ وہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ مسلمانوں کو اپنا منصب پہچاننے کی ضرورت ہے۔
قرآن میں اللہ فرماتاہے۔
“اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں، اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں”
وہ جماعت کہاں ہے؟ جب بھی معاشرے میں کوئی ایسا فتنہ سر اٹھاتا ہے تواصلاح سے پہلو تہی کیوں کی جاتی ہے۔ آج تک کوئی ایسی سنجیدہ کوشش کیوں نظر نہیں آئی جس میں توہینِ رسالت جیسے عظیم گناہ کا ارتکاب کرنےوالے عاصیوں کی آخرت کی فکر کی گئی ہو۔ ان جیسے لوگوں کی ہدایت یا رہنمائی کے لیے کوئی ادنی سا اہتمام بھی کیا گیا ہو۔کون جانتا ہے،کب کس کے ہاتھوں کسی کو ہدایت نصیب ہو جائے۔ بلکہ روش تو یہ چل نکلی ہے کہ جو جتنی جلدی انکے خون سے اپنے ہاتھ رنگے گا اتنا ہی سچا عاشقِ رسول کہلائے گا۔
حضور (ص) کے امتی ہونے کی حیثیت سے کیا یہ درست رویہ ہے کہ ایک قتلِ عمد کوشرعی طور جائز ثابت کرنے کے لیے اس کی نسبت نبی کی طرف کر دی جائے۔ جبکہ جن روایات کی بنیاد پر ایسا کرنے کا جواز فراہم کیا جاتا ہے، ان پربھی علمائے کرام کی رائے انتہائی منقسم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آئے تھے ۔ انہوں نے کسی کو بھی اپنی ذاتی رنجش یا انتقام کا نشانہ نہیں بنایا۔ کسی ایسی بات کی نسبت حضور کی طرف کرنا، جس کا حکم انہوں نے نہ دیا ہو ، پیغمبر پر جھوٹ یا بہتان باندھنے کےمترادف ہے ۔ کیا ایسا کرنا بذات خود توہینِ رسالت نہیں؟
بالفرض اگر تمام مسالک کا اس بات پر اجماع بھی ہو کہ ایک گستاخِ رسول کی سزا موت ہے اور اسے توبہ یا اصلاح کا کوئی موقع نہیں دیا جا سکتا، تو پھر بھی ایسا کرنے کا اختیار صرف اور صرف قانون نافذ کرنے والوں اداروں کےپاس ہی ہونا چاہیے۔ ماورائے عدالت ایسے اقدامات کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے تاکہ ایسے واقعات سے فساد فی الارض کی راہ ہموار نہ ہو۔ کچھ بعیدنہیں کہ تخفظِ ناموسِ رسالت کے نام پر لوگوں کو ذاتی انتقام کا نشانہ بنانے کاایک نیا سلسلہ چل نکلے۔ یا پھر مذہبی طبقات کی جانب سے قاتلوں کی اتنی پذیرائی دیکھ کر، کم عمر نوجوان راتوں رات مشہور ہونے کے چکر میں ماورائے عدالت اقدام قتل کرتے پھریں۔ ایسے ایشوز پر تمام مصلحتیں بالائے طاق رکھ کر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ آنے والے دنوں میں کسی کی بھی جان محفوظ نہیں رہے گی۔
حبِ نبوی کا تقاضا تو یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہماری محبت محض ہمارے جذبات و احساسات کے تابع نہ ہو بلکہ صرف اور صرف حضور ﷺ کے اسوۂ حسنہ اور ان کی تعلیمات سے ہم آہنگ ہو۔ یہ نہ ہو کہ ہمارا شمار بھی ان لوگوں میں ہو جائے جنہوں نے خواہش نفسانی کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔

محترم بہن صاحبہ!

جزاک اللہ خیرا کثیرا واحسن الجزا فی الدارین

آپ نے اس موضوع پر لکھ کر بڑی بہادری کا ثبوت دیا ہے۔ بر صغیر پاک و ہند میں سب ہی مسلمان کسی نہ کسی فرقہ سے گستاخ قرار دئیے جا چکے ہیں۔ لیکن کیا سب سزا کے مستحق ہیں؟ کسی دن ہمیں بھی اس جگہ کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ بہتر راستہ یہی ہے کہ ایک دوسرے کی غلطیوں کی نشاندہی کی جائے اور توبہ کا موقع دیا جائے۔ بات محث و مباحثہ تک ہی رہے۔ گرما گرمی بھی ہو جاتی ہے لیکن گستاخ قرار دینا بہت ہی خطرناک روش ہے۔

خدائے رب العزت اس خطے پر رحم فرمائے آمین ثم آمین۔
 

سیما علی

لائبریرین
محترم بہن صاحبہ!

جزاک اللہ خیرا کثیرا واحسن الجزا فی الدارین

آپ نے اس موضوع پر لکھ کر بڑی بہادری کا ثبوت دیا ہے۔ بر صغیر پاک و ہند میں سب ہی مسلمان کسی نہ کسی فرقہ سے گستاخ قرار دئیے جا چکے ہیں۔ لیکن کیا سب سزا کے مستحق ہیں؟ کسی دن ہمیں بھی اس جگہ کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ بہتر راستہ یہی ہے کہ ایک دوسرے کی غلطیوں کی نشاندہی کی جائے اور توبہ کا موقع دیا جائے۔ بات محث و مباحثہ تک ہی رہے۔ گرما گرمی بھی ہو جاتی ہے لیکن گستاخ قرار دینا بہت ہی خطرناک روش ہے۔

خدائے رب العزت اس خطے پر رحم فرمائے آمین ثم آمین۔
آمین الہی آمین
 

سیما علی

لائبریرین
محترمہ سیما صاحبہ!
بالا تبصرہ آپ کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے، یا پھر آپ نے غازی علم الدین پر یہ مضمون کہیں سے نقل کیا ہے؟
موخر الذکر کی صورت میں رائٹر کا نام بھی لکھ دیجئے ۔ ورنہ اصل لکھاری کے ساتھ زیادتی متصور ہو گی اور ایسا کرنا سرقہ کہلائے گا۔ بہت شکریہ !
La Alma صاحب !!!!!
میری غلطی کہ میں نے ربط نہیں دیا ۔۔۔۔ لیکن یہ میرے دل کی آوازُ ہے اب میں نے حوالہ لکھ دیا ہے پرودگار سے ہر دم یہی دعا ہے کہ وہ ہم ایمان کے جس کمزور درجہ پر فائز ہیں اس پر ہی ہمارا خاتمہ فرمائے کہ ہم میں سے بہت کم لوگ ہیں جو حق کہ لئے آواز بلند کرتے ہیں اللہ ہمارے دلوں آپ ﷺ کی محبت سے بھر دے ۔۔آمین
 

زیک

مسافر
گزشتہ کچھ عرصے سے ناموسِ رسالت کے نام پر جو خون ریزی کا سلسلہ چل نکلا ہے، وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ خدا جانے اب یہ کہاں جا کر رکتا ہے۔قرائن تو یہی بتا رہے ہیں کہ ادھر کسی فاسق و فاجر کے منہ سے کوئی توہین آمیز جملہ نکلا ، وہیں اس کو واجب القتل قرار دے دیا گیا۔ خدا بھی نافرمان قوموں کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک ان پر حق پوری طرح واضح نہیں کر دیتا اور ان پرحجت تمام نہیں ہو جاتی۔ یہ کہاں حکم ہے کہ جونہی کسی زبان سے کوئی کفریہ کلمہ ادا ہو، سیدھا اس کا سر تن سے جدا کر دیا جائے۔
فرعون، نمرود، شداد یا ابو جہل جیسے لوگ ہر دور میں پیدا ہوتے آئے ہیں۔ چشمِ فلک نے ایسے کتنے ہی سرکش اور ظالم دیکھے، جو خدا کی خدائی کے منکر تھے۔وہ اللہ کے مبعوث کیے گئے نبیوں اور پیغمبروں کے نہ صرف انکاری تھے بلکہ بیشتر کو قتل بھی کر دیا کرتے تھے۔ خدا کے ان فرستادہ نبیوں کو کیا کیا اذیتیں اور تکلیفیں نہیں پہنچائی گئیں۔ جن مشکلات اور صعوبتوں سے انہیں گزرنا پڑا،آج کے دور میں اس کا تصور بھی محال ہے۔ خود ہمارے نبی آخری الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر ہر طریقے سے ستایا گیا۔ طرح طرح کے القابات سے نوازا گیا۔جن کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے۔ وہ مشرکین اورکفار کے ہاتھوں زخمی اور لہولہان ہوئے۔ ان (ص)کے دندان مبارک شہید کئے گئے۔ ان (ص) پر کوڑا کرکٹ پھینکا گیا ۔ دورانِ نماز ان کی پشت مبارک پر غلاظتیں رکھی گئیں۔ اپنی ہی سرزمین ان پر اتنی تنگ کر دی گئی کہ وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے قریبی ساتھیوں کوبے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا توہینِ رسالت ہوگی!! لیکن اس ساری صورتحال میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا طرزعمل رہا، کیا ہمارے نبی انہیں دعوتِ حق دینے سے رک گئے تھے؟
حضور ﷺ کی حیاتِ طیبہ سے اگر کوئی ایک آدھ ایسی مثال ملتی بھی ہےجس میں انہوں نے کسی گستاخ کو جان سے مارنے کا حکم دیا ہو تو دوسری طرف بیسیوں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں، جہاں آپ نے عفو و درگزر سے کام لیا۔ حتی کہ اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف کر دیا۔ ان سے احسان اور بھلائی کا معاملہ روا رکھا۔ آپ کو سخت سے سخت ایذا پہچانے والے بھی آپ کےحسن سلوک اور اندازِ تبلیغ سے متاثر ہو کر بعد میں ایمان لے آئے۔
اب نبوت کا سلسلہ تو ہمیشہ کے لیے بند ہو چکاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ کیا اب امتِ محمدیہ ﷺکے کاندھوں پر یہ عظیم ذمہ داری نہیں کہ وہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ مسلمانوں کو اپنا منصب پہچاننے کی ضرورت ہے۔
قرآن میں اللہ فرماتاہے۔
“اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں، اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں”
وہ جماعت کہاں ہے؟ جب بھی معاشرے میں کوئی ایسا فتنہ سر اٹھاتا ہے تواصلاح سے پہلو تہی کیوں کی جاتی ہے۔ آج تک کوئی ایسی سنجیدہ کوشش کیوں نظر نہیں آئی جس میں توہینِ رسالت جیسے عظیم گناہ کا ارتکاب کرنےوالے عاصیوں کی آخرت کی فکر کی گئی ہو۔ ان جیسے لوگوں کی ہدایت یا رہنمائی کے لیے کوئی ادنی سا اہتمام بھی کیا گیا ہو۔کون جانتا ہے،کب کس کے ہاتھوں کسی کو ہدایت نصیب ہو جائے۔ بلکہ روش تو یہ چل نکلی ہے کہ جو جتنی جلدی انکے خون سے اپنے ہاتھ رنگے گا اتنا ہی سچا عاشقِ رسول کہلائے گا۔
حضور (ص) کے امتی ہونے کی حیثیت سے کیا یہ درست رویہ ہے کہ ایک قتلِ عمد کوشرعی طور جائز ثابت کرنے کے لیے اس کی نسبت نبی کی طرف کر دی جائے۔ جبکہ جن روایات کی بنیاد پر ایسا کرنے کا جواز فراہم کیا جاتا ہے، ان پربھی علمائے کرام کی رائے انتہائی منقسم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آئے تھے ۔ انہوں نے کسی کو بھی اپنی ذاتی رنجش یا انتقام کا نشانہ نہیں بنایا۔ کسی ایسی بات کی نسبت حضور کی طرف کرنا، جس کا حکم انہوں نے نہ دیا ہو ، پیغمبر پر جھوٹ یا بہتان باندھنے کےمترادف ہے ۔ کیا ایسا کرنا بذات خود توہینِ رسالت نہیں؟
بالفرض اگر تمام مسالک کا اس بات پر اجماع بھی ہو کہ ایک گستاخِ رسول کی سزا موت ہے اور اسے توبہ یا اصلاح کا کوئی موقع نہیں دیا جا سکتا، تو پھر بھی ایسا کرنے کا اختیار صرف اور صرف قانون نافذ کرنے والوں اداروں کےپاس ہی ہونا چاہیے۔ ماورائے عدالت ایسے اقدامات کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے تاکہ ایسے واقعات سے فساد فی الارض کی راہ ہموار نہ ہو۔ کچھ بعیدنہیں کہ تخفظِ ناموسِ رسالت کے نام پر لوگوں کو ذاتی انتقام کا نشانہ بنانے کاایک نیا سلسلہ چل نکلے۔ یا پھر مذہبی طبقات کی جانب سے قاتلوں کی اتنی پذیرائی دیکھ کر، کم عمر نوجوان راتوں رات مشہور ہونے کے چکر میں ماورائے عدالت اقدام قتل کرتے پھریں۔ ایسے ایشوز پر تمام مصلحتیں بالائے طاق رکھ کر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ آنے والے دنوں میں کسی کی بھی جان محفوظ نہیں رہے گی۔
حبِ نبوی کا تقاضا تو یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہماری محبت محض ہمارے جذبات و احساسات کے تابع نہ ہو بلکہ صرف اور صرف حضور ﷺ کے اسوۂ حسنہ اور ان کی تعلیمات سے ہم آہنگ ہو۔ یہ نہ ہو کہ ہمارا شمار بھی ان لوگوں میں ہو جائے جنہوں نے خواہش نفسانی کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔
اچھا آرٹیکل ہے۔ سوچنا چاہیئے ہم سب کو
 

زیک

مسافر
دیکھیں غازی علم دین شہید تک یہ تاریخ جاتی ہے اور ایسے ایسے واقعات منسوب ہے ان سے ، جس پر آپ یا میں بات کریں تو کہیں کوئی گستاخی نہ ہوجائے ۔۔

آپ میرے دل کی باتیں کیسے جان لیتی ہیں
؀
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا!!!!!!!!!!
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
غازی علم الدین شہید عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آج بھی زندہ جبکہ شاتم تاریخ میں نابود ہو گیا۔
کیا آپ دونوں بتا سکتی ہیں کہ علم دین اور دیگر واقعات میں کیا فرق ہے کہ ایک حق اور دوسرے غلط؟
 

نور وجدان

لائبریرین
میں نے تو سنا ہے علامہ اقبال نے غازی علم دین کو سراہا تھا کافی اور ان کے اشعار بھی ہیں اس پر ۔

غازی علم دین کو پوری دنیا شہید گردانتی ہے ، انہوں نے قتل کیا اور سزا بھی پالی ۔۔۔ آجکل بھی یہی ہورہا ہے اور اس طرز کے واقعات کا سرا تاریخ سے ملتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اگر اک قانون موجود ہے تو قانون کو ہاتھوں میں لینا نہیں چاہیے ۔ اس وقت ایسا قانون نہیں تھا ، اب قانون موجود ہے جب اک پوری مسلم کمینونٹی کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اس کا مطلب ہے بات غلط ہے مگر ہمارا مذہب ہمیں غلط بات درگزر کرنے کا حکم بھی دیتا ہے یا قانون کے ذریعے سزا کا ۔


اس قانون موجود ہونے کا نقصان یہ ہے کہ یہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہورہا ہے ۔۔۔ بیشمار ایسے کیسز ہیں جن میں قران پاک کی بے حرمتی کی یا مسلمان ہی کھلی توہین کر رہا ہے ۔۔۔ کبھی کسی نے آواز نہیں اٹھائی ۔۔ فیس بک یوٹیوب پر پاکستانی عوام کی ایسی گستاخیاں موجود ہیں ۔۔ جب قانون کا نفاذ سیاسی ہے تو ہمیں کیا پتا کیا غلط ہے اور کیا درست ۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
[QUOTE="زیک, post: 2260842, member: 16"]کیا آپ دونوں بتا سکتی ہیں کہ علم دین اور دیگر واقعات میں کیا فرق ہے کہ ایک حق اور دوسرے غلط؟[/QUOTE]
عشق رسول پاک ﷺ سچے اور پکے مومن اور مسلمان کی معراج ،پہچان اور نشانی ہے۔ غازی علم دین شہید کا شمار بھی ان ہی عاشقان رسول میں ہوتا ہے۔۔دوسری طرف خالد خان
نے کمرۂ عدالت میں فائرنگ کرکے ملزم کو قتل کردیا اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا ۔پھر بھی خیبر پختونخواہ کے مذہبی حلقو ں نے پشاور میں
خالد خان کے حق ریلیاں نکالیں اور گستاخ رسولﷺ کی رہائی۔ کا مطالبہ کیا ہے ۔یہاں میں صرف یہ کہنا بہتر سمجھتی ہوں کہ اس بحث کو یہیں تمام کیا جائے کیونکہ اپنی ناقص علمی کو تسلیم کرتے ہوئے بحث کو آگے نہیں بڑھانا چاہتی۔۔۔اللہ مجھےایمان کے اس کمزور درجہ پر بھی قائم رکھے تو میری بقا ہے اور پروردگار ہمارا خاتمہ بالخیر اور ایمان پر کرے۔۔۔۔آمین الہی آمین
 

سیما علی

لائبریرین
میں نے تو سنا ہے علامہ اقبال نے غازی علم دین کو سراہا تھا کافی اور ان کے اشعار بھی ہیں اس پر ۔

غازی علم دین کو پوری دنیا شہید گردانتی ہے ، انہوں نے قتل کیا اور سزا بھی پالی ۔۔۔ آجکل بھی یہی ہورہا ہے اور اس طرز کے واقعات کا سرا تاریخ سے ملتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اگر اک قانون موجود ہے تو قانون کو ہاتھوں میں لینا نہیں چاہیے ۔ اس وقت ایسا قانون نہیں تھا ، اب قانون موجود ہے جب اک پوری مسلم کمینونٹی کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اس کا مطلب ہے بات غلط ہے مگر ہمارا مذہب ہمیں غلط بات درگزر کرنے کا حکم بھی دیتا ہے یا قانون کے ذریعے سزا کا ۔


اس قانون موجود ہونے کا نقصان یہ ہے کہ یہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہورہا ہے ۔۔۔ بیشمار ایسے کیسز ہیں جن میں قران پاک کی بے حرمتی کی یا مسلمان ہی کھلی توہین کر رہا ہے ۔۔۔ کبھی کسی نے آواز نہیں اٹھائی ۔۔ فیس بک یوٹیوب پر پاکستانی عوام کی ایسی گستاخیاں موجود ہیں ۔۔ جب قانون کا نفاذ سیاسی ہے تو ہمیں کیا پتا کیا غلط ہے اور کیا درست ۔۔
نور بٹیا!!!!!
جیتی رہیے۔۔۔ڈھیر ساری دعائیں۔۔۔۔بحث تمام کریں تو بہتری ہے نہ ہم دین پہ وہ دسترس رکھتے ہیں نہ قانون پہ۔۔۔۔۔
 

زیک

مسافر

[QUOTE="زیک, post: 2260842, member: 16"]کیا آپ دونوں بتا سکتی ہیں کہ علم دین اور دیگر واقعات میں کیا فرق ہے کہ ایک حق اور دوسرے غلط؟
عشق رسول پاک ﷺ سچے اور پکے مومن اور مسلمان کی معراج ،پہچان اور نشانی ہے۔ غازی علم دین شہید کا شمار بھی ان ہی عاشقان رسول میں ہوتا ہے۔۔دوسری طرف خالد خان
نے کمرۂ عدالت میں فائرنگ کرکے ملزم کو قتل کردیا اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا ۔پھر بھی خیبر پختونخواہ کے مذہبی حلقو ں نے پشاور میں
خالد خان کے حق ریلیاں نکالیں اور گستاخ رسولﷺ کی رہائی۔ کا مطالبہ کیا ہے ۔یہاں میں صرف یہ کہنا بہتر سمجھتی ہوں کہ اس بحث کو یہیں تمام کیا جائے کیونکہ اپنی ناقص علمی کو تسلیم کرتے ہوئے بحث کو آگے نہیں بڑھانا چاہتی۔۔۔اللہ مجھےایمان کے اس کمزور درجہ پر بھی قائم رکھے تو میری بقا ہے اور پروردگار ہمارا خاتمہ بالخیر اور ایمان پر کرے۔۔۔۔آمین الہی آمین
[/QUOTE]

نور بٹیا!!!!!
جیتی رہیے۔۔۔ڈھیر ساری دعائیں۔۔۔۔بحث تمام کریں تو بہتری ہے نہ ہم دین پہ وہ دسترس رکھتے ہیں نہ قانون پہ۔۔۔۔۔
بحث کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس پر سوچیں اور غور کریں کہ ان تمام کیسز میں علم دین کی مثال کیوں سامنے آتی ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
عشق رسول پاک ﷺ سچے اور پکے مومن اور مسلمان کی معراج ،پہچان اور نشانی ہے۔ غازی علم دین شہید کا شمار بھی ان ہی عاشقان رسول میں ہوتا ہے۔۔دوسری طرف خالد خان
نے کمرۂ عدالت میں فائرنگ کرکے ملزم کو قتل کردیا اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا ۔پھر بھی خیبر پختونخواہ کے مذہبی حلقو ں نے پشاور میں
خالد خان کے حق ریلیاں نکالیں اور گستاخ رسولﷺ کی رہائی۔ کا مطالبہ کیا ہے ۔یہاں میں صرف یہ کہنا بہتر سمجھتی ہوں کہ اس بحث کو یہیں تمام کیا جائے کیونکہ اپنی ناقص علمی کو تسلیم کرتے ہوئے بحث کو آگے نہیں بڑھانا چاہتی۔۔۔اللہ مجھےایمان کے اس کمزور درجہ پر بھی قائم رکھے تو میری بقا ہے اور پروردگار ہمارا خاتمہ بالخیر اور ایمان پر کرے۔۔۔۔آمین الہی آمین


بحث کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس پر سوچیں اور غور کریں کہ ان تمام کیسز میں علم دین کی مثال کیوں سامنے آتی ہے[/QUOTE]
عوام نے بُہت سراہا ہے اس واقعے کو صدیوں تک، اسی لیے ۔ آپ کی بات میں سمجھ رہی ہوں اور کسی حد تک متفق بھی ہوں.
 
Top