نیرنگ خیال
لائبریرین
اور اب…
لوگو!… اب اس بہادر کے لیے راستہ چھوڑ دو۔
آؤ… ہر طرف اور ہر مقام سے آؤ۔
آؤ… ہلکے ہو یا بوجھل، چلے آؤ۔
تیزی کے ساتھ آؤ مگر پورے ادب و احترام اور انکسار و تواضع کے ساتھ آؤ…! اور ہمہ تن گوش ہو جائو کہ تم فداکاری و جاںسپاری کا ایسا درس سننے والے ہو جس کی کوئی نظیر نہیں۔
یقینا وہ بھی ایسے ہی دروس تھے۔ ان کے حسن و جمال کی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے مثیل و نظیر سے ایک انفرادیت رکھتے تھے۔ مگر اب آپ فنِ فداکاری و جاں بازی کے ایک نئے استاذ کے سامنے بیٹھے ہیں۔
ایسے استاذ… کہ اگر آپ ان کی جائے شہادت کا تذکرہ سننے سے محروم رہ گئے تو آپ خیرِکثیر و خیرِعظیم سے محروم رہ جائیں گے۔
اے ہر قوم و ملک کے صاحبِ عقیدہ لوگو! ہماری طرف توجہ کرو۔
اے ہر وقت اور ہر جگہ بلندیوں سے عشق کرنے والو ہماری طرف دیکھو۔
اے غرور و تکبر سے بوجھل دماغو! تم بھی توجہ کرو…! تم نے تو دیگر ادیان اور ایمان کے بارے میں بُرے تصورات قائم کر رکھے ہیں۔ تم اپنے دماغوں میں غرورتکبر رکھو، لیکن ہماری بات بھی سنو۔
آؤ… اور دیکھو کہ اللہ کا دین… اسلام کس طرح کے انسان تیار کرتا ہے۔
مشرکین خبیبؓ بن عدی کے ایمان کا سودا کرنے لگے اور ان سے کہنے لگے کہ تم اللہ اور محمدؐ پر جو ایمان رکھتے ہو اگر اس سے انکار کر دو گے تو ہم تجھے چھوڑ دیں گے۔ لیکن افسوس اِن عقل کے اندھوں پر…! ان کی کوشش تو اُس آدمی جیسی تھی جو سورج کو پتھر مارنے کی کوشش کر رہا ہو
آؤ… اور دیکھو کہ اس دین کے ماننے والوں کے اندر کیسی عزت نفس، کیسی پختگی، کیسی ثابت قدمی، کیسی اطاعت شعاری اور کیسی فداکاری اور کیسی وفاداری موجود ہے۔ اگر ہم اس بات کو ایک جملہ میں بیان کرنا چاہیں تو کہیں گے کہ کیسی ماورائے عقل عظمت ہے جسے حق پر ایمان و یقین اپنے ماننے والے مخلصین پر پانی کی طرح بہاتا ہے!!
توجہ فرمائیے…!!
کیا آپ اس مصلوب نعش کو دیکھ رہے ہیں؟
اے بنی نوع انسان!… آج ہمارے درس کا موضوع یہی ہے!
ہاں… یہی مصلوب جسد ہمارا موضوع درس ہے۔
یہی درس اور یہی استاذ ہے۔
اس جلیل القدر اور عظیم المرتبت اسمِ گرامی کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیجیے!
اسے یاد بھی کر لو اور گنگناتے بھی رہو کیونکہ یہ ساری انسانیت کا شرف ہے، وہ انسانیت جو کسی اور دین و مذہب سے وابستہ ہو یا کسی بھی دَور کی کسی بھی نسل سے تعلق رکھتی ہو۔
جی ہاں آبروئے ملت اور تحفظِ دین کی خاطر کٹ مرنے والوں کے لیے ابدی و دائمی درس ہے۔
حضرت خبیبؓ بن عدی مدینہ کے اوس انصاریوں میں سے تھے۔ جب رسول اللہﷺ مدینہ کی طرف ہجرت فرما گئے تو آپؓ متعدد بار دربارِرسالت میں حاضر ہوئے اور اللہ ربّ العالمین پر ایمان لے آئے۔
آپؓ شیریں روح، پاکیزہ نفس، پختہ ایمان اور شاداب ضمیر کے مالک تھے۔
جب غزوۂ بدر میں اسلامی لشکر نے اپنے جھنڈے بلند کیے تو اس موقع پر حضرت خبیبؓ بن عدی ایک جرأت مند سپاہی اور پیش قدم جنگجو تھے۔ ابتدائے معرکہ میں وہ ان مشرکین کے حصار میں آگئے جو اِن کے راستے میں رکاوٹ بن رہے تھے۔ حضرت خبیبؓ نے انھیں اپنی تلوار کے زور پر بھگا ڈالا اور حارث بن عامر بن نوفل کو زندگی سے محروم کردیا۔
اختتام جنگ کے بعد مشرکین کا شکست خوردہ بقیہ لشکر مکہ کی طرف لوٹا تو حارث کے بیٹوں نے اپنے باپ کے مقتل کو معلوم کیا اور اس مسلمان کا نام اچھی طرح ازبر کر لیا جس نے حارث کو میدان جنگ میں قتل کیا تھا یعنی خبیبؓ بن عدی کا نام ذہن نشین کرلیا۔
مسلمان اپنے دلوں میں ایک نئے معاشرے کی تعمیروتشکیل کے ارمان لے کر بدر سے مدینہ کی طرف لوٹے۔ حضرت خبیبؓ ایک عابد و زاہد آدمی تھے۔ وہ صوفیوں جیسی طبیعت اور عابدوں جیسا شوقِ عبادت رکھتے تھے۔ وہ عشق سے لبریز روح کے ساتھ عبادت کی طرف مائل ہو گئے۔ رات کو قیام کرتے، دن کو روزہ رکھتے اور اللہ ربّ العالمین کی تحمید و تقدیس بیان کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے۔
ایک روز رسول اللہﷺ نے چاہا کہ قریش کی خفیہ سرگرمیوں کا کھوج لگایا جائے اور نئی جنگ کے لیے ان کی حرکات و سکنات اور تیاری کے بارے میں آگاہی حاصل کی جائے۔ اس مقصد کے لیے آپؐ نے اپنے صحابہ میں سے ۱۰ آدمیوں کا انتخاب کیا اور عاصمؓ بن ثابت کو ان کا امیر مقرر کیا۔ خبیبؓ بن عدی بھی ان میں شامل تھے۔
قافلہ اپنی منزل کی طرف چل پڑا یہاں تک کہ عسفان اور مکہ کے درمیان ایک جگہ پہنچ گیا۔ جس کی خبر ’’ھذیل‘‘ کے ایک محلہ کو ہو گئی جسے ’’بنولحیان‘‘ کہا جاتا تھا۔ وہ فوراً اپنے ۱۰۰ ماہر تیراندازوں کے ساتھ اِن کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور اِن کا کھوج لگاتے ہوئے ان کے پیچھے چل پڑے۔
اگر بنولحیان کا ایک آدمی وہاں گری کھجور کی بعض گٹھلیاں نہ دیکھتا تو قریب تھا کہ وہ ۱۰ افراد کے اس قافلے کو نہ پا سکتے۔ ایک نے گٹھلی پکڑی اور اہل عرب کی سی عجیب قیافہ شناسی کے انداز میں قیافہ لگایا۔ پھر اپنے ساتھیوں سے بآوازبلند یوں مخاطب ہوا ’’یہ تو یثرب کی گُٹھلی ہے۔ ہمیں اِن گٹھلیوں کے ساتھ ساتھ چلتے جانا چاہیے یہاں تک کہ یہ ہمیں ان لوگوں تک پہنچا دیں۔‘‘ بنولحیان زمین پر گری ہوئی ان گٹھلیوں کے ساتھ ساتھ چلتے رہے یہاں تک کہ انھوں نے دور سے اپنا گمشدہ شکار دیکھ لیا۔
مسلمانوں کے امیرِقافلہ حضرت عاصم بن ثابتؓ نے سوچا کہ وہ ہمیں بھگا ماریں گے۔لہٰذا انھوں نے اپنے ساتھیوں کو پہاڑ کے اوپر بلند چوٹی پر چڑھ جانے کا حکم دیا۔ اُدھر بنولحیان کے یہ تیرانداز پہاڑ کے قریب پہنچ گئے اور مسلمان دستہ کو دامنِ کوہ میں گھیر لیا، ان کا محاصرہ سخت کردیا اور پیشکش کی کہ تمھیں کچھ نہیں کہا جائے گا لہٰذا اپنا آپ ہمارے حوالے کر دو۔
دستہ کے افراد نے اپنے امیر جناب عاصم بن ثابت انصاریؓ کی طرف مشاورتی نظروں سے دیکھا اور اس انتظار میں رہے کہ وہ انھیں کیا حکم دیتے ہیں۔ اتنے میں حضرت عاصمؓ نے فرمایا ’’جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے، اللہ کی قسم میں تو کسی مشرک کی پناہ میں نہیں جائوں گا۔ اے اللہ ہمارے بارے میں اپنے نبی کو خبر دے دے۔
اُدھر بنولحیان کے تیراندازوں نے ان پر تیر و نیزے پھینکنے شروع کر دیے۔ مسلمان دستہ کے امیر حضرت عاصمؓ بن ثابت زخمی ہوگئے اور شہادت کے اعزاز سے سرخرو ہوئے۔ ان کے ساتھ ان کے ۳ ساتھی بھی زخمی ہو کر جامِ شہادت نوش کر گئے۔ باقی بچ جانے والے ۳ آدمیوں سے کافروں نے کہا کہ اگر وہ اپنا آپ ہمارے حوالے کردیں تو پختہ وعدہ ہے کہ انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔
یہ تینوں آدمی پہاڑ سے نیچے اُتر آئے۔ کفار کے تیرانداز اور نیزہ باز حضرت خبیبؓ اور حضرت زید بن دثنہؓ کے قریب ہوئے اور اپنے ازاربند کھول کر انھیں باندھ لیا ۔
تیسرے مسلمان نے اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کرنا اطاعت امیر کی خلاف ورزی سمجھا اور عزم کرلیا کہ وہ بھی موت کو ویسے ہی قبول کرے گا جس طرح عاصمؓ اور ان کے ساتھیوں نے ایمان قبول کیا ہے۔ پھر یہ صاحب بھی اپنی آرزو کے مطابق رتبۂ شہادت پر فائز ہوگئے اور اس طرح ایمان کے اعتبار سے عظیم ترین اور عہد کے اعتبار سے مضبوط ترین یہ آدمی ۸ کی تعداد کو پہنچ گئے، جنھوں نے اللہ و رسول سے کیے ہوئے عہد کو زندگی کے آخری سانس تک نبھایا۔
حضرت خبیبؓ اور حضرت زیدؓ نے اپنے بندھن کھولنے کی کوشش کی مگر وہ اس قدر مضبوط تھے کہ یہ اس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے۔ پھر سرکش و جابر تیرانداز اِن دونوں اصحاب کو لے کر مکہ چلے گئے جہاں انھیں مشرکین کے ہاتھوں فروخت کردیا۔
شہر میں ہونے والی نیلامی میں ’’خبیبؓ‘‘ نام پکارا گیا تو مقتولِ بدر حارث بن عامر کے بیٹوں کا ماتھا ٹھنکا۔ انھوں نے ذہن پر دبائو ڈال کر اس نام کو پرکھا تو ان کے دلوں میں حسد و بغض کی آگ بھڑک اٹھی۔ وہ فوراً اس نام کے شخص کو خریدنے کے لیے بھاگے۔ ان کی اس انتقامی دوڑ میں مکہ کے وہ لوگ بھی شامل ہو گئے جو میدانِ بدر میں اپنے باپ اور سرداروں کو قتل کرا چکے تھے۔
بالآخر یہ سب اِن پر پل پڑے اور انھیں اس مقام کی طرف لے جانے لگے جہاں جا کر وہ ان کے، بلکہ تمام مسلمانوں کے خلاف اپنے حسد کی آگ ٹھنڈی کرنا چاہتے تھے۔کچھ لوگوں نے اپنے ہاتھ حضرت خبیبؓ کے ساتھی زید بن دثنہؓ پر ڈالے اور ان کو بھی تشدد سے دوچار کرنے لگے۔
حضرت خبیبؓ نے اپنا دل، اپنا معاملہ اور اپنا انجام، سب کچھ اللہ ربّ العالمین کے حوالے کردیا اور قلبی اطمینان اور نفسی جرأت کے ساتھ عبادت کی طرف متوجہ ہوئے تو ان پر اللہ تعالیٰ کی ایسی سکنیت نازل ہوئی جو پتھر پر نازل ہوتی تو اسے پگھلا کر رکھ دیتی اور خوف و ہیبت پر اس کا نزول ہوتا تو اسے معدوم کر ڈالتی۔ دراصل اللہ ان کے ساتھ اور وہ اللہ کے ساتھ تھے۔ اللہ کا ہاتھ ان کے اوپر تھا۔ قریب تھا کہ وہ دستِ قدرت کی انگلیوں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کرنے لگتے۔
حضرت خبیبؓ، حارث کے گھر میں قید تھے۔ ایک روز حارث کی ایک بیٹی ان کے پاس آئی تو فوراً بھاگتی ہوئی باہر چلی گئی اور لوگوں کو عجیب و غریب چیز دیکھنے کے لیے پکارنے اور کہنے لگی ’’اللہ کی قسم! میں نے اسے انگور کا ایک بہت بڑا گچھا پکڑے دیکھا ہے جس سے یہ انگور کھا رہا تھا جبکہ یہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور مکہ میں انگوروں کا موسم بھی نہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ وہ رزق ہے جو اللہ نے خبیبؓ کو عطا کیا ہے۔‘‘ یقینا… یہ وہ رزق تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے صالح بندے کو عنایت کیا، جس طرح اس سے قبل مریمؑ بنتِ عمران کو عطا کیا تھا جسے قرآن نے یوں بیان کیا ہے:
’’زکریاؑ جب کبھی اس کے پاس محراب میں جاتا تو اس کے پاس کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا سامان پاتا، پوچھتا: مریم یہ تیرے پاس کہاں سے آیا؟ وہ جواب دیتی’’ اللہ کے پاس سے آیا ہے، اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔‘‘ اٰل عمران: ۳۷
ایک روز ان مشرکوں نے حضرت خبیبؓ کو ان کے ساتھی حضرت زید بن دثنہؓ کی شہادت کی خبر سنائی۔ ان کا خیال تھا وہ یہ خبر سنا کر ان کے اعصاب شل کر دیں گے اور اس طرح اسے دگنی سزا دیں گے لیکن انھیں یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ نے اپنے اس بندے کو اپنا مہمان بنالیا ہے اور اس کے اوپر اپنی رحمت و سکنیت نازل فرما دی ہے۔
جب دشمنانِ حق اپنے اس منصوبے میں ناکام ہو کر ناامید اور مایوس ہوگئے تو وہ اس ’’بہادر‘‘ کو پھانسی گھاٹ کی طرف لے چلے۔ وہ انھیں اس مقام کی طرف لے جا رہے تھے جس کا نام ’’تنعیم‘‘ تھا اور یہی حضرت خبیبؓ کا مقتل قرار پایا۔ وہ حضرت خبیبؓ کو لے کر اس مقررہ جگہ پر پہنچے ہی تھے کہ آپؓ نے ان سے ۲ رکعت نماز ادا کرنے کی مہلت مانگی۔ انھوں نے اس خیال سے اجازت دے دی کہ شاید وہ اس طرح اللہ و رسول اور دین سے کفر کے اعلان کرنے کے لیے کچھ سوچنا چاہتا ہو۔
حضرت خبیبؓ نے بڑے سکون اور خشوع سے بآواز خفی ۲ رکعت نماز ادا کی۔ اس دوران ان کی روح میں حلاوتِ ایمان یوں مچل رہی تھی کہ ان کا جی چاہ رہا تھا وہ اِن رکعات کو لمبا کریں اور پڑھتے ہی رہیں لیکن انھوں نے اپنے قاتلوں کی طرف دیکھا اور فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تم یہ گمان نہ کرلو کہ میں موت سے خائف ہوں تو میں ضرور اس نماز کو مزید طویل کرتا۔‘‘ پھر انھوں نے آسمان کی طرف اپنا ہاتھ لہراتے ہوئے بددعا کی’’اے اللہ! ان کو ایک ایک کرکے گن لے اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے مار دے۔ پھر بڑی جرأت اور اطمینان سے ان کی طرف متوجہ ہو کر یہ اشعار پڑھنے لگے
اور جب میں مسلمان کی حیثیت سے قتل ہو رہا ہوں تو مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ کس پہلو پر مجھے موت آتی ہے۔ میں جس پہلو پر بھی مارا جائوں گا اللہ کی خاطر ہی جان دوں گا اور موت تو اللہ کی خاطر قبول کر رہا ہوں اگر وہ چاہے تو ان ٹکڑے ٹکڑے ہڈیوں میں بھی برکت ڈال دے گا۔
دشمنانِ حق نے کھجور کے تنوں سے ایک بہت بڑی صلیب تیار کی اور اس کے اوپر حضرت خبیبؓ کو باندھ دیا۔ ہر طرف سے مضبوطی کے ساتھ انھیں باندھا ہوا ہے اور مشرک دشمنی کا بدترین مظاہرہ کرنے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔نیزہ باز اٹھتے اور اپنے نیزے پھینکنے کے لیے نیزہ بدست کھڑے ہو جاتے ہیں۔
سُولی پر لٹکے بہادر کے ساتھ بہیمیت کا یہ بدترین مظاہرہ بڑے سکون سے جاری ہونے والا ہے۔ اس کے باوجود یہ بہادر اپنی آنکھیں بند نہیں کرتا۔ ان کے چہرے پر عجیب نورانی سکینت نازل ہو رہی ہے۔ نیزے ان کے بدن میں پیوست ہونے اور تلواریں ان کی بوٹیاں اُڑانے کے لیے تیار ہیں۔
اس موقع پر قریش کا ایک سردار اِن کے قریب آتا ہے اور ان سے کہتا ہے’’کیا تو چاہتا ہے کہ اس وقت محمدؐ تیری جگہ ہو اور تو صحیح سلامت اپنے اہلِ خانہ میں ہو؟
حضرت خبیبؓ نے لمحہ بھر کا توقف کیے بغیر اپنے قاتلوں کو مخاطب کرکے بآواز بلند کہا: اللہ کی قسم! مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ رسول اللہﷺ کو ایک کانٹا چبھے اور میں اپنے اہل و اولاد میں رہوں اور دنیا کی نعمت و سلامتی مجھے میسر ہو۔
یہی وہ عظیم اور غضب ناک الفاظ ہیں جو حضرت خبیبؓ کے ساتھی حضرت زید بن دثنہؓ نے بھی اپنی شہادت کے موقع پر فرمائے تھے۔ کفر کے ایوانوں میں لرزہ طاری کر دینے والے یہ ہیبت ناک الفاظ کل حضرت زیدؓ نے کہے تھے اور آج حضرت خبیبؓ کہہ رہے تھے۔ ان الفاظ نے ابوسفیان کو یہ کہنے پر مجبور کردیا تھا اللہ کی قسم! میں نے کسی سے محبت کرنے والا کوئی آدمی نہیں دیکھا جس طرح محمدؐ کے ساتھی محمدؐ سے محبت کرتے ہیں۔
حضرت خبیبؓ کے یہ الفاظ گویا نیزوں اور تلواروں کو اپنا کام کر دکھانے کی اجازت دینا تھا اور یہی ہوا کہ یہ نیزے اور تلواریں وحشیانہ انداز میں ان کے جسم پر برس پڑیں۔ اس مقتل کے قریب آسمان پر پرندے اُڑ رہے تھے۔ گویا وہ اس انتظار میں تھے کہ یہ قصاب اپنے کام سے فارغ ہوں تو ہم اپنا کام شروع کریں۔ لیکن یہ چیل اور گِدھ چیختے اور ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں، اپنی چونچیں ایک دوسرے کے قریب کرتے ہیں گویا یہ آپس میں کوئی سرگوشی اور مشاورت کر رہے ہوں۔ پھر اچانک اُڑتے اور فضا میں بکھر کر دور دور چلے جاتے ہیں۔ شاید ان پرندوں نے صالح اور فرمانبردار آدمی کے جسم سے آنے والی خوشبو کو محسوس کرلیا تھا اور شرمندہ ہوگئے تھے کہ اس پاکیزہ جسد سے کوئی بوٹی نوچ کھائیں۔
پرندوں کا یہ غول حضرت خبیبؓ کے جسد کو چھوئے بغیر دور فضا میں جا چھپا اور مشرکین ظلم و شقاوت کا بدترین مظاہرہ کرنے کے بعد واپس مکہ میں اپنے حسد بھرے گھروں میں آگئے اور حضرت خبیبؓ کا جسدِشہید اس حال میں وہیں چھوڑ آئے کہ نیزہ بازوں اور تلوارزنوں کی ایک جماعت اس کی نگرانی پر مامور تھی تاکہ مسلمان اس کو اتار کر لے نہ جائیں۔ جس وقت ان لوگوں نے حضرت خبیبؓ کو باندھ کر صلیب پر لٹکایا تھا تو حضرت خبیبؓ نے آسمان کی طرف رُخ کرکے گڑگڑا کر اپنے رب سے عرض کیا تھا:
اے اللہ! ہم نے تو تیرے رسولﷺ کا پیغام پہنچا دیا۔ اب تو بھی اپنے رسولؐ تک اس کی خبر پہنچا دے جو ہمارے ساتھ ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی دعا قبول فرمائی۔ رسولؐ اللہ مدینہ میں تشریف فرما تھے کہ آپؐ کے اندر یہ شدید احساس پیدا ہوا کہ آپؐکے صحابہ مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ آپؐ کو ان میں سے ایک صحابی کا جسد سُولی پر لٹکا ہوا بھی دکھایا گیا۔ آپؐ نے فوراً حضرت مقدادؓ بن عمرو اور زبیرؓ بن عوام کو بلایا اور ان آدمیوں کی خبر کے لیے روانہ کردیا۔ دونوں جوانمرد اپنے گھوڑوں پر سوار ہوئے اور نہایت تیزرفتاری سے چل پڑے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اس مطلوبہ جگہ پر پہنچا دیا اور انھوں نے اپنے ساتھی حضرت خبیبؓ کو صلیب سے نیچے اتار لیا۔ آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ حضرت خبیبؓ کی قبر کہاں ہے۔ شاید یہی ان کے زیادہ شایانِ شان تھا کہ وہ تاریخ کے تذکرے اور زندگی کے ضمیر میں باقی رہیں تو انھیں ’’تختۂ دار پر موجود جوانمرد‘‘ کے طور پر ہی یاد کیا جائے۔
نوٹ: ستمبر 2011 اردو ڈائجسٹ سے لیا گیا۔
لوگو!… اب اس بہادر کے لیے راستہ چھوڑ دو۔
آؤ… ہر طرف اور ہر مقام سے آؤ۔
آؤ… ہلکے ہو یا بوجھل، چلے آؤ۔
تیزی کے ساتھ آؤ مگر پورے ادب و احترام اور انکسار و تواضع کے ساتھ آؤ…! اور ہمہ تن گوش ہو جائو کہ تم فداکاری و جاںسپاری کا ایسا درس سننے والے ہو جس کی کوئی نظیر نہیں۔
یقینا وہ بھی ایسے ہی دروس تھے۔ ان کے حسن و جمال کی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے مثیل و نظیر سے ایک انفرادیت رکھتے تھے۔ مگر اب آپ فنِ فداکاری و جاں بازی کے ایک نئے استاذ کے سامنے بیٹھے ہیں۔
ایسے استاذ… کہ اگر آپ ان کی جائے شہادت کا تذکرہ سننے سے محروم رہ گئے تو آپ خیرِکثیر و خیرِعظیم سے محروم رہ جائیں گے۔
اے ہر قوم و ملک کے صاحبِ عقیدہ لوگو! ہماری طرف توجہ کرو۔
اے ہر وقت اور ہر جگہ بلندیوں سے عشق کرنے والو ہماری طرف دیکھو۔
اے غرور و تکبر سے بوجھل دماغو! تم بھی توجہ کرو…! تم نے تو دیگر ادیان اور ایمان کے بارے میں بُرے تصورات قائم کر رکھے ہیں۔ تم اپنے دماغوں میں غرورتکبر رکھو، لیکن ہماری بات بھی سنو۔
آؤ… اور دیکھو کہ اللہ کا دین… اسلام کس طرح کے انسان تیار کرتا ہے۔
مشرکین خبیبؓ بن عدی کے ایمان کا سودا کرنے لگے اور ان سے کہنے لگے کہ تم اللہ اور محمدؐ پر جو ایمان رکھتے ہو اگر اس سے انکار کر دو گے تو ہم تجھے چھوڑ دیں گے۔ لیکن افسوس اِن عقل کے اندھوں پر…! ان کی کوشش تو اُس آدمی جیسی تھی جو سورج کو پتھر مارنے کی کوشش کر رہا ہو
آؤ… اور دیکھو کہ اس دین کے ماننے والوں کے اندر کیسی عزت نفس، کیسی پختگی، کیسی ثابت قدمی، کیسی اطاعت شعاری اور کیسی فداکاری اور کیسی وفاداری موجود ہے۔ اگر ہم اس بات کو ایک جملہ میں بیان کرنا چاہیں تو کہیں گے کہ کیسی ماورائے عقل عظمت ہے جسے حق پر ایمان و یقین اپنے ماننے والے مخلصین پر پانی کی طرح بہاتا ہے!!
توجہ فرمائیے…!!
کیا آپ اس مصلوب نعش کو دیکھ رہے ہیں؟
اے بنی نوع انسان!… آج ہمارے درس کا موضوع یہی ہے!
ہاں… یہی مصلوب جسد ہمارا موضوع درس ہے۔
یہی درس اور یہی استاذ ہے۔
اس جلیل القدر اور عظیم المرتبت اسمِ گرامی کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیجیے!
اسے یاد بھی کر لو اور گنگناتے بھی رہو کیونکہ یہ ساری انسانیت کا شرف ہے، وہ انسانیت جو کسی اور دین و مذہب سے وابستہ ہو یا کسی بھی دَور کی کسی بھی نسل سے تعلق رکھتی ہو۔
جی ہاں آبروئے ملت اور تحفظِ دین کی خاطر کٹ مرنے والوں کے لیے ابدی و دائمی درس ہے۔
حضرت خبیبؓ بن عدی مدینہ کے اوس انصاریوں میں سے تھے۔ جب رسول اللہﷺ مدینہ کی طرف ہجرت فرما گئے تو آپؓ متعدد بار دربارِرسالت میں حاضر ہوئے اور اللہ ربّ العالمین پر ایمان لے آئے۔
آپؓ شیریں روح، پاکیزہ نفس، پختہ ایمان اور شاداب ضمیر کے مالک تھے۔
جب غزوۂ بدر میں اسلامی لشکر نے اپنے جھنڈے بلند کیے تو اس موقع پر حضرت خبیبؓ بن عدی ایک جرأت مند سپاہی اور پیش قدم جنگجو تھے۔ ابتدائے معرکہ میں وہ ان مشرکین کے حصار میں آگئے جو اِن کے راستے میں رکاوٹ بن رہے تھے۔ حضرت خبیبؓ نے انھیں اپنی تلوار کے زور پر بھگا ڈالا اور حارث بن عامر بن نوفل کو زندگی سے محروم کردیا۔
اختتام جنگ کے بعد مشرکین کا شکست خوردہ بقیہ لشکر مکہ کی طرف لوٹا تو حارث کے بیٹوں نے اپنے باپ کے مقتل کو معلوم کیا اور اس مسلمان کا نام اچھی طرح ازبر کر لیا جس نے حارث کو میدان جنگ میں قتل کیا تھا یعنی خبیبؓ بن عدی کا نام ذہن نشین کرلیا۔
مسلمان اپنے دلوں میں ایک نئے معاشرے کی تعمیروتشکیل کے ارمان لے کر بدر سے مدینہ کی طرف لوٹے۔ حضرت خبیبؓ ایک عابد و زاہد آدمی تھے۔ وہ صوفیوں جیسی طبیعت اور عابدوں جیسا شوقِ عبادت رکھتے تھے۔ وہ عشق سے لبریز روح کے ساتھ عبادت کی طرف مائل ہو گئے۔ رات کو قیام کرتے، دن کو روزہ رکھتے اور اللہ ربّ العالمین کی تحمید و تقدیس بیان کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے۔
ایک روز رسول اللہﷺ نے چاہا کہ قریش کی خفیہ سرگرمیوں کا کھوج لگایا جائے اور نئی جنگ کے لیے ان کی حرکات و سکنات اور تیاری کے بارے میں آگاہی حاصل کی جائے۔ اس مقصد کے لیے آپؐ نے اپنے صحابہ میں سے ۱۰ آدمیوں کا انتخاب کیا اور عاصمؓ بن ثابت کو ان کا امیر مقرر کیا۔ خبیبؓ بن عدی بھی ان میں شامل تھے۔
قافلہ اپنی منزل کی طرف چل پڑا یہاں تک کہ عسفان اور مکہ کے درمیان ایک جگہ پہنچ گیا۔ جس کی خبر ’’ھذیل‘‘ کے ایک محلہ کو ہو گئی جسے ’’بنولحیان‘‘ کہا جاتا تھا۔ وہ فوراً اپنے ۱۰۰ ماہر تیراندازوں کے ساتھ اِن کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور اِن کا کھوج لگاتے ہوئے ان کے پیچھے چل پڑے۔
اگر بنولحیان کا ایک آدمی وہاں گری کھجور کی بعض گٹھلیاں نہ دیکھتا تو قریب تھا کہ وہ ۱۰ افراد کے اس قافلے کو نہ پا سکتے۔ ایک نے گٹھلی پکڑی اور اہل عرب کی سی عجیب قیافہ شناسی کے انداز میں قیافہ لگایا۔ پھر اپنے ساتھیوں سے بآوازبلند یوں مخاطب ہوا ’’یہ تو یثرب کی گُٹھلی ہے۔ ہمیں اِن گٹھلیوں کے ساتھ ساتھ چلتے جانا چاہیے یہاں تک کہ یہ ہمیں ان لوگوں تک پہنچا دیں۔‘‘ بنولحیان زمین پر گری ہوئی ان گٹھلیوں کے ساتھ ساتھ چلتے رہے یہاں تک کہ انھوں نے دور سے اپنا گمشدہ شکار دیکھ لیا۔
مسلمانوں کے امیرِقافلہ حضرت عاصم بن ثابتؓ نے سوچا کہ وہ ہمیں بھگا ماریں گے۔لہٰذا انھوں نے اپنے ساتھیوں کو پہاڑ کے اوپر بلند چوٹی پر چڑھ جانے کا حکم دیا۔ اُدھر بنولحیان کے یہ تیرانداز پہاڑ کے قریب پہنچ گئے اور مسلمان دستہ کو دامنِ کوہ میں گھیر لیا، ان کا محاصرہ سخت کردیا اور پیشکش کی کہ تمھیں کچھ نہیں کہا جائے گا لہٰذا اپنا آپ ہمارے حوالے کر دو۔
دستہ کے افراد نے اپنے امیر جناب عاصم بن ثابت انصاریؓ کی طرف مشاورتی نظروں سے دیکھا اور اس انتظار میں رہے کہ وہ انھیں کیا حکم دیتے ہیں۔ اتنے میں حضرت عاصمؓ نے فرمایا ’’جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے، اللہ کی قسم میں تو کسی مشرک کی پناہ میں نہیں جائوں گا۔ اے اللہ ہمارے بارے میں اپنے نبی کو خبر دے دے۔
اُدھر بنولحیان کے تیراندازوں نے ان پر تیر و نیزے پھینکنے شروع کر دیے۔ مسلمان دستہ کے امیر حضرت عاصمؓ بن ثابت زخمی ہوگئے اور شہادت کے اعزاز سے سرخرو ہوئے۔ ان کے ساتھ ان کے ۳ ساتھی بھی زخمی ہو کر جامِ شہادت نوش کر گئے۔ باقی بچ جانے والے ۳ آدمیوں سے کافروں نے کہا کہ اگر وہ اپنا آپ ہمارے حوالے کردیں تو پختہ وعدہ ہے کہ انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔
یہ تینوں آدمی پہاڑ سے نیچے اُتر آئے۔ کفار کے تیرانداز اور نیزہ باز حضرت خبیبؓ اور حضرت زید بن دثنہؓ کے قریب ہوئے اور اپنے ازاربند کھول کر انھیں باندھ لیا ۔
تیسرے مسلمان نے اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کرنا اطاعت امیر کی خلاف ورزی سمجھا اور عزم کرلیا کہ وہ بھی موت کو ویسے ہی قبول کرے گا جس طرح عاصمؓ اور ان کے ساتھیوں نے ایمان قبول کیا ہے۔ پھر یہ صاحب بھی اپنی آرزو کے مطابق رتبۂ شہادت پر فائز ہوگئے اور اس طرح ایمان کے اعتبار سے عظیم ترین اور عہد کے اعتبار سے مضبوط ترین یہ آدمی ۸ کی تعداد کو پہنچ گئے، جنھوں نے اللہ و رسول سے کیے ہوئے عہد کو زندگی کے آخری سانس تک نبھایا۔
حضرت خبیبؓ اور حضرت زیدؓ نے اپنے بندھن کھولنے کی کوشش کی مگر وہ اس قدر مضبوط تھے کہ یہ اس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے۔ پھر سرکش و جابر تیرانداز اِن دونوں اصحاب کو لے کر مکہ چلے گئے جہاں انھیں مشرکین کے ہاتھوں فروخت کردیا۔
شہر میں ہونے والی نیلامی میں ’’خبیبؓ‘‘ نام پکارا گیا تو مقتولِ بدر حارث بن عامر کے بیٹوں کا ماتھا ٹھنکا۔ انھوں نے ذہن پر دبائو ڈال کر اس نام کو پرکھا تو ان کے دلوں میں حسد و بغض کی آگ بھڑک اٹھی۔ وہ فوراً اس نام کے شخص کو خریدنے کے لیے بھاگے۔ ان کی اس انتقامی دوڑ میں مکہ کے وہ لوگ بھی شامل ہو گئے جو میدانِ بدر میں اپنے باپ اور سرداروں کو قتل کرا چکے تھے۔
بالآخر یہ سب اِن پر پل پڑے اور انھیں اس مقام کی طرف لے جانے لگے جہاں جا کر وہ ان کے، بلکہ تمام مسلمانوں کے خلاف اپنے حسد کی آگ ٹھنڈی کرنا چاہتے تھے۔کچھ لوگوں نے اپنے ہاتھ حضرت خبیبؓ کے ساتھی زید بن دثنہؓ پر ڈالے اور ان کو بھی تشدد سے دوچار کرنے لگے۔
حضرت خبیبؓ نے اپنا دل، اپنا معاملہ اور اپنا انجام، سب کچھ اللہ ربّ العالمین کے حوالے کردیا اور قلبی اطمینان اور نفسی جرأت کے ساتھ عبادت کی طرف متوجہ ہوئے تو ان پر اللہ تعالیٰ کی ایسی سکنیت نازل ہوئی جو پتھر پر نازل ہوتی تو اسے پگھلا کر رکھ دیتی اور خوف و ہیبت پر اس کا نزول ہوتا تو اسے معدوم کر ڈالتی۔ دراصل اللہ ان کے ساتھ اور وہ اللہ کے ساتھ تھے۔ اللہ کا ہاتھ ان کے اوپر تھا۔ قریب تھا کہ وہ دستِ قدرت کی انگلیوں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کرنے لگتے۔
حضرت خبیبؓ، حارث کے گھر میں قید تھے۔ ایک روز حارث کی ایک بیٹی ان کے پاس آئی تو فوراً بھاگتی ہوئی باہر چلی گئی اور لوگوں کو عجیب و غریب چیز دیکھنے کے لیے پکارنے اور کہنے لگی ’’اللہ کی قسم! میں نے اسے انگور کا ایک بہت بڑا گچھا پکڑے دیکھا ہے جس سے یہ انگور کھا رہا تھا جبکہ یہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور مکہ میں انگوروں کا موسم بھی نہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ وہ رزق ہے جو اللہ نے خبیبؓ کو عطا کیا ہے۔‘‘ یقینا… یہ وہ رزق تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے صالح بندے کو عنایت کیا، جس طرح اس سے قبل مریمؑ بنتِ عمران کو عطا کیا تھا جسے قرآن نے یوں بیان کیا ہے:
’’زکریاؑ جب کبھی اس کے پاس محراب میں جاتا تو اس کے پاس کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا سامان پاتا، پوچھتا: مریم یہ تیرے پاس کہاں سے آیا؟ وہ جواب دیتی’’ اللہ کے پاس سے آیا ہے، اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔‘‘ اٰل عمران: ۳۷
ایک روز ان مشرکوں نے حضرت خبیبؓ کو ان کے ساتھی حضرت زید بن دثنہؓ کی شہادت کی خبر سنائی۔ ان کا خیال تھا وہ یہ خبر سنا کر ان کے اعصاب شل کر دیں گے اور اس طرح اسے دگنی سزا دیں گے لیکن انھیں یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ نے اپنے اس بندے کو اپنا مہمان بنالیا ہے اور اس کے اوپر اپنی رحمت و سکنیت نازل فرما دی ہے۔
جب دشمنانِ حق اپنے اس منصوبے میں ناکام ہو کر ناامید اور مایوس ہوگئے تو وہ اس ’’بہادر‘‘ کو پھانسی گھاٹ کی طرف لے چلے۔ وہ انھیں اس مقام کی طرف لے جا رہے تھے جس کا نام ’’تنعیم‘‘ تھا اور یہی حضرت خبیبؓ کا مقتل قرار پایا۔ وہ حضرت خبیبؓ کو لے کر اس مقررہ جگہ پر پہنچے ہی تھے کہ آپؓ نے ان سے ۲ رکعت نماز ادا کرنے کی مہلت مانگی۔ انھوں نے اس خیال سے اجازت دے دی کہ شاید وہ اس طرح اللہ و رسول اور دین سے کفر کے اعلان کرنے کے لیے کچھ سوچنا چاہتا ہو۔
حضرت خبیبؓ نے بڑے سکون اور خشوع سے بآواز خفی ۲ رکعت نماز ادا کی۔ اس دوران ان کی روح میں حلاوتِ ایمان یوں مچل رہی تھی کہ ان کا جی چاہ رہا تھا وہ اِن رکعات کو لمبا کریں اور پڑھتے ہی رہیں لیکن انھوں نے اپنے قاتلوں کی طرف دیکھا اور فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تم یہ گمان نہ کرلو کہ میں موت سے خائف ہوں تو میں ضرور اس نماز کو مزید طویل کرتا۔‘‘ پھر انھوں نے آسمان کی طرف اپنا ہاتھ لہراتے ہوئے بددعا کی’’اے اللہ! ان کو ایک ایک کرکے گن لے اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے مار دے۔ پھر بڑی جرأت اور اطمینان سے ان کی طرف متوجہ ہو کر یہ اشعار پڑھنے لگے
اور جب میں مسلمان کی حیثیت سے قتل ہو رہا ہوں تو مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ کس پہلو پر مجھے موت آتی ہے۔ میں جس پہلو پر بھی مارا جائوں گا اللہ کی خاطر ہی جان دوں گا اور موت تو اللہ کی خاطر قبول کر رہا ہوں اگر وہ چاہے تو ان ٹکڑے ٹکڑے ہڈیوں میں بھی برکت ڈال دے گا۔
دشمنانِ حق نے کھجور کے تنوں سے ایک بہت بڑی صلیب تیار کی اور اس کے اوپر حضرت خبیبؓ کو باندھ دیا۔ ہر طرف سے مضبوطی کے ساتھ انھیں باندھا ہوا ہے اور مشرک دشمنی کا بدترین مظاہرہ کرنے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔نیزہ باز اٹھتے اور اپنے نیزے پھینکنے کے لیے نیزہ بدست کھڑے ہو جاتے ہیں۔
سُولی پر لٹکے بہادر کے ساتھ بہیمیت کا یہ بدترین مظاہرہ بڑے سکون سے جاری ہونے والا ہے۔ اس کے باوجود یہ بہادر اپنی آنکھیں بند نہیں کرتا۔ ان کے چہرے پر عجیب نورانی سکینت نازل ہو رہی ہے۔ نیزے ان کے بدن میں پیوست ہونے اور تلواریں ان کی بوٹیاں اُڑانے کے لیے تیار ہیں۔
اس موقع پر قریش کا ایک سردار اِن کے قریب آتا ہے اور ان سے کہتا ہے’’کیا تو چاہتا ہے کہ اس وقت محمدؐ تیری جگہ ہو اور تو صحیح سلامت اپنے اہلِ خانہ میں ہو؟
حضرت خبیبؓ نے لمحہ بھر کا توقف کیے بغیر اپنے قاتلوں کو مخاطب کرکے بآواز بلند کہا: اللہ کی قسم! مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ رسول اللہﷺ کو ایک کانٹا چبھے اور میں اپنے اہل و اولاد میں رہوں اور دنیا کی نعمت و سلامتی مجھے میسر ہو۔
یہی وہ عظیم اور غضب ناک الفاظ ہیں جو حضرت خبیبؓ کے ساتھی حضرت زید بن دثنہؓ نے بھی اپنی شہادت کے موقع پر فرمائے تھے۔ کفر کے ایوانوں میں لرزہ طاری کر دینے والے یہ ہیبت ناک الفاظ کل حضرت زیدؓ نے کہے تھے اور آج حضرت خبیبؓ کہہ رہے تھے۔ ان الفاظ نے ابوسفیان کو یہ کہنے پر مجبور کردیا تھا اللہ کی قسم! میں نے کسی سے محبت کرنے والا کوئی آدمی نہیں دیکھا جس طرح محمدؐ کے ساتھی محمدؐ سے محبت کرتے ہیں۔
حضرت خبیبؓ کے یہ الفاظ گویا نیزوں اور تلواروں کو اپنا کام کر دکھانے کی اجازت دینا تھا اور یہی ہوا کہ یہ نیزے اور تلواریں وحشیانہ انداز میں ان کے جسم پر برس پڑیں۔ اس مقتل کے قریب آسمان پر پرندے اُڑ رہے تھے۔ گویا وہ اس انتظار میں تھے کہ یہ قصاب اپنے کام سے فارغ ہوں تو ہم اپنا کام شروع کریں۔ لیکن یہ چیل اور گِدھ چیختے اور ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں، اپنی چونچیں ایک دوسرے کے قریب کرتے ہیں گویا یہ آپس میں کوئی سرگوشی اور مشاورت کر رہے ہوں۔ پھر اچانک اُڑتے اور فضا میں بکھر کر دور دور چلے جاتے ہیں۔ شاید ان پرندوں نے صالح اور فرمانبردار آدمی کے جسم سے آنے والی خوشبو کو محسوس کرلیا تھا اور شرمندہ ہوگئے تھے کہ اس پاکیزہ جسد سے کوئی بوٹی نوچ کھائیں۔
پرندوں کا یہ غول حضرت خبیبؓ کے جسد کو چھوئے بغیر دور فضا میں جا چھپا اور مشرکین ظلم و شقاوت کا بدترین مظاہرہ کرنے کے بعد واپس مکہ میں اپنے حسد بھرے گھروں میں آگئے اور حضرت خبیبؓ کا جسدِشہید اس حال میں وہیں چھوڑ آئے کہ نیزہ بازوں اور تلوارزنوں کی ایک جماعت اس کی نگرانی پر مامور تھی تاکہ مسلمان اس کو اتار کر لے نہ جائیں۔ جس وقت ان لوگوں نے حضرت خبیبؓ کو باندھ کر صلیب پر لٹکایا تھا تو حضرت خبیبؓ نے آسمان کی طرف رُخ کرکے گڑگڑا کر اپنے رب سے عرض کیا تھا:
اے اللہ! ہم نے تو تیرے رسولﷺ کا پیغام پہنچا دیا۔ اب تو بھی اپنے رسولؐ تک اس کی خبر پہنچا دے جو ہمارے ساتھ ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی دعا قبول فرمائی۔ رسولؐ اللہ مدینہ میں تشریف فرما تھے کہ آپؐ کے اندر یہ شدید احساس پیدا ہوا کہ آپؐکے صحابہ مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ آپؐ کو ان میں سے ایک صحابی کا جسد سُولی پر لٹکا ہوا بھی دکھایا گیا۔ آپؐ نے فوراً حضرت مقدادؓ بن عمرو اور زبیرؓ بن عوام کو بلایا اور ان آدمیوں کی خبر کے لیے روانہ کردیا۔ دونوں جوانمرد اپنے گھوڑوں پر سوار ہوئے اور نہایت تیزرفتاری سے چل پڑے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اس مطلوبہ جگہ پر پہنچا دیا اور انھوں نے اپنے ساتھی حضرت خبیبؓ کو صلیب سے نیچے اتار لیا۔ آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ حضرت خبیبؓ کی قبر کہاں ہے۔ شاید یہی ان کے زیادہ شایانِ شان تھا کہ وہ تاریخ کے تذکرے اور زندگی کے ضمیر میں باقی رہیں تو انھیں ’’تختۂ دار پر موجود جوانمرد‘‘ کے طور پر ہی یاد کیا جائے۔
نوٹ: ستمبر 2011 اردو ڈائجسٹ سے لیا گیا۔