حصارِ الفت برائے اصلاح

الف عین
افاعیل ---مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
---------------------
الفت کا تھا حصار جو توڑا نہ جا سکا
مجھ سے تو اس کا پیار بھی چھوڑا نہ جا سکا
--------------------
کرتا رہا دعا میں تو رب سے ہی رحم کی
مجھ سے کسی کاتھ تو موڑا نہ جا سکا
--------------
اللہ جانتا ہے کسی کو دل میں ہے
دل سے کسی کے راز نچوڑا نہ جا سکا
----------------
توڑا نہیں ہے میں نے کبھی کسی کا بھی دل
چاہا کبھی اگر تو بھی توڑا نہ جا سکا
-----------------
ارشد نے خود چنا ہے یہ الفت کا راستہ
اس سے کسی کو راہ میں چھوڑا نہ جا سکا
 

الف عین

لائبریرین
الفت کا تھا حصار جو توڑا نہ جا سکا
مجھ سے تو اس کا پیار بھی چھوڑا نہ جا سکا
-------------------- اس کا اور کیا چھوڑا نہ جا سکا؟ 'بھی' سے ایسا ہی کچھ لگتا ہے

کرتا رہا دعا میں تو رب سے ہی رحم کی
مجھ سے کسی کاتھ تو موڑا نہ جا سکا
-------------- سمجھ نہیں سکا، شاید ٹائپو ہے، ایک بار دیکھ لیا کریں لکھنے کے بعد

اللہ جانتا ہے کسی کو دل میں ہے
دل سے کسی کے راز نچوڑا نہ جا سکا
---------------- ٹائپو!
راز. نچوڑنا سمجھ میں نہیں آیا

توڑا نہیں ہے میں نے کبھی کسی کا بھی دل
چاہا کبھی اگر تو بھی توڑا نہ جا سکا
----------------- پہلا مصرع بحر سے خارج یا ٹائپو
دوسرے میں روانی کی کمی

ارشد نے خود چنا ہے یہ الفت کا راستہ
اس سے کسی کو راہ میں چھوڑا نہ جا سکا
دو لخت لگ رہا ہے
 
دوبارا الف عین
----------------
الفت کا تھا حصار جو توڑا نہ جا سکا
مجھ سے کسی کا پیار تو چھوڑا نہ جا سکا
--------------------
سوچا نہیں ہے بُرا میں نے کسی کا کبھی
ظالم کا ہاتھ بھی تو مروڑا نہ جا سکا
------------------
جو بھی دیا تھا رب نے مجھے اُس پہ خوش رہا
مجھ سے کسی کا مال بٹوڑا نہ جا سکا
--------------------
مجھ کو ملا جواب نہ میرے سوال کا
مجھ سے کسی کو پھر بھی تو چھوڑا نہ جا سکا
------------------
رکھا خیال ٹوٹ نہ جائے کسی کا دل
چاہا کبھی اگر تو بھی توڑا نہ جا سکا
-----------
ارشد نے ساتھ چل کے دکھایا جہاں کو ہے
اُس سے کسی کو راہ میں چھوڑا نہ جا سکا
----------------
 

الف عین

لائبریرین
الفت کا تھا حصار جو توڑا نہ جا سکا
مجھ سے کسی کا پیار تو چھوڑا نہ جا سکا
-------------------- دوسرے مصرعے میں 'تو' بھرتی کا ہے،
مجھ سے کسی کو/ مجھ کو کسی سے پیار تھا، چھوڑا.....

سوچا نہیں ہے بُرا میں نے کسی کا کبھی
ظالم کا ہاتھ بھی تو مروڑا نہ جا سکا
------------------ پہلا مصرع بحر سے خارج ہے

جو بھی دیا تھا رب نے مجھے اُس پہ خوش رہا
مجھ سے کسی کا مال بٹوڑا نہ جا سکا
-------------------- بٹورا لفظ ہے جو قافیہ نہیں ہو سکتا

مجھ کو ملا جواب نہ میرے سوال کا
مجھ سے کسی کو پھر بھی تو چھوڑا نہ جا سکا
------------------ کُ پر بِ تو' رواں نہیں یہی بات یوں بھی کہہ سکتے ہیں
پھر بھی مجھے کسی کو تو...
مفہوم البتہ مجہول ہے

رکھا خیال ٹوٹ نہ جائے کسی کا دل
چاہا کبھی اگر تو بھی توڑا نہ جا سکا
----------- ایک ہی بات دونوں مصرعوں میں کہی گئی ہے
کبھی اور اگر دونوں الفاظ ایک ساتھ استعمال نہ کیے جائیں

ارشد نے ساتھ چل کے دکھایا جہاں کو ہے
اُس سے کسی کو راہ میں چھوڑا نہ جا سکا
... ٹھیک
 
Top