امین شارق
محفلین
الف عین سر یاسر شاہ
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
ایک دِن مرنا پڑے گا ہر بدن سکتے میں ہے
حشر کا جب سے سُنا چرخِ کہن سکتے میں ہے
وہ خِزاں آئی کہ ہر اِک گُلبدن سکتے میں ہے
پُھول سب مُرجھا گئے ہیں اور چمن سکتے میں ہے
لوٹ کر جانا ہے سب کو انتہا بس موت ہے
گنگ ہیں ساری زبانیں ہر دہن سکتے میں ہے
دِل بھی سینے میں ہے سہما یوں شِکاری موت سے
جیسے جنگل میں کوئی سہما ہرن سکتے میں ہے
وقت جو گُذرا ہے واپس آ نہیں سکتا کبھی
جاں نِکل کر جا چکی ہے اور تن سکتے میں ہے
لوگ مرتے ہیں ہزاروں ،بستیاں ویران ہیں
کیسے کیسے دیکھے لاشے گورکن سکتے میں ہے
دشت کی تنہائی سے اِتنا سمجھ آیا مجھے
قیس کی بے چارگی دیکھی ہے بن سکتے میں ہے
جِس کا دُولہا چل بسے ہے بِن مرے ایسے ہی وہ
جیسے پہلی رات کی کوئی دُلہن سکتے میں ہے
تُجھ کو بھی مُجھ سے ہے اُلفت دِل نے یہ سوچا تھا جاں!
بے رُخی سے تیری میرا حُسنِ ظن سکتے میں ہے
شاعِری کے بادشاہ تھے اپنے اپنے دور کے
مِیر و غالب کی جُدائی پر سُخن سکتے میں ہے
رونقِ محفل ہُوا کرتا تھا میں شارؔق کبھی
میری تنہائی پہ ساری انجمن سکتے میں ہے
حشر کا جب سے سُنا چرخِ کہن سکتے میں ہے
وہ خِزاں آئی کہ ہر اِک گُلبدن سکتے میں ہے
پُھول سب مُرجھا گئے ہیں اور چمن سکتے میں ہے
لوٹ کر جانا ہے سب کو انتہا بس موت ہے
گنگ ہیں ساری زبانیں ہر دہن سکتے میں ہے
دِل بھی سینے میں ہے سہما یوں شِکاری موت سے
جیسے جنگل میں کوئی سہما ہرن سکتے میں ہے
وقت جو گُذرا ہے واپس آ نہیں سکتا کبھی
جاں نِکل کر جا چکی ہے اور تن سکتے میں ہے
لوگ مرتے ہیں ہزاروں ،بستیاں ویران ہیں
کیسے کیسے دیکھے لاشے گورکن سکتے میں ہے
دشت کی تنہائی سے اِتنا سمجھ آیا مجھے
قیس کی بے چارگی دیکھی ہے بن سکتے میں ہے
جِس کا دُولہا چل بسے ہے بِن مرے ایسے ہی وہ
جیسے پہلی رات کی کوئی دُلہن سکتے میں ہے
تُجھ کو بھی مُجھ سے ہے اُلفت دِل نے یہ سوچا تھا جاں!
بے رُخی سے تیری میرا حُسنِ ظن سکتے میں ہے
شاعِری کے بادشاہ تھے اپنے اپنے دور کے
مِیر و غالب کی جُدائی پر سُخن سکتے میں ہے
رونقِ محفل ہُوا کرتا تھا میں شارؔق کبھی
میری تنہائی پہ ساری انجمن سکتے میں ہے