کاشفی
محفلین
حسّیات
(اصغر حسین خاں نظیر)
ظلم پیہم سے مدعا کیا ہے
میرے دل میں ترے سوا کیا ہے
لطفِ بیداد ناروا کیا ہے
مصرفِ جانِ بے وفا کیا ہے
قیدِ ہستی کا کچھ سبب نہ کھلا
مجھ گناہ گار کی خطا کیا ہے
جبکہ تو خود ہے قادرِ مطلق
میری ہستی سے مدعا کیا ہے
یہ فضائے بسیط کیسی ہے
ماہ و پرویں ہیں کیا سہا کیا ہے
یہ سکوتِ شب اور یہ تارے
یہ سحر گاہِ خوش نما کیا ہے
یہ گل و لالہ یہ ہوائے چمن
یہ تمنائے جاں ربا کیا ہے
لطفِ نظارہ جب میسر ہے
یہ غمِ صبر آزما کیا ہے
زندگی جب کہ جاودانی ہے
موت کیا چیز ہے فنا کیا ہے
اپنے عاشق سے یہ سلوک ہے کیوں
یہ تماشائے کربلا کیا ہے
کب سے ہوں مائلِ غزل خوانی
کون سمجھے کہ مدعا کیا ہے
اُن کی باتیں سنی نہ تھیں جب تک
کس کو معلوم تھا خدا کیا ہے
تم سے ناکامیوں کی داد ملے
اور عاشق کا مدعا کیا ہے
ہم نہ واعظ کو آج تک سمجھے
راہزن ہے کہ رہنما ! کیا ہے
بات کیا بے خودی میں کہہ بیٹھے
شہر میں ذکر جابجا کیا ہے
خلوتِ دل دکھا نظیر انہیں
چاہِ کنعاں ہے کیا حرا کیا ہے