کوئی زبان تمام ملک میں یکساں طور پر اس وقت تک شائع نہین ہو سکتی جب تک کہ مندرجہ ذیل ذریعے ملک میں مہیا نہ ہوں :
1 ) اس زبان کی معتبر اور جامع ڈکشنری کا تیار ہونا
2 ) اس کی جامع گریمر کا مرتب ہونا
3 ) اس میں کثرت سے نظر و نثر کی کتابوں کا تصنیف و تالیف ہو کر شائع ہونا۔
4 ) اس زبان کے خیالات اور رسائل کا تمام اطراف و جوانب ملک میں اشاعت پانا۔
ظاہر ہے کہ نہ آج تک اردو کی کوئی جامع اور مستند ڈکشنری تیار ہوئی ہے اور نہ اس کی کوئی ایسی گریمر لکھی گئی ہے جس سے زبان سیکھنے میں کافی مدد ملنے کی امید ہو۔ اردو میں تصنیف و تالیف کا رواج اور اخبارات وغیرہ کی شاعر زیادہ تر بیس پچیس برس سے ہوئی ہے اور اس قدر قلیل مدت زبان کی ترویج کے لیے کافی نہیں ہو سکتی۔
اگرچہ یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ اردو لٹریچر کی جس قدر اشاعت ملک میں زیادہ ہوتی جاتی ہے اسی قدر اردو زبان کی تحریر اور نظم و نثر لکھنے کا طریقہ اطراف ہندوستان میں عموما بڑھتا جاتا ہے۔
لیکن شاعرانہ خیالات اور خاص کر نیچرل شاعری کے فرائض ٹکسالی زبان میں ادا کرنے کے لیے ایسے محدود ذریعے شاید کافی نہ ہوں۔ اگرچہ ایک جامع اور مستند ڈکشنری بھی (اگر کوئی ہو) اس مقصد کے پورا کرنے میں بہت کچھ مدد پہنچا سکتی ہے۔ مگر اس باب میں سب سے زیادہ مفید اہل زبان کی صحبت اور ان کی سوسائٹی میں اتنی مدت تک بسر کرنا ہے کہ ان کے الفاظ و محاورات بقدر معتدبہ نامعلوم طور پر زبان پر چڑھ جائیں لیکن چونکہ ایسا موقع ہر شخص کو ملنا دشوار ہے اس لیے ضروری ہے کہ شعرائے اہل زبان کا کلام جس قدر زیادہ ممکن ہو غور اور توجہ سے بار بار دیکھا جائے نہ اس ارادے سے کہ خیالات اور مضامین میں ان کی تقلید کی جائے بلکہ اس نظر سے کہ وہ الفاظ اور محاورات کو کس طرح استعمال کرتے ہیں اور خیالات کو کن اسلوبوں اور کن پیرایوں میں ادا کرتے ہیں
ابن خلدون کہتے ہیں کہ "ایک عجمی فصحائے عرب کے کلام کی ممارست سے اہل زبان میں شمار ہونے کے لائق ہو سکتا ہے۔" پس ہندوستان کے باشندے اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ اہل زبان کے کلام کی مزاولت سے مثل اہل زبان کے سمجھے جائیں۔
اگرچہ دلی کے بہت سے عمدہ شاعروں کا کلام ابھی تک شائع نہیں ہوا۔ جیسے خواجہ میر اثر، شاہ نصیر، میر ممنون، معروف، عارف وغیرہ حالانکہ ان بزرگوں کے مبسوط اور ضخیم دیوان موجود ہیں۔ لکھنئو میں کچھ عجب نہیں کہ وہاں کے بعض مستند لوگوں کا کلام شائع نہ ہوا ہو۔ لیکن جن لوگوں کے دیوان اور کلیات شائع ہو چکے ہیں ان کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔ اور ان میں میر، سودا، درد، جرات، انشا، مصحفی، میر حسن، ناسخ، آتش، وزیر، غالب، ذوق، ظفر، شیفتہ، داغ، سالگ، شوق، رند، اسیر، برق، امیر و غیر ہم کا ہر قسم کا کلام خواہ غزل ہو خواہ مثنوی خواہ قصیدہ خواہ قطعہ و رباعی خواہ واسوخت سب دیکھنا چاہیے اور سب سے زیادہ اہم اور ضروری خلیق، ضمیر، انیس، دبیر اور مونس و غیر ہم کے مرثیوں کا مطالعہ ہے اگرچہ بعضے دیوان اور مثنویاں جنکا اوپر ذکر کیا گیا سراسر لغو خیالات اور بیہودہ مضامین سے بھری ہوئی ہیں۔
لیکن جو لوگ محض زبان سے غرض رکھتے ہیں۔ انکو خیالات کی لغویت اور مضامین کی بیہودگی سے چشم پوشی اور اغماض کرنا چاہیے اور نہایت صبر و تحمل کے ساتھ الفاظ و محاورات اور طرزِ ادا اور اندازِ بیان پر ہمت مقصود رکھنی اور خذ ما صفا ودع ما کدر پر عمل کرنا چاہیے۔ نظم کے علاوہ اردو لٹریچر میں جس قدر علمی، تاریخی، مذہبی اور اخلاقی مضامین پر مستند اہل زبان نے کتابیں لکھی ہیں، ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔
جو لوگ اپنے تئیں اردو زبان کا مالک سمجھتے ہیں یعنی اہل دہلی اور یا اہل لکھنئو انکو اس بات پر فخر کرنا نہیں چاہیے کہ ہماری زبان کا لوگ اتباع کرتے ہیں اور ہمارے روزمرہ کی پیروی کی جاتی ہے۔ ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر وہ اپنی زبان کی خبر نہ لیں گے، اس کے محفوظ رکھنے کے وسائل بہم نہ پہنچائیں گے۔ اس کے الفاظ و محاورات کو نہایت احتیاط کے ساتھ فراہم اور مرتب نہ کریں گے اور اس کی نظم و نثر کو زمانہ کے مذاق کے موافق ترقی نہ دیں گے تو ان کی زبان کو وہ حصہ جس پر ان کو فخر ہے اور جو ان کی اور تمام ہندوستان کی اردو میں مابہ الامتیاز ہے وہ حرفِ غلط کی طرح صفحہ روزگار سے محو ہو جائے گا اور یہی بری بھلی اردو جو عام اخبارات اور جدید تصنیفات کے ذریعہ سے ملک میں پھیل رہی ہے اور جس کو وہ اب تک حقارت کی نظر سے دیکھتے رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ نصف صدی میں ملک کی ٹکسالی اور فصیح زبان قرار پا جائے گی۔ کیا ان کو معلوم نہیں ہے کہ عرب میں جب شعر و انشا کی سرد باز ادی ہوئی اور عربی نظم و نثر کے مالک غیر ملکوں کے باشندے ہو گئے۔ رفتہ رفتہ وہ کلیسکل عربی جس پر عربوں کو ناز تھا، لٹریری دنیا سے رخصت ہو گئی اور وہی بچھڑی زبان جس کو عرب عربا حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے، تمام عربی لٹریچر پر چھا گئی اور شام و روم و مصر و بربر و سوڈان وغیرہ میں عموما پھیل گئی۔ یہاں تک کہ آج وہی زبان ٹکسالی اور فصیح عربی سمجھی جاتی ہے۔ ایسا ہی انجام دلی اور لکھنئو کی زبان کا اگر اس کی جلد خبر نہ لی گئی، ہوتا نظر آتا ہے۔ دلی جس کو اردوئے معلٰی کا مسقط الراس اور جنم بھوم کہنا چاہیے۔ وہاں مصنف اوناظم و تاثر پیدا ہونے موقوف ہو گئے ہیں۔ پرانے لوگوں میں سے چند نفوس جن کو چراغ سحری سمجھنا چاہیے باقی رہ گئے ہیں ان کے بعد بالکل سناٹا نظر آتا ہے۔ لکھنئو کا حال اگرچہ بظاہر ایسا نہیں معلوم ہوتا وہاں شاعری کا چرچا دلی سے بہت زیادہ سننے میں آتا ہے۔ وہاں سے نوول اور دراما برابر ملک میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ ان کا قدم زمانہ کی رفتار کے متوازی نہیں اٹھتا۔ وہ جس قدر آگے بڑھتے جاتے ہیں اسی قدر ترقی کے رستے سے دور ہوتے جاتے ہیں۔
لنک
مقدمہ شعر و شاعری از الطاف حسین حالی - صفحہ 46 سے 104