اقتباسات حسیب احمد حسیب سے معذرت کے ساتھ !..آہ صولت مرزا مرحوم ...!

ربیع م

محفلین
آہ صولت مرزا مرحوم ...!

گزشتہ شب رشید کالیے سے ملاقات ہوئی بہت اداس تھا میں نے پوچھا کہ میاں یہ منہ پر بارہ کیوں بج رہے کہنے لگا مرحوم صولت مرزا کا غم جینے نہیں دیتا حضرت کے ساتھ انصاف نہیں ہوا انکا تو مزار بنتا اور سال کے سال عرس منایا جاتا.
ابے کیا گھاس کھا گئے ہو
وہ ایک قاتل تھا ...
چپ اوئے ملا ... کالیا ہتھے سے اکھڑ گیا.
تجھے نہیں معلوم مرے ہووں کی برائی نئی کرتے ...
کس ملا نے مرحوم کو دعوت دی...
تجھے کیا معلوم جب مرحوم نے پہلی بار مین پوری کھائی
کسی مسجد کے ملا نے مرحوم سے کہا کہ گاجر کھایا کرو خون بناتی ہے.
جب پہلی بار وہ گلی کے نکڑ پر بیٹھا کسی تبلیغی نے اسکا سہ روزہ لگوایا ...
مگر وہ تو لسانیت .. میں گھگیایا ..
بے کیا لسانیت رشید کالیے کے منہ سے کف اڑنے لگا ..
یہ پنجابڑے یہ سائیں یہ پٹھان یہ افغان
لٹکادیا بے چارے کو ان قوم پرستوں نے...
مگر مگر وہ قتل جو اسکے دامن پر تھے ..
ابے اوت کے پائے عقل کے اندھے گھونچو
مرے ہوئے کے جرائم گنواتا ہے
دیکھا نہیں مرحوم آخر میں ٹوپی پہنتے تھے
داڑھی بھی بڑھ گئی تھی
نماز پڑھتا تھا
کیا ہوتا جو وعدہ معاف گواہ بنا لیتے ..
میں تو کہتا ہوں مرحوم شہید ملت تھے
کک کیا ..... ؟؟؟
اب میرا دماغ پاگل ہونے جارہا تھا
ابے او کالیے تیرا دماغ خراب ہے ...
رشید کالیا ہنس پڑا ....
اور ہنستا ہی چلا گیا
ہنستا ہی چلاگیا ....
ابے چپ میں چیخا ...
اچانک کالیا ارسطو بن گیا اور کہنے لگا ...
ارے او ٹھرکپور کے آخری ٹھرکی
جب مرحومہ قندیل بلوچ مادر ملت ہو سکتی ہے
تو صولت مرزا شہید ملت کیوں نہیں .... ؟
" بس مرنا ہی تو کافی ہے پھر یہ بریک فیل قوم صرف گناہ ہی معاف نہیں کرتی ہیرو بھی بنا دیا کرتی ہے ".

منقول از

حسیب احمد حسیب
 
آہ صولت مرزا مرحوم ...!

گزشتہ شب رشید کالیے سے ملاقات ہوئی بہت اداس تھا میں نے پوچھا کہ میاں یہ منہ پر بارہ کیوں بج رہے کہنے لگا مرحوم صولت مرزا کا غم جینے نہیں دیتا حضرت کے ساتھ انصاف نہیں ہوا انکا تو مزار بنتا اور سال کے سال عرس منایا جاتا.
ابے کیا گھاس کھا گئے ہو
وہ ایک قاتل تھا ...
چپ اوئے ملا ... کالیا ہتھے سے اکھڑ گیا.
تجھے نہیں معلوم مرے ہووں کی برائی نئی کرتے ...
کس ملا نے مرحوم کو دعوت دی...
تجھے کیا معلوم جب مرحوم نے پہلی بار مین پوری کھائی
کسی مسجد کے ملا نے مرحوم سے کہا کہ گاجر کھایا کرو خون بناتی ہے.
جب پہلی بار وہ گلی کے نکڑ پر بیٹھا کسی تبلیغی نے اسکا سہ روزہ لگوایا ...
مگر وہ تو لسانیت .. میں گھگیایا ..
بے کیا لسانیت رشید کالیے کے منہ سے کف اڑنے لگا ..
یہ پنجابڑے یہ سائیں یہ پٹھان یہ افغان
لٹکادیا بے چارے کو ان قوم پرستوں نے...
مگر مگر وہ قتل جو اسکے دامن پر تھے ..
ابے اوت کے پائے عقل کے اندھے گھونچو
مرے ہوئے کے جرائم گنواتا ہے
دیکھا نہیں مرحوم آخر میں ٹوپی پہنتے تھے
داڑھی بھی بڑھ گئی تھی
نماز پڑھتا تھا
کیا ہوتا جو وعدہ معاف گواہ بنا لیتے ..
میں تو کہتا ہوں مرحوم شہید ملت تھے
کک کیا ..... ؟؟؟
اب میرا دماغ پاگل ہونے جارہا تھا
ابے او کالیے تیرا دماغ خراب ہے ...
رشید کالیا ہنس پڑا ....
اور ہنستا ہی چلا گیا
ہنستا ہی چلاگیا ....
ابے چپ میں چیخا ...
اچانک کالیا ارسطو بن گیا اور کہنے لگا ...
ارے او ٹھرکپور کے آخری ٹھرکی
جب مرحومہ قندیل بلوچ مادر ملت ہو سکتی ہے
تو صولت مرزا شہید ملت کیوں نہیں .... ؟
" بس مرنا ہی تو کافی ہے پھر یہ بریک فیل قوم صرف گناہ ہی معاف نہیں کرتی ہیرو بھی بنا دیا کرتی ہے ".

منقول از

حسیب احمد حسیب
نوازش جناب من ....

دراصل یہ مستقل تحریر نہ تھی بلکہ کسی تحریر پر پیش کیا جانے والا رسپانس تھا اسلئے اسے اردو محافل میں پیش نہ کیا تھا ..
 

ربیع م

محفلین
نوازش جناب من ....

دراصل یہ مستقل تحریر نہ تھی بلکہ کسی تحریر پر پیش کیا جانے والا رسپانس تھا اسلئے اسے اردو محافل میں پیش نہ کیا تھا ..

بہت بہت شکریہ جناب

در اصل مجھے بہت زیادہ پسند آئی تو یہاں شئیر کر دی۔
 

دی آؤٹلیر

محفلین
بالکل بجا فرمایا ہمارے لیے اب علامہ اقبال قائداعظم اور مادرملت کی اہمیت یہی رہ گئی
افسوس
مزید دکھ اس بات کا ہوا کہ قندیل کے نام کے ساتھ شہید بھی لکھ دیا گیا
صد افسوس
 
Top