خرم شہزاد خرم
لائبریرین
دو دن پہلے کی بات ہے میں نوید صادق صاحب سے فون پر بات کر رہا تھا کہ اسی دوران مجھے ایک دوست کا فون آ گیا نوید صادق صاحب سے گفتگو ختم کرنے کے بعد میں نے اپنے اس دوست کو فون کیا اس نے مجھ سے ایک سوال پوچھا ” حسنِ مطلع کیا ہے“ مجھے اس بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا لیکن اپنی کم علمی کی وجہ سے میں نے اس کوبتایا حسنِ مطلع سے مراد اگر ایک غزل میں ایک سے زیادہ مطلعے ہو ان میں سے جو مطلع زیادہ خوبصورت یا پیارا ہو گا اس کو حسنِ مطلع کہتے ہیں۔ اس پر وہ کہنے لگا مجھے کسی نے بتایا ہے غزل کے چوٹھے شعر کو حسنِ مطلع کہتے ہیں۔ میں نے اس کو کہا شعر تو شعر ہوتا ہے میری خیال میں اس کو مطلع نہیں کہتے ۔پھر میں نے اس کو کہا میں ابھی پتہ کر کے بتاتا ہوں
اس دن میری طرف نیٹ نہیں چل رہا تھا میں نے وارث صاحب کو فون کیا اس دن ان کی طبعیت کچھ ٹھیک نہیں تھی اس لے ان سے بات نا ہو سکی پھر میں نے اعجاز صاحب کو فون کرنے کی کوشش کی لیکن پتہ نہیں کیا مسئلہ تھا ان کا نمبر بھی نا ملا ۔ پھر مجھے اچانک یاد آیا ابھی ابھی میں نوید صادق صاحب سے بات کر رہا تھا میں نے ان کو فون کیا اور ان سے سوال پوچھا سر حسنِ مطلع کیسے کہتے ہیں
انھوں نے جواب دیا
نوید صادق
حسنِ مطلع سے مراد غزل کا دوسرا شعر یعنی جو شعر غزل کے مطلع کے بعد آتا ہے اس کو حسنِ مطلع کہتے ہیں اس کو زیبِ مطلع بھی کہتے ہیں
لیکن انھوں نے یہ بھی بتایا اس پر بہت سے اختلاف بھی ہے اس پر آپ کو مختلف جواب ملے گے
جب ان کی میں نے یہ بات سنی تو پھر میں نے راولپنڈی کے ایک اچھے شاعر جو پہلے تنقید کرتے تھے اس کے بعد شاعری شروع کی جناب اختر رضا سلیمی صاحب کو فون کیا ان کا جواب کچھ اس طرح تھا
اختر رضا سلیمی
اگر ایک غزل میں دو مطلع ہو تو دوسرا مطلع حسنِ مطلع ہو گا
انھوں نے پھر بتایا اس طرح حسنِ قافیہ بھی ہوتا ہے حسنِ قافیہ یعنی ایک ہی لفظ کو مطلع میں قافیہ باندہ جائے لیکن اس کا مطلب الگ الگ ہو اس کو حسنِ قافیہ کہتے ہیں
مثلاََ
مشکل بہت تھا میرا گزارا زمین پر
کچھ وقت پھر بی میں نے گزارا زمیں پر
(شعر اگر وزن سے خارج ہو گیا ہو تو اس کے لیے معافی چاہتا ہوں)
اس کے بعد میں نے م م مغل صاحب کو فون کر دیا ابھی تک مجھے جو جو جواب ملے تھے وہ سب ہی محتلف تھے اس لے میں سب سے پتہ کرنا چاہتا تھا م م مغل صاحب نے جو جواب دیا وہ کچھ اس طرح ہے
م م مغل صاحب
ایک غزل میں اگر تین مطلعے ہو تو پہلا مطلع ہو گا دوسرا زیبِ مطلع اور تیسرا حسنِ مطلع ہو گا
اس کے علاہ انھوں نے بتا یا کچھ غزلیں ایسی ہوتی ہیں جو ساری کی ساری مطلع میں لکھی گی ہوتی ہے تو اس غزل کو سندِ مطلع کہتے ہیں
ان کے بعد میں نے شاکرالقادی صاحب کو فون کیا انھوں نے جو جواب دیا وہ کچھ اس طرح تھا
شاکرالقادی صاحب
ایک غزل میں اگر دو مطلعے ہو تو دوسرا مطلع حسنِ مطلع ہو گا
مطلع کا مطلب ہے طلوع ہو نا یا آغاز کرنا غزل میں مطلع ایسا ہونا چاہے جو متاثر کرے اور پوری غزل پڑھنے پر مجبور کرے میرے نزدیک مطلع خوب ہو اور دوسرا مطلع خوب تر ہو تو وہ حسنِ مطلع ہو گا
شاکر القادی صاحب کے بعد میں نے دوسرے دن پھر وارث صاحب کو فون کیا اور ان سے پھر یہی سوال کیا انھوں نے بھی شاکرالقادی صاحب اور اختر رضا سلیمی والا جواب دیا یعنی
محمد وارث
جس غزل میں دو مطلع ہونگے اس غزل کے دوسرے مطلع کو حسنِ مطلع کہنے گے
یہ تھے حسنِ مطلع کے بارے میں مختلف جواب
(اگر کسی کے جواب کو میں غلط لکھ گیا ہوں تو مہربانی فرما کر غلطی درست فرما دیجئے گا بہت شکریہ)
خرم شہزدا خرم
اس دن میری طرف نیٹ نہیں چل رہا تھا میں نے وارث صاحب کو فون کیا اس دن ان کی طبعیت کچھ ٹھیک نہیں تھی اس لے ان سے بات نا ہو سکی پھر میں نے اعجاز صاحب کو فون کرنے کی کوشش کی لیکن پتہ نہیں کیا مسئلہ تھا ان کا نمبر بھی نا ملا ۔ پھر مجھے اچانک یاد آیا ابھی ابھی میں نوید صادق صاحب سے بات کر رہا تھا میں نے ان کو فون کیا اور ان سے سوال پوچھا سر حسنِ مطلع کیسے کہتے ہیں
انھوں نے جواب دیا
نوید صادق
حسنِ مطلع سے مراد غزل کا دوسرا شعر یعنی جو شعر غزل کے مطلع کے بعد آتا ہے اس کو حسنِ مطلع کہتے ہیں اس کو زیبِ مطلع بھی کہتے ہیں
لیکن انھوں نے یہ بھی بتایا اس پر بہت سے اختلاف بھی ہے اس پر آپ کو مختلف جواب ملے گے
جب ان کی میں نے یہ بات سنی تو پھر میں نے راولپنڈی کے ایک اچھے شاعر جو پہلے تنقید کرتے تھے اس کے بعد شاعری شروع کی جناب اختر رضا سلیمی صاحب کو فون کیا ان کا جواب کچھ اس طرح تھا
اختر رضا سلیمی
اگر ایک غزل میں دو مطلع ہو تو دوسرا مطلع حسنِ مطلع ہو گا
انھوں نے پھر بتایا اس طرح حسنِ قافیہ بھی ہوتا ہے حسنِ قافیہ یعنی ایک ہی لفظ کو مطلع میں قافیہ باندہ جائے لیکن اس کا مطلب الگ الگ ہو اس کو حسنِ قافیہ کہتے ہیں
مثلاََ
مشکل بہت تھا میرا گزارا زمین پر
کچھ وقت پھر بی میں نے گزارا زمیں پر
(شعر اگر وزن سے خارج ہو گیا ہو تو اس کے لیے معافی چاہتا ہوں)
اس کے بعد میں نے م م مغل صاحب کو فون کر دیا ابھی تک مجھے جو جو جواب ملے تھے وہ سب ہی محتلف تھے اس لے میں سب سے پتہ کرنا چاہتا تھا م م مغل صاحب نے جو جواب دیا وہ کچھ اس طرح ہے
م م مغل صاحب
ایک غزل میں اگر تین مطلعے ہو تو پہلا مطلع ہو گا دوسرا زیبِ مطلع اور تیسرا حسنِ مطلع ہو گا
اس کے علاہ انھوں نے بتا یا کچھ غزلیں ایسی ہوتی ہیں جو ساری کی ساری مطلع میں لکھی گی ہوتی ہے تو اس غزل کو سندِ مطلع کہتے ہیں
ان کے بعد میں نے شاکرالقادی صاحب کو فون کیا انھوں نے جو جواب دیا وہ کچھ اس طرح تھا
شاکرالقادی صاحب
ایک غزل میں اگر دو مطلعے ہو تو دوسرا مطلع حسنِ مطلع ہو گا
مطلع کا مطلب ہے طلوع ہو نا یا آغاز کرنا غزل میں مطلع ایسا ہونا چاہے جو متاثر کرے اور پوری غزل پڑھنے پر مجبور کرے میرے نزدیک مطلع خوب ہو اور دوسرا مطلع خوب تر ہو تو وہ حسنِ مطلع ہو گا
شاکر القادی صاحب کے بعد میں نے دوسرے دن پھر وارث صاحب کو فون کیا اور ان سے پھر یہی سوال کیا انھوں نے بھی شاکرالقادی صاحب اور اختر رضا سلیمی والا جواب دیا یعنی
محمد وارث
جس غزل میں دو مطلع ہونگے اس غزل کے دوسرے مطلع کو حسنِ مطلع کہنے گے
یہ تھے حسنِ مطلع کے بارے میں مختلف جواب
(اگر کسی کے جواب کو میں غلط لکھ گیا ہوں تو مہربانی فرما کر غلطی درست فرما دیجئے گا بہت شکریہ)
خرم شہزدا خرم