حس شعور

نیلم

محفلین
حسِّ شعور:
بے حس اور بے ضمیر لوگوں کی تمام فتوحات مکمل طور پر حیوانی فتوحات ہوتی ہیں ۔ اِن فتوحات میں سے ہر فتح ذلت اور رسوائی کے ایک سلسلے پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ بالآخر جسمانیت کے ایک خونخوار حد تک پہنچنے‘ نفسانیت کے دوزخ کے سب سے گہرے گڑھے میں تبدیل ہو جانے‘ روح کے ہاتھ پاﺅں کے ٹوٹ جانے اور ضمیر کے نظام کے مفلوج ہو جانے پر ختم ہوتا ہے۔

وہ لوگ جن کے ضمیر دین‘ وطن اور قوم پر نازل ہونے والی مصیبتوں کے اضطراب اور درد کو محسوس کرتے ہیں ‘ وہ ایک طرح کی ایسی بلند پایہ روحیں ہوتی ہیں جو اپنے عالمِ حسّاسیت کے باعث خواب سے بیدار ہو چکی ہوتی ہیں ۔یہ لوگ ان علوی اقدار کی خاطر جنہیں وہ دل و جان سے چاہتے ہیں ‘ خوشی خوشی اپنی جان تک قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ جہاں تک بے حس اور بے شعور لوگوں کا تعلق ہے تو وہ قربانی کے بارے میں زبانی خواہ جو کچھ کہتے رہیں ‘ ان میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ اپنے منہ سے نکلنے والی باتوں میں سے چھوٹی سے چھوٹی بات پر ہی عمل بھی کر سکیں ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
پہلی دو لائنوں میں مصنف کہہ رہا ہے کہ جو بے حس ہو اس کے پیش نظر صرف وقتی مفاد ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے ویسے۔۔۔ تاریخ شاہد ہے کہ بے حس لوگوں نے جب بھی فتوحات کے جھنڈے گاڑے ہیں وہ مدتوں دنیا نے دیکھے ہیں۔ اور آج بھی مثالی ہیں۔ اور بے حس لوگوں نے بھی بڑی بڑی قربانیاں دیں ہیں۔ کہ ان کے پیش نظر جو منزل تھی اس کو حاصل کر کے رہے ہیں۔ مصنف نے ایویں رگڑ دیا ہے پکڑ کر۔۔ حالانکہ اخلاقی پستی اور اقدار کی گراوٹ کو موضوع بناتا تو زیادہ بہتر تھا۔
میرا زبردست تمہاری محنت کے لیئے ہے۔ نہ کے اس پوسٹ کے لیئے۔ :)
 

نیلم

محفلین
پہلی دو لائنوں میں مصنف کہہ رہا ہے کہ جو بے حس ہو اس کے پیش نظر صرف وقتی مفاد ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے ویسے۔۔۔ تاریخ شاہد ہے کہ بے حس لوگوں نے جب بھی فتوحات کے جھنڈے گاڑے ہیں وہ مدتوں دنیا نے دیکھے ہیں۔ اور آج بھی مثالی ہیں۔ اور بے حس لوگوں نے بھی بڑی بڑی قربانیاں دیں ہیں۔ کہ ان کے پیش نظر جو منزل تھی اس کو حاصل کر کے رہے ہیں۔ مصنف نے ایویں رگڑ دیا ہے پکڑ کر۔۔ حالانکہ اخلاقی پستی اور اقدار کی گراوٹ کو موضوع بناتا تو زیادہ بہتر تھا۔
میرا زبردست تمہاری محنت کے لیئے ہے۔ نہ کے اس پوسٹ کے لیئے۔ :)
اچھا تو پھر میری طرف سے شکریہ :)
اب مصنف کی طرف سے
بھائی میرا خیال ہے کہ آپ صیحح سے سمجھے نہیں
 

نایاب

لائبریرین
پہلی دو لائنوں میں مصنف کہہ رہا ہے کہ جو بے حس ہو اس کے پیش نظر صرف وقتی مفاد ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے ویسے۔۔۔ تاریخ شاہد ہے کہ بے حس لوگوں نے جب بھی فتوحات کے جھنڈے گاڑے ہیں وہ مدتوں دنیا نے دیکھے ہیں۔ اور آج بھی مثالی ہیں۔ اور بے حس لوگوں نے بھی بڑی بڑی قربانیاں دیں ہیں۔ کہ ان کے پیش نظر جو منزل تھی اس کو حاصل کر کے رہے ہیں۔ مصنف نے ایویں رگڑ دیا ہے پکڑ کر۔۔ حالانکہ اخلاقی پستی اور اقدار کی گراوٹ کو موضوع بناتا تو زیادہ بہتر تھا۔
میرا زبردست تمہاری محنت کے لیئے ہے۔ نہ کے اس پوسٹ کے لیئے۔ :)
محترم بھائی " مذکورہ بے حس "لوگوں اور ان کے کارناموں بارے کچھ آگہی دیں ۔کہ " بے حس " ہوتے کیسے جھنڈے گاڑے ۔۔۔۔؟
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
حسِّ شعور:
بے حس اور بے ضمیر لوگوں کی تمام فتوحات مکمل طور پر حیوانی فتوحات ہوتی ہیں ۔ اِن فتوحات میں سے ہر فتح ذلت اور رسوائی کے ایک سلسلے پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ بالآخر جسمانیت کے ایک خونخوار حد تک پہنچنے‘ نفسانیت کے دوزخ کے سب سے گہرے گڑھے میں تبدیل ہو جانے‘ روح کے ہاتھ پاﺅں کے ٹوٹ جانے اور ضمیر کے نظام کے مفلوج ہو جانے پر ختم ہوتا ہے۔
وہ لوگ جن کے ضمیر دین‘ وطن اور قوم پر نازل ہونے والی مصیبتوں کے اضطراب اور درد کو محسوس کرتے ہیں ‘ وہ ایک طرح کی ایسی بلند پایہ روحیں ہوتی ہیں جو اپنے عالمِ حسّاسیت کے باعث خواب سے بیدار ہو چکی ہوتی ہیں ۔یہ لوگ ان علوی اقدار کی خاطر جنہیں وہ دل و جان سے چاہتے ہیں ‘ خوشی خوشی اپنی جان تک قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ جہاں تک بے حس اور بے شعور لوگوں کا تعلق ہے تو وہ قربانی کے بارے میں زبانی خواہ جو کچھ کہتے رہیں ‘ ان میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ اپنے منہ سے نکلنے والی باتوں میں سے چھوٹی سے چھوٹی بات پر ہی عمل بھی کر سکیں ۔
اِحساس، ادراک، شعور اور فہم اور ضمیر جیسی اصطلاحات اب تو محض کتابی باتیں لگتی ہیں۔ یہاں آپ کا موضوعِ بحث کیا ہے؟ مجھے نہیں معلوم۔ البتہ ہم نے جو مشاہدہ کیا، وہ یہ ہےکہ جب کبھی ملک و ملت یاقوم پروقت پڑتا ہے تو بڑے بڑے حُسّاس اوربا ضمیر لوگ گوشۂ عافیت میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اوربظاہر بے ضمیر اور بے حس نظر آنے والے ہی مورچے پر سب سے آگے نظر آتے ہیں۔
 

نیلم

محفلین
اِحساس، ادراک، شعور اور فہم اور ضمیر جیسی اصطلاحات اب تو محض کتابی باتیں لگتی ہیں۔ یہاں آپ کا موضوعِ بحث کیا ہے؟ مجھے نہیں معلوم۔ البتہ ہم نے جو مشاہدہ کیا، وہ یہ ہےکہ جب کبھی ملک و ملت یاقوم پروقت پڑتا ہے تو بڑے بڑے حُسّاس اوربا ضمیر لوگ گوشۂ عافیت میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اوربظاہر بے ضمیر اور بے حس نظر آنے والے ہی مورچے پر سب سے آگے نظر آتے ہیں۔
یہاں پہ ،بظاہر ،بےحس لوگوں کی بات نہیں ہورہی ۔بلکہ واقعی بےحس اور بےضمیر لوگوں کی بات ہو رہی ہے۔نا صرف وطن کے معاملے میں بلکہ معاشرے کے ہر فرد سے تعلق کے بارے میں بات ہورہی ہے ۔آپ کو اپنے اردگرد چلتے پھرتے بہت سے بے حس بےضمیر لوگ نظر آئیں گے۔جو کبھی بھی کہیں بھی کسی کو تکلیف پہنچاکےبظاہر فتح تو حاصل کرلیتے ہیں ۔لیکن وہ فتح بلندی کی طرف نہیں پستی کی طرف لے کے جاتی ہے۔:)
 

نیلم

محفلین
ایک لڑکا اپنے باپ کے ہمراہ پہاڑوں کے درمیان ٹہل رہا تھا۔ اچانک وہ لڑکا اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور گر پڑا۔ اُسے چوٹ لگی تو بے ساختہ اُس کے حلق سے چیخ نکل گئی! ’’آہ… آ… آ… آ!‘‘ اُس لڑکے کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اُسے پہاڑوں کے درمیان کسی جگہ یہی آواز دوبارہ سنائی دی ’’آہ… آ… آ… آ!‘‘ تجسس سے وہ چیخ پڑا ’’تم کون ہو؟ اُسے جواب میں وہی آواز سنائی دی ’’تم کون ہو؟‘‘ اس جواب پر اُسے غصہ آگیا اور وہ چیختے ہوئے بولا، ’’بزدل!‘‘ اُسے جواب ملا ’’بزدل!‘‘ تب لڑکے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور پوچھا ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘

اُس کا باپ مسکرا دیا اور بولا ’’میرے بیٹے! اب دھیان سے سنو!‘‘ اور پھر باپ نے پہاڑوں کی سمت دیکھتے ہوئے صدا لگائی ’’میں تمھیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔‘‘ آواز نے جواب دیا ’’میں تمھیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔‘‘ وہ شخص دوبارہ چیخ کر بولا ’’تم چیمپیئن ہو!‘‘ آواز نے جواب دیا ’’تم چیمپیئن ہو!‘‘ لڑکا حیران رہ گیا، لیکن اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔

تب اُس کے باپ نے اُسے سمجھایا ’’لوگ اِسے’’بازگشت‘‘ کہتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ زندگی ہے۔ یہ تمھیں ہر وہ چیز لوٹا دیتی ہے جو تم کہتے یا کرتے ہو۔ ہماری زندگی ہماری کارکردگی کا عکس ہوتی ہے۔ اگر تم دنیا میں زیادہ پیار چاہتے ہو تو اپنے دل میں زیادہ پیار پیدا کرو۔ اگر تم اپنی ٹیم میں زیادہ استعداد چاہتے ہو تو اپنی استعداد بہتر بنائو۔ یہ تعلق ہر وہ شے لوٹا دیتا ہے جو تم نے اُسے دی ہوتی ہے۔ تمھاری زندگی کوئی اتفاق نہیں، یہ تمھارا ہی عکس ہے۔
 

نیلم

محفلین
واہ! نیلم ! مزہ آگیا۔ ایک تمثیل کےذریعہ کتنی بڑی بات کہہ ڈالی۔ آپ کو تو کسی اِسکول میں مدرس ہونا چاہیے۔
بہت شکریہ :)
بات تو آپ نے بہت بڑی کہہ دی میں اس قابل نہیں :)
ویسے میں ایک اسکول میں پڑھا بھی چُکی ہوں 3 منتھ ہی پڑھایا صرف ۔پھر اپنی سُستی کی وجہ سے چھوڑ دیا:)
 
Top