علی فاروقی
محفلین
بے نُور ہوں کہ شمعِ سرِ راہ گزرمیں ہوں
بے رنگ ہوں کہ گردشِ خونِ جگر میں ہوں
اندھا ہوں یوں کہ کور نگاہوں میں رہ سکوں
بہرہ ہوں یوں کہ قصّہ ءِ نہ معتبر میں ہوں
ذرّے جوان ہو کے اُفق تک پہنچ گئے
میں اتنے ماہ و سال سے بطنِ گہر میں ہوں
مستقبلِ بعید کی آنکھوں کی روشنی
اوروں میں ہوں نہ ہوں مگر اپنی نظر میں ہوں
لاکھوں شہادتوں نے مجھے واسطے دیئے'
میں شب گزیدہ پھر بھی تلاشِ سحر میں ہوں
سفّاک بچپنوں کا کھلونابنا ہوا ہے
دنیاکی زد میں پنجہِ شمس و قمر میں ہوں
میں جنگلوں کی رات سے تو بچ آگیا
اب کیا کروں کہ وادیءِ نوعِ بشر میں ہوں
جی چاہتاہے مثلِ ضیا تجھ سے تجھ سے مِل سکوں
مجبور ہوں کہ محبسِ دیوار و در میں ہوں
میں ہم نشینِ خلوتِ شہنازِ لالہ رُخ
میں گرمئ پسینہِءِ اہلِ ہنر میں ہوں
خوابوں کے راہروو، مجھے پہچاننے کے بعد
آواز دو کہ اصل مِیں ہوں یا خبر میں ہوں
اتنی تو دور منزلِ وارفتگا ں نہ تھی
کن راستوں پہ ہوں کہ ابھی تک سفر میں ہوں
کیسا حصار ہے جو مجھے چھوڑتا نہیں
میں کس طلسمِ ہوش رُباکے اثر میں ہوں
زنداں میں ہوں کہ اپنے وطن کی فصیل میں
عزّت سے ہوں کہ جسم فروشوں کے گھر میں ہوں
بے رنگ ہوں کہ گردشِ خونِ جگر میں ہوں
اندھا ہوں یوں کہ کور نگاہوں میں رہ سکوں
بہرہ ہوں یوں کہ قصّہ ءِ نہ معتبر میں ہوں
ذرّے جوان ہو کے اُفق تک پہنچ گئے
میں اتنے ماہ و سال سے بطنِ گہر میں ہوں
مستقبلِ بعید کی آنکھوں کی روشنی
اوروں میں ہوں نہ ہوں مگر اپنی نظر میں ہوں
لاکھوں شہادتوں نے مجھے واسطے دیئے'
میں شب گزیدہ پھر بھی تلاشِ سحر میں ہوں
سفّاک بچپنوں کا کھلونابنا ہوا ہے
دنیاکی زد میں پنجہِ شمس و قمر میں ہوں
میں جنگلوں کی رات سے تو بچ آگیا
اب کیا کروں کہ وادیءِ نوعِ بشر میں ہوں
جی چاہتاہے مثلِ ضیا تجھ سے تجھ سے مِل سکوں
مجبور ہوں کہ محبسِ دیوار و در میں ہوں
میں ہم نشینِ خلوتِ شہنازِ لالہ رُخ
میں گرمئ پسینہِءِ اہلِ ہنر میں ہوں
خوابوں کے راہروو، مجھے پہچاننے کے بعد
آواز دو کہ اصل مِیں ہوں یا خبر میں ہوں
اتنی تو دور منزلِ وارفتگا ں نہ تھی
کن راستوں پہ ہوں کہ ابھی تک سفر میں ہوں
کیسا حصار ہے جو مجھے چھوڑتا نہیں
میں کس طلسمِ ہوش رُباکے اثر میں ہوں
زنداں میں ہوں کہ اپنے وطن کی فصیل میں
عزّت سے ہوں کہ جسم فروشوں کے گھر میں ہوں