حسین ابن علی ّ کیا مقام ہے تیرا! ۔۔ ایک منقبت بغرض تنقید

شاہد شاہنواز

لائبریرین
حسین ابنِ علیؑ کیا مقام ہے تیرا
کہ ذکر سب کے لب پہ صبح و شام ہے تیرا

یزید فخر کا کوئی مقام پا نہ سکا
ہر ایک دل میں فقط احترام ہے تیرا

مثال بن گئی قبرِ یزید عبرت کی
ترا ہے نام، زمانہ غلام ہے تیرا

کٹا کے سر کو یہ اعلان کردیا تُو نے
کہ تیری کوئی بھی قیمت نہ دام ہے تیرا

نظر ہے خاص تری اب بھی مردِ مسلم پر
ہر اِک بشر کے لیے فیضِ عام ہے تیرا

ہماری آنکھوں میں ہے سرزمینِ کرب و بلا
ہمارے قلب کے اندر قیام ہے تیرا

ہزار تیرہ شبی چھائی ہو زمانے پر
رکھے جو ذہن کو روشن، وہ نام ہے تیرا

÷÷ یہ منقبت فیس بک پر پوسٹ کی تو اقبال طارق صاحب نے فرمایا کہ’’کیا ھی اچھا ھوتا کہ ۔۔۔۔۔ ،، آپ کا ھے ۔۔۔۔۔ کہا جاتا اور دوسرے مصرعے میں ،، شام وسحر ، صبح وشام ،، کہا گیا ھے حالانکہ دونوں باتو ں کا ایک ھی مطلب ھے ‘‘ دوسرے مصرعے سے ان کی مراد مطلعے کا دوسرا مصرع ہے جس میں پہلے لکھا تھا: حسین ابنِ علیؑ کیا مقام ہے تیرا
کہ ذکر شام و سحر صبح و شام ہے تیرا ۔۔۔ جو اب تبدیل کردیا ہے۔ جبکہ ردیف کی تبدیلی کی تجویز بری نہیں کہی جاسکتی ، مستحسن ہے لیکن مشکل ہے کہ کچھ اشعار صرف اسی ردیف کے ساتھ ممکن تھے۔ آپ اہل علم اس بارے میں کچھ رائے دیجئے تاکہ مزید بہتری ممکن ہے تو کی جائے۔
الف عین
اسد قریشی
مزمل شیخ بسمل
طارق شاہ
محمد اظہر نذیر
محمد وارث
خرم شہزاد خرم
ابن سعید
محمد خلیل الرحمٰن
عسکری
مہدی نقوی حجاز
 
مثال
بن گئی
قبرِ
یزید عبرت کی
ترا ہے نام
،
زمانہ غلام
ہے تیرا

سبحان اللہ، بہت خوب
اصل میں ذہنوں کی بات ہے ، لوگ سمجھتے ہیں کہ تیرا کہنا عیب ہے جبکہ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ جہاں جہاں رشتہ پیار کا ہو وہاں تیرا زیادہ بہتر ہے۔۔ قربت کا احساس ہوتا ہے اور امام عالی مقام سے قربت تو ہم مسلمانوں کا حق ٹہرا ۔۔۔۔۔ واللہ عالم بالصواب
 

الف عین

لائبریرین
’تیرا‘ کہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔
مطلع کا دوسرا مصرع وزن میں ہی کہاں آ رہا ہے؟
اس کے علاوہ یہ شعر مفہوم کے اعتبار سے کچھ مجہول سا ہے۔
کٹا کے سر کو یہ اعلان کردیا تُو نے
کہ تیری کوئی بھی قیمت نہ دام ہے تیرا
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
’تیرا‘ کہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔
مطلع کا دوسرا مصرع وزن میں ہی کہاں آ رہا ہے؟
اس کے علاوہ یہ شعر مفہوم کے اعتبار سے کچھ مجہول سا ہے۔
کٹا کے سر کو یہ اعلان کردیا تُو نے
کہ تیری کوئی بھی قیمت نہ دام ہے تیرا

یہ شعر حذف کردیتے ہیں۔۔۔
اس کی بحر بتائی جائے کیونکہ مفاعلن مفاعلن مفاعلن فعلن جو میں سمجھ رہا ہوں، اس پر تو میں پہلا مصرع بھی تقطیع نہیں کر پارہا۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
محمد عارف قادری صاحب کی اس ضمن میں فیس بک سے موصول ہونے والی رائے کے تحت مصرع نمبر2 یوں ہونا چاہئے:
کہ ذکر صبح و مسا گام گام ہے تیرا ۔۔۔۔ (مسا درست ہے یا غلط؟ میں نے یہ لفظ پڑھا ہوا ہے کہ یہاں اس کا استعمال درست ہے، لیکن اس کے حروف یہی ہیں یا کچھ اور؟؟)
دوسرے شعر میں فقط کی جگہ ان کے خیال میں مگر ہونا چاہئے۔۔۔
یزید فخر کا کوئی مقام پا نہ سکا
ہر ایک دل میں مگر احترام ہے تیرا
تیسرے شعر کا فرمایا کہ یوں ہونا چاہئے:
مثال بن گئی قبرِ یزید عبرت کی
زہے یہ اوج، زمانہ غلام ہے تیرا
پانچویں شعر میں مردمسلم کی جگہ ذات مسلم ہونا چاہئے، یعنی:
نظر ہے خاص تری اب بھی ذاتِ مسلم پر
ہر اِک بشر کے لیے فیضِ عام ہے تیرا
÷÷ یہاں میں ذات کی جگہ قوم کہنا بہتر سمجھتا ہوں ۔۔۔
یہ ان کا اوریجنل کمنٹ ہے جو فیس بک پر موجود ہے:
Mashaa Allah Shahid Sb... Boht umda or Qabil e tehseen kavish hy.. bs 2 3 jaga yun tarmeem ho jaye to kalaam behtreen ho jaye ga: pehly sher k 2nd misray me shaam ka lafz repeat ho rha hy ye misra yun kr len "k zikr subh o masaa gaam gaam hy tera", Doosry sher me "faqat" ki jaga "magar" lga len, 3rd sher ka doosra misra yun kr len "zahay ye auj zamana ghulam hy tera".. Aur 5th sher me "mard emuslim" ki jaga "zaat e muslim" kr len..
 

الف عین

لائبریرین
اصل مطلع پر اب غور کر رہا ہوں تو یہ تو بحر سے ہی خارج نکلا۔
صبح و مسا کی ترکیب مکمل درست ہے، لیکن گام گام پسند نہیں آیا۔ اس کی بجائے صبح و شام ہی رہنے دو، اسے یوں کر سکتے ہو۔
ہر ایک لب پہ ۔۔۔ صبح و شام ہے تیرا۔ یہاں کالی جگہ میں ذکر کا ہم معنی کوئی لفظ لانے کی ضرورت ہے۔ اس وقر سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔

‘مگر‘ یقیناً ’فقط‘ سے بہتر ہے۔

زہے یہ اوج‘ ٹکڑا اتنا رواں نہیں۔ میرے خیال میں زیادہ بہتر ہو کہ ’مقام یہ ہے، زمانہ غلام ہے تیرا‘ کہا جائے۔
ذاتِ مسلم سے تو یقیناً ’قومِ مسلم‘ بہتر ہے
 
Top