محسن وقار علی
محفلین
ایک ملک خدا داد میں اناج کم ہو گیا اور قحط کی صورت پیدا ہو گئی ۔اِس آفت کے قدرتی اور انسانی اسباب جاننے یا اُن کے تدارک کے لیے توکچھ نہ کیا گیا لیکن اس صورت حال کی ذمہ داری مرغے اور مرغیوں پر ڈال دی گئی۔ الزام یہ لگایا گیا کہ اُن کی بھوک اور حرص اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ انسانوں کے حصے کا اناج بھی کھا جاتے ہیں۔ کوتوال اعلیٰ حرکت میں آ گیا اور اُس نے نعرہ ء حق بلند کیا کہ ”حرکت میں ہی برکت ہے“ اور اعلان کیا کہ ملک خدا داد میں مرغیوں کے فارموں پر چھاپے مارے جائیں گے اور موٹی تازی مرغیاں پالنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ کوتوال جب سپاہیوں کو لے کر پہلے فارم پر پہنچا تو اُس نے مالک سے پوچھا کہ تم مرغیوں کو کتنا دانہ ڈالتے ہو؟ اُس بد بخت نے جواب دیا کہ میں تو اپنی مرغیوں کو دن میں تین ٹائم وافر دانہ ڈالتا ہوں اور اگر آپ کو شبہ ہو تو حضور خود اُن کے بھرے پوٹے چیک کر سکتے ہیں۔ یہ جواب سن کر کوتوال آگ بگولا ہو گیااور کہا کہ ملک میں انسانوں کے لیے اناج نہیں اور تم سارا اناج مرغیوں کو کھلا رہے ہو۔ سپاہیوں کو حکم دیا کہ اِسے گرفتار کر لو۔ ایک سپاہی نے پوچھا کہ حضور کس فوجداری دفعہ کے تحت؟ اُس پر کوتوال کو غصہ آ گیا اور وہ گرج کر بولاکہ ہم خود ہی فوجدارہیں اور خود ہی قانون ہیں تم بس اسے گرفتار کرو۔ اگلے فارم کے مالک سے جب وہی سوال پوچھا گیا تو اُس نے کہا کہ حضور میں تو اپنی مرغیوں کو اتنا کم دانہ ڈالتا ہوں کہ بس اِن کی سانس چلتی رہے۔ آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ میری مرغیاں کس قدر لاغر اور زندگی سے بیزار ہیں۔ کوتوال نے اس پرشدید برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ تم جانوروں پر ظلم کر رہے ہو کہ انہیں پیٹ بھر کھانا بھی نہیں دیتے اور اُسے بھی ہتھکڑیاں لگوا دیں۔ تیسرا فارم ایک میراثی کا تھا جس نے ملک میں گانے بجانے کی محفلوں اور ہنسی مذاق پر پابندی کے بعد فاقہ کشی سے بچنے کے لیے مرغیاں پالنے کا کاروبار شروع کیا تھا۔ اُس سے جب وہی سوال پوچھا گیا تو اُس نے کہا کہ ”سرکار ، میں تو اس کاروبار میں نیا نیا ہوں ۔ اس لیے ہر مرغی کو صبح چونی تھما دیتا ہوں۔ وہ اِس چونی سے جو گند بلا کھائے، یہ اُس کی مرضی ہے“۔ کوتوال اُس کے جواب پر بہت خوش ہوا اور قانون پر عمل داری کے انعام کے طورپر جیب سے ایک چونی نکال کر میراثی کو دی اور بولا کہ اس سے تم بھی آج جوگند بلا کھانا چاہو، کھا لینا۔ وہ ملک اب اپنے کوتوالوں سمیت اس صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے لیکن اپنا ملکِ خداداد تو ماشااللہ بدستور’ شاد باد‘ ہے اورہم منزلِ مراد پانے کے لیے آئین میں جنرل ضیاء کی طرف سے تحفہ میں دی گئی دفعہ62 اور 63 کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں سے سوالات پوچھ رہے ہیں اور غلط جواب دینے پر شاید انہیں جیلوں میں بھی جانا پڑے ۔ پاکستانی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق سندھ میں ایک ریٹرننگ افسر نے ایک امیدوار سے پوچھا کہ آپ کی کتنی بیویاں ہیں؟ اُس نے کہا’ دو‘ ۔ اگلا سوال تھا کہ آپ کس بیوی کے پاس کے رہتے ہو؟ امیدوار ہکا بکا رہ گیا۔اُس کی حیرانی و پریشانی دیکھتے ہوئے الیکشن افسر نے وضاحت کی کہ وہ سوال یہ جاننے کے لیے کر رہا ہے کہ کیا آپ اسلامی تعلیمات کے مطابق دونوں بیویوں کے (حقِ زوجیت سمیت)تمام حقوق برابر ادا کر رہے ہو۔میں جنرل ضیاء کو اُس کے تمام مظالم پر معاف کر سکتا تھا اگر وہ اپنے نو سالہ جابرانہ اور منافقانہ دور بربریت میں ایک کام اور کر جاتے تو آج یہ فضول مشقیں نہ کرنا پڑتیں۔ سرکار اگر آئین میں اورنگ زیب عالمگیرکا فتوی عالمگیری بھی شامل کر جاتے تو قراردادِ مقاصد کی طرح وہ بھی آئین کے روح و جسم میں سرایت کر چکا ہوتا تو آج ریٹرننگ افسروں کو امیدواروں سے فجر کی نماز کے فرض، دعائے قنوت، جنگ بدر کا احوال اور ایسے ہی دوسرے سوال پوچھنے کی حاجت نہ ہوتی۔ پھر بیویوں کی تعداد پوچھنے کے بجائے لونڈیوں کی تعداد پوچھی جاتی اور امیدوار اپنے حرم کے انچارج خواجہ سرا کو اشارہء ابرو سے حکم دیتا کہ ’صاحب کوتعداد بتاؤ‘ اور وہ کہتا کہ سرکار، جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ مجھے گنتی نہیں آتی۔ ریٹرننگ افسر جواب کو درست قرار دیتے ہوئے کہتا کہ اگر چاہو تو تم بھی الیکشن لڑ سکتے ہوکہ تم ان پڑھ ہو لیکن جعلی ڈگری والے نہیں ہو۔ امیدوار الیکشن افسرسے کہتا کہ جناب یہ خواجہ سرا تو پہلے ہی میرا کورننگ امیدوار ہے !!
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
بہ شکریہ روزنامہ جنگ