ڈاکٹر مشاہد رضوی
لائبریرین
اس شان سے وہ بزم میں شب جلوہ گر ہوا
کلام : استاذِ زمن علامہ حسن رضا بریلوی
اس شان سے وہ بزم میں شب جلوہ گر ہوا
پروانۂ جمال چراغِ قمر ہوا
تم چھپ گئے تو رازِ محبت نہ چھپ سکا
پردہ تمہارا عاشقوں کا پردہ دَر ہوا
دل اپنی راہ ہوش و خرد اپنی راہ تھے
وہ جلوۂ جمال جو پیش نظر ہوا
وہ نالہ سن کے ہنسنے لگے بزمِ غیر میں
مجھ کو یہ انتظار کہ کتنا اَثر ہوا
کیا خاک اُن کی بزم میں جانے کا لطف ہو
جب وہ کہیں کہ آپ کا آنا کدھر ہوا
توڑے گا شوقِ دید پر اے دل قیامتیں
وہ آفتابِ حشر اگر جلوہ گر ہوا
مرغانِ قدس صدقے ہوئے صورتِ تَدرُو
ہنگامہ گرم کن جو وہ رشکِ قمر ہوا
ایسا گما کہ پھر نہ پتا آج تک چلا
عاشق کا دل بھی ہائے کسی کی کمر ہوا
تیرِ نگاہ تھا سببِ اِزدیادِ عشق
تیری طرف سے اور مرے دل میں گھر ہوا
افسوس صدمے سہ کے دلِ سخت جاں میرا
پتھر ہوا مگر نہ ترا سنگِ دَر ہوا
وہ محو نغمہ صبح شب وصل اور یہاں
فریاد صورِ نالۂ مرغِ سحر ہوا
وہ ڈر کر اور غیر سے مل بیٹھے بزم میں
اچھا ہمارے نالۂ دل کا اَثر ہوا
آزارِ عاشقی متعدی ہے اے حسنؔ
روتا ہوں اُس کو میں جو مرا چارہ گر ہوا