اکمل زیدی
محفلین
ولائے آلِ نبی نہیں تو قیام ابتر، سجود ابتر
علی سے بے حد کی حد بنائی تو دین کی سب حدود ابتر
و آلہِ گر نہیں پڑھو گے تو ہے نبی پہ درود ابتر
درود ابتر وہی پڑھے گا کہ جس کا ہوگا وجود ابتر
تمہیں کوئی حق نہیں کہ سوچو، رسولِ اکرم کا زین کیا ہے
ہماری گھٹی میں حق علی ہے یہ ہم سے پوچھو حسین کیا ہے
حسین فطرت کی صبحِ صادق، حسین عصمت کی شب سُہانی
خدا احد ہے حسین واحد، نا اُس کا ثانی، نا اِس کا ثانی
حسین کو جو جوان لکھوں تو ناز کرتی پھرے جوانی
حسین کو گر حسِین کہہ دوں تو حُسن پہ ہوگی مہربانی
حسین یزداں کا اِک ہُنر ہے، حسین دینِ خدا کا گھر ہے
حسین کا ہے یہی تعارف، یہ علم کے در کے گھر کا در ہے
حسین وہ ہے کہ جس کے دادا کے گھر میں دینِ خُدا پلا ہے
حسین وہ ہے کہ جس کی دادی کو اب بھی کعبہ جھکا ہوا ہے
حسین وہ ہے کہ جس کے نانا نے ہم کو دینِ خدا دیا ہے
حسین وہ ہے کہ جس کی نانی کے خرچ پہ دین چل رہا ہے
حسین آتا ہے ایسے گھر میں جہاں طہارت کا سائباں ہو
حسین ہوتا ہی وہ ہے جسکا پدر علی ہو بتول ماں ہو
علی سے بے حد کی حد بنائی تو دین کی سب حدود ابتر
و آلہِ گر نہیں پڑھو گے تو ہے نبی پہ درود ابتر
درود ابتر وہی پڑھے گا کہ جس کا ہوگا وجود ابتر
تمہیں کوئی حق نہیں کہ سوچو، رسولِ اکرم کا زین کیا ہے
ہماری گھٹی میں حق علی ہے یہ ہم سے پوچھو حسین کیا ہے
حسین فطرت کی صبحِ صادق، حسین عصمت کی شب سُہانی
خدا احد ہے حسین واحد، نا اُس کا ثانی، نا اِس کا ثانی
حسین کو جو جوان لکھوں تو ناز کرتی پھرے جوانی
حسین کو گر حسِین کہہ دوں تو حُسن پہ ہوگی مہربانی
حسین یزداں کا اِک ہُنر ہے، حسین دینِ خدا کا گھر ہے
حسین کا ہے یہی تعارف، یہ علم کے در کے گھر کا در ہے
حسین وہ ہے کہ جس کے دادا کے گھر میں دینِ خُدا پلا ہے
حسین وہ ہے کہ جس کی دادی کو اب بھی کعبہ جھکا ہوا ہے
حسین وہ ہے کہ جس کے نانا نے ہم کو دینِ خدا دیا ہے
حسین وہ ہے کہ جس کی نانی کے خرچ پہ دین چل رہا ہے
حسین آتا ہے ایسے گھر میں جہاں طہارت کا سائباں ہو
حسین ہوتا ہی وہ ہے جسکا پدر علی ہو بتول ماں ہو