حسیب آؤ کہ اس سے مل کر آئیں

غزل !

ہمیں وہ کج ادا بھولا ہوا ہے
چلو جو بھی ہوا ا چھا ہوا ہے


سنبھل کر دیجئے مژگاں کو جنبش
کوئی پلکوں تلے بیٹھا ہوا ہے

یہ کس شیریں سخن کا ہےتبسم
اجالا دور تک پھیلا ہوا ہے

نظر کو اب کوئی بھاتا نہیں ہے
نگاہوں میں کوئی اترا ہوا ہے

کسی کی بےرخی کا غم ہے اسکو
مری بانہوں میں جو بکھرا ہوا ہے

ترے ہر اشک کی مجھ کو خبر ہے
مرے کاندھے پٰہ سر رکھا ہوا ہے

نہیں بدلا ترے جانے سے کچھ بھی
مگر سینے میں کچھ ٹوٹا ہوا ہے

چلو ساحل سے اٹھ کر گھر کو جائیں
سمندر دیر سے ٹھہرا ہوا ہے

منا لیتے ہیں چل کر ہم خدا کو
مجھے لگتا ہے وہ روٹھا ہوا ہے

میں کیسے بھول سکتا ہوں وہ گلیاں
جہاں بچپن مرا گزرا ہوا ہے

کہیں چھن جائے نہ پھر سے محبت
یہ دل میں خوف سا بیٹھا ہوا ہے

فریب زندگی ہم نے بھی کھایا
تمھارے ساتھ بھی دھوکا ہوا ہے

حسیب آؤ کہ اس سے مل کر آئیں
وہ ظالم شہر میں آیا ہوا ہے

حسیب احمد حسیب
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
واہ، بہت خوب۔
ٹائپو ہو گیا ہے شاید ’پہ‘ کی جگہ ’پے‘ اور مرا، ترا کی جگہ ’میرا‘ ’تیرا‘
 
Top