حروف تہجی سے 'ق' باہر نکال پھینکا

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم
بادل برس چکے 'مطلع صاف ہوگیا تو سوچا کچھ مطالعہ کی غرض سے پیش کیا جائے 'جس پر ٹھنڈے دل سے غور کیا جا سکے -"مقدّمہ شعر و شاعری" از الطاف حسین حالی اردو ادب کی نہایت معتبر کتاب ہے جو نام کا مقدّمہ ہے مگر کام فیصلے کے آتی ہے -چند اقتباسات اس کتاب سے حاضر ہیں جو یہاں اردو محفل میں بھی موجود ہے -
 

یاسر شاہ

محفلین
زبان کو درستی کے ساتھ استعمال کرنا :

تیسری بات زبان اردو کو درستی اور صفائی کے ساتھ استعمال کرنا ہے۔ اگرچہ اردو کم و بیش تمام اطراف ہندوستان میں متداول ہے۔ لیکن ممکن ہے کہ بعض ممالک کے باشندے اپنی خاص زبان میں بہ نسبت اردو زبان کے زیادہ آسانی سے شعر سر انجام کر سکیں۔

پس اگر ہمارے ہم وطنوں میں کوئی شخص اپنی خاص زبان میں شعر کہنا چاہے تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہے۔ کیونکہ مادری زبان سے بہتر اور سہل تر کوئی آلہ اظہار خیالات کا نہیں ہو سکتا۔ لارڈ بکالے کا قول ہے کہ "کوئی عمدہ کلام جو خیالات کا مجموعہ ہو کبھی کسی شخص نے سرانجام نہیں کیا مگر ایسی زبان میں جس کی نسبت اس کو مطلق یاد نہ ہو کہ کب سیکھی اور کیونکر سیکھی اور جس کی گریمر جاننے سے پہلے وہ ایک مدت تک اس میں گفتگو کرتا رہا۔" وہ لکھتے ہیں کہ "روما کے بڑے بڑے لائق آدمیوں نے فرانسیسی زبان میں اشعار لکھے۔ مگر ان میں سے کوئی شعر صفحہ روزگار پر یادگار نہ رہا۔ انگلستان کے بہت سے خوش فکر اور طباع آدمیوں نے لاطینی میں دیوان مرتب کئے۔ مگر ان میں سے ایک دیوان بھی یہاں تک کہ ملٹن کا دیوان بھی شاعری کے لحاظ سے اول درجہ کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ دوسرے درجہ میں بھی کچھ امتیاز نہیں رکھتا۔" پس جیسا کہ ملکہ شاعری ایک فطری اور جبلی چیز ہے، اسی طرح اس کو کام لانے کے لیے ایسے آلہ کا استعمال زیادہ مناسب ہو گا جو بمنزلہ فطری اور جبلی چیزوں کے ہو اور وہ مادری زبان کے سوا اور کوئی زبان نہیں ہو سکتی۔

لیکن چونکہ اردو زبان ہندوستان کی اور تمام زندہ زبانوں کی نسبت بالاتفاق زیادہ وسیع اور خیالات ادا کرنے کے زیادہ لائق ہے۔ تمام اطراف ہندوستان میں عموما بولی اور سمجھی جاتی ہے اور اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ اسی کو ہندوستان کی قومی زبان بنایا جائے اور جہاں تک ممکن ہو اسی کو ترقی دی جائے نیز اس کا حاصل کرنا اور اس میں مہارت بہم پہنچانی ہندوستان کے باشندوں کو اتنی دشوار نہیں ہے جتنی کہ اور غیر مادری زبانوں میں دشوار ہوتی ہے۔

اس کے سوا ہندوستان کی تمام زندہ زبانوں میں بالفعل کوئی زبان ایسی نہیں معلوم ہوتی جس میں اردو کے برابر شعر کا ذخیرہ موجود ہو۔ اس لیے یہ زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہم وطنوں میں جو شخص شعر کہنا اختیار کرئے وہ اردو ہی کو اپنے خیالات ظاہر کرنے کا آلہ قرار دے۔

ہندوستان میں جیسا کہ عموما تسلیم کیا جاتا ہے کہ صرف دو شہر ہیں جہاں کی اردو معتبر سمجھی جاتی ہے دلی اور لکھنئو۔ دلی کی زبان اس لیے ٹکسالی زبان شمجھی جاتی ہے کہ اردو کہ حدوث اور نشوونما اسی خطہ میں ہوا ہے۔ لکھنئو کی زبان کو اس واسطے مستند مانا جاتا ہے کہ سلطنت مغلیہ کے زوال کی ابتدا سے شرفائے دہلی کے بے شمار خاندان ایک مدت تک لکھنئو میں جا جا کر آباد ہوتے رہے اور ہمیشہ کے لیے وہیں رہ پڑے۔ پس ہندوستان کے کسی شہر کو اہل دہلی سے اس قدر میل جول کو موقع نہیں ملا جس قدر لکھنئو کو ملا ہے۔ یہاں تک کہ دونوں شہروں کی زبان میں ایک خاص مماثلت پیدا ہو گئی ہے اور خاص خاص الفاظ و محاورات کے سوا دونوں جگہ کی بول چال اور لب و لہجہ میں کوئی معتدبہ فرق نہیں معلوم ہوتا۔
 

یاسر شاہ

محفلین
کوئی زبان تمام ملک میں یکساں طور پر اس وقت تک شائع نہین ہو سکتی جب تک کہ مندرجہ ذیل ذریعے ملک میں مہیا نہ ہوں :

1 ) اس زبان کی معتبر اور جامع ڈکشنری کا تیار ہونا
2 ) اس کی جامع گریمر کا مرتب ہونا
3 ) اس میں کثرت سے نظر و نثر کی کتابوں کا تصنیف و تالیف ہو کر شائع ہونا۔
4 ) اس زبان کے خیالات اور رسائل کا تمام اطراف و جوانب ملک میں اشاعت پانا۔

ظاہر ہے کہ نہ آج تک اردو کی کوئی جامع اور مستند ڈکشنری تیار ہوئی ہے اور نہ اس کی کوئی ایسی گریمر لکھی گئی ہے جس سے زبان سیکھنے میں کافی مدد ملنے کی امید ہو۔ اردو میں تصنیف و تالیف کا رواج اور اخبارات وغیرہ کی شاعر زیادہ تر بیس پچیس برس سے ہوئی ہے اور اس قدر قلیل مدت زبان کی ترویج کے لیے کافی نہیں ہو سکتی۔

اگرچہ یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ اردو لٹریچر کی جس قدر اشاعت ملک میں زیادہ ہوتی جاتی ہے اسی قدر اردو زبان کی تحریر اور نظم و نثر لکھنے کا طریقہ اطراف ہندوستان میں عموما بڑھتا جاتا ہے۔ لیکن شاعرانہ خیالات اور خاص کر نیچرل شاعری کے فرائض ٹکسالی زبان میں ادا کرنے کے لیے ایسے محدود ذریعے شاید کافی نہ ہوں۔ اگرچہ ایک جامع اور مستند ڈکشنری بھی (اگر کوئی ہو) اس مقصد کے پورا کرنے میں بہت کچھ مدد پہنچا سکتی ہے۔ مگر اس باب میں سب سے زیادہ مفید اہل زبان کی صحبت اور ان کی سوسائٹی میں اتنی مدت تک بسر کرنا ہے کہ ان کے الفاظ و محاورات بقدر معتدبہ نامعلوم طور پر زبان پر چڑھ جائیں لیکن چونکہ ایسا موقع ہر شخص کو ملنا دشوار ہے اس لیے ضروری ہے کہ شعرائے اہل زبان کا کلام جس قدر زیادہ ممکن ہو غور اور توجہ سے بار بار دیکھا جائے نہ اس ارادے سے کہ خیالات اور مضامین میں ان کی تقلید کی جائے بلکہ اس نظر سے کہ وہ الفاظ اور محاورات کو کس طرح استعمال کرتے ہیں اور خیالات کو کن اسلوبوں اور کن پیرایوں میں ادا کرتے ہیں

ابن خلدون کہتے ہیں کہ "ایک عجمی فصحائے عرب کے کلام کی ممارست سے اہل زبان میں شمار ہونے کے لائق ہو سکتا ہے۔" پس ہندوستان کے باشندے اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ اہل زبان کے کلام کی مزاولت سے مثل اہل زبان کے سمجھے جائیں۔

اگرچہ دلی کے بہت سے عمدہ شاعروں کا کلام ابھی تک شائع نہیں ہوا۔ جیسے خواجہ میر اثر، شاہ نصیر، میر ممنون، معروف، عارف وغیرہ حالانکہ ان بزرگوں کے مبسوط اور ضخیم دیوان موجود ہیں۔ لکھنئو میں کچھ عجب نہیں کہ وہاں کے بعض مستند لوگوں کا کلام شائع نہ ہوا ہو۔ لیکن جن لوگوں کے دیوان اور کلیات شائع ہو چکے ہیں ان کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔ اور ان میں میر، سودا، درد، جرات، انشا، مصحفی، میر حسن، ناسخ، آتش، وزیر، غالب، ذوق، ظفر، شیفتہ، داغ، سالگ، شوق، رند، اسیر، برق، امیر و غیر ہم کا ہر قسم کا کلام خواہ غزل ہو خواہ مثنوی خواہ قصیدہ خواہ قطعہ و رباعی خواہ واسوخت سب دیکھنا چاہیے اور سب سے زیادہ اہم اور ضروری خلیق، ضمیر، انیس، دبیر اور مونس و غیر ہم کے مرثیوں کا مطالعہ ہے اگرچہ بعضے دیوان اور مثنویاں جنکا اوپر ذکر کیا گیا سراسر لغو خیالات اور بیہودہ مضامین سے بھری ہوئی ہیں۔ لیکن جو لوگ محض زبان سے غرض رکھتے ہیں۔ انکو خیالات کی لغویت اور مضامین کی بیہودگی سے چشم پوشی اور اغماض کرنا چاہیے اور نہایت صبر و تحمل کے ساتھ الفاظ و محاورات اور طرزِ ادا اور اندازِ بیان پر ہمت مقصود رکھنی اور خذ ما صفا ودع ما کدر پر عمل کرنا چاہیے۔ نظم کے علاوہ اردو لٹریچر میں جس قدر علمی، تاریخی، مذہبی اور اخلاقی مضامین پر مستند اہل زبان نے کتابیں لکھی ہیں، ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔

جو لوگ اپنے تئیں اردو زبان کا مالک سمجھتے ہیں یعنی اہل دہلی اور یا اہل لکھنئو انکو اس بات پر فخر کرنا چاہیے کہ ہماری زبان کا لوگ اتباع کرتے ہیں اور ہمارے روزمرہ کی پیروی کی جاتی ہے۔ ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر وہ اپنی زبان کی خبر نہ لیں گے، اس کے محفوظ رکھنے کے وسائل بہم نہ پہنچائیں گے۔ اس کے الفاظ و محاورات کو نہایت احتیاط کے ساتھ فراہم اور مرتب نہ کریں گے اور اس کی نظم و نثر کو زمانہ کے مذاق کے موافق ترقی نہ دیں گے تو ان کی زبان کو وہ حصہ جس پر ان کو فخر ہے اور جو ان کی اور تمام ہندوستان کی اردو میں مابہ الامتیاز ہے وہ حرفِ غلط کی طرح صفحہ روزگار سے محو ہو جائے گا اور یہی بری بھلی اردو جو عام اخبارات اور جدید تصنیفات کے ذریعہ سے ملک میں پھیل رہی ہے اور جس کو وہ اب تک حقارت کی نظر سے دیکھتے رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ نصف صدی میں ملک کی ٹکسالی اور فصیح زبان قرار پا جائے گی۔ کیا ان کو معلوم نہیں ہے کہ عرب میں جب شعر و انشا کی سرد باز ادی ہوئی اور عربی نظم و نثر کے مالک غیر ملکوں کے باشندے ہو گئے۔ رفتہ رفتہ وہ کلیسکل عربی جس پر عربوں کو ناز تھا، لٹریری دنیا سے رخصت ہو گئی اور وہی بچھڑی زبان جس کو عرب عربا حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے، تمام عربی لٹریچر پر چھا گئی اور شام و روم و مصر و بربر و سوڈان وغیرہ میں عموما پھیل گئی۔ یہاں تک کہ آج وہی زبان ٹکسالی اور فصیح عربی سمجھی جاتی ہے۔ ایسا ہی انجام دلی اور لکھنئو کی زبان کا اگر اس کی جلد خبر نہ لی گئی، ہوتا نظر آتا ہے۔ دلی جس کو اردوئے معلٰی کا مسقط الراس اور جنم بھوم کہنا چاہیے۔ وہاں مصنف اوناظم و تاثر پیدا ہونے موقوف ہو گئے ہیں۔ پرانے لوگوں میں سے چند نفوس جن کو چراغ سحری سمجھنا چاہیے باقی رہ گئے ہیں ان کے بعد بالکل سناٹا نظر آتا ہے۔ لکھنئو کا حال اگرچہ بظاہر ایسا نہیں معلوم ہوتا وہاں شاعری کا چرچا دلی سے بہت زیادہ سننے میں آتا ہے۔ وہاں سے نوول اور دراما برابر ملک میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ ان کا قدم زمانہ کی رفتار کے متوازی نہیں اٹھتا۔ وہ جس قدر آگے بڑھتے جاتے ہیں اسی قدر ترقی کے رستے سے دور ہوتے جاتے ہیں۔


لنک مقدمہ شعر و شاعری از الطاف حسین حالی - صفحہ 46 سے 104
 

فاخر رضا

محفلین
سلام
میں مضمون نگار سے متفق ہوں کہ پرنٹ میڈیا سے آئے افراد کا تلفظ پھر بھی غنیمت ہے مگر جو مارننگ شو ہوسٹ، خواتین اینکر اور برگر نما بچے مختلف چینلز پر اردو کی مٹی پلید کررہے ہیں ان کا سدباب ہونا چاہیے
ق کو ک تو بہت سنا تھا اور اب کھلتا بھی کم تھا مگر یہ برگر بچے خ کو کھ کہ کر فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم بھی ماڈرن تلفظ بول سکتے ہیں
جہاں تک عرب لہجوں کا تعلق ہے ان پر ہم کیا کمینٹ کرسکتے ہیں. میرے ایک استاد ایک عرب سے بات کررہے تھے. ان کی گفتگو کے بعد میں نے پوچھا کہ کیا کہ رہے تھے یہ مریض تو بولے کہ میں ایک لفظ بھی نہیں سمجھ سکا.
فارسی کی مجالس سنیں تو کہیں کہیں ایران میں ایسی فارسی بولی جاتی ہے جو خود ایرانیوں کو مشکل سے سمجھ آتی ہے اور رقت صرف انداز کی وجہ سے ہورہی ہوتی ہے
مضمون نگار نے اردو تلفظ کی حفاظت کی اہمیت کو بہت احسن طریقے سے واضح کیا ہے. مجھے کسی بھی کمینٹ میں ان کے مضمون پر اعتراض نظر نہیں آیا.
کراچی میں کچھ اسکولوں میں امریکہ کے بزرگوں سے، جو اولڈ ہومز میں رہ رہے ہیں، بچوں کی آن لائن گفتگو کرائی جاتی ہے تاکہ بچے انگریزی کا صحیح تلفظ سیکھ سکیں. ساتھ ہی ساتھ امریکی ثقافت سے بھی آشنا ہوسکیں. میرے خیال میں ایسی کوششیں قابل ستائش ہیں اور مختلف ماہرینِ اردو کے ساتھ ایسی محافل رکھنی چاہئیں تاکہ ہمارے بچے ہمارے بعد اردو کی حفاظت کرسکیں
اہل زبان کی بجائے اردو اسپیکنگ کا لفظ مناسب ہے
ساتھ ہی ساتھ معیار اہل زبان یا اردو اسپیکنگ نہیں بلکہ ماہرینِ زبان ہوتے ہیں
 

یاسر شاہ

محفلین
مقدّمہ شعر و شاعری کتاب میرے پاس موجود ہے -یہ عبارت کچھ کھٹک رہی تھی :
"اہل دہلی اور یا اہل لکھنئو انکو اس بات پر فخر کرنا چاہیے کہ ہماری زبان کا لوگ اتباع کرتے ہیں اور ہمارے روزمرہ کی پیروی کی جاتی ہے۔"
سوچا کتاب میں دیکھ لوں وہاں یہ عبارت یوں تھی :
"اہل دہلی اور یا اہل لکھنئو انکو اس بات پر فخر کرنا نہیں چاہیے........................................................................-"
شمشاد صاحب سے ٹائپ کرتے ہوئے غلطی ہو گئی ہے -اسے درست کر لیا جائے -ورنہ اردو بولنا آئے نہ آئے ہم فخر ضرور کرینگے:? -
 

یاسر شاہ

محفلین
کوئی زبان تمام ملک میں یکساں طور پر اس وقت تک شائع نہین ہو سکتی جب تک کہ مندرجہ ذیل ذریعے ملک میں مہیا نہ ہوں :

1 ) اس زبان کی معتبر اور جامع ڈکشنری کا تیار ہونا
2 ) اس کی جامع گریمر کا مرتب ہونا
3 ) اس میں کثرت سے نظر و نثر کی کتابوں کا تصنیف و تالیف ہو کر شائع ہونا۔
4 ) اس زبان کے خیالات اور رسائل کا تمام اطراف و جوانب ملک میں اشاعت پانا۔

ظاہر ہے کہ نہ آج تک اردو کی کوئی جامع اور مستند ڈکشنری تیار ہوئی ہے اور نہ اس کی کوئی ایسی گریمر لکھی گئی ہے جس سے زبان سیکھنے میں کافی مدد ملنے کی امید ہو۔ اردو میں تصنیف و تالیف کا رواج اور اخبارات وغیرہ کی شاعر زیادہ تر بیس پچیس برس سے ہوئی ہے اور اس قدر قلیل مدت زبان کی ترویج کے لیے کافی نہیں ہو سکتی۔

اگرچہ یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ اردو لٹریچر کی جس قدر اشاعت ملک میں زیادہ ہوتی جاتی ہے اسی قدر اردو زبان کی تحریر اور نظم و نثر لکھنے کا طریقہ اطراف ہندوستان میں عموما بڑھتا جاتا ہے۔ لیکن شاعرانہ خیالات اور خاص کر نیچرل شاعری کے فرائض ٹکسالی زبان میں ادا کرنے کے لیے ایسے محدود ذریعے شاید کافی نہ ہوں۔ اگرچہ ایک جامع اور مستند ڈکشنری بھی (اگر کوئی ہو) اس مقصد کے پورا کرنے میں بہت کچھ مدد پہنچا سکتی ہے۔ مگر اس باب میں سب سے زیادہ مفید اہل زبان کی صحبت اور ان کی سوسائٹی میں اتنی مدت تک بسر کرنا ہے کہ ان کے الفاظ و محاورات بقدر معتدبہ نامعلوم طور پر زبان پر چڑھ جائیں لیکن چونکہ ایسا موقع ہر شخص کو ملنا دشوار ہے اس لیے ضروری ہے کہ شعرائے اہل زبان کا کلام جس قدر زیادہ ممکن ہو غور اور توجہ سے بار بار دیکھا جائے نہ اس ارادے سے کہ خیالات اور مضامین میں ان کی تقلید کی جائے بلکہ اس نظر سے کہ وہ الفاظ اور محاورات کو کس طرح استعمال کرتے ہیں اور خیالات کو کن اسلوبوں اور کن پیرایوں میں ادا کرتے ہیں

ابن خلدون کہتے ہیں کہ "ایک عجمی فصحائے عرب کے کلام کی ممارست سے اہل زبان میں شمار ہونے کے لائق ہو سکتا ہے۔" پس ہندوستان کے باشندے اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ اہل زبان کے کلام کی مزاولت سے مثل اہل زبان کے سمجھے جائیں۔

اگرچہ دلی کے بہت سے عمدہ شاعروں کا کلام ابھی تک شائع نہیں ہوا۔ جیسے خواجہ میر اثر، شاہ نصیر، میر ممنون، معروف، عارف وغیرہ حالانکہ ان بزرگوں کے مبسوط اور ضخیم دیوان موجود ہیں۔ لکھنئو میں کچھ عجب نہیں کہ وہاں کے بعض مستند لوگوں کا کلام شائع نہ ہوا ہو۔ لیکن جن لوگوں کے دیوان اور کلیات شائع ہو چکے ہیں ان کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔ اور ان میں میر، سودا، درد، جرات، انشا، مصحفی، میر حسن، ناسخ، آتش، وزیر، غالب، ذوق، ظفر، شیفتہ، داغ، سالگ، شوق، رند، اسیر، برق، امیر و غیر ہم کا ہر قسم کا کلام خواہ غزل ہو خواہ مثنوی خواہ قصیدہ خواہ قطعہ و رباعی خواہ واسوخت سب دیکھنا چاہیے اور سب سے زیادہ اہم اور ضروری خلیق، ضمیر، انیس، دبیر اور مونس و غیر ہم کے مرثیوں کا مطالعہ ہے اگرچہ بعضے دیوان اور مثنویاں جنکا اوپر ذکر کیا گیا سراسر لغو خیالات اور بیہودہ مضامین سے بھری ہوئی ہیں۔ لیکن جو لوگ محض زبان سے غرض رکھتے ہیں۔ انکو خیالات کی لغویت اور مضامین کی بیہودگی سے چشم پوشی اور اغماض کرنا چاہیے اور نہایت صبر و تحمل کے ساتھ الفاظ و محاورات اور طرزِ ادا اور اندازِ بیان پر ہمت مقصود رکھنی اور خذ ما صفا ودع ما کدر پر عمل کرنا چاہیے۔ نظم کے علاوہ اردو لٹریچر میں جس قدر علمی، تاریخی، مذہبی اور اخلاقی مضامین پر مستند اہل زبان نے کتابیں لکھی ہیں، ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔

جو لوگ اپنے تئیں اردو زبان کا مالک سمجھتے ہیں یعنی اہل دہلی اور یا اہل لکھنئو انکو اس بات پر فخر کرنا نہیں چاہیے کہ ہماری زبان کا لوگ اتباع کرتے ہیں اور ہمارے روزمرہ کی پیروی کی جاتی ہے۔ ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر وہ اپنی زبان کی خبر نہ لیں گے، اس کے محفوظ رکھنے کے وسائل بہم نہ پہنچائیں گے۔ اس کے الفاظ و محاورات کو نہایت احتیاط کے ساتھ فراہم اور مرتب نہ کریں گے اور اس کی نظم و نثر کو زمانہ کے مذاق کے موافق ترقی نہ دیں گے تو ان کی زبان کو وہ حصہ جس پر ان کو فخر ہے اور جو ان کی اور تمام ہندوستان کی اردو میں مابہ الامتیاز ہے وہ حرفِ غلط کی طرح صفحہ روزگار سے محو ہو جائے گا اور یہی بری بھلی اردو جو عام اخبارات اور جدید تصنیفات کے ذریعہ سے ملک میں پھیل رہی ہے اور جس کو وہ اب تک حقارت کی نظر سے دیکھتے رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ نصف صدی میں ملک کی ٹکسالی اور فصیح زبان قرار پا جائے گی۔ کیا ان کو معلوم نہیں ہے کہ عرب میں جب شعر و انشا کی سرد باز ادی ہوئی اور عربی نظم و نثر کے مالک غیر ملکوں کے باشندے ہو گئے۔ رفتہ رفتہ وہ کلیسکل عربی جس پر عربوں کو ناز تھا، لٹریری دنیا سے رخصت ہو گئی اور وہی بچھڑی زبان جس کو عرب عربا حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے، تمام عربی لٹریچر پر چھا گئی اور شام و روم و مصر و بربر و سوڈان وغیرہ میں عموما پھیل گئی۔ یہاں تک کہ آج وہی زبان ٹکسالی اور فصیح عربی سمجھی جاتی ہے۔ ایسا ہی انجام دلی اور لکھنئو کی زبان کا اگر اس کی جلد خبر نہ لی گئی، ہوتا نظر آتا ہے۔ دلی جس کو اردوئے معلٰی کا مسقط الراس اور جنم بھوم کہنا چاہیے۔ وہاں مصنف اوناظم و تاثر پیدا ہونے موقوف ہو گئے ہیں۔ پرانے لوگوں میں سے چند نفوس جن کو چراغ سحری سمجھنا چاہیے باقی رہ گئے ہیں ان کے بعد بالکل سناٹا نظر آتا ہے۔ لکھنئو کا حال اگرچہ بظاہر ایسا نہیں معلوم ہوتا وہاں شاعری کا چرچا دلی سے بہت زیادہ سننے میں آتا ہے۔ وہاں سے نوول اور دراما برابر ملک میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ ان کا قدم زمانہ کی رفتار کے متوازی نہیں اٹھتا۔ وہ جس قدر آگے بڑھتے جاتے ہیں اسی قدر ترقی کے رستے سے دور ہوتے جاتے ہیں۔


لنک مقدمہ شعر و شاعری از الطاف حسین حالی - صفحہ 46 سے 104
 
مقدّمہ شعر و شاعری کتاب میرے پاس موجود ہے -یہ عبارت کچھ کھٹک رہی تھی :
"اہل دہلی اور یا اہل لکھنئو انکو اس بات پر فخر کرنا چاہیے کہ ہماری زبان کا لوگ اتباع کرتے ہیں اور ہمارے روزمرہ کی پیروی کی جاتی ہے۔"
سوچا کتاب میں دیکھ لوں وہاں یہ عبارت یوں تھی :
"اہل دہلی اور یا اہل لکھنئو انکو اس بات پر فخر کرنا نہیں چاہیے........................................................................-"
شمشاد صاحب سے ٹائپ کرتے ہوئے غلطی ہو گئی ہے -اسے درست کر لیا جائے -ورنہ اردو بولنا آئے نہ آئے ہم فخر ضرور کرینگے:? -
اس مراسلے تک رہنمائی فرما دیں، جہاں تصحیح کی ضرورت ہے۔
اور اصل عبارت بھی لکھ دیں۔
 
عبارت اسی طرح لکھنی ہے؟
فخر کرنا نہیں چاہیے
"اہل دہلی اور یا اہل لکھنئو انکو اس بات پر فخر کرنا نہیں چاہیے........................................................................-"
 

فاخر رضا

محفلین
ماہرین زبان کے لیے اہل زبان ہونا یا ان کی اتباع دونوں ضروری نہیں. کراچی کے آپ جس علاقے میں چلے جائیں ایک نئی بھانت کی زبان بولتے لوگ ملیں گے
کراچی کے اصل رہائشی تو ماڑی پور کی طرف رہتے ہیں ان کی زبان تو اہل زبان کے لیے بھی سمجھنا مشکل ہے
میمن بھی مہاجر ہیں ان سے اردو سن لیں. کراچی میں ہر صوبے سے آئے لوگ اردو کی ٹانگ توڑ رہے ہوتے ہیں.
ایسے میں اہل زبان کو ڈھونڈتے آپ اگر انڈیا پہنچ گئے تو وہاں کا حال بھی شاید مختلف نہ ملے. وہاں کا حال تو وہیں کے افراد بتائیں گے.
زبان شاید تحریری شکل میں مل جائے یا ضیاء.محی الدین کے پروگراموں میں یا انور مقصود کے ڈراموں میں یا اشفاق احمد کے زاویوں میں
غرض کسی ایک جگہ رہنے والوں کو مستند اور حرف آخر قرار دینا زیادتی ہے.
 

ابو ہاشم

محفلین
ماہرین زبان کے لیے اہل زبان ہونا یا ان کی اتباع دونوں ضروری نہیں.
اس سے تو اتفاق ہے کہ غیر اہلِ زبان بھی ماہرِِ زبان ہو سکتا ہے
لیکن 'ماہرِِ زبان کے لیے اہلِ زبان کی اتباع ضروری نہیں' اس بات کی ذرا وضاحت کر دیں
 

فاخر رضا

محفلین
اس سے تو اتفاق ہے کہ غیر اہلِ زبان بھی ماہرِِ زبان ہو سکتا ہے
لیکن 'ماہرِِ زبان کے لیے اہلِ زبان کی اتباع ضروری نہیں' اس بات کی ذرا وضاحت کر دیں
عام طور پر اہل زبان کی اتباع بے جان اشیاء وغیرہ کی جنس کے بارے میں ہوتی رہی ہے. اس معاملے میں بھی اہل زبان میں اختلاف ممکن ہے. آخر کار حجت ماہرینِ زبان ہی رہ جاتے ہیں یا کلاسک ادب سے استفادہ کرسکتے ہیں
 

ابو ہاشم

محفلین
* روزمرے اور محاورے میں
* الفاظ کے تلفظ میں
* قاعدوں سے استثنا میں (غلط العام میں)
ماہرینِِ زبان اہلِ زبان کا اتباع کرتے ہیں
 
ریحان بھائی آپ معاف کردیں بچوں کو
آپ کو پتہ ہے کہ یہ کی بورڈ کا ایرر ہے
ابو ہاشم بھائی نے ایک سے زیادہ جگہوں پر استعمال کیا اس لیے استفسار ضروری سمجھا. ماہرینِ لسانیات عموماً بہت سوچ بچار کے بعد کچھ تحریر کرتے ہیں.
 
Top