گل زیب انجم
محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محرم الحرام سال کا مبارک مہینہ ہے اور اس کا شمار ان چار مہینوں میں ہوتا جن کو قرآن پاک حرمت والے مہینے کہتا ہے۔ ان چار مہینوں کے احترام میں جنگ وجدل سے منع کیا گیا ہے۔ محرم الحرام سے تاریخ عالم کے بہت سے ابواب وابستہ ہیں۔ تاریخ میں جھانکنے سےپتہ چلتا ہے کہ یہی مبارک مہینہ تھا جب حضرت موسٰی علیہ اسلام نےاپنی قوم بنی اسرائیل کوفرعون کے ظلمانہ وجابرانہ شکنجہ اور غلامی کی ذلت امیز قید و سلاسل سے آزاد کرایا۔
ماہ محرم کی فضلت اس لحاظ سے بھی ہے کہ اسلام سے پہلے لوگ محرم کا روزہ رکھتے تھے اور اس کے خاتمے پر عید کیا کرتے تھے ابتدائے اسلام میں عاشورہ کا روزہ فرض تھا جب رمضان کے روزے فرض ہوے تب عاشورہ کے روزے کی فرضت منسوخ ہو گئ ۔
عاشورہ کے روزے کے متعلق حدیث مبارکہ ہے"افضل الصیامہ بعد رمضان شھرالمحرم" صحیح مسلم۔
ماہ محرم کی فضلت یہ بھی ہے کہ یہ سن ھجری(اسلامی سال) کا پہلا مہینہ ہے ۔ جس کی بنیاد سرورکائنات صلی اللہ وآلہ وسلم کے واقعہ ہجرت پر ہے۔ لیکن اس کا تقرر اور آغازاستعمال ۱۷ہجری میں عہدفاروقی سے ہوا۔
اور اسی سے وابستہ ایک واقعہ کربلا ہے جو ۱۰ محرم 61ہجری کو پیش آیا۔
کربلا کی یاد
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور حر بن یزید
جب مدینہ میں ولید بن عتبہ بیعتِ یزیدی کے لیے ہر کس و ناکس کو مجبور کر رہا تھا تو اس وقت جناب امام رضی اللہ عنہ نے مدینہ کو خیرآباد کہا اور مکہ کی راہ لی ۔ کیونکہ مدینہ میں مقیم رہتے تو بیعت کے بغیرکوئی چارا نہ تھا ۔ لٰہذا 27 رجب 60 ہجری کو مع اہل وعیال مکہ کوچ کر گٔٔۓ۔ اور وہاں پہنچ کر شعب ابی طالب میں عارضی قیام کیا۔
اہل کوفہ کی دعوت
آپ کو مکہ میں قیام کیے ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ کوفیوں کے خطوط انا شروع ہو گے ،جن میں ان کا تذکرہ یہ ہوتا کہ اگر آپ کوفہ آجائیں تو ہم مل کر خلافت اسلامیہ کی جدوجہد کا آغاز کرسکیں ۔ یہ خطوط پا کرآپؐ نے مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا۔ مسلم بن عقیل نے وہاں کے تسلی بخش حالات آپ کو لکٰھے جن کی بنا پر آپ کوفہ کے لیے عازم سفر ہوے۔
عبداللہ بن جعفرکا خط
آپنے جب رخت سفر باندھے تو تمام اصحاب اور اہل مکہ نے آپ کو مکہ جانے سے باز رکھنے کے لیے پوری کوششیں کیں کیونکہ کوفیوں کا سابقہ غدارانہ عمل ان کہ سامنے تھا۔دوسرا چونکہ کوفہ یزید کی حکومت کے تحت تھا اس لیے سب اکابر اصحاب نے تجویز پیش کی کہ آپ مکہ میں رہ کراپنی خلافت کی جدوجہد کریں ہم سب آپ کے ساتھ ہیں اور مدد کریں گے۔ لیکن امام حسین رضامند نہ ہوئے تو حضرت عبداللہ بن عباس نے آپ کو کوفہ کے بجائےیمن کی تجویز پیش کی اور کہا کہ "اگرکوفہ کا سفر اَپ کے نزدیک ضروری ہے تو پہلے کوفیوں کو لکیھے کہ وہ یزید کے حاکموں کووہاں سے نکالیں پھر آپ وہاں کا قصد کریں۔ " لیکن امام حسین نے فرمایا کہ "اے ابن عباس میں جانتا ہوں کہ آپ میرے خیرخواہ ہو، لیکن میں عزم کر چکا ہوں۔" لٰہذا آپمع اہل وعیال 3ذوالحج کومکہ معظمہ سے کوفہ کے لیے چل پڑے۔ حضرت عبداللہ بن جعفر(آپ کے چچازادبھائی) جو وقت روانگی پر حاضر نہیں تھے جب ان کو خبر ملی کہ آپ کوچ کر گے ہیں تو انہوں نے ایک خط لیکھ کراپنے بیٹوں عون اور محمد کہ ہاتھ روانہ کیا جس کا متن یہ تھا
" میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ جونہی میرا خط آپ کو ملے لوٹ آئیےکیونکہ جہاں اپ جا رہے ہیں میں ڈر رہا ہوں کہ وہاں اپ کی ہلاکت اور اہلِِ بیت کی بربادی ہے۔اگر خدا نخواستہ آپ ہلاک ہو گئےتو دنیا تاریک ہو جائے گی۔کیونکہ اس وقت اپ ہی ہدایت یافتہ لوگوں کا علم اور مومنوں کی امیدوں کا مرکز ہیں۔آپ سفر میں جلدی نہ کیجئیے میں بھی آپ کہ پاس پہونچتا ہوں۔"
عمربن سعدکا خط
جب حضرت عبداللہ بن جعفرامام حسینکے پاس جانے لگے تو ساتھ عمربن سعدحاکم مکہ کا سفارشی خط بھی لے لیا،جب آپ امام حسین سے ملے توکہاکوفہ کے لوگوں پر اعتماد مناسب نہیں اپ اپنا ارادہ ملتوی کر دیجیے اور ساتھ ہی حاکم مکہ کا خط بھی دیا۔ جس میں ابن سعدلکھتے ہیں "میں عمر بن سعد آپ سےوعدہ کرتا ہوں کہ آپ واپس لوٹ آئیںتو میں یزید کے ساتھ آپ کے معاملات طے کرادوں گا اور یہ بھی وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو کوئی گزند نہیں پہونچے گا۔"
لیکن آپ نےاس مشورے کو ماننے سے انکارکردیا اوراپنے ضمیر کی آواز کے مطابق سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ مجبور ہو کر عبداللہ بن جعفرواپس ہوگےلیکن عون اور محمد کو ساتھ رہنے دیا۔
حضرت امام حسین سے شاعرفرزوق کی ملاقات
حضرت عبداللہکے چلے جانے کے بعد آپکا سفردوبارہ جاری وساری تھا کہ آپ کی ملاقات مشہورشاعر فرزوق سے ہوتی ہے ۔ ان دونوں کے درمیان کچھ باتیں اس طرح سے ہوتی ہیں ،
فرزوق ۔السلام علیکم یا امام حسینمیں نے بہت چاہاکہ مکہ میں ہی حضور کی زیارت کروںمگر افسوس میری کوششیں بیکار ہوئیں۔
امام حسین۔اگر تم عراق سے آئے ہو تو بتاؤ وہاں کی کیا خبریں ہیں؟
فرزوق۔یا حضرت وہاں کی خبریں وہی ہیں جو اپ کو معلوم ہیں، وہاں کے لوگوں کے دل اپ کے ساتھ ہیں کیونکہ اپ حق پر ہیں اور تلواریں یزید کے ساتھ کیونکہ اس کے پاس دولت ہے۔قضاءالٰہی اسمان سے اترتی ہے اور وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔
امام حسینمیرے بھائی مسلم کی کچھ خبر
فرزوق ۔ ان کی روح پاک جنت میں ہے اور سرمبارک قلعے کی دیوار پر۔
فرزوق کا یہ جواب سن کر آپ کے نین آبدیدہ ہو گئے آبدیدہ نظروں سے آسمان کی طرف دیکھا اور اہل بیت کے ساتھ پھر سے سفر شروع کر لیا۔
حربن یزید تمیمی کا گیراؤ
جب آپ کا قافلہ زمی حشم کے مقام پر پہنچا تو آپ کا سامنا ابن زیاد کے سپہ سالار حر بن یزید سے ہوا۔ اس نے اپ کو گیرے میں لے لیا اورآنے کی وضاحت چاہی۔ امام حسین نے اسے بتایا کہ مجھے کوفہ کے لوگوں نے بلایا ہے تب میں آیا ہوں ۔ حر نے اس بات کہ اپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ اپ کو اہل کوفہ نے بلایا ہے ۔امام حسین نے اسے کوفیوں کے خطوط کے دو تھیلے منگوا کر دکھائے۔ اور فرمایا میں تو اس وجہ سے آیا ہوں اب اگر تم لوگوں کی رائے بدل چکی ہے تو میں واپس جانے کے لیے تیار ہوں۔ حر نے اپ کی بات سن کر کہا کہ ہمیں تو آپ کو گرفتار کرنے کا حکم ہے، یعنی واپسی کی راہیں مستدود ہوگئ ہیں۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کا خطبہ
جب حر نے تمام دعوتی خطوط دیکھنے کے بعد بھی کوئی تبدیلی ظاہر نہ کی تب امام حسین نے مقام بیضہ پر خطبہ دیا۔ جس میں اپنے مقاصد کی وضاحت کی ۔ آپ نے فرمایا:
"لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم،محرمات الہٰی کے حلال کرنے والے،خدا کا عہد توڑنے والے،خدا اور رسول کی مخالفت اورخدا کے بندوں پرگناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اوروفعل کے ذریعہ سے غیرت کا اظہار نہ کیاتو خدا کا حق ہے کہ اس شخص کو اس بادشاہ کے ساتھ دوزخ میں داخل کر دے۔لوگو!خبردار ہوجاؤ۔ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت کی ہے اور رحمٰن کی اطاعت چھوڑ دی ہے۔ملک میں فساد پھلایاہے۔ حدود الہٰی کو معطل کر دیا ہے ۔ مالِ غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں۔ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال چیزوں کو حرام کر دیا ہے۔ اس لیے مجھ کو غیرت میں آنے کا زیادہ حق ہے۔"
لشکرحر جو اب آپ کا خطبہ سن چکا تھا اب آگے چلنے کو بیتاب تھا لٰہذا خطبہ ختم ہوتے ہی پھر سے چلنا شروع ہو گیا۔ کچھ دؤرجا کر راستے میں طرماج بن عدی سے آپ کی ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے آپکویمن چلنے کی دعوت دی لیکن آپ نے یہ پیشکش شکریےکے ساتھ ٹال دی۔
ابن زیاد کا سپہ سالار کو نیا حکم
امام حسینکا قافلہ اور حر کا لشکر ساتھ ساتھ آگے چلتے رہے جہاں کہیں آپ کے قافلےکا رخ صحرائے عرب کی طرف ہو جاتا حر آپ کو روک دیتا اور موڑ کر کوفہ کی طرف کر دیتا چلتے چلتے اپ نینوا پہنچے۔ وہاں ابن زیاد کے قاصد نے حر کو خط دیا جس مین حکم تھا
"جونہی میرا خط تم تک پہنچیں حسین اور ان کے ساتھیوں کوجہاںوہ ہیں وہیں روک لواورانہیں ایسی جگہ أترنے پر مجبور کرو جو بلکل چٹیل میدان ہواور جہاں سبزہ اور پانی وغیرہ کا چشمہ نہ ہو۔ میرا یہ قاصد اس وقت تک تمہارے ساتھ ساتھ رہے گا جب تک مجھے یہ نہ معلوم ہو جائے کہ جو حکم میں نے تمہیں دیا ہے اس کی تم نے حرف بہ حرف تعمیل کی ہے۔"
حر بن یزید نے آپ کو قاصد کی آمد سے اگاہ کیا اور کہا کہ "اب اپ کو اس جگہ نہ رہنے دوں گا۔ بالأخر یہ ۷۲نفوس پر مشتمل مختصر سا قافلہ 2محرم 61ھ بمطابق 2 اکتوبر 680ء کو کربلا کے میدان میں اترا۔
دوسرے ہی روز عمربن سعد کو حکم ملا کے تم 6 ہزار سپاہیوں کے ساتھ وہاں پہنچو ،حکم کی تعمیل کرتے ابن سعد وہاں پہونچ گے۔ لیکن اپ چونکہ لڑائی کے خواہشمند نہ تھے اس لیے پھر سے مذکرات کی را ہیں تلاش کی ۔ اور پھر خود امام حسین کے سامنے بھی نہ گے اور مذکرات کے لیے قرہ بن سفیان کو بھیجا۔ امام حسین نے قرہ نؤبن سفیان سے کہا کہ" اگر تمہیں میرا آنا ناپسند ہے تو میں مکہ واپس جانے کے لیے تیار ہوں۔"قرہ بن سفیان نے عمر بن سعد کو امام حسین کی تجویز بیان کر دی۔ ابن سعد نے تجویز کو پسند کیا اور ابن زیاد یہ تجویز بھیج دی۔ لیکن ابن زیاد نے نہ صرف تجویز تسلیم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ عمر بن سعد کو بھی نرم سست کہا اور حکم دیا کہ امام حسین بیعت نہ کریں تو ان کا پانی دو۔ اور مذید سرزنش کرتے ہوئے حکم دیا کہ" اگر امام حسین اور انکے ساتھی اپنے اپ کو حوالہ کر دیں تو بہتر ہے ورنہ جنگ کی راہ لو۔"
امام حسین کا خطبہ کربلا
حضرت امام حسین نے جب دیکھا کہ صلع کی أخری کوشش بھی ناکام ہو گئ ہے تو آپ نے اپنی مختصر ترین فوج کو منظم کیا حضرت عباس کو علم مرمت کیا ۔زبیر بن قیس کو میمنہ پر اور حبیب بن مطہر کو میسرہ پر متعین کیا۔ اس کے بعد اللہ تبارک تعالٰی کے حضور کی اور سے تائید اور نصرت چاہی۔ اسکے بعد دشمن کی صفوں کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرمایا:
"اے لوگو ! جلدی نہ کرو ، پہلے میری بات سن لو ، مجھ پر تمہیں سمجھنے کا جو حق ہے اسے پورا کر لینے دو اور میرے أنے کی وجہ بھی سن لو۔اگر تم میرا عذر قبول کرلو گے اور مجھ سے انصاف کرو گے تو تم انتہائی خوش بخت انسان ہو گے۔اگر تم اس کے لیے تیار نہیں تو تمہاری مرضی،تم اور تمہارے شریک مل کر زور لگا لواور مجھ سےجو برتاؤ کرنا چاہتے ہو کر ڈالو۔ اللہ تعالٰی میرا کارساز ہے اور وہی اپنے نیک بندوں کی مدد کرتا ہے ۔
لوگو ! تم میرے حسب ونسب پرغورکرو اور دیکھو میں کون ہوں ۔اپنے گربیانوں میں منہ ڈالو اور اپنے اپ کو ملامت کرو۔تم خیا ل کرو کیا تمہیں میرا قتل اور میری توہین زیب دیتی ہے۔؟ کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ اور ان کے چچیرے بھائی کا بیٹا نہیں۔ کیا سید الشہداء حضرت امیر حمزہ میرے والد کے چچا نہ تھے؟کیا جعفرطیار میرے چچا نہ تھے ؟ کیا تمہیں رسول اللہ کا وہ قول یاد نہیں جو انہوں نے میرے اورمیرے بھائی کے بارے فرمایا تھا کہ دونوں نوجوانان جنت کے سردار ہوں گے ۔ اگر میرا یہ بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے ۔ہے تو بتاؤ کہ تمہیں ننگی تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا ہے ؟ اگر تم مجھے جھوٹا سمجتھےہو تو آج بھی تم میں وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے میرے متعلق رسول اللہ کی یہ حدیث سنی ہے،تم ان سے دریافت کر سکتے ہو۔اب تم بتاؤ اس حدیث کی موجودگی میں بھی تم میرا خون بہانے سے باز نہیں رہ سکتے۔"
لیکن نواسۂ رسول کی اس تقریر کا ظالم کوفیوں اور ان کے سرداروں پر ذرا اثر نہ ہوا ماسوائے حر بن یزید کے۔
حربن یزید تمیمی ریاحی کا تعارف
یہ شان خدا وندی ہے کہ وہ آگ کی تلاش میں نکلنے والے کو پیغامبری سے نواز دے یا توتلی زبان والے کو کلیمی کے گُر سیکھا دے ۔وہ قہاری و جبروت ہے چاہے تو ابوجہل کر بیٹے کو اکابر اصحاب میں شامل کر دے ۔ یہ اسی کی قدرت کا کرشمہ ہے کے وہ بُت فروش کے گھر میں نبی پیدا کر دے یا پیغمبر کے گھر میں مُشرک پیدا کر دے، یہ اسی کی قدرت ہے کے ابن صحابی کے نام پر ایسا دھبہ لگا کہ دنُیاکے تمام سمندر بھی اسے نہیں مٹا سکتے اور ایک ایسے شخص کو اصحاب حسین میں داخل کر دیا جو لشکر یزید کا جنگجوسالار تھا۔اور وہ ہے حر بن یزید۔
حر بن یزید ایک جوانمرد نڈر پہلوان اورطاقتور سپہ سالار تھا ۔ کوفہ کے لوگ اسے کوفہ کا دلیرترین مرد قرار دیتے تھے۔ فنون جنگ و حرب سے خوب آشنا تھا،اس زیرک سپہ سالار کا شمار ان خاص سپہ سالاروں میں ہوتا تھا جو اس زمانے کی پہلے درجے کی طاقت یعنی سلطنت ایران کےلیے استعمال کیے جاتے تھے۔
جب کوفہ میں یزید کے گورنر عبیداللہ بن زیاد کو خبر ملی کے امام حسین عراق میں داخل ہو چکے ہیں تو اس نے حر کو ایک ہزار کا لشکر دے کر آپکا راستہ روکنے کے لیے بھیجا۔روانہ کرتے وقت ابن زیاد نے حر کو حکم دیا کہ اگر امام حسینکوفہ آنے پر اصرار کریں تو تم أن کو گرفتار کر کے دارالامارہ لے آنا۔ کہا جاتا ہے کہ جب حر عبیداللہ کہ محل سے نکل رہا تھا تو پیچھےسے ایک صدا آئی۔ صاحب اواز کہہ رہا تھا ،حر تمہیں مبارک ہو کیونکہ تم خیر کی سمت جا رہے ہو،! حر پلٹا صدا کی جانب مگر اسے کوئی نظر نہ آیا۔ حیرت کے ساتھ اپنے اپ سے پوچھا یہ کیسی بشارت ہے اور کون سی خیر ہو سکتی ہے جو امام حسین کے خلاف لڑنے میں ملتی ہے۔
سخت دھوپ میں جب شدت کی گرمی پڑھ رہی تھی دوپہر کے وقت حر کا لشکر امام کے قافلے کے پاس پہنچا جہاں انہوں نے پڑاؤ کیا ہو تھا۔ حر اس کی سپاہ اور اس کے گھوڑے بھی بہت پیاسے تھے۔ امام حسیننے ان کی پیاس دیکھی تو اپنے ساتھیوں کو ہدائت فرمائی کہ ان لوگون اور ان کے جانوروں کو پانی پلاؤ۔ حر کا سپاہی پانی پینے سے قاصر تھا مشک سے پانی گر رہا تھا ،تب امام حسیننے اسے اپنے دست مبارک سے پانی پلایا اور سیراب کیا۔ حر کے لشکریوں اور گھوڑوں پانی پی لیا تو نمازظہر کا وقت ہو چکا تھا۔امام خیمے سے باہر تشریف لائے اور مختصر سا خطبہ پڑھا۔ جس میں آپ نے فرمایا لوگو میں تمہارے اس وقت تک نہیں آیا جب تک تمہاری طرف سے خطوط موصول نہیں ہوے۔ تمہارے الچی اور قاصد میرے پاس آئے اور مجھ سے درخواست کرتے ہوئے کہتے رہے کہ ہمارے پاس آئیں کیونکہ ہمیں ایک امام کی ضرورت ہے، اس کے بعد امام حسین حر سے مخاطب ہو کر فرمایا کیا تم اپنے سپاہیوں کے ساتھ نماز ادا کرنا چاہو گے ۔ حر نے عرض کیا : نہیں ، ہم سب آپ کی امامت میں نماز ادا کریں گے ۔
حر کو جب یقین ہو گیا تھا کہ یزیدی امام حسین کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس کے تن بدن پر لرزا طاری ہوا اس میدان جنگ کی طرف دیکھا اور سوچ میں پڑھ گیا ۔ اس کی آنکھیں مشاہدہ کر رہیں تھیں کہ ایک طرف فرزند رسول اور ان کا خاندان اور دوسری طرف دشمنان رسول خدا ۔ ایک طرف خدا کے عبد صالح اور دوسری طرف غاصب بادشاہ نظر أ رہا تھا جو اعلانیہ شراب نوش کرتا تھا اور حرام کو حلال سمجھتا تھا ۔ایک طرف عشق اور شہادت کی حکمرانی تھی اور دوسری طرف پلیدی اور خانت کا دور دورہ تھا ۔ ایک جانب سعادت تھی اور دوسری طرف شقاوت و بد بختی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حر نے اپنا آخری ارادہ کر لیا اور ایسے حال میں دُنیا اور دُنیا کی چمک دمک کو پس پشت کیا جب ہزاروں کے لشکر کا سپہ سالار تھا چنانچہ اپنے گھوڑے کو پانی پلانے کے بہانے لشکر یزید سے دُور اور خیام حسین کے قریب سے قریب تر ہوتا گیا۔ ایک لشکری ساتھی (مہاجرین اوس) جو اس وقت حر کے ساتھ تھا پوچھنے لگا " کیا سوچ رہے ہو ؟ کیا حسین پر حملہ کرنا چاہتے ہو ؟" حر نے کوئی جواب نہ دیا ، بلکہ اس کا پورا بدن کانپ رہا تھا ۔ مہاجر نے کہا " خدا کی قسم میں نے کبھی بھی تمہیں اس حال میں نہیں دیکھا ، اگر کوئی مجھ سے پوچھتا کہ کوفہ کا دلیر ترین ادمی کون ہے تو میں تمہارا نام لیتا "۔ حر نے کہا واللہ میں اپنے اپ کو جنت اور دوزخ کے درمیان دیکھ رہا ہوں اور اگر میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے جلا بھی دیا جائے تب بھی کسی چیز کو جنت پر ترجیح نہیں دوں گا ۔" اس کے بعد حر نے گھوڑا دوڑایا اور خیام امام کے روبرو پہنچ گیا ۔
حر جب امام حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو نادم و شرمندہ تھا اور اپنے ہاتھ اپنے سر پر رکھے ہوے تھا ۔ امام حسین کے سامنے کہنے لگا۔" اللھم الیک انبت فتب علی فقد ارعبت قلوب اولیائک و اولاد بنت نبیک ۔ ترجمہ: اے اللہ میں طرف لوٹ آیا پس میری توبہ قبول فرما کیونکہ میں نے تیرے اولیاء اور تیرے رسول (ص) کی بیٹی کے فرزندوں کو خوف و دہشت سے دو چار کیا ۔ اس کے بعد امام حسین کے سامنے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا اور کہا کہ میں اپنے کیے پر پشیمان ہوں ۔ اور خدا کے سامنے اپنے اس عمل سے توبہ کرتا ہوں ۔ کیا میرے لیے توبہ کرنے کا امکان ہے؟ امام حسین نے فرمایا " ہاں "
اب حر اپنی غلطیوں سے تائب ہو چکے تھے ۔ لیکن پھر بھی عرض کیا " چونکہ میں پہلا آدمی تھا جو آپ کے مقابلے میں آیا لٰہذا سب سے پہلے آپ کے سامنے قتل ہونا چاہتا ہوں ۔ شاید حساب کے روز میرے آپ کے جد (ص) کے ہاتھ میں قرار پانے کے قابل ہو
ن یزید کا کوفیوں کو لعن طعن کرنا
جب حر کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے جہاد کا اذن مل گیا تو حر امام حسین کے سامنے کھڑے ہوئے اور لشکر یزید کی طرف رخ کیا اور ان سے یوں ہمکلام ہوئے " اے اہل کوفہ ! تم نے خدا کے اس عبد صالح کو کوفہ انے کی دعوت دی اور جب یہ یہاں تشریف لائے تو تم نےانہیں اکیلا چھوڑ دیا ۔ تم نے اِن سے وعدہ کیا کہ آپ کی خاطر جان قربان کریں گے ۔ لیکن جب یہ آ گے تو تم نے اپنی تلواریں انہی سے لڑنے کے لیے سونت لیں۔ اور اس پر یہ ظلم کے اللہ کے ان پیارے بندوں کی واپسی کی تمام رہیں بند کر دی ۔ اللہ کی اس وسیع و عریض زمین پر ان کو کہیں جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہو۔ تمہارے سامنے یہود نصاریٰ اور مجوسی فرات کے پانی سے سیراب ہو رہے ہیں مگر تم نے خاندان نبوی (ص) اس پانی سے محروم کر دیا ۔ جب کہ تم جانتے ہو یہ کوثر کے ورثہ میں سے ہیں ۔ خدا روز عطش کو تمہاری پیاس نہ بجھائے کیونکہ تم نے
محمد صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم کی حرمت کا پاس نہیں رکھا۔"
منطق و عقل سے عاری یزیدی فوج حُر کی باتوں کو مذید برداش نہ کر سکی اور انہوں نے حر پر تیروں کی بارش کر دی ۔ حر نے بھی بھپرے ہوئے شیر کی طرح حملہ کیا پے درپے کئی یذیدیوں کا سر قلم کیا اور اپنی تلوار کا حق ادا کیا، جب یذیدی فوج نے دیکھا کے پانی سروں اُونچا ہے تب انہوں نے مل کر حملہ کیا اور یوں یہ فدا حسین شہادت پا کر سرخُرو ہو گیا۔ یہی " خیر" تھی جس کے متعلق سوچتے ہوئے وہ دارالامارہ سے رخصت ہوئے تھے۔ آخر وہ بشارت سچ ہوئی اور لشکر یذید کا سردار شیہدوں کی صف اول میں شامل ہو گیا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت
میدان کربلا کی تپتی اور برسوں سے پیا سی ریت کی تشنگی فدایان حسین کے لہو سے بُجھ رہی تھی۔ آکاش سے پاتال دھرتی تک فرشتوں کی قطاریں بندھی ہوئی تھی جو شہدا کو مرحبا مرحبا کی لوری سُنا رہے تھے۔ فدائی ایک ایک کر کے لبیک کہہ رہے تھے ۔ جعفر، عبداللہ، عباس اور عثمان جو آپ کو بانہوں کے گیرے میں لیے ہوئے تھے انہوں نے شہادت کی چھلکتی صراحی سے جام نوش کیا ۔ اب امام حسین تن تنہا میدان کارزار میں تلوار کی حسرت پوری کر رہے تھے کہ یزیدوں نے ہر طرف سے آپ کو گیرے میں لے لیا مگر کسی میں بھی وار کرنے کی جرأت نہ تھی اور نہ ہی کوئی یہ گناہ اپنے سر لینا چاہا رہا تھا ۔ بالأخر شمر کے أکسانے پر زرعہ بن شریک تمیمی نے یہ بد بختی اپنے سر لی اور ہاتھ اور گردن پر تلوار کے وار کیے۔ سنسان بن انس نے تیر چلایا اور آپ رضی اللہ عنہ گِر پڑے۔ آپ کے گرنے پر ہی شمر ذی الجوش آپ کی طرف بڑھا۔ أس کی برص زدا شکل دیکھتے ہی آپ نے فرمایا میرے نانا جی (ص) سچ فرمایا تھا کہ میں ایک دھبے دار کتے کو دیکھتا ہوں کہ وہ میرے اہل بیت کے کون سے ہاتھ رنگتا ہے ۔ اے بد بخت تُو وہی کتا ہے جس کی نسبت میرے نانا (ص) خبر دی تھی۔ اس کے بعد أس بد بخت نے پیچھے کی طرف سے وار کر کے سر مبارک گردن سے جدا کردیا۔
یوں ۳ ذوالحج ۶۰ھ کا چلا ہوا قافلہ ۱۰ محرم ۶۱ ھ کو منزل مقصود پر پہنچا۔
محرم الحرام سال کا مبارک مہینہ ہے اور اس کا شمار ان چار مہینوں میں ہوتا جن کو قرآن پاک حرمت والے مہینے کہتا ہے۔ ان چار مہینوں کے احترام میں جنگ وجدل سے منع کیا گیا ہے۔ محرم الحرام سے تاریخ عالم کے بہت سے ابواب وابستہ ہیں۔ تاریخ میں جھانکنے سےپتہ چلتا ہے کہ یہی مبارک مہینہ تھا جب حضرت موسٰی علیہ اسلام نےاپنی قوم بنی اسرائیل کوفرعون کے ظلمانہ وجابرانہ شکنجہ اور غلامی کی ذلت امیز قید و سلاسل سے آزاد کرایا۔
ماہ محرم کی فضلت اس لحاظ سے بھی ہے کہ اسلام سے پہلے لوگ محرم کا روزہ رکھتے تھے اور اس کے خاتمے پر عید کیا کرتے تھے ابتدائے اسلام میں عاشورہ کا روزہ فرض تھا جب رمضان کے روزے فرض ہوے تب عاشورہ کے روزے کی فرضت منسوخ ہو گئ ۔
عاشورہ کے روزے کے متعلق حدیث مبارکہ ہے"افضل الصیامہ بعد رمضان شھرالمحرم" صحیح مسلم۔
ماہ محرم کی فضلت یہ بھی ہے کہ یہ سن ھجری(اسلامی سال) کا پہلا مہینہ ہے ۔ جس کی بنیاد سرورکائنات صلی اللہ وآلہ وسلم کے واقعہ ہجرت پر ہے۔ لیکن اس کا تقرر اور آغازاستعمال ۱۷ہجری میں عہدفاروقی سے ہوا۔
اور اسی سے وابستہ ایک واقعہ کربلا ہے جو ۱۰ محرم 61ہجری کو پیش آیا۔
کربلا کی یاد
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور حر بن یزید
جب مدینہ میں ولید بن عتبہ بیعتِ یزیدی کے لیے ہر کس و ناکس کو مجبور کر رہا تھا تو اس وقت جناب امام رضی اللہ عنہ نے مدینہ کو خیرآباد کہا اور مکہ کی راہ لی ۔ کیونکہ مدینہ میں مقیم رہتے تو بیعت کے بغیرکوئی چارا نہ تھا ۔ لٰہذا 27 رجب 60 ہجری کو مع اہل وعیال مکہ کوچ کر گٔٔۓ۔ اور وہاں پہنچ کر شعب ابی طالب میں عارضی قیام کیا۔
اہل کوفہ کی دعوت
آپ کو مکہ میں قیام کیے ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ کوفیوں کے خطوط انا شروع ہو گے ،جن میں ان کا تذکرہ یہ ہوتا کہ اگر آپ کوفہ آجائیں تو ہم مل کر خلافت اسلامیہ کی جدوجہد کا آغاز کرسکیں ۔ یہ خطوط پا کرآپؐ نے مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا۔ مسلم بن عقیل نے وہاں کے تسلی بخش حالات آپ کو لکٰھے جن کی بنا پر آپ کوفہ کے لیے عازم سفر ہوے۔
عبداللہ بن جعفرکا خط
آپنے جب رخت سفر باندھے تو تمام اصحاب اور اہل مکہ نے آپ کو مکہ جانے سے باز رکھنے کے لیے پوری کوششیں کیں کیونکہ کوفیوں کا سابقہ غدارانہ عمل ان کہ سامنے تھا۔دوسرا چونکہ کوفہ یزید کی حکومت کے تحت تھا اس لیے سب اکابر اصحاب نے تجویز پیش کی کہ آپ مکہ میں رہ کراپنی خلافت کی جدوجہد کریں ہم سب آپ کے ساتھ ہیں اور مدد کریں گے۔ لیکن امام حسین رضامند نہ ہوئے تو حضرت عبداللہ بن عباس نے آپ کو کوفہ کے بجائےیمن کی تجویز پیش کی اور کہا کہ "اگرکوفہ کا سفر اَپ کے نزدیک ضروری ہے تو پہلے کوفیوں کو لکیھے کہ وہ یزید کے حاکموں کووہاں سے نکالیں پھر آپ وہاں کا قصد کریں۔ " لیکن امام حسین نے فرمایا کہ "اے ابن عباس میں جانتا ہوں کہ آپ میرے خیرخواہ ہو، لیکن میں عزم کر چکا ہوں۔" لٰہذا آپمع اہل وعیال 3ذوالحج کومکہ معظمہ سے کوفہ کے لیے چل پڑے۔ حضرت عبداللہ بن جعفر(آپ کے چچازادبھائی) جو وقت روانگی پر حاضر نہیں تھے جب ان کو خبر ملی کہ آپ کوچ کر گے ہیں تو انہوں نے ایک خط لیکھ کراپنے بیٹوں عون اور محمد کہ ہاتھ روانہ کیا جس کا متن یہ تھا
" میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ جونہی میرا خط آپ کو ملے لوٹ آئیےکیونکہ جہاں اپ جا رہے ہیں میں ڈر رہا ہوں کہ وہاں اپ کی ہلاکت اور اہلِِ بیت کی بربادی ہے۔اگر خدا نخواستہ آپ ہلاک ہو گئےتو دنیا تاریک ہو جائے گی۔کیونکہ اس وقت اپ ہی ہدایت یافتہ لوگوں کا علم اور مومنوں کی امیدوں کا مرکز ہیں۔آپ سفر میں جلدی نہ کیجئیے میں بھی آپ کہ پاس پہونچتا ہوں۔"
عمربن سعدکا خط
جب حضرت عبداللہ بن جعفرامام حسینکے پاس جانے لگے تو ساتھ عمربن سعدحاکم مکہ کا سفارشی خط بھی لے لیا،جب آپ امام حسین سے ملے توکہاکوفہ کے لوگوں پر اعتماد مناسب نہیں اپ اپنا ارادہ ملتوی کر دیجیے اور ساتھ ہی حاکم مکہ کا خط بھی دیا۔ جس میں ابن سعدلکھتے ہیں "میں عمر بن سعد آپ سےوعدہ کرتا ہوں کہ آپ واپس لوٹ آئیںتو میں یزید کے ساتھ آپ کے معاملات طے کرادوں گا اور یہ بھی وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو کوئی گزند نہیں پہونچے گا۔"
لیکن آپ نےاس مشورے کو ماننے سے انکارکردیا اوراپنے ضمیر کی آواز کے مطابق سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ مجبور ہو کر عبداللہ بن جعفرواپس ہوگےلیکن عون اور محمد کو ساتھ رہنے دیا۔
حضرت امام حسین سے شاعرفرزوق کی ملاقات
حضرت عبداللہکے چلے جانے کے بعد آپکا سفردوبارہ جاری وساری تھا کہ آپ کی ملاقات مشہورشاعر فرزوق سے ہوتی ہے ۔ ان دونوں کے درمیان کچھ باتیں اس طرح سے ہوتی ہیں ،
فرزوق ۔السلام علیکم یا امام حسینمیں نے بہت چاہاکہ مکہ میں ہی حضور کی زیارت کروںمگر افسوس میری کوششیں بیکار ہوئیں۔
امام حسین۔اگر تم عراق سے آئے ہو تو بتاؤ وہاں کی کیا خبریں ہیں؟
فرزوق۔یا حضرت وہاں کی خبریں وہی ہیں جو اپ کو معلوم ہیں، وہاں کے لوگوں کے دل اپ کے ساتھ ہیں کیونکہ اپ حق پر ہیں اور تلواریں یزید کے ساتھ کیونکہ اس کے پاس دولت ہے۔قضاءالٰہی اسمان سے اترتی ہے اور وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔
امام حسینمیرے بھائی مسلم کی کچھ خبر
فرزوق ۔ ان کی روح پاک جنت میں ہے اور سرمبارک قلعے کی دیوار پر۔
فرزوق کا یہ جواب سن کر آپ کے نین آبدیدہ ہو گئے آبدیدہ نظروں سے آسمان کی طرف دیکھا اور اہل بیت کے ساتھ پھر سے سفر شروع کر لیا۔
حربن یزید تمیمی کا گیراؤ
جب آپ کا قافلہ زمی حشم کے مقام پر پہنچا تو آپ کا سامنا ابن زیاد کے سپہ سالار حر بن یزید سے ہوا۔ اس نے اپ کو گیرے میں لے لیا اورآنے کی وضاحت چاہی۔ امام حسین نے اسے بتایا کہ مجھے کوفہ کے لوگوں نے بلایا ہے تب میں آیا ہوں ۔ حر نے اس بات کہ اپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ اپ کو اہل کوفہ نے بلایا ہے ۔امام حسین نے اسے کوفیوں کے خطوط کے دو تھیلے منگوا کر دکھائے۔ اور فرمایا میں تو اس وجہ سے آیا ہوں اب اگر تم لوگوں کی رائے بدل چکی ہے تو میں واپس جانے کے لیے تیار ہوں۔ حر نے اپ کی بات سن کر کہا کہ ہمیں تو آپ کو گرفتار کرنے کا حکم ہے، یعنی واپسی کی راہیں مستدود ہوگئ ہیں۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کا خطبہ
جب حر نے تمام دعوتی خطوط دیکھنے کے بعد بھی کوئی تبدیلی ظاہر نہ کی تب امام حسین نے مقام بیضہ پر خطبہ دیا۔ جس میں اپنے مقاصد کی وضاحت کی ۔ آپ نے فرمایا:
"لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم،محرمات الہٰی کے حلال کرنے والے،خدا کا عہد توڑنے والے،خدا اور رسول کی مخالفت اورخدا کے بندوں پرگناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اوروفعل کے ذریعہ سے غیرت کا اظہار نہ کیاتو خدا کا حق ہے کہ اس شخص کو اس بادشاہ کے ساتھ دوزخ میں داخل کر دے۔لوگو!خبردار ہوجاؤ۔ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت کی ہے اور رحمٰن کی اطاعت چھوڑ دی ہے۔ملک میں فساد پھلایاہے۔ حدود الہٰی کو معطل کر دیا ہے ۔ مالِ غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں۔ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال چیزوں کو حرام کر دیا ہے۔ اس لیے مجھ کو غیرت میں آنے کا زیادہ حق ہے۔"
لشکرحر جو اب آپ کا خطبہ سن چکا تھا اب آگے چلنے کو بیتاب تھا لٰہذا خطبہ ختم ہوتے ہی پھر سے چلنا شروع ہو گیا۔ کچھ دؤرجا کر راستے میں طرماج بن عدی سے آپ کی ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے آپکویمن چلنے کی دعوت دی لیکن آپ نے یہ پیشکش شکریےکے ساتھ ٹال دی۔
ابن زیاد کا سپہ سالار کو نیا حکم
امام حسینکا قافلہ اور حر کا لشکر ساتھ ساتھ آگے چلتے رہے جہاں کہیں آپ کے قافلےکا رخ صحرائے عرب کی طرف ہو جاتا حر آپ کو روک دیتا اور موڑ کر کوفہ کی طرف کر دیتا چلتے چلتے اپ نینوا پہنچے۔ وہاں ابن زیاد کے قاصد نے حر کو خط دیا جس مین حکم تھا
"جونہی میرا خط تم تک پہنچیں حسین اور ان کے ساتھیوں کوجہاںوہ ہیں وہیں روک لواورانہیں ایسی جگہ أترنے پر مجبور کرو جو بلکل چٹیل میدان ہواور جہاں سبزہ اور پانی وغیرہ کا چشمہ نہ ہو۔ میرا یہ قاصد اس وقت تک تمہارے ساتھ ساتھ رہے گا جب تک مجھے یہ نہ معلوم ہو جائے کہ جو حکم میں نے تمہیں دیا ہے اس کی تم نے حرف بہ حرف تعمیل کی ہے۔"
حر بن یزید نے آپ کو قاصد کی آمد سے اگاہ کیا اور کہا کہ "اب اپ کو اس جگہ نہ رہنے دوں گا۔ بالأخر یہ ۷۲نفوس پر مشتمل مختصر سا قافلہ 2محرم 61ھ بمطابق 2 اکتوبر 680ء کو کربلا کے میدان میں اترا۔
دوسرے ہی روز عمربن سعد کو حکم ملا کے تم 6 ہزار سپاہیوں کے ساتھ وہاں پہنچو ،حکم کی تعمیل کرتے ابن سعد وہاں پہونچ گے۔ لیکن اپ چونکہ لڑائی کے خواہشمند نہ تھے اس لیے پھر سے مذکرات کی را ہیں تلاش کی ۔ اور پھر خود امام حسین کے سامنے بھی نہ گے اور مذکرات کے لیے قرہ بن سفیان کو بھیجا۔ امام حسین نے قرہ نؤبن سفیان سے کہا کہ" اگر تمہیں میرا آنا ناپسند ہے تو میں مکہ واپس جانے کے لیے تیار ہوں۔"قرہ بن سفیان نے عمر بن سعد کو امام حسین کی تجویز بیان کر دی۔ ابن سعد نے تجویز کو پسند کیا اور ابن زیاد یہ تجویز بھیج دی۔ لیکن ابن زیاد نے نہ صرف تجویز تسلیم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ عمر بن سعد کو بھی نرم سست کہا اور حکم دیا کہ امام حسین بیعت نہ کریں تو ان کا پانی دو۔ اور مذید سرزنش کرتے ہوئے حکم دیا کہ" اگر امام حسین اور انکے ساتھی اپنے اپ کو حوالہ کر دیں تو بہتر ہے ورنہ جنگ کی راہ لو۔"
امام حسین کا خطبہ کربلا
حضرت امام حسین نے جب دیکھا کہ صلع کی أخری کوشش بھی ناکام ہو گئ ہے تو آپ نے اپنی مختصر ترین فوج کو منظم کیا حضرت عباس کو علم مرمت کیا ۔زبیر بن قیس کو میمنہ پر اور حبیب بن مطہر کو میسرہ پر متعین کیا۔ اس کے بعد اللہ تبارک تعالٰی کے حضور کی اور سے تائید اور نصرت چاہی۔ اسکے بعد دشمن کی صفوں کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرمایا:
"اے لوگو ! جلدی نہ کرو ، پہلے میری بات سن لو ، مجھ پر تمہیں سمجھنے کا جو حق ہے اسے پورا کر لینے دو اور میرے أنے کی وجہ بھی سن لو۔اگر تم میرا عذر قبول کرلو گے اور مجھ سے انصاف کرو گے تو تم انتہائی خوش بخت انسان ہو گے۔اگر تم اس کے لیے تیار نہیں تو تمہاری مرضی،تم اور تمہارے شریک مل کر زور لگا لواور مجھ سےجو برتاؤ کرنا چاہتے ہو کر ڈالو۔ اللہ تعالٰی میرا کارساز ہے اور وہی اپنے نیک بندوں کی مدد کرتا ہے ۔
لوگو ! تم میرے حسب ونسب پرغورکرو اور دیکھو میں کون ہوں ۔اپنے گربیانوں میں منہ ڈالو اور اپنے اپ کو ملامت کرو۔تم خیا ل کرو کیا تمہیں میرا قتل اور میری توہین زیب دیتی ہے۔؟ کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ اور ان کے چچیرے بھائی کا بیٹا نہیں۔ کیا سید الشہداء حضرت امیر حمزہ میرے والد کے چچا نہ تھے؟کیا جعفرطیار میرے چچا نہ تھے ؟ کیا تمہیں رسول اللہ کا وہ قول یاد نہیں جو انہوں نے میرے اورمیرے بھائی کے بارے فرمایا تھا کہ دونوں نوجوانان جنت کے سردار ہوں گے ۔ اگر میرا یہ بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے ۔ہے تو بتاؤ کہ تمہیں ننگی تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا ہے ؟ اگر تم مجھے جھوٹا سمجتھےہو تو آج بھی تم میں وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے میرے متعلق رسول اللہ کی یہ حدیث سنی ہے،تم ان سے دریافت کر سکتے ہو۔اب تم بتاؤ اس حدیث کی موجودگی میں بھی تم میرا خون بہانے سے باز نہیں رہ سکتے۔"
لیکن نواسۂ رسول کی اس تقریر کا ظالم کوفیوں اور ان کے سرداروں پر ذرا اثر نہ ہوا ماسوائے حر بن یزید کے۔
حربن یزید تمیمی ریاحی کا تعارف
یہ شان خدا وندی ہے کہ وہ آگ کی تلاش میں نکلنے والے کو پیغامبری سے نواز دے یا توتلی زبان والے کو کلیمی کے گُر سیکھا دے ۔وہ قہاری و جبروت ہے چاہے تو ابوجہل کر بیٹے کو اکابر اصحاب میں شامل کر دے ۔ یہ اسی کی قدرت کا کرشمہ ہے کے وہ بُت فروش کے گھر میں نبی پیدا کر دے یا پیغمبر کے گھر میں مُشرک پیدا کر دے، یہ اسی کی قدرت ہے کے ابن صحابی کے نام پر ایسا دھبہ لگا کہ دنُیاکے تمام سمندر بھی اسے نہیں مٹا سکتے اور ایک ایسے شخص کو اصحاب حسین میں داخل کر دیا جو لشکر یزید کا جنگجوسالار تھا۔اور وہ ہے حر بن یزید۔
حر بن یزید ایک جوانمرد نڈر پہلوان اورطاقتور سپہ سالار تھا ۔ کوفہ کے لوگ اسے کوفہ کا دلیرترین مرد قرار دیتے تھے۔ فنون جنگ و حرب سے خوب آشنا تھا،اس زیرک سپہ سالار کا شمار ان خاص سپہ سالاروں میں ہوتا تھا جو اس زمانے کی پہلے درجے کی طاقت یعنی سلطنت ایران کےلیے استعمال کیے جاتے تھے۔
جب کوفہ میں یزید کے گورنر عبیداللہ بن زیاد کو خبر ملی کے امام حسین عراق میں داخل ہو چکے ہیں تو اس نے حر کو ایک ہزار کا لشکر دے کر آپکا راستہ روکنے کے لیے بھیجا۔روانہ کرتے وقت ابن زیاد نے حر کو حکم دیا کہ اگر امام حسینکوفہ آنے پر اصرار کریں تو تم أن کو گرفتار کر کے دارالامارہ لے آنا۔ کہا جاتا ہے کہ جب حر عبیداللہ کہ محل سے نکل رہا تھا تو پیچھےسے ایک صدا آئی۔ صاحب اواز کہہ رہا تھا ،حر تمہیں مبارک ہو کیونکہ تم خیر کی سمت جا رہے ہو،! حر پلٹا صدا کی جانب مگر اسے کوئی نظر نہ آیا۔ حیرت کے ساتھ اپنے اپ سے پوچھا یہ کیسی بشارت ہے اور کون سی خیر ہو سکتی ہے جو امام حسین کے خلاف لڑنے میں ملتی ہے۔
سخت دھوپ میں جب شدت کی گرمی پڑھ رہی تھی دوپہر کے وقت حر کا لشکر امام کے قافلے کے پاس پہنچا جہاں انہوں نے پڑاؤ کیا ہو تھا۔ حر اس کی سپاہ اور اس کے گھوڑے بھی بہت پیاسے تھے۔ امام حسیننے ان کی پیاس دیکھی تو اپنے ساتھیوں کو ہدائت فرمائی کہ ان لوگون اور ان کے جانوروں کو پانی پلاؤ۔ حر کا سپاہی پانی پینے سے قاصر تھا مشک سے پانی گر رہا تھا ،تب امام حسیننے اسے اپنے دست مبارک سے پانی پلایا اور سیراب کیا۔ حر کے لشکریوں اور گھوڑوں پانی پی لیا تو نمازظہر کا وقت ہو چکا تھا۔امام خیمے سے باہر تشریف لائے اور مختصر سا خطبہ پڑھا۔ جس میں آپ نے فرمایا لوگو میں تمہارے اس وقت تک نہیں آیا جب تک تمہاری طرف سے خطوط موصول نہیں ہوے۔ تمہارے الچی اور قاصد میرے پاس آئے اور مجھ سے درخواست کرتے ہوئے کہتے رہے کہ ہمارے پاس آئیں کیونکہ ہمیں ایک امام کی ضرورت ہے، اس کے بعد امام حسین حر سے مخاطب ہو کر فرمایا کیا تم اپنے سپاہیوں کے ساتھ نماز ادا کرنا چاہو گے ۔ حر نے عرض کیا : نہیں ، ہم سب آپ کی امامت میں نماز ادا کریں گے ۔
حر کو جب یقین ہو گیا تھا کہ یزیدی امام حسین کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس کے تن بدن پر لرزا طاری ہوا اس میدان جنگ کی طرف دیکھا اور سوچ میں پڑھ گیا ۔ اس کی آنکھیں مشاہدہ کر رہیں تھیں کہ ایک طرف فرزند رسول اور ان کا خاندان اور دوسری طرف دشمنان رسول خدا ۔ ایک طرف خدا کے عبد صالح اور دوسری طرف غاصب بادشاہ نظر أ رہا تھا جو اعلانیہ شراب نوش کرتا تھا اور حرام کو حلال سمجھتا تھا ۔ایک طرف عشق اور شہادت کی حکمرانی تھی اور دوسری طرف پلیدی اور خانت کا دور دورہ تھا ۔ ایک جانب سعادت تھی اور دوسری طرف شقاوت و بد بختی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حر نے اپنا آخری ارادہ کر لیا اور ایسے حال میں دُنیا اور دُنیا کی چمک دمک کو پس پشت کیا جب ہزاروں کے لشکر کا سپہ سالار تھا چنانچہ اپنے گھوڑے کو پانی پلانے کے بہانے لشکر یزید سے دُور اور خیام حسین کے قریب سے قریب تر ہوتا گیا۔ ایک لشکری ساتھی (مہاجرین اوس) جو اس وقت حر کے ساتھ تھا پوچھنے لگا " کیا سوچ رہے ہو ؟ کیا حسین پر حملہ کرنا چاہتے ہو ؟" حر نے کوئی جواب نہ دیا ، بلکہ اس کا پورا بدن کانپ رہا تھا ۔ مہاجر نے کہا " خدا کی قسم میں نے کبھی بھی تمہیں اس حال میں نہیں دیکھا ، اگر کوئی مجھ سے پوچھتا کہ کوفہ کا دلیر ترین ادمی کون ہے تو میں تمہارا نام لیتا "۔ حر نے کہا واللہ میں اپنے اپ کو جنت اور دوزخ کے درمیان دیکھ رہا ہوں اور اگر میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے جلا بھی دیا جائے تب بھی کسی چیز کو جنت پر ترجیح نہیں دوں گا ۔" اس کے بعد حر نے گھوڑا دوڑایا اور خیام امام کے روبرو پہنچ گیا ۔
حر جب امام حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو نادم و شرمندہ تھا اور اپنے ہاتھ اپنے سر پر رکھے ہوے تھا ۔ امام حسین کے سامنے کہنے لگا۔" اللھم الیک انبت فتب علی فقد ارعبت قلوب اولیائک و اولاد بنت نبیک ۔ ترجمہ: اے اللہ میں طرف لوٹ آیا پس میری توبہ قبول فرما کیونکہ میں نے تیرے اولیاء اور تیرے رسول (ص) کی بیٹی کے فرزندوں کو خوف و دہشت سے دو چار کیا ۔ اس کے بعد امام حسین کے سامنے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا اور کہا کہ میں اپنے کیے پر پشیمان ہوں ۔ اور خدا کے سامنے اپنے اس عمل سے توبہ کرتا ہوں ۔ کیا میرے لیے توبہ کرنے کا امکان ہے؟ امام حسین نے فرمایا " ہاں "
اب حر اپنی غلطیوں سے تائب ہو چکے تھے ۔ لیکن پھر بھی عرض کیا " چونکہ میں پہلا آدمی تھا جو آپ کے مقابلے میں آیا لٰہذا سب سے پہلے آپ کے سامنے قتل ہونا چاہتا ہوں ۔ شاید حساب کے روز میرے آپ کے جد (ص) کے ہاتھ میں قرار پانے کے قابل ہو
ن یزید کا کوفیوں کو لعن طعن کرنا
جب حر کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے جہاد کا اذن مل گیا تو حر امام حسین کے سامنے کھڑے ہوئے اور لشکر یزید کی طرف رخ کیا اور ان سے یوں ہمکلام ہوئے " اے اہل کوفہ ! تم نے خدا کے اس عبد صالح کو کوفہ انے کی دعوت دی اور جب یہ یہاں تشریف لائے تو تم نےانہیں اکیلا چھوڑ دیا ۔ تم نے اِن سے وعدہ کیا کہ آپ کی خاطر جان قربان کریں گے ۔ لیکن جب یہ آ گے تو تم نے اپنی تلواریں انہی سے لڑنے کے لیے سونت لیں۔ اور اس پر یہ ظلم کے اللہ کے ان پیارے بندوں کی واپسی کی تمام رہیں بند کر دی ۔ اللہ کی اس وسیع و عریض زمین پر ان کو کہیں جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہو۔ تمہارے سامنے یہود نصاریٰ اور مجوسی فرات کے پانی سے سیراب ہو رہے ہیں مگر تم نے خاندان نبوی (ص) اس پانی سے محروم کر دیا ۔ جب کہ تم جانتے ہو یہ کوثر کے ورثہ میں سے ہیں ۔ خدا روز عطش کو تمہاری پیاس نہ بجھائے کیونکہ تم نے
محمد صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم کی حرمت کا پاس نہیں رکھا۔"
منطق و عقل سے عاری یزیدی فوج حُر کی باتوں کو مذید برداش نہ کر سکی اور انہوں نے حر پر تیروں کی بارش کر دی ۔ حر نے بھی بھپرے ہوئے شیر کی طرح حملہ کیا پے درپے کئی یذیدیوں کا سر قلم کیا اور اپنی تلوار کا حق ادا کیا، جب یذیدی فوج نے دیکھا کے پانی سروں اُونچا ہے تب انہوں نے مل کر حملہ کیا اور یوں یہ فدا حسین شہادت پا کر سرخُرو ہو گیا۔ یہی " خیر" تھی جس کے متعلق سوچتے ہوئے وہ دارالامارہ سے رخصت ہوئے تھے۔ آخر وہ بشارت سچ ہوئی اور لشکر یذید کا سردار شیہدوں کی صف اول میں شامل ہو گیا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت
میدان کربلا کی تپتی اور برسوں سے پیا سی ریت کی تشنگی فدایان حسین کے لہو سے بُجھ رہی تھی۔ آکاش سے پاتال دھرتی تک فرشتوں کی قطاریں بندھی ہوئی تھی جو شہدا کو مرحبا مرحبا کی لوری سُنا رہے تھے۔ فدائی ایک ایک کر کے لبیک کہہ رہے تھے ۔ جعفر، عبداللہ، عباس اور عثمان جو آپ کو بانہوں کے گیرے میں لیے ہوئے تھے انہوں نے شہادت کی چھلکتی صراحی سے جام نوش کیا ۔ اب امام حسین تن تنہا میدان کارزار میں تلوار کی حسرت پوری کر رہے تھے کہ یزیدوں نے ہر طرف سے آپ کو گیرے میں لے لیا مگر کسی میں بھی وار کرنے کی جرأت نہ تھی اور نہ ہی کوئی یہ گناہ اپنے سر لینا چاہا رہا تھا ۔ بالأخر شمر کے أکسانے پر زرعہ بن شریک تمیمی نے یہ بد بختی اپنے سر لی اور ہاتھ اور گردن پر تلوار کے وار کیے۔ سنسان بن انس نے تیر چلایا اور آپ رضی اللہ عنہ گِر پڑے۔ آپ کے گرنے پر ہی شمر ذی الجوش آپ کی طرف بڑھا۔ أس کی برص زدا شکل دیکھتے ہی آپ نے فرمایا میرے نانا جی (ص) سچ فرمایا تھا کہ میں ایک دھبے دار کتے کو دیکھتا ہوں کہ وہ میرے اہل بیت کے کون سے ہاتھ رنگتا ہے ۔ اے بد بخت تُو وہی کتا ہے جس کی نسبت میرے نانا (ص) خبر دی تھی۔ اس کے بعد أس بد بخت نے پیچھے کی طرف سے وار کر کے سر مبارک گردن سے جدا کردیا۔
یوں ۳ ذوالحج ۶۰ھ کا چلا ہوا قافلہ ۱۰ محرم ۶۱ ھ کو منزل مقصود پر پہنچا۔