حضرت دل یہ عشق ہے درد سے کسمسائے کیوں ٭ بیخود دہلوی

حضرت دل یہ عشق ہے درد سے کسمسائے کیوں
موت ابھی سے آئے کیوں جان ابھی سے جائے کیوں

عشق کا رتبہ ہے بڑا عشق خدا سے جا ملا
آپ نے کیا سمجھ لیا آپ یہ مسکرائے کیوں

میرا غلط گلہ سہی ظلم و جفا روا سہی
ناز ستم بجا سہی آنکھ کوئی چرائے کیوں

تجھ سے زیادہ نازنیں اس میں ہزاروں ہیں حسیں
دل ہے یہ آئینہ نہیں سامنے تیرے آئے کیوں

عاشق نامراد کو اس کی رضا پہ چھوڑ دو
اس کی اگر خوشی نہ ہو غم سے نجات پائے کیوں

حوصلۂ ستم بڑھے تیغ و سناں کا دم بڑھے
ایک ہی تیر ناز میں کیجیئے ہائے ہائے کیوں

غالبؔ خوش بیاں کہاں بیخودؔ خستہ جاں کہاں
طبع کا امتحاں کہاں شاد مجھے ستائے کیوں
بیخود دہلوی​
 

طارق شاہ

محفلین
حضرتِ دِل! یہ عِشق ہے، درد سے کسمسائے کیوں
موت ابھی سے آئے کیوں، جان ابھی سے جائے کیوں

عِشق کا رُتبہ ہے بڑا عِشق خُدا سے جا مِلا
آپ نے کیا سمجھ لِیا، آپ یہ مُسکرائے کیوں

میرا غلط گِلہ سہی، ظُلم و جَفا رَوا سہی
نازِ سِتم بجا سہی، آنکھ کوئی چُرائے کیوں

تجھ سے زیادہ نازنیں، اِس میں ہزاروں ہیں حَسِیں
دِل ہے یہ آئنہ نہیں، سامنے تیرے آئے کیوں

عاشِقِ نامُراد کو، اُس کی رَضا پہ چھوڑ دو !
اُس کی اگر خوشی نہ ہو، غم سے نجات پائے کیوں

حوصلۂ سِتم بڑھے، تیغ و سناں کا دَم بڑھے !
ایک ہی تیرِناز میں، کیجیئے ہائے ہائے کیوں

غالبِؔ خوش بیاں کہاں، بیخوؔدِ خستہ جاں کہاں
طبع کا اِمتحاں کہاں، شاد مجھے ستائے کیوں

بیخوؔد دہلوی
 
Top