کاشفی
محفلین
حساس ادارے کے اہلکاروں کا اغواء برائے تاوان میں ملوث ہونے کا انکشاف
کراچی (رپورٹ # آغا خالد) نیول انٹیلی جنس کے افسران اور اہلکار ایک گینگ بنا کر قانون سے ماورا متعدد تاجروں اور صنعت کاروں کو اغوا کر کے بھاری تاوان وصول کر رہے تھے اور حیرت انگیز طور پر مغویوں کو نیول انٹیلی جنس کے ہیڈکوارٹر متصل چیف منسٹر ہاؤس میں رکھا جاتا تھا۔ اس کا انکشاف اس وقت ہوا جب26 اگست کو بوٹ بیسن پر کھانا کھا کر واپس جانے والے فشریز کے ایک معروف تاجر جاوید کو اغوا کرنے کے بعد50 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا گیا تاہم گفت و شنید کے بعد 20 لاکھ روپے کی فوری ادائیگی کے عوض اس کی جان بخشی اور مزید 30 لاکھ روپے دے کر اسے رہا کرنے کا معاہدہ ہوا اور اس طرح مغوی جاوید کے گھر والے ایک ٹیکسی میں سوار ہو کر کلفٹن نہر خیام (گندے نالے) کے قریب اندھیرے میں تاوان دینے پہنچے تو وہاں ایک موٹرسائیکل سوار تاوان وصول کرنے آیا جس نے اپنا منہ نقاب سے چھپایا ہوا تھا۔ اس دوران مغوی کے گھر والوں کے ہمراہ ایس ایس پی ساؤتھ ناصر آفتاب بھی سادہ کپڑوں میں موجود تھے جنہوں نے تاوان وصول کر کے جانے والے ملزم پر گولی چلا دی، گولی اس کی ٹانگ میں لگی اور وہ گر پڑا۔ اس دوران ناصر آفتاب اور ان کے سپاہیوں نے جو قریب ہی جھاڑیوں میں چھپے ہوئے تھے، ملزم کو دبوچ لیا، اسے زخمی حالت میں کلفٹن تھانے لایا گیا اور ابتدائی تفتیش کی گئی تو اس نے حیرت انگیز انکشاف کیا کہ اس کا تعلق نیول انٹیلی جنس سے ہے اور اس کے ہمراہ نیول انٹیلی جنس کے دو اسسٹنٹ ڈائریکٹر اشفاق اور دوسرا نامعلوم پیچھے کھڑی گاڑی میں سوار تھے اور ان کے قریب ہی موجود تھے، فائرنگ کی آواز پر وہ موقع سے فرار ہو گئے۔ ایس ایس پی اور سی پی ایل سی کی ٹیم نے نیول انٹیلی جنس کے اعلیٰ حکام سے رابطہ کر کے مغوی کو نیول انٹیلی جنس کے ہیڈکوارٹر سے برآمد کروایا۔ ملزم کو گرفتار کرنے اور دو اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کے اس گینگ میں شامل ہونے کی تصدیق ایس ایس پی ناصر آفتاب اور سی پی ایل سی کے چیف احمد چنائے نے کی مگر اس گھناؤنے عمل میں ملوث نیول انٹیلی جنس کے اہلکاروں کی مزید تفصیلات دینے سے دونوں نے انکارکردیا اور فون بند کر دیا اور بعد میں کی گئی کالوں کا جواب نہیں دیا۔ جب نمائندہ کلفٹن پر واقع مقامی اسپتال پہنچا تو پولیس کی کسٹڈی میں ملزم اسپتال میں داخل تھا اور کچھ سفید پوش لوگ اس کے کمرے کے باہر موجود تھے جنہوں نے نمائندے کو ملزم سے بات کرنے یا پولیس والوں سے تفصیلات حاصل کرنے سے روک دیا۔ ملزم کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے جب کہ مغوی کی برآمدگی اور ملزم کی گرفتاری کے 24 گھنٹے گزر جانے کے باوجود مغوی اور اس کے گھر والوں کو انصاف فراہم کرنے کے بجائے ملزمان کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔ پولیس، سی پی ایل سی اور دیگر ادارے واقعے کو چھپانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ جب اس سلسلے میں آئی ایس پی آر نیول کے کمانڈر کامران سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہاکہ مجھے واقعہ کے بارے میں معلوم نہیں، میں تھوڑی دیر میں تفصیلات حاصل کر کے بات کرتا ہوں بعدازاں انہوں نے بھی رابطہ نہیں کیا اور کی گئی کالوں کا بھی جواب نہیں دیا۔
کراچی (رپورٹ # آغا خالد) نیول انٹیلی جنس کے افسران اور اہلکار ایک گینگ بنا کر قانون سے ماورا متعدد تاجروں اور صنعت کاروں کو اغوا کر کے بھاری تاوان وصول کر رہے تھے اور حیرت انگیز طور پر مغویوں کو نیول انٹیلی جنس کے ہیڈکوارٹر متصل چیف منسٹر ہاؤس میں رکھا جاتا تھا۔ اس کا انکشاف اس وقت ہوا جب26 اگست کو بوٹ بیسن پر کھانا کھا کر واپس جانے والے فشریز کے ایک معروف تاجر جاوید کو اغوا کرنے کے بعد50 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا گیا تاہم گفت و شنید کے بعد 20 لاکھ روپے کی فوری ادائیگی کے عوض اس کی جان بخشی اور مزید 30 لاکھ روپے دے کر اسے رہا کرنے کا معاہدہ ہوا اور اس طرح مغوی جاوید کے گھر والے ایک ٹیکسی میں سوار ہو کر کلفٹن نہر خیام (گندے نالے) کے قریب اندھیرے میں تاوان دینے پہنچے تو وہاں ایک موٹرسائیکل سوار تاوان وصول کرنے آیا جس نے اپنا منہ نقاب سے چھپایا ہوا تھا۔ اس دوران مغوی کے گھر والوں کے ہمراہ ایس ایس پی ساؤتھ ناصر آفتاب بھی سادہ کپڑوں میں موجود تھے جنہوں نے تاوان وصول کر کے جانے والے ملزم پر گولی چلا دی، گولی اس کی ٹانگ میں لگی اور وہ گر پڑا۔ اس دوران ناصر آفتاب اور ان کے سپاہیوں نے جو قریب ہی جھاڑیوں میں چھپے ہوئے تھے، ملزم کو دبوچ لیا، اسے زخمی حالت میں کلفٹن تھانے لایا گیا اور ابتدائی تفتیش کی گئی تو اس نے حیرت انگیز انکشاف کیا کہ اس کا تعلق نیول انٹیلی جنس سے ہے اور اس کے ہمراہ نیول انٹیلی جنس کے دو اسسٹنٹ ڈائریکٹر اشفاق اور دوسرا نامعلوم پیچھے کھڑی گاڑی میں سوار تھے اور ان کے قریب ہی موجود تھے، فائرنگ کی آواز پر وہ موقع سے فرار ہو گئے۔ ایس ایس پی اور سی پی ایل سی کی ٹیم نے نیول انٹیلی جنس کے اعلیٰ حکام سے رابطہ کر کے مغوی کو نیول انٹیلی جنس کے ہیڈکوارٹر سے برآمد کروایا۔ ملزم کو گرفتار کرنے اور دو اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کے اس گینگ میں شامل ہونے کی تصدیق ایس ایس پی ناصر آفتاب اور سی پی ایل سی کے چیف احمد چنائے نے کی مگر اس گھناؤنے عمل میں ملوث نیول انٹیلی جنس کے اہلکاروں کی مزید تفصیلات دینے سے دونوں نے انکارکردیا اور فون بند کر دیا اور بعد میں کی گئی کالوں کا جواب نہیں دیا۔ جب نمائندہ کلفٹن پر واقع مقامی اسپتال پہنچا تو پولیس کی کسٹڈی میں ملزم اسپتال میں داخل تھا اور کچھ سفید پوش لوگ اس کے کمرے کے باہر موجود تھے جنہوں نے نمائندے کو ملزم سے بات کرنے یا پولیس والوں سے تفصیلات حاصل کرنے سے روک دیا۔ ملزم کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے جب کہ مغوی کی برآمدگی اور ملزم کی گرفتاری کے 24 گھنٹے گزر جانے کے باوجود مغوی اور اس کے گھر والوں کو انصاف فراہم کرنے کے بجائے ملزمان کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔ پولیس، سی پی ایل سی اور دیگر ادارے واقعے کو چھپانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ جب اس سلسلے میں آئی ایس پی آر نیول کے کمانڈر کامران سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہاکہ مجھے واقعہ کے بارے میں معلوم نہیں، میں تھوڑی دیر میں تفصیلات حاصل کر کے بات کرتا ہوں بعدازاں انہوں نے بھی رابطہ نہیں کیا اور کی گئی کالوں کا بھی جواب نہیں دیا۔