حسابِ جفا اور وفا رہنے دیجے - مومن خان شوق

کاشفی

محفلین
غزل
(مومن خان شوق)

حسابِ جفا اور وفا رہنے دیجے
سوالِ سزا و جزا رہنے دیجے

میں پتھر سہی کیوں ہٹاتے ہو مجھ کو
مجھے راستے میں پڑا رہنے دیجے

کوئی راہ میں پھر بھٹکنے نہ پائے
سرِ راہ جلتا دِیا رہنے دیجے

کبھی کوئی خوشبو کا آئے گا جھونکا
دریچہ ہمیشہ کھُلا رہنے دیجے

ہمیں بھی تو آتا ہے تم کو منانا
ابھی روٹھنے کی ادا رہنے دیجے

یہ دُنیا کسی کی نہ تھی اور نہ ہوگی
یہ شکوہ، شکایت، گلہ رہنے دیجے

نبھانا اگر شوق سے آپ کو ہے
جفاؤں کا یہ سلسلہ رہنے دیجے
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ کاشفی صاحب شیئر کرنے کیلیے۔

ایک گذارش: ردیف کو 'دیجئے' کی بجائے 'دیجے' کر دیں کیونکہ دیجے سے ہی وزن صحیح رہتا ہے اور 'دیجئے' سے خراب ہو جاتا ہے، کیجئے اور دیجئے کی جگہ کیجے اور دیجے اردو میں مستعمل ہے جیسے غالب

درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے

پہلے شعر کے مصرعِ ثانی میں بھی ایک ٹائپو ہے، 'سوالِ سزا ور جزا'، رے زائد ہے۔
 

جیہ

لائبریرین
بہت اچھی غزل۔

کبھی کوئی خوشبو کا آئے گا جھونکا
دریچہ ہمیشہ کھُلا رہنے دیجے

واہ
 

کاشفی

محفلین
شکریہ کاشفی صاحب شیئر کرنے کیلیے۔

ایک گذارش: ردیف کو 'دیجئے' کی بجائے 'دیجے' کر دیں کیونکہ دیجے سے ہی وزن صحیح رہتا ہے اور 'دیجئے' سے خراب ہو جاتا ہے، کیجئے اور دیجئے کی جگہ کیجے اور دیجے اردو میں مستعمل ہے جیسے غالب

درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے

پہلے شعر کے مصرعِ ثانی میں بھی ایک ٹائپو ہے، 'سوالِ سزا ور جزا'، رے زائد ہے۔

شکریہ جناب محمد وارث صاحب۔۔ بہت بہت شکریہ۔
 
Top