رانا
محفلین
حضرت مصلح موعود نے 14جنوری 1929 کو لاہور میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘ دوسری بات قرآن پر عمل کرنے والوں کے متعلق یہ بیان کی کہ ۔۔۔ جس مقصد کو لے کر وہ کھڑے ہوں گے، اسے ضرور پالیں گے۔ ’مفلحون‘ کے یہ معنی نہیں کہ بڑے بن جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ قرار دے کر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ہم تو دیکھتے ہیں۔ قرآن کو نہ ماننے والے دنیا میں حکومتیں کرتے ہیں، آرام و آسائش کی زندگی بسر کرتے ہیں، عزت و شوکت رکھتے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں قرآن کو ماننے والے کوئی حقیقت نہیں رکھتے، پھر مفلح کس طرح ہوئے۔
مگر یاد رکھنا چاہئے قرآن نے یہ نہیں کہا کہ میرے ماننے والوں کو حکومت مل جائے گی، سلطنت حاصل ہوجائے گی۔ ایک وقت اور ایک زمانہ کے لئے یہ بھی کہا ہے کہ حکومت بھی ملے گی۔ لیکن یہ کہیں نہیں کہا کہ دنیا کی حکومت ہی قرآن کی تعلیم پر چلنے والوں کا مقصد ہے۔ بلکہ یہ کہا ہے قرآن سے تعلق رکھنے والوں کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں روحانیت قائم کریں۔ اگر اس میں کوئی کامیاب ہوجائے تو وہ کامیاب ہوگیا، چاہے دنیا میں سب سے غریب ہی ہو۔
پس مفلح کے یہ معنی نہیں کہ کوئی مادی چیز مل جائے۔ بلکہ جس مقصد کو لے کر کھڑا ہو، اس میں کامیاب ہونے والا مفلح ہے۔ دیکھو حضرت امام حسینؓ شہید ہوگئے اور بادشاہ نہ بن سکے۔ لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ ناکام رہے، ہرگز نہیں۔ وہ کامیاب ہوگئے اور مفلح بن گئے کیونکہ جس مقصد کو لے وہ کھڑے ہوئے تھے، اس میں کامیاب ہوگئے۔ ان کے سامنے یہ مقصد تھا کہ رسول کریم ﷺ کی نیابت کے بعض حقوق ایسے ہیں کہ جسے خداتعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوں، انہیں پھر وہ چھوڑ نہیں سکتا۔ اس میں ان کو کامیابی حاصل ہوگئی۔ ان کی شہادت کا یہ نتیجہ ہوا کہ گو بعد میں خلفاء ہوئے مگر ان کو خفاء راشدین نہیں کہا گیا۔ کونکہ حضرت امام حسین کی قربانی نے بتا دیا کہ خلافت بعض شرائط سے وابستہ ہے۔ یہ نہیں کہ جس کے ہاتھ میں بادشاہت آجائے وہ خلیفہ بن جائے۔ اس طرح دین کو بہت بڑی تباہی اور بربادی سے بچا لیا۔ اگر یہ نہ ہوتا تو یزید کے سے انسان کے اقوال اور افعال پیش کرکے کہا جاتا یہ اسلام کے خلفاء کی باتیں ہیں اور اس طرح دین میں رخنہ اندازی کی جاتی۔
پس اپنے مقصد میں کامیاب ہونے والا مفلح ہوتا ہے، خواہ ایک شہادت چھوڑ سو شہادتیں اسے حاصل ہوں۔ تو فرمایا اولٰٓئک علی ھدی من ربھم۔۔۔۔ ایسے انسان کو فلاح نصیب ہوجاتی ہے اور ہدایت اس کے ماتحت آجاتی ہے۔ اس کے کلام میں تاثیر، برکت اور نور ہوتا ہے۔
(انوارالعلوم جلد 10 صفحہ 527)
‘‘ دوسری بات قرآن پر عمل کرنے والوں کے متعلق یہ بیان کی کہ ۔۔۔ جس مقصد کو لے کر وہ کھڑے ہوں گے، اسے ضرور پالیں گے۔ ’مفلحون‘ کے یہ معنی نہیں کہ بڑے بن جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ قرار دے کر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ہم تو دیکھتے ہیں۔ قرآن کو نہ ماننے والے دنیا میں حکومتیں کرتے ہیں، آرام و آسائش کی زندگی بسر کرتے ہیں، عزت و شوکت رکھتے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں قرآن کو ماننے والے کوئی حقیقت نہیں رکھتے، پھر مفلح کس طرح ہوئے۔
مگر یاد رکھنا چاہئے قرآن نے یہ نہیں کہا کہ میرے ماننے والوں کو حکومت مل جائے گی، سلطنت حاصل ہوجائے گی۔ ایک وقت اور ایک زمانہ کے لئے یہ بھی کہا ہے کہ حکومت بھی ملے گی۔ لیکن یہ کہیں نہیں کہا کہ دنیا کی حکومت ہی قرآن کی تعلیم پر چلنے والوں کا مقصد ہے۔ بلکہ یہ کہا ہے قرآن سے تعلق رکھنے والوں کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں روحانیت قائم کریں۔ اگر اس میں کوئی کامیاب ہوجائے تو وہ کامیاب ہوگیا، چاہے دنیا میں سب سے غریب ہی ہو۔
پس مفلح کے یہ معنی نہیں کہ کوئی مادی چیز مل جائے۔ بلکہ جس مقصد کو لے کر کھڑا ہو، اس میں کامیاب ہونے والا مفلح ہے۔ دیکھو حضرت امام حسینؓ شہید ہوگئے اور بادشاہ نہ بن سکے۔ لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ ناکام رہے، ہرگز نہیں۔ وہ کامیاب ہوگئے اور مفلح بن گئے کیونکہ جس مقصد کو لے وہ کھڑے ہوئے تھے، اس میں کامیاب ہوگئے۔ ان کے سامنے یہ مقصد تھا کہ رسول کریم ﷺ کی نیابت کے بعض حقوق ایسے ہیں کہ جسے خداتعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوں، انہیں پھر وہ چھوڑ نہیں سکتا۔ اس میں ان کو کامیابی حاصل ہوگئی۔ ان کی شہادت کا یہ نتیجہ ہوا کہ گو بعد میں خلفاء ہوئے مگر ان کو خفاء راشدین نہیں کہا گیا۔ کونکہ حضرت امام حسین کی قربانی نے بتا دیا کہ خلافت بعض شرائط سے وابستہ ہے۔ یہ نہیں کہ جس کے ہاتھ میں بادشاہت آجائے وہ خلیفہ بن جائے۔ اس طرح دین کو بہت بڑی تباہی اور بربادی سے بچا لیا۔ اگر یہ نہ ہوتا تو یزید کے سے انسان کے اقوال اور افعال پیش کرکے کہا جاتا یہ اسلام کے خلفاء کی باتیں ہیں اور اس طرح دین میں رخنہ اندازی کی جاتی۔
پس اپنے مقصد میں کامیاب ہونے والا مفلح ہوتا ہے، خواہ ایک شہادت چھوڑ سو شہادتیں اسے حاصل ہوں۔ تو فرمایا اولٰٓئک علی ھدی من ربھم۔۔۔۔ ایسے انسان کو فلاح نصیب ہوجاتی ہے اور ہدایت اس کے ماتحت آجاتی ہے۔ اس کے کلام میں تاثیر، برکت اور نور ہوتا ہے۔
(انوارالعلوم جلد 10 صفحہ 527)
آخری تدوین: