الف نظامی
لائبریرین
2 Oct 2010
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے جن عظیم سائنس دانوں نے خطے کی انتہائی جارحانہ فضا میں ہماری قومی سلامتی کو نئی جہت عطا کی ‘ انہیں ہم نے غیروں کے اشارے پر انکے عظیم مقصدسے روک دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جنہوں نے بھارت کے مقابلے میں انتہائی نامساعد حالات کا پامردی سے مقابلہ کیا اور یورینیم کی افزودگی اور ایٹمی ہتھیار بنانے کی تکنیک حاصل کر کے پاکستان کی سلامتی کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ یہ اتنی عظیم قومی خدمت تھی جس کیلئے قوم کو ان کا تاحیات شکرگزار ہونا چاہئے تھا لیکن ہم نے ناشکری کی انتہا کرتے ہوئے انہیں ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاو کا مرتکب ہونے کے تمغے سے نوازا۔حالانکہ ایٹمی ٹیکنالوجی اور ایٹم بم بنانے سے متعلق ہر چیز عالمی بلیک مارکیٹ سے بآسانی خریدی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ‘ جنہیں حکومت وقت نے اس بات کا اختیار دیا تھا کہ وہ عالمی ایٹمی مارکیٹ سے استفادہ کرتے ہوئے ہر قیمت پر ایٹمی طاقت کے حصول کو یقینی بنائیں کیونکہ پاکستان کیلئے جائز طریقے سے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے تمام راستے بند کر دئے گئے تھے۔ جب پاکستان نے بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کئے تو پوری دنیا حیران رہ گئی لیکن ہم نے اپنے اس محسن کو رسوائی و عبرت کا نشان بنا دیا !!
پاکستان کی ایٹمی حیثیت کو بھارت اور اسرائیل کے مفادات کیلئے خطرہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہی وہ وجہ ہے کہ جس سے خطے میں ایٹمی توازن قائم ہے جو اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام ہے۔ایٹمی صلاحیت نہ صرف دفاعی نقطہ نظر سے سلامتی کو یقینی بناتی ہے بلکہ ایسے مواقع بھی فراہم کرتی ہے جسے ہم اپنی توانائی کی مختلف ضروریات پوری کرنے کیلئے بھی استعمال کر تے ہیں۔ہمیں اپنی قومی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے آئندہ دس سے پندرہ سالوں میں کم از کم بیس تا پچیس ایٹمی توانائی کے پلانٹس لگانا ہوں گے کیونکہ ایٹمی توانائی نہ صرف پیداواری لاگت کے حوالے سے سستی پڑتی ہے بلکہ اس سے ماحولیاتی آلودگی بھی نہیں ہوتی۔
ہماری توانائی پیدا کرنے کی پالیسی میں بہت سی خامیاں ہیں۔ سابقہ حکومتوں نے بجلی پیدا کرنے میں تھرمل پاور کے طریقے پر زور دیا جس پر بہت زیادہ لاگت آتی ہے کیونکہ اس کا انحصار درآمدی تیل پر ہوتا ہے اس طرح جو بجلی اس ذریعے سے پیدا کی جاتی ہے وہ بہت زیادہ مہنگی پڑتی ہے جس سے ملک پر قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے اور قوم سرکلر ڈیبٹ (Circular Debt)کی لعنت سے دوچار ہے لہذا ہمیں چاہیئے کہ اس طریق کار کو فوری طور پرخیرباد کہہ کر ہائیڈرو پاوراور کوئلہ کی گیس سے چلنے والے توانائی کے حصول پر توجہ دیں۔ ملک میں توانائی کی کمی اور بڑھتی ہوئی ضروریا ت کے پیش نظر زیادہ سے زیادہ ڈیم بناناہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے جوکہ ہر لحاظ سے بہتر اور توانائی پیدا کرنے کا سستا ترین اور آزمودہ ذریعہ ہیں۔ کالاباغ ڈیم کے منصوبے پر کافی اعتراضات ہیں لیکن ملک میں اور بھی متعدد مقامات ایسے ہیں جہاں پر ڈیم تعمیر کئے جا سکتے ہیں‘پانی کے ذخائر تعمیر کرنے سے ہم سیلابوں کی تباہی سے بھی بچ سکتے ہیں جن کی وجہ سے حال ہی میں ہمارے ملک کا نہ صرف زرعی ڈھانچہ تباہ و برباد ہوا ہے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ لاکھوں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں اور قیمتی انسانی جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں‘ اسلئے ہم ہائیڈرو ذرائع کی افادیت سے انکار نہیں کر سکتے‘ اگر ہمیں مستقبل میں ایسے سیلابوں کی تباہ کاریوں سے اپنے آپکومحفوظ بنانا ہے تو ہمیں ہائیڈل ذرائع سے توانائی کے حصول کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ اس ذریعہ سے ہم آئندہ دس برسوں میں اپنی قومی توانائی کی کم ازکم پچیس تا تیس فیصد ضرورت پوری کرنے کے اہل ہو سکیں۔
اللہ تعالی نے ہمیں زیر زمین کوئلے کے ذخائر وافر مقدار میں عطا کئے ہیں جسے صحیح طور پر استعمال میں لانے کیلئے مربوط حکمت عملی وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی زیر قیادت سائنسدانوں کی ایک ٹیم ”تھر کول گورننگ باڈی” کے نام سے تشکیل دی گئی تھی جس کی ذمہ داری زیر زمین موجود کوئلے کو جلا کر اس سے توانائی حاصل کرنے کی اہلیت حاصل کرنا تھا۔ اس ذریعے سے تجرباتی طور پر 100میگا واٹ بجلی کی پیداوار آخری مراحل میں ہے جبکہ ایک ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت آئندہ تین برسوں میں حاصل ہو جائیگی۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے بقول اس ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے پچاس ہزار میگا واٹ تک بجلی حاصل کی جا سکتی ہے جو ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل سے بھی مبرا ہوگی اور ایک مدت تک ملک کی توانائی کی ضروریات بھی پوری کر سکے گی لیکن بدقسمتی سے کچھ مفاد پرست عناصر اس کیخلاف کالاباغ ڈیم کی طرح کا مزموم پروپیگنڈا کر کے اسے بھی متنازع بنا نے کی کوشش میں ہیں اور اسی سبب عالمی بینک چند غیر ملکی طاقتوں کے دباو میں آکر اس منصوبے کیلئے فنڈز فراہم کرنے کے وعدے سے منحرف ہوگیا ہے حالانکہ اس نے جنوبی افریقہ اور دیگر کئی ممالک میں اسی طرح کے منصوبوں کیلئے رقوم فراہم کی ہیں۔ تھر کول منصوبہ پاکستان کی معیشت کیلئے انتہائی اہم ہے لہٰذا ہمیں ہر حال میں اس کا دفاع کرنا ہے اور تمام تر مخالفت کے باوجود اپنے منصوبے پائیہ تکمیل تک پہنچانے ہیں۔تھر کول منصوبے کے ذریعے سے جو بجلی پیدا ہو گی وہ انتہائی سستی ہوگی اور عام پاکستانی کی پہنچ میں ہوگی۔ حکومت سندھ کے تخمینے کیمطابق شروع شروع میں اسکی قیمت 3.9 روپے فی یونٹ تک ہوگی لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ حکومت کی ترجیحات کچھ اور ہیں اورپالیسی بھی ناکام ہے جس کے ذریعے کرائے کے بجلی گھر حاصل کرنے کیلئے 223.5 بلین روپے ادا کئے جا چکے ہیں جن کی کل پیداواری صلاحیت 1206 میگاواٹ ہے لیکن بدقسمتی سے ابھی تک ان میں سے اکثر پیداوار شروع نہیں کر سکے ہیں۔ یہ بات بالکل طے ہے کہ نہ تو تھرمل منصوبے ہمارے قومی مفادات کیلئے افادیت کے حامل ہیں اور نہ ہی کرائے کے بجلی گھر۔
وفاقی حکومت کو چاہئے کہ تھر کول منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے ضروری وسائل اور فنڈز فراہم کرے اور ملک میں توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے تھر کول منصوبے جلد از جلد مکمل کرے۔ اگرمختلف ذرائع سے حاصل کی جانیوالی بجلی کی قیمتوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے توتھر کول منصوبے سے حاصل کی جانیوالی بجلی 3.9 روپے فی یونٹ ہے: تھرمل ذرائع سے حاصل کی جانیوالی بجلی 7.9 روپے فی یونٹ اور کرائے کے تھرمل پاور پلانٹس کے ذریعے سے حاصل کی جانے والی بجلی کی قیمت 11.9 روپے فی یونٹ بنتی ہے اگر حکومت اس منصوبے کیلئے فنڈز اوروسائل فراہم کرنے سے معذور ہے تو اسے چاہئے کہ اسے مکمل کرنے کیلئے عوام کو سرمایہ کاری کی دعوت دے لیکن خدارا قومی معیشت کیلئے اس انتہائی اہم منصوبے کو سرخ فیتہ کی نذر نہ ہونے دیا جائے۔
قدرت نے ہمیں بہت سی فیاضیوں سے نوازا ہے جن میں ہائیڈل ‘ کوئلہ اور ایٹمی ذرائع شامل ہیں۔ ان کواستعمال میں لانے کیلئے قومی سوچ کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان میں پائے جانیوالے یورینیم کے خزانے دنیا کے مجموعی خزانوں کا تقریباً 20 فیصد ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہائیڈل ‘ کوئلے اور ایٹمی ذرائع کو استعمال کرنے کیساتھ ساتھ ڈاکٹر عبدلقدیر خان کو یہ ذمہ داری سونپی جائے کہ وہ سورج (Solar) اور ہوا (Wind) کے استعمال سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبوں پر کام کریں تاکہ غیروں پر انحصار کم سے کم ہو۔ مختلف ذرائع سے توانائی کے حصول کا بنیادی مقصد عوام کی ضروریات کو پورا کرنا ہے‘ ہم صرف امید ہی کر سکتے ہیں کہ ہمارے ارباب اختیار اور پالیسی ساز ملکی مفادات کو ذاتی مفادات پرفوقیت دیتے ہوئے ملک کو درپیش توانائی کے بحران پر قابو پاکر توانائی کے حوالے سے ملک کو خود کفالت کی راہ پر ڈال سکیں گے۔ یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جوقومی سلامتی اور تعمیر و ترقی کے ماہرین پر مشتمل ایک ”قومی ادارے“ کے قیام کی اہمیت کا تقاضا کرتاہے۔ بھارت اور دیگر متعدد ممالک میں ایسے ادارے موجود ہیں جوملکی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے ذمہ دار حکام کو بروقت اقدامات اٹھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔اسکے برعکس ہمارے ہاں سارا کام عارضی طریقوں سے چلایا جا رہا ہے اور ایک دن جو فیصلہ کیا جاتا ہے وہ دوسرے دن واپس لے لیا جاتا ہے لیکن ہم اس سلسلے کو جاری رکھنے کے مزید متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس وقت ملک کو وزیر اعظم کی زیر نگرانی ایک مشاورتی بورڈ تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے جو مستقل طور پر کام کرتے ہوئے اہم نوعیت کے فیصلوںکے حوالے سے حکمت عملی مرتب کر سکے یہی وہ ذریعہ ہے جس سے ہمارے قومی مفادات مکمل طور پر محفوظ ہو سکتے ہیں۔ عظیم تر قومی مفادات کے تحفظ کی خاطر ہمیں ہر قسم کے دباو کا جوانمری سے مقابلہ کرنا ہوگا اور اندرونی و بیرونی دباو کے آگے جھکنے کی روایت کو خیر باد کہنا ہوگا۔آپ نے دیکھا کہ بار بار کے معذرت خواہانہ رد عمل کے بعد ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی پر صرف ایک بار جرات مندانہ جواب دیا گیا تو امریکہ نے معافی مانگ لی۔ خوددار اور باوقار قوموں کا رد عمل ایسا ہی ہوتا ہے۔
فرینکلن روزویلٹ نے کیا خوب کہا تھا: ”گھٹنے ٹیک کر جینے سے بہتر ہے کہ انسان اپنے پاوں پر کھڑا رہ کر موت کو گلے لگا لے۔“
٭٭٭
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے جن عظیم سائنس دانوں نے خطے کی انتہائی جارحانہ فضا میں ہماری قومی سلامتی کو نئی جہت عطا کی ‘ انہیں ہم نے غیروں کے اشارے پر انکے عظیم مقصدسے روک دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جنہوں نے بھارت کے مقابلے میں انتہائی نامساعد حالات کا پامردی سے مقابلہ کیا اور یورینیم کی افزودگی اور ایٹمی ہتھیار بنانے کی تکنیک حاصل کر کے پاکستان کی سلامتی کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ یہ اتنی عظیم قومی خدمت تھی جس کیلئے قوم کو ان کا تاحیات شکرگزار ہونا چاہئے تھا لیکن ہم نے ناشکری کی انتہا کرتے ہوئے انہیں ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاو کا مرتکب ہونے کے تمغے سے نوازا۔حالانکہ ایٹمی ٹیکنالوجی اور ایٹم بم بنانے سے متعلق ہر چیز عالمی بلیک مارکیٹ سے بآسانی خریدی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ‘ جنہیں حکومت وقت نے اس بات کا اختیار دیا تھا کہ وہ عالمی ایٹمی مارکیٹ سے استفادہ کرتے ہوئے ہر قیمت پر ایٹمی طاقت کے حصول کو یقینی بنائیں کیونکہ پاکستان کیلئے جائز طریقے سے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے تمام راستے بند کر دئے گئے تھے۔ جب پاکستان نے بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کئے تو پوری دنیا حیران رہ گئی لیکن ہم نے اپنے اس محسن کو رسوائی و عبرت کا نشان بنا دیا !!
پاکستان کی ایٹمی حیثیت کو بھارت اور اسرائیل کے مفادات کیلئے خطرہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہی وہ وجہ ہے کہ جس سے خطے میں ایٹمی توازن قائم ہے جو اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام ہے۔ایٹمی صلاحیت نہ صرف دفاعی نقطہ نظر سے سلامتی کو یقینی بناتی ہے بلکہ ایسے مواقع بھی فراہم کرتی ہے جسے ہم اپنی توانائی کی مختلف ضروریات پوری کرنے کیلئے بھی استعمال کر تے ہیں۔ہمیں اپنی قومی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے آئندہ دس سے پندرہ سالوں میں کم از کم بیس تا پچیس ایٹمی توانائی کے پلانٹس لگانا ہوں گے کیونکہ ایٹمی توانائی نہ صرف پیداواری لاگت کے حوالے سے سستی پڑتی ہے بلکہ اس سے ماحولیاتی آلودگی بھی نہیں ہوتی۔
ہماری توانائی پیدا کرنے کی پالیسی میں بہت سی خامیاں ہیں۔ سابقہ حکومتوں نے بجلی پیدا کرنے میں تھرمل پاور کے طریقے پر زور دیا جس پر بہت زیادہ لاگت آتی ہے کیونکہ اس کا انحصار درآمدی تیل پر ہوتا ہے اس طرح جو بجلی اس ذریعے سے پیدا کی جاتی ہے وہ بہت زیادہ مہنگی پڑتی ہے جس سے ملک پر قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے اور قوم سرکلر ڈیبٹ (Circular Debt)کی لعنت سے دوچار ہے لہذا ہمیں چاہیئے کہ اس طریق کار کو فوری طور پرخیرباد کہہ کر ہائیڈرو پاوراور کوئلہ کی گیس سے چلنے والے توانائی کے حصول پر توجہ دیں۔ ملک میں توانائی کی کمی اور بڑھتی ہوئی ضروریا ت کے پیش نظر زیادہ سے زیادہ ڈیم بناناہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے جوکہ ہر لحاظ سے بہتر اور توانائی پیدا کرنے کا سستا ترین اور آزمودہ ذریعہ ہیں۔ کالاباغ ڈیم کے منصوبے پر کافی اعتراضات ہیں لیکن ملک میں اور بھی متعدد مقامات ایسے ہیں جہاں پر ڈیم تعمیر کئے جا سکتے ہیں‘پانی کے ذخائر تعمیر کرنے سے ہم سیلابوں کی تباہی سے بھی بچ سکتے ہیں جن کی وجہ سے حال ہی میں ہمارے ملک کا نہ صرف زرعی ڈھانچہ تباہ و برباد ہوا ہے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ لاکھوں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں اور قیمتی انسانی جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں‘ اسلئے ہم ہائیڈرو ذرائع کی افادیت سے انکار نہیں کر سکتے‘ اگر ہمیں مستقبل میں ایسے سیلابوں کی تباہ کاریوں سے اپنے آپکومحفوظ بنانا ہے تو ہمیں ہائیڈل ذرائع سے توانائی کے حصول کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ اس ذریعہ سے ہم آئندہ دس برسوں میں اپنی قومی توانائی کی کم ازکم پچیس تا تیس فیصد ضرورت پوری کرنے کے اہل ہو سکیں۔
اللہ تعالی نے ہمیں زیر زمین کوئلے کے ذخائر وافر مقدار میں عطا کئے ہیں جسے صحیح طور پر استعمال میں لانے کیلئے مربوط حکمت عملی وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی زیر قیادت سائنسدانوں کی ایک ٹیم ”تھر کول گورننگ باڈی” کے نام سے تشکیل دی گئی تھی جس کی ذمہ داری زیر زمین موجود کوئلے کو جلا کر اس سے توانائی حاصل کرنے کی اہلیت حاصل کرنا تھا۔ اس ذریعے سے تجرباتی طور پر 100میگا واٹ بجلی کی پیداوار آخری مراحل میں ہے جبکہ ایک ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت آئندہ تین برسوں میں حاصل ہو جائیگی۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے بقول اس ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے پچاس ہزار میگا واٹ تک بجلی حاصل کی جا سکتی ہے جو ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل سے بھی مبرا ہوگی اور ایک مدت تک ملک کی توانائی کی ضروریات بھی پوری کر سکے گی لیکن بدقسمتی سے کچھ مفاد پرست عناصر اس کیخلاف کالاباغ ڈیم کی طرح کا مزموم پروپیگنڈا کر کے اسے بھی متنازع بنا نے کی کوشش میں ہیں اور اسی سبب عالمی بینک چند غیر ملکی طاقتوں کے دباو میں آکر اس منصوبے کیلئے فنڈز فراہم کرنے کے وعدے سے منحرف ہوگیا ہے حالانکہ اس نے جنوبی افریقہ اور دیگر کئی ممالک میں اسی طرح کے منصوبوں کیلئے رقوم فراہم کی ہیں۔ تھر کول منصوبہ پاکستان کی معیشت کیلئے انتہائی اہم ہے لہٰذا ہمیں ہر حال میں اس کا دفاع کرنا ہے اور تمام تر مخالفت کے باوجود اپنے منصوبے پائیہ تکمیل تک پہنچانے ہیں۔تھر کول منصوبے کے ذریعے سے جو بجلی پیدا ہو گی وہ انتہائی سستی ہوگی اور عام پاکستانی کی پہنچ میں ہوگی۔ حکومت سندھ کے تخمینے کیمطابق شروع شروع میں اسکی قیمت 3.9 روپے فی یونٹ تک ہوگی لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ حکومت کی ترجیحات کچھ اور ہیں اورپالیسی بھی ناکام ہے جس کے ذریعے کرائے کے بجلی گھر حاصل کرنے کیلئے 223.5 بلین روپے ادا کئے جا چکے ہیں جن کی کل پیداواری صلاحیت 1206 میگاواٹ ہے لیکن بدقسمتی سے ابھی تک ان میں سے اکثر پیداوار شروع نہیں کر سکے ہیں۔ یہ بات بالکل طے ہے کہ نہ تو تھرمل منصوبے ہمارے قومی مفادات کیلئے افادیت کے حامل ہیں اور نہ ہی کرائے کے بجلی گھر۔
وفاقی حکومت کو چاہئے کہ تھر کول منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے ضروری وسائل اور فنڈز فراہم کرے اور ملک میں توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے تھر کول منصوبے جلد از جلد مکمل کرے۔ اگرمختلف ذرائع سے حاصل کی جانیوالی بجلی کی قیمتوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے توتھر کول منصوبے سے حاصل کی جانیوالی بجلی 3.9 روپے فی یونٹ ہے: تھرمل ذرائع سے حاصل کی جانیوالی بجلی 7.9 روپے فی یونٹ اور کرائے کے تھرمل پاور پلانٹس کے ذریعے سے حاصل کی جانے والی بجلی کی قیمت 11.9 روپے فی یونٹ بنتی ہے اگر حکومت اس منصوبے کیلئے فنڈز اوروسائل فراہم کرنے سے معذور ہے تو اسے چاہئے کہ اسے مکمل کرنے کیلئے عوام کو سرمایہ کاری کی دعوت دے لیکن خدارا قومی معیشت کیلئے اس انتہائی اہم منصوبے کو سرخ فیتہ کی نذر نہ ہونے دیا جائے۔
قدرت نے ہمیں بہت سی فیاضیوں سے نوازا ہے جن میں ہائیڈل ‘ کوئلہ اور ایٹمی ذرائع شامل ہیں۔ ان کواستعمال میں لانے کیلئے قومی سوچ کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان میں پائے جانیوالے یورینیم کے خزانے دنیا کے مجموعی خزانوں کا تقریباً 20 فیصد ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہائیڈل ‘ کوئلے اور ایٹمی ذرائع کو استعمال کرنے کیساتھ ساتھ ڈاکٹر عبدلقدیر خان کو یہ ذمہ داری سونپی جائے کہ وہ سورج (Solar) اور ہوا (Wind) کے استعمال سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبوں پر کام کریں تاکہ غیروں پر انحصار کم سے کم ہو۔ مختلف ذرائع سے توانائی کے حصول کا بنیادی مقصد عوام کی ضروریات کو پورا کرنا ہے‘ ہم صرف امید ہی کر سکتے ہیں کہ ہمارے ارباب اختیار اور پالیسی ساز ملکی مفادات کو ذاتی مفادات پرفوقیت دیتے ہوئے ملک کو درپیش توانائی کے بحران پر قابو پاکر توانائی کے حوالے سے ملک کو خود کفالت کی راہ پر ڈال سکیں گے۔ یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جوقومی سلامتی اور تعمیر و ترقی کے ماہرین پر مشتمل ایک ”قومی ادارے“ کے قیام کی اہمیت کا تقاضا کرتاہے۔ بھارت اور دیگر متعدد ممالک میں ایسے ادارے موجود ہیں جوملکی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے ذمہ دار حکام کو بروقت اقدامات اٹھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔اسکے برعکس ہمارے ہاں سارا کام عارضی طریقوں سے چلایا جا رہا ہے اور ایک دن جو فیصلہ کیا جاتا ہے وہ دوسرے دن واپس لے لیا جاتا ہے لیکن ہم اس سلسلے کو جاری رکھنے کے مزید متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس وقت ملک کو وزیر اعظم کی زیر نگرانی ایک مشاورتی بورڈ تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے جو مستقل طور پر کام کرتے ہوئے اہم نوعیت کے فیصلوںکے حوالے سے حکمت عملی مرتب کر سکے یہی وہ ذریعہ ہے جس سے ہمارے قومی مفادات مکمل طور پر محفوظ ہو سکتے ہیں۔ عظیم تر قومی مفادات کے تحفظ کی خاطر ہمیں ہر قسم کے دباو کا جوانمری سے مقابلہ کرنا ہوگا اور اندرونی و بیرونی دباو کے آگے جھکنے کی روایت کو خیر باد کہنا ہوگا۔آپ نے دیکھا کہ بار بار کے معذرت خواہانہ رد عمل کے بعد ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی پر صرف ایک بار جرات مندانہ جواب دیا گیا تو امریکہ نے معافی مانگ لی۔ خوددار اور باوقار قوموں کا رد عمل ایسا ہی ہوتا ہے۔
فرینکلن روزویلٹ نے کیا خوب کہا تھا: ”گھٹنے ٹیک کر جینے سے بہتر ہے کہ انسان اپنے پاوں پر کھڑا رہ کر موت کو گلے لگا لے۔“
٭٭٭