یوسف سلطان
محفلین
حضرت سیِّدُناعبدُاللہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ جب خِلافتِ فارُوقی میں اللہ تَعالیٰ نےصحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے ہاتھ پر مَدائن فَتْح کیا اور مالِ غنیمت مدینۂ مُنوَّرہ میں آیا تو اَمِیْرُ الْمُؤمنین حضرت سَیِّدُنا عُمر فارُوقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مسجدِنَبَوِی میں چَٹائیاں بچھوائیں اور سارا مالِ غنیمت ان پر ڈھیر کروادیا۔ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان مال لینے جَمْع ہوگئے ۔ سب سے پہلے حضرت سَیِّدُنا امام حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: ’’اے اَمِیْرُ الْمُومنین !اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے جو مُسلمانوں کو مال عطافرمایا ہے،اس میں سے میرا حِصّہ مجھے عَطا فرمادیں۔‘‘آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: آپ کے لیے بڑی پذیرائی اور کرامت (عزّت) ہے۔‘‘ساتھ ہی آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک ہزار(1000)دِرْہم انہیں دے دئیے۔ اُنہوں نے اپنا حِصّہ لیا اور چلے گئے،ان کے بعد حضرت سَیِّدُنا امام حُسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کھڑے ہو کر اپنا حِصّہ مانگا،آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: آپ کے لیے بڑی پذیرائی اور کرامت (عزّت) ہے۔‘‘ساتھ ہی آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک ہزار(1000)دِرْہم انہیں بھی دے دیئے،اس کے بعد آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بیٹے حضرت سَیِّدُناعبدُاللہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اُٹھے اور اپنا حصہ مانگا۔آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نےفرمایا:’’ آپ کے لیے بھی بڑی پذیرائی اورکرامت(عزّت)ہے۔‘‘اورساتھ ہی انہیں پانچ سو (500) دِرْہم عطا فرمائے،اُنہوں نے عرض کیا:’’اے اَمِیْرُ الْمُومنین ! میں اس وَقْت بھی حُضُور نبیِّ پاک، صاحبِ لولاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ تلوار اُٹھا کرجِہاد میں شریک ہوا تھا جب سَیِّدُنا حسن و حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکم عُمر تھے۔ اس کے باوُجُودآپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے انہیں ایک ایک ہزار دِرْہم اور مجھے پانچ سوعطا کیے؟‘‘ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کایہ سُننا تھا کہ اَہْلِ بیت کی مَحَبَّت کا سَمُنْدر مَوجیں مارنے لگا اور عِشْق ومَحَبَّت سے سرشار ہوکر ارشاد فرمایا: جی ہاں بالکل! (اگر تم چاہتے ہوکہ میں تمہیں بھی ان کے برابرحصّہ دوں تو)جاؤ پہلے تم حسنینِ کریمین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے باپ جیسا باپ لاؤ،ان کی والدہ جیسی والدہ ، ان کے نانا جیسانانا، ان کی نانی جیسی نانی ، ان کے چچا جیسا چچا ، ان کے ماموں جیسا ماموں لاؤ اور تم کبھی بھی نہیں لاسکتے۔ کیونکہ: ’’اَبُوْهُمَا فَعَلِيُّ الْمُرْتَضٰى ان کے والد عَلِیُّ الْمُرْتَضٰی شیرِخُدارَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہہیں’اُمُّهُمَا فَفَاطِمَةُ الزَّهْرَاءان کی والدہ سَیِّدہ فَاطِمَۃُ الزَّہْرارَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاہیں۔‘‘’’جَدُّهُمَا مُحَمَّدُنِ الْمُصْطَفٰی ان کے نانا محمدِمصطفےٰصَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہیں،جَدَّتُهُمَا خَدِيْجَةُ الْكُبْرٰىان کی نانی سَیِّدہخَدِیْجَۃُ الْکُبْریٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاہیں۔عَمُّهُمَاجَعْفَرُ بْنُ اَبِيْ طَالِبٍ ان کے چچا حضرت جَعْفَربن اَبی طالب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں خَالُهُمَا اِبْرَاهِيْمُ بْنُ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَان کے مامُوں حضرت اِبْراہیم بن رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وَرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ہیں خَالَتَاهُمَا رُقَيَّةُ وَاُمُّ كُلْثُوْمٍ اِبْنَتَا رَسُوْلِ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّم اوران کی خالائیں رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بیٹیاں سَیِّدہ رُقَیہ اورسَیِّدہ اُمِّ کُلثوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاہیں۔‘‘
( ریاض النضرۃ ،ج۱، ص۳۴۰۔ملتقطاً)
( ریاض النضرۃ ،ج۱، ص۳۴۰۔ملتقطاً)