حسرتِ انتظار ہے، دیدۂ اشکبار ہے

La Alma

لائبریرین
حسرتِ انتظار ہے، دیدۂ اشکبار ہے
لمحۂ سوگوار ہے، عالمِ اضطرار ہے

چاک ہوئی ردائے جاں، آہِ دلِ فگار ہے
وقت کبھی تھا مہرباں، آج ستم شعار ہے

جان سکا ہے کوئی کیا، کس کا کہاں شمار ہے
کون یہاں ہے پارسا، کون گناہگار ہے

وعدۂ ناتمام بھی، رنجِ تمام دے گیا
دہر میں کون جز ترے، قابلِ اعتبار ہے

لطف نہ عیش میں رہا، ناں ہی سکون چین میں
درد دمِ قرار کیوں، کوئی تو بے قرار ہے

شہر گماں کے اس طرف، حدِّ یقیں سے بھی پرے
بادِ جنوں اُڑا اسے، برگِ خیالِ یار ہے

کوئے عدم سے جوچلے، دشتِ حیات آ رکے
لوگ جسے لحد کہیں، زیست کی یادگار ہے

 

محمداحمد

لائبریرین
چاک ہوئی ردائے جاں، آہِ دلِ فگار ہے
وقت کبھی تھا مہرباں، آج ستم شعار ہے

جان سکا ہے کوئی کیا، کس کا کہاں شمار ہے
کون یہاں ہے پارسا، کون گناہگار ہے

وعدۂ ناتمام بھی، رنجِ تمام دے گیا
دہر میں کون جز ترے، قابلِ اعتبار ہے

شہر گماں کے اس طرف، حدِّ یقیں سے بھی پرے
بادِ جنوں اُڑا اسے، برگِ خیالِ یار ہے

واہ واہ واہ!

بہت خوبصورت غزل ہے۔

عمدہ اشعار ہیں۔

ماشاء اللہ ! بہت داد!
کوئے عدم سے جوچلے، دشتِ حیات آ رکے
لوگ جسے لحد کہیں، زیست کی یادگار ہے
 

سیما علی

لائبریرین
وعدۂ ناتمام بھی، رنجِ تمام دے گیا
دہر میں کون جز ترے، قابلِ اعتبار ہے
لطف نہ عیش میں رہا، ناں ہی سکون چین میں
درد دمِ قرار کیوں، کوئی تو بے قرار ہے
کوئے عدم سے جوچلے، دشتِ حیات آ رکے
لوگ جسے لحد کہیں، زیست کی یادگار ہے
بہت عمدہ
ڈھیروں داد قبول کیجیے۔
سلامت رہیے ⭐️⭐️⭐️⭐️⭐️
 
حسرتِ انتظار ہے، دیدۂ اشکبار ہے
لمحۂ سوگوار ہے، عالمِ اضطرار ہے

چاک ہوئی ردائے جاں، آہِ دلِ فگار ہے
وقت کبھی تھا مہرباں، آج ستم شعار ہے

جان سکا ہے کوئی کیا، کس کا کہاں شمار ہے
کون یہاں ہے پارسا، کون گناہگار ہے

وعدۂ ناتمام بھی، رنجِ تمام دے گیا
دہر میں کون جز ترے، قابلِ اعتبار ہے

لطف نہ عیش میں رہا، ناں ہی سکون چین میں
درد دمِ قرار کیوں، کوئی تو بے قرار ہے

شہر گماں کے اس طرف، حدِّ یقیں سے بھی پرے
بادِ جنوں اُڑا اسے، برگِ خیالِ یار ہے

کوئے عدم سے جوچلے، دشتِ حیات آ رکے
لوگ جسے لحد کہیں، زیست کی یادگار ہے

عمدہ غزل ہے، محترمہ . داد حاضر ہے! اِجازَت ہو تو ایک سوال ہے . شعر # 5 میں مستعمل لفظ ’ناں‘ ( نون غنہ كے ساتھ ) کیا روا ہے؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
شہر گماں کے اس طرف، حدِّ یقیں سے بھی پرے
بادِ جنوں اُڑا اسے، برگِ خیالِ یار ہے

واہ خوب ، سلامت لا المیٰ جی ۔
 

La Alma

لائبریرین
عمدہ غزل ہے، محترمہ . داد حاضر ہے! اِجازَت ہو تو ایک سوال ہے . شعر # 5 میں مستعمل لفظ ’ناں‘ ( نون غنہ كے ساتھ ) کیا روا ہے؟
غزل کی پسندیدگی کے لیے شکر گزار ہوں۔
“ناں” بطور ” نہ” میں نے شعری ضرورت کے تحت برتا ہے۔ یوں تو اس کی جگہ “نے” بھی مستعمل ہے، لیکن مجھے یہ عام بول چال کے نسبتًا زیادہ قریب لگا۔ اہلِ زبان کے ہاں شاید یہ ایسا فصیح نہ مانا جاتا ہو۔ اس کا صحیح جواب تو اہلِ علم ہی دے سکتے ہیں۔ میرا مطالعہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
 
حسرتِ انتظار ہے، دیدۂ اشکبار ہے
لمحۂ سوگوار ہے، عالمِ اضطرار ہے

چاک ہوئی ردائے جاں، آہِ دلِ فگار ہے
وقت کبھی تھا مہرباں، آج ستم شعار ہے

جان سکا ہے کوئی کیا، کس کا کہاں شمار ہے
کون یہاں ہے پارسا، کون گناہگار ہے

وعدۂ ناتمام بھی، رنجِ تمام دے گیا
دہر میں کون جز ترے، قابلِ اعتبار ہے

لطف نہ عیش میں رہا، ناں ہی سکون چین میں
درد دمِ قرار کیوں، کوئی تو بے قرار ہے

شہر گماں کے اس طرف، حدِّ یقیں سے بھی پرے
بادِ جنوں اُڑا اسے، برگِ خیالِ یار ہے

کوئے عدم سے جوچلے، دشتِ حیات آ رکے
لوگ جسے لحد کہیں، زیست کی یادگار ہے

واہ واہ واہ ، کیا کہنے!
کیا ہی عمدہ خیالات ہیں۔ ڈھیروں داد، سلامت رہیے!
 
Top