محسن وقار علی
محفلین
حسن کی گود میں بے رخی سو گئی
عشق کی گود میں بندگی سو گئی
مئےکدے میں نہ ٹوٹا کسی کا بھرم
دور چلتا رہا تشنگی سو گئی
موت نے اپنا جادو چلایا ہی تھا
تیرگی جاگ اٹھی روشنی سو گئی
کارواں تو سرِ راہ لٹتے رہے
رہبروں کی مگر رہبری سو گئی
وقت کے ساز پر تان چھیڑی ہی تھی
ساز بجتا رہا ، نغمگی سو گئی
شمع جلنے لگی، خاک اڑنے لگی
موت کی سیج پر زندگی سو گئی
چاند بڑھتا گیا ، رات گھٹتی گئی
غم سے آخر لپٹ کر خوشی سو گئی
عشق کی گود میں بندگی سو گئی
مئےکدے میں نہ ٹوٹا کسی کا بھرم
دور چلتا رہا تشنگی سو گئی
موت نے اپنا جادو چلایا ہی تھا
تیرگی جاگ اٹھی روشنی سو گئی
کارواں تو سرِ راہ لٹتے رہے
رہبروں کی مگر رہبری سو گئی
وقت کے ساز پر تان چھیڑی ہی تھی
ساز بجتا رہا ، نغمگی سو گئی
شمع جلنے لگی، خاک اڑنے لگی
موت کی سیج پر زندگی سو گئی
چاند بڑھتا گیا ، رات گھٹتی گئی
غم سے آخر لپٹ کر خوشی سو گئی