کاشفی
محفلین
غزل
(مومن خان شوق)
حسابِ جفا اور وفا رہنے دیجے
سوالِ سزا و جزا رہنے دیجے
میں پتھر سہی کیوں ہٹاتے ہو مجھ کو
مجھے راستے میں پڑا رہنے دیجے
کوئی راہ میں پھر بھٹکنے نہ پائے
سرِ راہ جلتا دِیا رہنے دیجے
کبھی کوئی خوشبو کا آئے گا جھونکا
دریچہ ہمیشہ کھُلا رہنے دیجے
ہمیں بھی تو آتا ہے تم کو منانا
ابھی روٹھنے کی ادا رہنے دیجے
یہ دُنیا کسی کی نہ تھی اور نہ ہوگی
یہ شکوہ، شکایت، گلہ رہنے دیجے
نبھانا اگر شوق سے آپ کو ہے
جفاؤں کا یہ سلسلہ رہنے دیجے
(مومن خان شوق)
حسابِ جفا اور وفا رہنے دیجے
سوالِ سزا و جزا رہنے دیجے
میں پتھر سہی کیوں ہٹاتے ہو مجھ کو
مجھے راستے میں پڑا رہنے دیجے
کوئی راہ میں پھر بھٹکنے نہ پائے
سرِ راہ جلتا دِیا رہنے دیجے
کبھی کوئی خوشبو کا آئے گا جھونکا
دریچہ ہمیشہ کھُلا رہنے دیجے
ہمیں بھی تو آتا ہے تم کو منانا
ابھی روٹھنے کی ادا رہنے دیجے
یہ دُنیا کسی کی نہ تھی اور نہ ہوگی
یہ شکوہ، شکایت، گلہ رہنے دیجے
نبھانا اگر شوق سے آپ کو ہے
جفاؤں کا یہ سلسلہ رہنے دیجے