عمران القادری
محفلین
محمد الیاس اعظمی
اٹھارویں صدی عیسوی کا سورج طلوع ہوا تو اس وقت ہندوستان کی سرزمین پر اسلامی سطوت اور مسلمانان ہند کی شان و شوکت کے آخری چراغ یعنی اورنگ زیب عالمگیر کے عہد حکومت کے آخری دن تھے۔ اورنگ زیب کے دور میں بھی اگرچہ برصغیر پاک و ہند میں مختلف صوبوں اور ریاستوں میں خود مختاری کے لئے بغاوت پر مبنی نعرے بلند ہوئے تھے لیکن عالمگیری حکمت عملی اور فراست دینی کی بناء پر وہ دم توڑ گئے اور یوں اسلام کا سبز ہلالی پرچم اٹھارویں صدی کی پہلی دہائی تک اپنی پوری شان و شوکت اور آن بان کے ساتھ لہراتا رہا۔ لیکن 1707ء - 1118ھ میں جونہی اس مرد قلندر نے آنکھیں بند کیں تو سلطنت ہند کے تاج شاہی کے لئے نااہل اور حکمت و بصیرت سے عاری مغل شہزادوں کے درمیان تخت نشینی کی ایک نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت شاہ صاحب نے اپنی زندگی میں کم از کم دس سلاطین کو پایہ تخت دہلی پر متمکن ہوتے دیکھا جن میں عالمگیر اعظم (اورنگزیب) بہادر شاہ اول، معزالدین جہاندار شاہ، فرخ سیر رفیع الدرجات، رفیع الدولہ، محمد شاہ، احمد شاہ، عالمگیر ثانی، شاہ عالم ثانی وغیرہ مغل سلاطین شامل تھے۔ ان میں آخر الذکر نابینا سلطان کے عہد میں شاہ صاحب کی وفات کے دو سال بعد کلائیو نے الہ آباد کے مقام پر بنگال اور بہار اور اڑیسہ کی دیوانی بادشاہ سے لے کر برطانیہ کی کمپنی بہادر کے سپرد کی۔
تاریخ ہند سے آگاہ ہر فرد جانتا ہے کہ مذکورہ بالاسلاطین کے دور میں برصغیر کو کن کن لرزہ خیز اور تباہ کن حالات سے گزرنا پڑا ہے۔ سید برادران کا تسلط اور ان کے ہاتھوں انتہائی بے بسی کی حالت میں قید خانہ میں ہی فرخ سیر کی وفات تورانی امرا کے ہاتھوں سادات بارہ کا زوال، مرہٹوں کی بغاوت اور ان کا عروج، سکھوں کی یورش، نادر شاہ کی دہلی میں یلغار اور قتل عام، احمد شاہ ابدالی کا معرکہ پانی پت جس میں حق کو باطل پر غلبہ حاصل ہوا، سیاست ہند میں روہیلوں کی شرکت اور مسابقت، دربار شاہی میں ایرانی و تورانی امراء کی رقیبانہ چپقلش، ہندوستانی سیاست و تجارت اور تمدن پر یورپین اقوام کا شب خون مارنا بنگال اور بہار میں انگریزوں کا عمل دخل اور اس قسم کے دیگر واقعات و انقلابات نے شاہ صاحب جیسے مدبر اور مفکر انسان پر گہرے اثرات مرتب کئے تھے۔
یہی وہ سیاسی ابتری تھی جس نے پورے ہندوستان کا امن و امان خاکستر کرکے رکھ دیا تھا ان حالات میں جب ملک کی سیاسی و اقتصادی حالت تباہ ہوچکی تھی اور موجودہ دور میں پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان تین ملکوں پر مبنی برصغیر کے پایہ تخت دہلی کے بلا شرکت غیرے واحد مطلق العنان مغلیہ حکمران شہزادے نان شبینہ کو ہی نہیں ترستے تھے بلکہ ان کی بیگمات شاہی خیرات خانہ کے شوربے پر گزارہ کرنے لگیں بلکہ قلاشی و غربت کی حالت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ فوجی اور ذاتی محافظوں کی تنخواہوں کے لئے شاہی محل کے سازو سامان کی فہرست بناکر دہلی کے بازاروں میں دوکانداروں کو دے دی گئی تھی کہ وہ انہیں فروخت کرکے فوج اورمحافظوں کو تنخواہیں دے دیں۔ جب حکمران خاندان کی معاشی صورت حال یہ ہو تو پھر عام مسلمانوں کی بھوک اور ننگ کا عالم کیا ہوگا؟ صادق المصدوق اور نبی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا ہے کہ ’’کاد الفقران یکون کفرا‘‘ قریب ہے کہ غربت کفر تک لے جائے۔
اجتہاد کی ضرورت پر حضرت شاہ صاحب کے ان افکار پر مبنی اقتباسات کو پڑھ کر بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ آپ غیر مقلد تھے اور یہ کہ کسی ایک امام کی تقلید نہیں کرتے تھے اس قسم کے خیالات کی حیثیت زعم باطل اور فریب نفس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہے اس سلسلہ میں آپ کے صرف ایک حوالہ پر اکتفا کیا جاتا ہے جس سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ آپ باوجود مجتہد ہونے کے امام اعظم سیدنا نعمان بن ثابت کے مذہب حنفی کے پیروکار تھے۔ آپ خوب فرماتے ہیں۔
’’مجھ پر یہ بات ظاہر ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اور حق کی یہ مرضی ہے کہ تجھ میں ان چیزوں کو جمع کردے جو کہ امت مرحومہ سے چھٹ گئی ہیں اس کے بعد ایک اور عقدہ کھلا جس سے فقہ حنفی یعنی امام اعظم اور صاحبین کے اقوال میں سے کسی کے قول کو اختیار کرنے اور ان کے عمومات کی تخصیص اور اس کے مقاصد پر وقوف اور لفظ حدیث کے معنی پر اکتفا کرنے میں حدیث کی مطابقت اور کیفیت مجھ پر ظاہر ہوئی اور مجھ پر ان کے عمومات کی تخصیص اور ان کے مقاصد کا وقوف منکشف ہوا اور الفاظ سنت کے مفہوم پر اکتفا کرنا اور فقہ حنفی میں نہ تو تاویل بعید ہے اور نہ بعض احادیث کا بعض پر ضرب ہے اور نہ امت میں سے کسی کے قول کے ساتھ حدیث کو چھوڑتا ہے اس طریقہ کو اگر اللہ تعالیٰ پورا اور کامل کرے تو اکسیر اعظم ہے۔ (فیوض الحرمین 181۔182)
جب مسلم معاشرہ اپنے رخ روشن کو سیاہ کرچکا تھا تو ان آشوب اور اعصاب شکن حالات میں حضرت شاہ صاحب نے اپنی خداداد بصیرت سے برصغیر اور اس کے علاوہ پورے عالم اسلام میں روز بروز بڑھتی ہوئی بے چینی اور تہذیبی اقدار کی پامالی کے اسباب پر غورو فکر کیا۔ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کا از سر نو تجزیہ کیا اور یوں آپ نے ان حقیقی وجوہات اسباب اور علل کی تہہ تک پہنچ کر ملت اسلامیہ ہند کو بالخصوص اور پوری عالم اسلام کو بالعموم زوال و انحطاط کے ان حالات سے نجات دلانے کا عملی منصوبہ تیار کیا۔
حضرت شاہ صاحب نے عمیق مطالعہ اور گہری سوچ بچار کے بعد ملی اصلاح اور قومی بقا کا جو نسخہ تجویز کیا اس کا درج ذیل پہلوؤں سے جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
علمی سطح پر جمود و تعطل کا دور دورہ
مسلمان عرصہ دراز سے قرآن و سنت کی تعلیمات سے عملاً انحراف کرچکے تھے جس کے باعث ان کی سوچ و فکر پر جمود طاری ہوچکا تھا اور اپنے آباؤ اجداد (ائمہ وغیرہ) کی علمی تحقیقات پر ہی قانع ہوبیٹھے تھے روز بروز بدلتے ہوئے تقاضا ہائے زندگی کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مزید تحقیق شجر ممنوعہ قرار پاچکی تھی۔ قرآن مجید پڑھنا اور سمجھنا صرف علماء ہی کا حق متصور ہوتا تھا چنانچہ حضرت شاہ صاحب نے انتہائی غوروفکر کے بعد مسلمانوں کو پھر سے قرآنی تعلیمات اور اس کی حکمت عملی کو اپنانے کی دعوت دی گویا کہ تحریک ولی اللہی ’’رجوع الی القرآن‘‘ کی تحریک اور دعوت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت شاہ صاحب قرآن و سنت کی روشنی میں نئے پیش آمدہ مسائل ہیں ائمہ فقہاء کے اصولوں کی روشنی میں اجتہاد کرکے شریعت اسلامیہ کی ابدی صداقتوں کو ظاہر کرنے کے نہ صرف موید ہیں بلکہ آپ نے اس باب میں وہ کام کیا کہ متقد میں سے بھی خال خال شخصیات کو یہ سعادت نصیب ہوئی ہے کہ انہوں نے اسرار و رموز دین کی حکمتوں کو ظاہر کیا۔ غرض یہ کہ فکر اسلامی پر ملوکیت کے دور میں چھا جانے والے جمود اور علمی تعطل پر ضرب کاری لگاتے ہوئے اجتہاد کی ضرورت پر زور دیا۔
ایک مقام پر اپنے ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں:
’’ایک روز میں عصر کے بعد متوجھا الی اللہ بیٹھا ہوا تھا۔ دفعتہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح مبارکہ نے ظہور فرمایا اور اس نے مجھ کو اوپر سے ایسے ڈھانپ لیا کہ گویا کسی نے مجھ پر کوئی کپڑا ڈال دیا ہو اسی حالت میں مجھ پر القا کیا گیا کہ یہ کسی امر دینی کے بیان کی طرف اشارہ ہے۔ اسی وقت میں نے اپنے سینے کے اندر ایک ایسا نور پایا جس میں وقتاً فوقتاً ہمیشہ وسعت اور کشادگی بڑھتی رہی پھر چند روز بعد الہام ہوا کہ اس صاف اور روشن امر کے لئے میرا آمادہ ہونا تقدیر الہٰی میں قرار پاچکا ہے اور مجھ کو یہی معلوم ہوا کہ اپنے پروردگار کے انوار سے تمام زمین منور ہوگئی۔ غروب کے وقت روشنی نے اپنا عکس زمین پر ڈالا ہے اور شریعت مصطفوی اس زمانہ میں بدیں وجہ کہ دلائل کے وسیع و مکمل لباس میں ظہور فرما ہونے کو ہے سراپا نور ہوگئی‘‘۔ (حجۃ اللہ البالغہ 1۔15)
شاہ صاحب کے نزدیک اجتہاد کی ضرورت اور جواز کا یہ مطلب نہیں کہ آئمہ متقدمین کی تقلید و پیروی کو ترک کردیا جائے بلکہ اس کے برعکس آپ اپنی متعدد کتب میں اس بات پر شدید زور دیتے ہیں کہ جو بھی اجتہاد کیا جائے اس میں آئمہ فقہا کے اصولوں کی پیروی کرنا ضروری ہے۔
شاہ صاحب کے نزدیک انسانوں کی اجتماعی و انفرادی زندگی کی اصلاح کے لئے اقتصادی توازن ایک ضروری امر ہے جس سے سب کی ضرورت زندگی کی کفالت ہوسکے۔ جب لوگوں کو اپنی اقتصادی ضرورتوں سے اطمینان اور فرصت نصیب ہوگی تو پھر اس کے بعد اپنے خالی وقت میں وہ دیگر امور حیات کی طرف متوجہ ہوں گے جو انسانیت کا اصلی جوہر ہے لیکن اگر لوگوں کی اقتصادی ضرورتیں ہی پوری نہیں ہوتیں اور انہیں نان شبانہ روز ہی میسر نہیں تو ان کی زندگی ٹھٹھر کر رہ جائے گی اور اسے انسانیت کے اعلیٰ ترین مقام کی ہوش ہی نہیں رہے گی۔ اقتصادی نظام کے درست اور متوازن ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس زندگی میں انسانی اجتماع کے اخلاق کی تکمیل ہوتی ہے اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ فلسفہ اسلام سے متصادم ہے۔ بقول کسے
پیٹ نہ پیاں روٹیاں سبھے گلاں کھوٹیاں
تصوف و تزکیہ نفس
چودھویں صدی کے عبقری مفکر اسلام حکیم الامت علامہ اقبال فرماتے ہیں۔
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی
حضرت شاہ ولی اللہ انتہائی غوروفکر اور سوچ بچار کے بعد امت مسلمہ کے مجموعی زوال کے جن اسباب پر پہنچے تھے ان میں سے ایک سبب تہذیب ہندی اور ہوس نفسی کا شکار ہونا بھی تھا چنانچہ اس اجتماعی ملی بیماری کا علاج آپ صرف اور صرف تصوف میں پنہاں دیکھتے تھے۔ آپ کے خیال میں علم کشف یا علم الاخلاق کے بغیر حیات انسانی کے اصلی جوہر کی اصلاح ممکن نہیں یہی وجہ ہے کہ آپ نے علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد علوم باطنی کی تحصیل پر پوری توجہ دی۔
عالم اسلام بالخصوص برصغیر کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ اسلامی تاریخ میں تجدید و احیائے دین کی کوئی بھی تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتی جب تک اس تحریک کے محرکین تصوف و روحانیت کے ساتھ ایک گونہ تعلق نہ رکھتے ہوں۔ چنانچہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جہاں ائمہ فقہاء اور محدثین دین کی ظاہری حیثیت یعنی مصلحت عامہ کا تحفظ کرتے رہے ہیں وہاں صوفیہ کرام اور اہل صفا دین کی باطنی حیثیت کا تحفظ بھی کرتے ہیں شاہ صاحب کے الفاظ میں۔ ’’دین کے محافظین کا دوسرا گروہ وہ ہے جس سے خدا تعالیٰ نے باطن دین کی حفاظت جس کا دوسرا نام احسان ہے انہیں استعداد عطا فرمائی۔ ہر زمانے میں اس گروہ کے بزرگ عوام الناس کے مرجع رہے ہیں۔ طاعت و نیکو کاری کے اعمال سے باطن نفس میں جو اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور دلوں کو جو ان سے لذت ملتی ہے یہ بزرگ لوگوں کو ان امور کی دعوت دیتے ہیں نیز یہ انہیں نیک اخلاق اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ عام طور پر یہ ہوتا آیا ہے کہ ہر زمانے میں اولیاء اللہ میں سے کوئی نہ کوئی ایسا بزرگ ضرور پیدا رہتا ہے جس کو عنایت الہٰی سے اس امر کی استعداد ملتی ہے کہ وہ باطن دین کے قیام اور اس کی اشاعت کی کوشش کرے‘‘۔ (لمعات، 45)
شاہ صاحب کے مذکورہ الصدر حوالہ سے عصر حاضر کے ان نام نہاد مفکرین کے نظریہ اور فکر کی از خود تردید ہوجاتی ہے جو بزعم خویش تجدید و احیائے دین کا کام کرنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور تصوف کو ’’افیون کی گولی‘‘ قرار دینے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ شاہ صاحب کے نزدیک اصلاح احوال اور تجدید دین کے لئے تزکیہ نفس، تصفیہ باطن جس کو علمی زبان میں علم تصوف یا علم الاحسان کا نام دیا جاتا ہے کس قدر اہمیت کا حامل تھا اس کا اندازہ آپ کی ان کتب کے مطالعہ سے کیا جاسکتا ہے جو آپ نے اس موضوع پر لکھی ہیں مثلاً لمعات، سطعات، انفاس العارفین، فیوض الحرمین، القول الجمیل، حجۃ اللہ البالغہ اور البدور البازغہ وغیرہ۔
جہاد
فکر ولی اللہ کا چوتھا ستون! اقامت دین اور بقائے ملی کے لئے جہاد کرکے اس سرزمین پر نافذ کفر اور باطن کے نظام کو جڑ سے اکھیڑ کر پھینک دینا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک مسلمانوں کی تلوار نیام سے باہر رہی اس وقت تک اسلام ایک زندہ اور متحرک قوت کے طور پر قائم رہا ہے اور جب سے مسلمان حکمرانوں کی عیاشیوں اور مفاد پرستیوں کے باعث اسلام کی شمشیر زنگ آلودہ ہوگئی ہے اس وقت سے وہ اپنے ہی بھائی کے خون سے رنگین ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ برصغیر میں اسلامی حکومت کے احیاء اور تجدید دین کا کام کرنے والے اہل حق علماء و مشائخ کا خون بہایا گیا۔ انہیں تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ رہے غریب اور عام مسلمان، ان کی کسمپرسی اور بے بسی! تو الفاظ سے باہر ہے ان حالات میں شاہ صاحب جیسی بالغ نظر مفکر شخصیت ہی سے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ آزمائش اور مشکل حالات کی اس گھڑی میں ملت اسلامیہ کی پریشان نظری کا کوئی دارو سوچے چنانچہ آپ عمیق مطالعے اور گہرے غوروفکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ مسلمانان عالم اور بالخصوص ہندی مسلمان کی بقا اور نجات کا واحد ذریعہ ایک ہمہ گیر انقلاب ہے چنانچہ آپ کے اس نظریہ خیال کی تائید حرم مکہ میں بارگاہ الہٰی سے ایک خواب کی صورت میں کی گئی۔ آپ نے 21 ذیقعد 1144ھ کی شب جمعہ میں حرم مکہ میں ایک خواب دیکھا جس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں۔
’’میں نے اپنے آپ کو خواب میں قائم الزمان دیکھا۔ میرا مقصود اس سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کا نظام خیر سے ارادہ کرتا ہے تو مجھے اپنی مراد کے پورا کرنے کے لئے آلہ (ذریعہ) کے طریقہ پر بنادیتا ہے اور میں نے دیکھا کہ کفار کا بادشاہ مسلمانوں پر غالب آگیا اور ان کے مالوں کو لوٹ لیا اور ان کی اولاد کو غلام بنا لیا اور شہر اجمیر میں کفر کی باتوں کو رائج کردیا اور شعائر اسلام کو مٹا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ رب العالمین زمین والوں پر بہت شدید ناراض ہوا اور میں نے اس غضب کی صورت ملاء اعلیٰ میں متمثل دیکھی تو پھر یہ غضب میری جانب مترشح ہوا تو میں بسبب اس درگاہ سے ڈرائے جانے کے غضبناک ہوا اس بنا پر نہیں کہ وہ اس عالم کی جانب رجوع کررہا ہے اور میں اس وقت لوگوں کے جم غفیر میں ہوں ان میں سے روم، ازبک اور ان ہی میں سے عرب ہیں۔ بعض ان میں اونٹوں پر سوار ہیں اور بعض ان میں سے گھوڑوں پر سوار ہیں اور بعض ان میں سے پیادہ سبقت کررہے ہیں۔ اور میں نے جو دیکھا تو یہ میدان عرفات میں حاجیوں کے بہت مشابہ محسوس ہوئے اور میں نے دیکھا کہ وہ سب میرے غضب ناک ہونے کی بناء پر غضبناک ہیں اور مجھ سے دریافت کررہے ہیں کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کا کیا حکم ہے؟ تو میں نے کہا کہ ہر نظام (باطل) کو پاش پاش کردینے کا (حکم ہے) انہوں نے عرض کیا۔ کب تک تو میں نے جواب دیا کہ جب تک میرے غصہ کو ٹھنڈا نہ دیکھ لو تو پھر وہ آپس میں قتال کرنے لگے اور اپنے اونٹوں کے چہروں کو مارنے لگے ان میں سے بہت سے قتل ہوئے اور بہت اونٹوں کے سر پھوٹے اور زخمی ہوئے پھر میں ایک شہر کی طرف بڑھا اسے ویران کرنے اور اس شہر والوں کو قتل کرنے کے لئے چنانچہ اس چیز میں بھی انہوں نے میری پیروی کی اور اس طرح ہم ایک شہر کے بعد دوسرے شہر کو خراب کرتے رہے یہاں تک کہ اجمیر پہنچ گئے اور ہم نے وہاں پہنچ کر کفار کا قتال کیا اور کفار سے ہم نے اس شہر کو چھڑایا اور کفار کے بادشاہ کو قید کیا پھر میں نے دیکھا کہ کافروں کا بادشاہ مسلمانوں کے بادشاہ کے ساتھ ان کی جماعت میں جارہا ہے تو اسی اثناء میں مسلمانوں کے بادشاہ نے اس کے ذبح کردینے کا حکم دیا تو لوگوں نے اسے پکڑ لیا اور اس کو گرادیا پھر چھری سے ذبح کر ڈالا سو جس وقت میں نے خون کو دیکھا کہ اس کی رگوں سے فوارہ کی طرح نکل رہا ہے تو میں نے کہا کہ اس وقت رحمت نازل ہوئی ہے۔ رحمت اور سکینت کو دیکھا کہ مسلمانوں میں سے انہیں شامل ہوئی کہ جنہوں نے قتال کیا یہ مسلمان رحمت کے مظہر ہوگئے تو پھر میری طرف ایک آدمی کھڑا ہوا اور مجھ سے ان مسلمانوں کے بارے میں کہا جنہوں نے آپس میں قتال کیا تو میں نے جواب میں توقف کیا اور انہیں صاف نہ بتلایا۔ (فیوض الحرمین 266-270)
اس خواب کے دیکھنے کے بعد شاہ صاحب واپس وطن تشریف لائے تو ہندوستان کی سیاسی و سماجی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ دہلی کا امن و امان خاکستر ہوچکا تھا۔ رہی سہی کسر نادر شاہ کے حملوں نے نکال دی تھی مرہٹے، سکھ اور جاٹ علیحدہ یورش برپا کئے ہوئے تھے اندریں حالات جب شاہ صاحب یہ سمجھتے تھے کہ قتال وجہاد کے سوا کوئی اور راستہ ملی بقا کا باقی نہیں رہا تو آپ نے انتہائی سیاسی بصیرت سے کام لیتے ہوئے دو ایسی قوتوں کا انتخاب کیا جن کے ذریعہ ان تمام مفاسد کی اصلاح اور مفسدانہ عناصر کی سرکوبی ممکن تھی۔
نجیب الدولہ
احمد شاہ ابدالی
قصہ مختصر یہ کہ حضرت شاہ صاحب نے اسلامی معاشرے اور سلطنت مغلیہ کے زوال و انحطاط کے اسباب الگ الگ متعین کئے مسلم معاشرے اور تہذیب و تمدن کے زوال کا سبب ان کے نزدیک مذہبی شعار سے بے اعتنائی اور علوم دینیہ سے روگردانی تھا جبکہ سلطنت کے زوال کا سب سے بڑا سبب اقتصادی بدحالی تھا جس کے باعث پورے ہند میں سیاسی انتشار اور بدنظمی پیدا ہوئی اس لئے کہ بقول شاہ صاحب ’’جس معاشرے میں اقتصادی توازن نہ ہو اس میں طرح طرح کے روگ پیدا ہوجاتے ہیں۔ وہاں نہ عدل و انصاف پیدا ہوسکتا ہے اور نہ مذہب ہی اپنا اچھا اثر ڈال سکتا ہے‘‘ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے تجدید و احیائے دین کی انقلابی تحریک کا آغاز کرتے ہوئے التفہیمات میں تمام طبقات زندگی کو الگ الگ مخاطب کرکے اس میں سرایت کرجانے والے نقائص کا بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ شاہ صاحب چونکہ ’’حکیم الامت‘‘ اور ’’مصلح و مجدد‘‘ کے مقام علیا پر فائز تھے اس لئے اسباب زوال کی تشخص کے بعد ان کا علاج بھی تجویز کیا۔ ولی اللہی نسخہ کے اہم اجزا درج ذیل ہیں۔
رجوع الی القرآن (علوم دینیہ کی طرف مراجعت)
تزکیہ نفس تطہیر باطن (تصوف)
متوازن اقتصادی نظام
اعلائے کلمۃ الحق کے لئے قتال فی سبیل اللہ (جہاد)
اٹھارویں صدی ہجری میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (متوفی 1171ھ۔ 1163ء) نے جس علمی و فکری اور انقلابی تحریک کی بنیاد رکھی تھی اس کے اثرات ماضی قریب کے زمانے تک قائم رہے۔ آپ کے وصال کے بعد اس انقلابی تحریک کو آپ کے صاحبزادے حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (متوفی 1239ھ) اور آپ کے دیگر خلفاء اور خاندان کے بعض لوگوں نے جاری رکھا۔ ہمیں یہ بات کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ یہ آپ کی فکری تحریک کے ہی اثرات تھے کہ 1947ء میں پاکستان دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کی حیثیت سے خطہ ارضی پر رونما ہوا جب کہ برطانوی سامراج پورے برصغیر کو اپنے دست تظلم سے دبائے ہوئے تھا۔
تحریک منہاج القرآن کے مقاصد
سیاسی بے یقینی، اقتصادی ناہمواری، مذہبی و اخلاقی بے راہ روی کے اس ماحول میں ملت اسلامیہ کے عروق مردہ میں پھر سے زندگی کی لہر دوڑانے کے لئے قدرت نے اپنے ایک بندہ خاص پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں بھیجا ہے جس کو اگر قائم الزمان کہا جائے تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ جنہوں نے تحریک منہاج القرآن کی شکل میں تجدید و احیائے دین کی انقلابی تحریک کا آغاز کیا ہے۔ جس کا مقصد خود ان کے الفاظ میں یہ ہے:
’’جب تک امت مسلمہ کی تاریخ میں جزوی بگاڑ ہوتے تھے اس وقت تو جزوی نوعیت کے کام ان بگاڑوں کا ازالہ کرسکتے تھے۔ اسلام کی ابتدائی بارہ صدیوں میں ایسا بہت کم ہوا کہ اسلامی معاشرے کے تمام گوشے بیک وقت کسی بگاڑ کی زد میں آگئے ہوں جو طبقہ بگاڑ کی زد میں آجاتا تھا اس کے خلاف اصلاح کی ایک لہر ابھرتی تھی اور اس طرح مجموعی طور پر اسلامی معاشرہ صحیح خطوط پر چلتا رہا۔ جب تک بگاڑ جزوی تھے ان کی اصلاح کے لئے جزوی اور ہنگامی تحریکیں تشکیل پذیر ہوتی رہیں مگر گزشتہ اڑھائی صدیوں سے مسلمانوں کا بگاڑ جزوی نہیں، سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی اقدار میں جو زوال آیا اس نے اخلاقی، روحانی، مذہبی، فکری، تعلیمی اور دیگر ہر طرح کی اقدار کو ملیا میٹ کردیا اب دو صدیوں سے پیدا ہونے والا بگاڑ جزوی نہیں رہا یہ کلی بگاڑ ہے ایسے بگاڑ کا ازالہ کلی اور ہمہ گیر انقلابی تحریک سے ہی ممکن ہے۔ جزوی اصلاحی کاموں کی برکتوں سے بیمار اسلامی معاشرے کو چلایا تو جاسکتا ہے مگر اسے از سر نو توانا اور صحت مند نہیں بنایا جاسکتا۔ میرے دل میں یہ آرزو اور تڑپ پیدا ہوئی کہ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے لئے ایک ہمہ جہتی پروگرام ترتیب دیا جائے۔
ادارہ منہاج القرآن کا قیام وقت کی اس اہم ترین ضرورت کے پیش نظر عمل میں لایا گیا ہے۔ عالمگیر سطح پر غلبہ دین حق کی بحالی اور ملت اسلامیہ کے احیاء و اتحاد کے لئے عالمگیر اسلامی انقلاب کایہی وہ تصور ہے جس کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث پاک بیان کرتے ہیں۔
’’کوئی شخص اس وقت تک دین کو زندہ نہ کرسکے گا جب تک کہ وہ اس کے تمام اطراف و جوانب کو (بیک وقت) اپنی جدوجہد کے احاطے میں نہ لے لے‘‘۔
چنانچہ ادارہ منہاج القرآن کے قیام کا مقصد وحید قومی و ملی سطح پر ایک ایسا ہمہ گیر اور ہمہ جہت انقلاب بپا کرنا ہے جو بیک وقت علمی و فکری جمود کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی و روحانی زندگی کی روبہ زوال قدروں کو پھر سے بحال کردے، امت مسلمہ کی سیاسی و اقتصادی اور سماجی و معاشرتی زندگی میں موجودہ تمام موانعات کا تدارک کرکے ملت اسلامیہ کو اقوام عالم کی صف میں باعزت مقام دلادے۔ مزید برآں امت مسلمہ کے منتشر وسائل اور متفرق طبقات کو عالمی سطح پر ایک موثر وحدت میں اس طرح منسلک کردے کہ پورا عالم اسلام کامن ویلتھ کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ایک عظیم قوت بن کر ابھر سکے۔ یہی ادارہ منہاج القرآن کی منزل ہے اور یہی اس کے قیام کا مقصد‘‘۔
(تحریک منہاج القرآن قائد انقلاب پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے انٹرویوز کی روشنی میں 131۔132)
اس طویل اقتباس سے ادارہ منہاج القرآن کے قیام کے مقاصد کے حوالے سے جو افکار و نظریات نمایاں و ممتاز نظر آتے ہیں ان میں روحانی واخلاقی اقدار کا احیاء، اسلامی نظام تعلیم کا فروغ اور امت مسلمہ کا عالمگیر اتحاد جیسے اہم افکار شامل ہیں۔
مسلمان معاشرے کے ہمہ گیر زوال کے اسباب پر اگر غور کیا جائے تو دو اسباب ایسے ہیں جن کو ہم باقی جملہ اسباب کی بنیاد قرار دے سکتے ہیں ان میں سے ایک اخلاقی و روحانی اور مذہبی بیگانگی ہے جبکہ دوسرا علمی زندگی میں جمود اور تعطل کا واقع ہونا ہے۔ انہی دو اسباب کی وجہ سے ملی اتحاد کا شیرازہ منتشر ہوا اور انہیں کے سبب اقتصادی ناہمواری اور سیاسی خلفشار پیدا ہوا۔ ہمارے اس موقف کی تائید مفکر اسلام قائد انقلاب کے ایک اقتباس سے بھی ہوتی ہے فرماتے ہیں:
’’اس قسم کا ذہنی التباس قوم کو پراگندہ خیالی، فکری انتشار اور تشتت و افتراق کی نظر کردیتا ہے۔ قوم خود اعتمادی اور عزت نفس کے جوہر سے محروم ہوکر نظریاتی دریوزہ گری کرنے لگتی ہے یہ دور کچھ عرصہ کے بعد مذہبی، قومی اور ملی نظام حیات سے تمرد و انحراف پیدا کردیتا ہے اور پھر پوری قوم اغیار سے افکار و نظریات کی بھیک مانگتی نظر آتی ہے۔ یہ افکار و نظریات کی بھیک ذہنی غلامی سے شروع ہوکر مادی و سیاسی احتیاج پر منتج ہوتی ہے۔ اس طرح قومیں غلامی اور محکومی کی ڈگر پر چل کر آزادی کی نعمت سے محروم ہوجاتی ہیں۔ اس ساری خرابی کی علت دراصل قوموں کا اپنے بنیادی عقائد و نظریات اور ان کی حقانیت اور افادیت سے صحیح طور پر واقف نہ ہونا ہے‘‘۔
(نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایمان افروز اصطلاح اور انقلاب آفریں پیغام)
ملت کے اس زوال و انحطاط کے مرض کی تشخیص کرنے کے بعد قائد انقلاب اس کا علاج یہ تجویز کرتے ہیں۔
’’آج کا نوجوان طبقہ علمی، فکری، سائنسی اور فلسفیانہ سطح پر اسلام کی حقانیت کے حوالے سے مطمئن نہیں ہے۔ فکر، عمل کے لئے مہمیز ہوتی ہے جب تک فکر، اسلام سے منحرف ہے تو عمل کا بجبر نفاذ تو ممکن ہے لیکن دل کی گہرائیوں سے اسلام کے عملی نظام کو قبول کرکے اس پر عمل پیرا ہونا آج کے نوجوان کے لئے انتہائی مشکل ہے اور جب دین کے نام لیواؤں کا کردار تضادات کا شکار ہو تو نوجوانوں کے لئے اسلام پر عمل پیرا ہونا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے کیونکہ اہل دین کا کردار انہیں دین سے بھی نفرت دلادیتا ہے۔
جب اسلامی اقدار کا روحانی سہارا آج کے نوجوان کے قلب ذہن اور روح کو میسر نہ آسکا اور مادی دور کی نام نہاد فکر، فلسفیانہ اور ثقافتی یلغار نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا تو آج کے نوجوان کی شخصیت درد و کرب اور بے چینی کا سمندر بن کر رہ گئی۔
منہاج القرآن نے اس فساد کی تشخیص کے بعد جو علاج تجویز کیا ہے وہ یہ ہے کہ آج کے نوجوان کو تین پہلوؤں سے اسلام کی حقانیت کا یقین دلانا ضروری ہے اور ان تین پہلوؤں سے اسلام کی نمائندگی بالخصوص نوجوانوں کی سطح پر اور بالعموم عامۃ الناس کی سطح پر وقت کی پکار ہے۔
اسلام کی فکری، فلسفیانہ، سائنسی اور علمی حقانیت کا یقین دلانا۔
اسلام کے عملی نظام کی علمیت (Practicability) اور برکتوں کا شعور دلانا۔
اسلام کے روحانی نظام کی برکتوں اور تعمیر شخصیت میں اس کے کردار کو آشکار کرنا۔
گویا منہاج القرآن بیک وقت نوجوانوں اور عام لوگوں کے دماغ، مشاہدہ و عمل اور دل کے اندر اسلامیت کو پوری طرح اتار دینا چاہتا ہے‘‘۔
(ہمارا دینی زوال اور اس کے تدارک کا سہ جہتی منہاج: 4، 5)
رجوع الی القرآن
موجودہ دور میں تحریک منہاج القرآن کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے ملی زوال کے اسباب کی تشخیص کے بعد اس کا جو سب سے پہلا علاج تجویز کیا ہے وہ رجوع الی القرآن ہے۔ ہماری ملی تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ ہم نے علم کے اصل سرچشمہ اور منبع قرآن کو چھوڑ کر فکر و فلسفہ اور رائے کو ہی عقل کل قرار دے دیا ہے یہی اسی بات کا نتیجہ ہے کہ آج امت مسلمہ کی علمی، فکری، نظریاتی، سیاسی، معاشرتی، معاشی، تعلیمی، تہذیب و ثقافتی بنیادیں کمزور ہی نہیں بلکہ کھوکھلی ہوچکی ہیں جس کے باعث ہماری علمی زندگی پر جمود اور تعطل چھاگیا ہے اور یوں مسلمان موجودہ علمی دور میں پیچھے رہ گئے۔ چنانچہ آپ اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’حقیقت جہاد‘‘ میں امت مسلمہ کو رجوع الی القرآن کی دعوت دیتے ہوئے اسے یوں مخاطب کرتے ہیں۔
’’شومئی قسمت کہ ہم نے نام نہاد دینداری اور جھوٹے بھرم کے پیمانے وضع کررکھے ہیں۔ ہم قرآن سے روشنی لینے کی بجائے ایسے طور طریقے اختیار کئے ہوئے ہیں جو قرآن کے بتائے ہوئے طریقوں کے منافی ہیں ہمارے غم اور خوشی کے تہوار، باہمی میل ملاپ کے انداز اور رسم و رواج خلاف اسلام ہیں۔ ہم نے قرآنی علم کا جھنڈا ہاتھ میں اٹھانے کی بجائے زندگی کے تمام معاملات کو اپنی خواہشات اور ہوا و ہوس کے سانچے میں ڈھال رکھا ہے۔ یہ امر انتہائی ضروری اور لابدی ہے کہ ہم اپنے شب و روز کے معمولات قرآنی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں۔ حکیم الامت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس بارے میں کیا خوب کہا ہے۔
قرآن پیش خود آئینہ آویز دگر گوں گشتہ از خویش گریز
(اپنے سامنے قرآن کا آئینہ رکھ اور اپنے خدوخال کو سنوار لے جو بگڑ چکے ہیں)
ہمیں چاہئے کہ اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہیں اور اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے ان احوال روزو شب کو بدل ڈالیں جو قرآنی تعلیمات کو ترک کرنے کے نتیجے میں دگر گوں ہوچکے ہیں۔ اپنی زندگی کو انقلاب آشنا کرنے کے لئے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے معمولات و احوال حیات کو قرآن و سنت کے احکام اور شریعت مطہرہ کے اوامر و نواہی کے سانچے میں ڈھال لیں تاکہ ہماری زندگی صدق و اخلاص کا نمونہ بن سکے اور ہمیں قول و فعل کے تضاد اور منافقت سے چھٹکارا مل جائے‘‘۔ (حقیقت جہاد 52، 53)
اخلاقی و روحانی اقدار کی بحالی
تصوف اخلاقی و روحانی اقدار کی اصلاح میں اہم کردار ادا کرتا ہے اسی کو علم الاحسان اور علم الاخلاق کا نام دیا جاتا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرنا اشد ضروری ہے کہ غلبہ اسلام، احیائے دین اور اتحاد امت کی کوئی بھی تحریک اس وقت تک کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتی جب تک اس کے خمیر میں تصوف کی تعلیمات شامل نہ ہوں اور وہ اپنے پروگرام میں تطہیر باطن اور تزکیہ نفس کا کوئی سامان نہ رکھتی ہو۔
تحریک منہاج القرآن کو اپنی ہم عصر دیگر تحریکات میں یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ اس کی روشن ضمیر اور فکر رسا کی حامل قیادت ملت اسلامیہ کو موجودہ زوال و انحطاط اور ذلت و نکبت سے نکالنے کے لئے نہ صرف خود صوفیانہ مزاج رکھتی ہے بلکہ وہ غلبہ اسلام اور احیائے دین کے لئے اس کو معاشرے کے ہر فرد کی ضرورت سمجھتی ہے۔ چنانچہ قائد تحریک فرماتے ہیں:
’’اسلامی معاشرے کا ہر فرد انفرادی طور پر تصوف کا محتاج ہے۔ یہ امر مسلم ہے کہ اسلامی معاشرے کا وجود و بقا ایسے افراد پر منحصر ہے جو اخلاقی جدوجہد کرنے والے اور روحانی الذہن ہوں۔ ایسے مطلوبہ افراد صرف اسی صورت میں میسر آسکتے ہیں اگر انسانی شعور، انحراف کے تمام میلانات سے پاک ومنزہ ہو۔ جب تک نفس انسانی کا تزکیہ نہ ہو انحراف شعور اور اختلال سیرت کے رفع ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ غیر مزکی نفس، انسان کو ہمیشہ بداعمالیوں پر اکساتا ہے‘‘۔
قائد انقلاب ایک نظریئے کی حد تک ہی تصوف کے قائل نہیں بلکہ وہ اس کی اہمیت کے پیش نظر دروس تصوف کا معمول جاری رکھتے ہیں اور وابستگان تحریک کو تصوف کی عملی تعلیم بھی ارشاد فرماتے ہیں اور اس رنگ کو مزید گہرا کرنے کے لئے شب بیداری کا معمول بھی تحریک منہاج القرآن کا ایک امتیازی پہلو ہے۔
اقتصادی اور سیاسی فکر
جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا ہے کہ غربت و افلاس بندے کو ایمان کے دائرے سے نکال کر کفر کی حد تک لے جاتی ہے اس لئے خلاق عالم نے اپنی حکمت و قدرت کے مطابق ہر مخلوق کی معاش کا بندوبست کیا ہے۔ لوگوں کو یہ باور کرانے کے لئے کہ ان کے پاس جو مال ہے وہ اس کے مالک نہیں بلکہ ’’امین‘‘ ہیں اس لئے ان کے مال میں معاشرے کے غریب، خستہ حال اور پسے ہوئے لوگوں کا حق ہے۔
وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِO
(ذاریات، 51 : 19)
’’ان کے مالوں میں سوالیوں، محرومین کا حق ہے‘‘۔
موجودہ قومی زندگی میں پائے جانے والے معاشی تعطل اور اقتصادی ناہمواری کی وجوہات و اسباب اور اس کے مقاصد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’قومی سطح پر معاشی زندگی کا بگاڑ استحصالی، خودغرضانہ اور مفاد پرستانہ طرز عمل کا نتیجہ ہے۔ انسانی عمل پر حرص و لالچ، بخل، اکتناز اور خود غرضی ومفاد پرستی اس حد تک غالب ہوتی ہے کہ اجتماعی مفاد کی خاطر ایثار و انفاق اور عام نفع بخشی و فیض رسانی کا وطیرہ مفقود ہوجاتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں ایک طرف ارتکازِ زر اور دوسری طرف معاشی تعطل پیدا ہوجاتا ہے۔ چنانچہ معاشرتی زندگی میں یہ غیر فطری حد تک اقتصادی تفاوت ہر سمت سے مجرمانہ اور معصیانہ طرز عمل کو جنم دیتا ہے۔ خود غرضی اور مفاد پرستی کے طرز عمل سے غیر عادلانہ معیشت وجود میں آتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں اخلاق رذیلہ، بزدلی و مایوسی، اجتماعی حاجتمندی، عزت نفس کے تصور سے محرومی بالآخر محکومی و غلامی جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس بگاڑ کی اصلاح یوں ممکن ہے کہ افراد معاشرے کے دل ودماغ سے خوف افلاس کو رفع کرکے معاشی تعطل اور غیر فطری اقتصادی تفاوت کے خاتمے کا ایسا موثر نظام وضع کیا جائے کہ ہر شخص کی تخلیقی جدوجہد بحال ہوسکے۔
یہ اصلاح اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سرمایہ دارانہ اور استحصالی تصور ملکیت کو اسلام کے انقلابی تصور ملکیت سے نہیں بدل دیا جاتا کیونکہ تمام مفاد پرست، دسیسہ کار اور اجارہ دار قوتیں اس معاشی انقلاب کے راستے میں مزاحم ہوں گی‘‘۔ (اسلامی فلسفہ زندگی، 355 - 356)
مختصر یہ کہ معاشرے کے اندر پیدا ہونے والے بگاڑ کی اصلاح میں اقتصادی و معاشی توازن ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتا ہے یہی وجہ ہے تجدید دین اور اصلاح احوال کا فریضہ سرانجام دینے والے تمام مفکرین نے اس کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اور قائد انقلاب کے باہمی اشتراک کا حسن اتفاق
اسے قدرت کی طرف سے حسن اتفاق کہا جائے یا اس کی مشیت قرار دیا جائے کہ اٹھارویں صدی میں قومی و ملی زوال کے ماحول میں انقلاب کا نعرہ بلند کرنے والے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش بھی فروری میں ہوئی اس کے بعد بیسویں صدی میں جب مسلمانان عالم پھر زوال اور مسکنت کے عمیق گڑھے میں گرنے لگے اور ان کی زندگی میں کلی اور ہمہ جہت زوال کے سائے گہرے ہونے لگے تو اس صدی میں بھی جس شخصیت نے پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں انقلاب مصطفوی کا نعرہ بلند کیا اس کی پیدائش بھی اس ماہ فروری میں ہوئی ہے۔ (تاریخ پیدائش 19 فروری 1951ء) اور پھر یہ بات بھی کہ دونوں کی انقلابی سوچ دو اڑھائی صدیوں کا فاصلہ ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی سوچ کا پرتو معلوم ہوتی ہے۔ جس طرح حضرت شاہ صاحب نے ’’فک کل نظام‘‘ کا انقلابی نعرہ لگایا تھا۔ قائد تحریک منہاج القرآن بھی موجودہ زوال و انحطاط سے مسلمانوں کی نجات کا واحد ذریعہ ایک ہمہ گیر مصطفوی انقلاب ہی میں مضمر قرار دیتے ہیں۔
’’مقام تاسف ہے کہ آج پورا عالم اسلام یہودیت، عیسائیت اور اشتراکیت کے ہاتھوں چار دانگ عالم میں ذلیل و خوار ہورہا ہے۔ اس کا بنیادی سبب من حیث القوم مسلمانوں کی بدکرداری اور سپاہیانہ زندگی سے بیزاری ہے۔ یاد رکھئے کہ مسلمان اس وقت تک صحیح معنوں میں مسلمان ہوہی نہیں سکتا جب تک اس کے شب و روز مجاہدانہ شان میں بسرنہ ہوتے ہوں۔ جہاد سے نا آشنا زندگی سب کچھ ہوسکتی ہے مگر اسلام کی زندگی نہیں ہوسکتی۔ اسلامی زندگی ہم سے اس بات کی متقاضی ہے کہ زندگی کو انقلاب کی طرز پر ڈھالا جائے اور مجاہدانہ رنگ ڈھنگ کی خوئے جانبازی پیدا کی جائے لیکن بدقسمتی سے آج کے نوجوان کی حالت علامہ اقبال کے اس شعر کا عکس ہے۔
تیرے صوفے ہیں افرنگی تیرے قالین ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
(حقیقت جہاد : 22)
فکر طاہر کا امتیازی پہلو
تجدید و احیائے دین کی تاریخ میں آج تک جتنے بھی مجددین و مفکرین ہوئے ہیں ان میں سے ایک ہر ایک مرد قلندر کی خدمات سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں ہر قسم کے حالات کا سامنا کرکے اس اہم دینی فریضہ کو سرانجام دیا اور یوں اللہ کے دین کو سربلند کیا۔ لیکن عصر حاضر میں جتنی بھی اصلاحی تحریکیں چل رہی ہیں ان سب کی قیادتوں میں اپنی فکر کے حوالے سے وہ خالصیت نظر نہیں آتی جوکہ آنی چاہئے چنانچہ اس بات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انہیں اپنی دعوت، تحریک اور پیغام کی کامیابی پر بھی کامل یقین نہیں ہوتا اور یوں وہ دنیا میں کامیابی یا ناکامی کے تصور سے بے نیاز ہوکر آگے بڑھتے جاتے ہیں لیکن ان کے مقابلہ میں تحریک منہاج القرآن اور فکر طاہر میں سورج کی مانند چمکتی خالصیت کے ساتھ فکری واضحیت اور اپنے مشن کی کامیابی کا غیر متزلزل یقین جو ہمیں یہاں نظر آتا ہے وہ ہم عصر کسی بھی اصلاحی تحریک کی قیادت میں نظر نہیں آتا۔ کامیابی کا یقین اور اتنا کامل یقین یہ وہ چیز ہے جو کسی بھی دوسری تحریک سے اس کو ممتاز کرتی ہے۔ امید واثق ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری حضرت شاہ ولی اللہ کے نقوش پا سے اکتساب شعور کرتے ہوئے مصطفوی انقلاب کی منزل کو جلد حاصل کرلیں گے۔
بشکریہ منہاج ڈاٹ آرگ
اٹھارویں صدی عیسوی کا سورج طلوع ہوا تو اس وقت ہندوستان کی سرزمین پر اسلامی سطوت اور مسلمانان ہند کی شان و شوکت کے آخری چراغ یعنی اورنگ زیب عالمگیر کے عہد حکومت کے آخری دن تھے۔ اورنگ زیب کے دور میں بھی اگرچہ برصغیر پاک و ہند میں مختلف صوبوں اور ریاستوں میں خود مختاری کے لئے بغاوت پر مبنی نعرے بلند ہوئے تھے لیکن عالمگیری حکمت عملی اور فراست دینی کی بناء پر وہ دم توڑ گئے اور یوں اسلام کا سبز ہلالی پرچم اٹھارویں صدی کی پہلی دہائی تک اپنی پوری شان و شوکت اور آن بان کے ساتھ لہراتا رہا۔ لیکن 1707ء - 1118ھ میں جونہی اس مرد قلندر نے آنکھیں بند کیں تو سلطنت ہند کے تاج شاہی کے لئے نااہل اور حکمت و بصیرت سے عاری مغل شہزادوں کے درمیان تخت نشینی کی ایک نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت شاہ صاحب نے اپنی زندگی میں کم از کم دس سلاطین کو پایہ تخت دہلی پر متمکن ہوتے دیکھا جن میں عالمگیر اعظم (اورنگزیب) بہادر شاہ اول، معزالدین جہاندار شاہ، فرخ سیر رفیع الدرجات، رفیع الدولہ، محمد شاہ، احمد شاہ، عالمگیر ثانی، شاہ عالم ثانی وغیرہ مغل سلاطین شامل تھے۔ ان میں آخر الذکر نابینا سلطان کے عہد میں شاہ صاحب کی وفات کے دو سال بعد کلائیو نے الہ آباد کے مقام پر بنگال اور بہار اور اڑیسہ کی دیوانی بادشاہ سے لے کر برطانیہ کی کمپنی بہادر کے سپرد کی۔
تاریخ ہند سے آگاہ ہر فرد جانتا ہے کہ مذکورہ بالاسلاطین کے دور میں برصغیر کو کن کن لرزہ خیز اور تباہ کن حالات سے گزرنا پڑا ہے۔ سید برادران کا تسلط اور ان کے ہاتھوں انتہائی بے بسی کی حالت میں قید خانہ میں ہی فرخ سیر کی وفات تورانی امرا کے ہاتھوں سادات بارہ کا زوال، مرہٹوں کی بغاوت اور ان کا عروج، سکھوں کی یورش، نادر شاہ کی دہلی میں یلغار اور قتل عام، احمد شاہ ابدالی کا معرکہ پانی پت جس میں حق کو باطل پر غلبہ حاصل ہوا، سیاست ہند میں روہیلوں کی شرکت اور مسابقت، دربار شاہی میں ایرانی و تورانی امراء کی رقیبانہ چپقلش، ہندوستانی سیاست و تجارت اور تمدن پر یورپین اقوام کا شب خون مارنا بنگال اور بہار میں انگریزوں کا عمل دخل اور اس قسم کے دیگر واقعات و انقلابات نے شاہ صاحب جیسے مدبر اور مفکر انسان پر گہرے اثرات مرتب کئے تھے۔
یہی وہ سیاسی ابتری تھی جس نے پورے ہندوستان کا امن و امان خاکستر کرکے رکھ دیا تھا ان حالات میں جب ملک کی سیاسی و اقتصادی حالت تباہ ہوچکی تھی اور موجودہ دور میں پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان تین ملکوں پر مبنی برصغیر کے پایہ تخت دہلی کے بلا شرکت غیرے واحد مطلق العنان مغلیہ حکمران شہزادے نان شبینہ کو ہی نہیں ترستے تھے بلکہ ان کی بیگمات شاہی خیرات خانہ کے شوربے پر گزارہ کرنے لگیں بلکہ قلاشی و غربت کی حالت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ فوجی اور ذاتی محافظوں کی تنخواہوں کے لئے شاہی محل کے سازو سامان کی فہرست بناکر دہلی کے بازاروں میں دوکانداروں کو دے دی گئی تھی کہ وہ انہیں فروخت کرکے فوج اورمحافظوں کو تنخواہیں دے دیں۔ جب حکمران خاندان کی معاشی صورت حال یہ ہو تو پھر عام مسلمانوں کی بھوک اور ننگ کا عالم کیا ہوگا؟ صادق المصدوق اور نبی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا ہے کہ ’’کاد الفقران یکون کفرا‘‘ قریب ہے کہ غربت کفر تک لے جائے۔
اجتہاد کی ضرورت پر حضرت شاہ صاحب کے ان افکار پر مبنی اقتباسات کو پڑھ کر بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ آپ غیر مقلد تھے اور یہ کہ کسی ایک امام کی تقلید نہیں کرتے تھے اس قسم کے خیالات کی حیثیت زعم باطل اور فریب نفس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہے اس سلسلہ میں آپ کے صرف ایک حوالہ پر اکتفا کیا جاتا ہے جس سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ آپ باوجود مجتہد ہونے کے امام اعظم سیدنا نعمان بن ثابت کے مذہب حنفی کے پیروکار تھے۔ آپ خوب فرماتے ہیں۔
’’مجھ پر یہ بات ظاہر ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اور حق کی یہ مرضی ہے کہ تجھ میں ان چیزوں کو جمع کردے جو کہ امت مرحومہ سے چھٹ گئی ہیں اس کے بعد ایک اور عقدہ کھلا جس سے فقہ حنفی یعنی امام اعظم اور صاحبین کے اقوال میں سے کسی کے قول کو اختیار کرنے اور ان کے عمومات کی تخصیص اور اس کے مقاصد پر وقوف اور لفظ حدیث کے معنی پر اکتفا کرنے میں حدیث کی مطابقت اور کیفیت مجھ پر ظاہر ہوئی اور مجھ پر ان کے عمومات کی تخصیص اور ان کے مقاصد کا وقوف منکشف ہوا اور الفاظ سنت کے مفہوم پر اکتفا کرنا اور فقہ حنفی میں نہ تو تاویل بعید ہے اور نہ بعض احادیث کا بعض پر ضرب ہے اور نہ امت میں سے کسی کے قول کے ساتھ حدیث کو چھوڑتا ہے اس طریقہ کو اگر اللہ تعالیٰ پورا اور کامل کرے تو اکسیر اعظم ہے۔ (فیوض الحرمین 181۔182)
جب مسلم معاشرہ اپنے رخ روشن کو سیاہ کرچکا تھا تو ان آشوب اور اعصاب شکن حالات میں حضرت شاہ صاحب نے اپنی خداداد بصیرت سے برصغیر اور اس کے علاوہ پورے عالم اسلام میں روز بروز بڑھتی ہوئی بے چینی اور تہذیبی اقدار کی پامالی کے اسباب پر غورو فکر کیا۔ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کا از سر نو تجزیہ کیا اور یوں آپ نے ان حقیقی وجوہات اسباب اور علل کی تہہ تک پہنچ کر ملت اسلامیہ ہند کو بالخصوص اور پوری عالم اسلام کو بالعموم زوال و انحطاط کے ان حالات سے نجات دلانے کا عملی منصوبہ تیار کیا۔
حضرت شاہ صاحب نے عمیق مطالعہ اور گہری سوچ بچار کے بعد ملی اصلاح اور قومی بقا کا جو نسخہ تجویز کیا اس کا درج ذیل پہلوؤں سے جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
علمی سطح پر جمود و تعطل کا دور دورہ
مسلمان عرصہ دراز سے قرآن و سنت کی تعلیمات سے عملاً انحراف کرچکے تھے جس کے باعث ان کی سوچ و فکر پر جمود طاری ہوچکا تھا اور اپنے آباؤ اجداد (ائمہ وغیرہ) کی علمی تحقیقات پر ہی قانع ہوبیٹھے تھے روز بروز بدلتے ہوئے تقاضا ہائے زندگی کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مزید تحقیق شجر ممنوعہ قرار پاچکی تھی۔ قرآن مجید پڑھنا اور سمجھنا صرف علماء ہی کا حق متصور ہوتا تھا چنانچہ حضرت شاہ صاحب نے انتہائی غوروفکر کے بعد مسلمانوں کو پھر سے قرآنی تعلیمات اور اس کی حکمت عملی کو اپنانے کی دعوت دی گویا کہ تحریک ولی اللہی ’’رجوع الی القرآن‘‘ کی تحریک اور دعوت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت شاہ صاحب قرآن و سنت کی روشنی میں نئے پیش آمدہ مسائل ہیں ائمہ فقہاء کے اصولوں کی روشنی میں اجتہاد کرکے شریعت اسلامیہ کی ابدی صداقتوں کو ظاہر کرنے کے نہ صرف موید ہیں بلکہ آپ نے اس باب میں وہ کام کیا کہ متقد میں سے بھی خال خال شخصیات کو یہ سعادت نصیب ہوئی ہے کہ انہوں نے اسرار و رموز دین کی حکمتوں کو ظاہر کیا۔ غرض یہ کہ فکر اسلامی پر ملوکیت کے دور میں چھا جانے والے جمود اور علمی تعطل پر ضرب کاری لگاتے ہوئے اجتہاد کی ضرورت پر زور دیا۔
ایک مقام پر اپنے ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں:
’’ایک روز میں عصر کے بعد متوجھا الی اللہ بیٹھا ہوا تھا۔ دفعتہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح مبارکہ نے ظہور فرمایا اور اس نے مجھ کو اوپر سے ایسے ڈھانپ لیا کہ گویا کسی نے مجھ پر کوئی کپڑا ڈال دیا ہو اسی حالت میں مجھ پر القا کیا گیا کہ یہ کسی امر دینی کے بیان کی طرف اشارہ ہے۔ اسی وقت میں نے اپنے سینے کے اندر ایک ایسا نور پایا جس میں وقتاً فوقتاً ہمیشہ وسعت اور کشادگی بڑھتی رہی پھر چند روز بعد الہام ہوا کہ اس صاف اور روشن امر کے لئے میرا آمادہ ہونا تقدیر الہٰی میں قرار پاچکا ہے اور مجھ کو یہی معلوم ہوا کہ اپنے پروردگار کے انوار سے تمام زمین منور ہوگئی۔ غروب کے وقت روشنی نے اپنا عکس زمین پر ڈالا ہے اور شریعت مصطفوی اس زمانہ میں بدیں وجہ کہ دلائل کے وسیع و مکمل لباس میں ظہور فرما ہونے کو ہے سراپا نور ہوگئی‘‘۔ (حجۃ اللہ البالغہ 1۔15)
شاہ صاحب کے نزدیک اجتہاد کی ضرورت اور جواز کا یہ مطلب نہیں کہ آئمہ متقدمین کی تقلید و پیروی کو ترک کردیا جائے بلکہ اس کے برعکس آپ اپنی متعدد کتب میں اس بات پر شدید زور دیتے ہیں کہ جو بھی اجتہاد کیا جائے اس میں آئمہ فقہا کے اصولوں کی پیروی کرنا ضروری ہے۔
شاہ صاحب کے نزدیک انسانوں کی اجتماعی و انفرادی زندگی کی اصلاح کے لئے اقتصادی توازن ایک ضروری امر ہے جس سے سب کی ضرورت زندگی کی کفالت ہوسکے۔ جب لوگوں کو اپنی اقتصادی ضرورتوں سے اطمینان اور فرصت نصیب ہوگی تو پھر اس کے بعد اپنے خالی وقت میں وہ دیگر امور حیات کی طرف متوجہ ہوں گے جو انسانیت کا اصلی جوہر ہے لیکن اگر لوگوں کی اقتصادی ضرورتیں ہی پوری نہیں ہوتیں اور انہیں نان شبانہ روز ہی میسر نہیں تو ان کی زندگی ٹھٹھر کر رہ جائے گی اور اسے انسانیت کے اعلیٰ ترین مقام کی ہوش ہی نہیں رہے گی۔ اقتصادی نظام کے درست اور متوازن ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس زندگی میں انسانی اجتماع کے اخلاق کی تکمیل ہوتی ہے اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ فلسفہ اسلام سے متصادم ہے۔ بقول کسے
پیٹ نہ پیاں روٹیاں سبھے گلاں کھوٹیاں
تصوف و تزکیہ نفس
چودھویں صدی کے عبقری مفکر اسلام حکیم الامت علامہ اقبال فرماتے ہیں۔
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی
حضرت شاہ ولی اللہ انتہائی غوروفکر اور سوچ بچار کے بعد امت مسلمہ کے مجموعی زوال کے جن اسباب پر پہنچے تھے ان میں سے ایک سبب تہذیب ہندی اور ہوس نفسی کا شکار ہونا بھی تھا چنانچہ اس اجتماعی ملی بیماری کا علاج آپ صرف اور صرف تصوف میں پنہاں دیکھتے تھے۔ آپ کے خیال میں علم کشف یا علم الاخلاق کے بغیر حیات انسانی کے اصلی جوہر کی اصلاح ممکن نہیں یہی وجہ ہے کہ آپ نے علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد علوم باطنی کی تحصیل پر پوری توجہ دی۔
عالم اسلام بالخصوص برصغیر کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ اسلامی تاریخ میں تجدید و احیائے دین کی کوئی بھی تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتی جب تک اس تحریک کے محرکین تصوف و روحانیت کے ساتھ ایک گونہ تعلق نہ رکھتے ہوں۔ چنانچہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جہاں ائمہ فقہاء اور محدثین دین کی ظاہری حیثیت یعنی مصلحت عامہ کا تحفظ کرتے رہے ہیں وہاں صوفیہ کرام اور اہل صفا دین کی باطنی حیثیت کا تحفظ بھی کرتے ہیں شاہ صاحب کے الفاظ میں۔ ’’دین کے محافظین کا دوسرا گروہ وہ ہے جس سے خدا تعالیٰ نے باطن دین کی حفاظت جس کا دوسرا نام احسان ہے انہیں استعداد عطا فرمائی۔ ہر زمانے میں اس گروہ کے بزرگ عوام الناس کے مرجع رہے ہیں۔ طاعت و نیکو کاری کے اعمال سے باطن نفس میں جو اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور دلوں کو جو ان سے لذت ملتی ہے یہ بزرگ لوگوں کو ان امور کی دعوت دیتے ہیں نیز یہ انہیں نیک اخلاق اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ عام طور پر یہ ہوتا آیا ہے کہ ہر زمانے میں اولیاء اللہ میں سے کوئی نہ کوئی ایسا بزرگ ضرور پیدا رہتا ہے جس کو عنایت الہٰی سے اس امر کی استعداد ملتی ہے کہ وہ باطن دین کے قیام اور اس کی اشاعت کی کوشش کرے‘‘۔ (لمعات، 45)
شاہ صاحب کے مذکورہ الصدر حوالہ سے عصر حاضر کے ان نام نہاد مفکرین کے نظریہ اور فکر کی از خود تردید ہوجاتی ہے جو بزعم خویش تجدید و احیائے دین کا کام کرنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور تصوف کو ’’افیون کی گولی‘‘ قرار دینے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ شاہ صاحب کے نزدیک اصلاح احوال اور تجدید دین کے لئے تزکیہ نفس، تصفیہ باطن جس کو علمی زبان میں علم تصوف یا علم الاحسان کا نام دیا جاتا ہے کس قدر اہمیت کا حامل تھا اس کا اندازہ آپ کی ان کتب کے مطالعہ سے کیا جاسکتا ہے جو آپ نے اس موضوع پر لکھی ہیں مثلاً لمعات، سطعات، انفاس العارفین، فیوض الحرمین، القول الجمیل، حجۃ اللہ البالغہ اور البدور البازغہ وغیرہ۔
جہاد
فکر ولی اللہ کا چوتھا ستون! اقامت دین اور بقائے ملی کے لئے جہاد کرکے اس سرزمین پر نافذ کفر اور باطن کے نظام کو جڑ سے اکھیڑ کر پھینک دینا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک مسلمانوں کی تلوار نیام سے باہر رہی اس وقت تک اسلام ایک زندہ اور متحرک قوت کے طور پر قائم رہا ہے اور جب سے مسلمان حکمرانوں کی عیاشیوں اور مفاد پرستیوں کے باعث اسلام کی شمشیر زنگ آلودہ ہوگئی ہے اس وقت سے وہ اپنے ہی بھائی کے خون سے رنگین ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ برصغیر میں اسلامی حکومت کے احیاء اور تجدید دین کا کام کرنے والے اہل حق علماء و مشائخ کا خون بہایا گیا۔ انہیں تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ رہے غریب اور عام مسلمان، ان کی کسمپرسی اور بے بسی! تو الفاظ سے باہر ہے ان حالات میں شاہ صاحب جیسی بالغ نظر مفکر شخصیت ہی سے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ آزمائش اور مشکل حالات کی اس گھڑی میں ملت اسلامیہ کی پریشان نظری کا کوئی دارو سوچے چنانچہ آپ عمیق مطالعے اور گہرے غوروفکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ مسلمانان عالم اور بالخصوص ہندی مسلمان کی بقا اور نجات کا واحد ذریعہ ایک ہمہ گیر انقلاب ہے چنانچہ آپ کے اس نظریہ خیال کی تائید حرم مکہ میں بارگاہ الہٰی سے ایک خواب کی صورت میں کی گئی۔ آپ نے 21 ذیقعد 1144ھ کی شب جمعہ میں حرم مکہ میں ایک خواب دیکھا جس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں۔
’’میں نے اپنے آپ کو خواب میں قائم الزمان دیکھا۔ میرا مقصود اس سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کا نظام خیر سے ارادہ کرتا ہے تو مجھے اپنی مراد کے پورا کرنے کے لئے آلہ (ذریعہ) کے طریقہ پر بنادیتا ہے اور میں نے دیکھا کہ کفار کا بادشاہ مسلمانوں پر غالب آگیا اور ان کے مالوں کو لوٹ لیا اور ان کی اولاد کو غلام بنا لیا اور شہر اجمیر میں کفر کی باتوں کو رائج کردیا اور شعائر اسلام کو مٹا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ رب العالمین زمین والوں پر بہت شدید ناراض ہوا اور میں نے اس غضب کی صورت ملاء اعلیٰ میں متمثل دیکھی تو پھر یہ غضب میری جانب مترشح ہوا تو میں بسبب اس درگاہ سے ڈرائے جانے کے غضبناک ہوا اس بنا پر نہیں کہ وہ اس عالم کی جانب رجوع کررہا ہے اور میں اس وقت لوگوں کے جم غفیر میں ہوں ان میں سے روم، ازبک اور ان ہی میں سے عرب ہیں۔ بعض ان میں اونٹوں پر سوار ہیں اور بعض ان میں سے گھوڑوں پر سوار ہیں اور بعض ان میں سے پیادہ سبقت کررہے ہیں۔ اور میں نے جو دیکھا تو یہ میدان عرفات میں حاجیوں کے بہت مشابہ محسوس ہوئے اور میں نے دیکھا کہ وہ سب میرے غضب ناک ہونے کی بناء پر غضبناک ہیں اور مجھ سے دریافت کررہے ہیں کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کا کیا حکم ہے؟ تو میں نے کہا کہ ہر نظام (باطل) کو پاش پاش کردینے کا (حکم ہے) انہوں نے عرض کیا۔ کب تک تو میں نے جواب دیا کہ جب تک میرے غصہ کو ٹھنڈا نہ دیکھ لو تو پھر وہ آپس میں قتال کرنے لگے اور اپنے اونٹوں کے چہروں کو مارنے لگے ان میں سے بہت سے قتل ہوئے اور بہت اونٹوں کے سر پھوٹے اور زخمی ہوئے پھر میں ایک شہر کی طرف بڑھا اسے ویران کرنے اور اس شہر والوں کو قتل کرنے کے لئے چنانچہ اس چیز میں بھی انہوں نے میری پیروی کی اور اس طرح ہم ایک شہر کے بعد دوسرے شہر کو خراب کرتے رہے یہاں تک کہ اجمیر پہنچ گئے اور ہم نے وہاں پہنچ کر کفار کا قتال کیا اور کفار سے ہم نے اس شہر کو چھڑایا اور کفار کے بادشاہ کو قید کیا پھر میں نے دیکھا کہ کافروں کا بادشاہ مسلمانوں کے بادشاہ کے ساتھ ان کی جماعت میں جارہا ہے تو اسی اثناء میں مسلمانوں کے بادشاہ نے اس کے ذبح کردینے کا حکم دیا تو لوگوں نے اسے پکڑ لیا اور اس کو گرادیا پھر چھری سے ذبح کر ڈالا سو جس وقت میں نے خون کو دیکھا کہ اس کی رگوں سے فوارہ کی طرح نکل رہا ہے تو میں نے کہا کہ اس وقت رحمت نازل ہوئی ہے۔ رحمت اور سکینت کو دیکھا کہ مسلمانوں میں سے انہیں شامل ہوئی کہ جنہوں نے قتال کیا یہ مسلمان رحمت کے مظہر ہوگئے تو پھر میری طرف ایک آدمی کھڑا ہوا اور مجھ سے ان مسلمانوں کے بارے میں کہا جنہوں نے آپس میں قتال کیا تو میں نے جواب میں توقف کیا اور انہیں صاف نہ بتلایا۔ (فیوض الحرمین 266-270)
اس خواب کے دیکھنے کے بعد شاہ صاحب واپس وطن تشریف لائے تو ہندوستان کی سیاسی و سماجی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ دہلی کا امن و امان خاکستر ہوچکا تھا۔ رہی سہی کسر نادر شاہ کے حملوں نے نکال دی تھی مرہٹے، سکھ اور جاٹ علیحدہ یورش برپا کئے ہوئے تھے اندریں حالات جب شاہ صاحب یہ سمجھتے تھے کہ قتال وجہاد کے سوا کوئی اور راستہ ملی بقا کا باقی نہیں رہا تو آپ نے انتہائی سیاسی بصیرت سے کام لیتے ہوئے دو ایسی قوتوں کا انتخاب کیا جن کے ذریعہ ان تمام مفاسد کی اصلاح اور مفسدانہ عناصر کی سرکوبی ممکن تھی۔
نجیب الدولہ
احمد شاہ ابدالی
قصہ مختصر یہ کہ حضرت شاہ صاحب نے اسلامی معاشرے اور سلطنت مغلیہ کے زوال و انحطاط کے اسباب الگ الگ متعین کئے مسلم معاشرے اور تہذیب و تمدن کے زوال کا سبب ان کے نزدیک مذہبی شعار سے بے اعتنائی اور علوم دینیہ سے روگردانی تھا جبکہ سلطنت کے زوال کا سب سے بڑا سبب اقتصادی بدحالی تھا جس کے باعث پورے ہند میں سیاسی انتشار اور بدنظمی پیدا ہوئی اس لئے کہ بقول شاہ صاحب ’’جس معاشرے میں اقتصادی توازن نہ ہو اس میں طرح طرح کے روگ پیدا ہوجاتے ہیں۔ وہاں نہ عدل و انصاف پیدا ہوسکتا ہے اور نہ مذہب ہی اپنا اچھا اثر ڈال سکتا ہے‘‘ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے تجدید و احیائے دین کی انقلابی تحریک کا آغاز کرتے ہوئے التفہیمات میں تمام طبقات زندگی کو الگ الگ مخاطب کرکے اس میں سرایت کرجانے والے نقائص کا بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ شاہ صاحب چونکہ ’’حکیم الامت‘‘ اور ’’مصلح و مجدد‘‘ کے مقام علیا پر فائز تھے اس لئے اسباب زوال کی تشخص کے بعد ان کا علاج بھی تجویز کیا۔ ولی اللہی نسخہ کے اہم اجزا درج ذیل ہیں۔
رجوع الی القرآن (علوم دینیہ کی طرف مراجعت)
تزکیہ نفس تطہیر باطن (تصوف)
متوازن اقتصادی نظام
اعلائے کلمۃ الحق کے لئے قتال فی سبیل اللہ (جہاد)
اٹھارویں صدی ہجری میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (متوفی 1171ھ۔ 1163ء) نے جس علمی و فکری اور انقلابی تحریک کی بنیاد رکھی تھی اس کے اثرات ماضی قریب کے زمانے تک قائم رہے۔ آپ کے وصال کے بعد اس انقلابی تحریک کو آپ کے صاحبزادے حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (متوفی 1239ھ) اور آپ کے دیگر خلفاء اور خاندان کے بعض لوگوں نے جاری رکھا۔ ہمیں یہ بات کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ یہ آپ کی فکری تحریک کے ہی اثرات تھے کہ 1947ء میں پاکستان دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کی حیثیت سے خطہ ارضی پر رونما ہوا جب کہ برطانوی سامراج پورے برصغیر کو اپنے دست تظلم سے دبائے ہوئے تھا۔
تحریک منہاج القرآن کے مقاصد
سیاسی بے یقینی، اقتصادی ناہمواری، مذہبی و اخلاقی بے راہ روی کے اس ماحول میں ملت اسلامیہ کے عروق مردہ میں پھر سے زندگی کی لہر دوڑانے کے لئے قدرت نے اپنے ایک بندہ خاص پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں بھیجا ہے جس کو اگر قائم الزمان کہا جائے تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ جنہوں نے تحریک منہاج القرآن کی شکل میں تجدید و احیائے دین کی انقلابی تحریک کا آغاز کیا ہے۔ جس کا مقصد خود ان کے الفاظ میں یہ ہے:
’’جب تک امت مسلمہ کی تاریخ میں جزوی بگاڑ ہوتے تھے اس وقت تو جزوی نوعیت کے کام ان بگاڑوں کا ازالہ کرسکتے تھے۔ اسلام کی ابتدائی بارہ صدیوں میں ایسا بہت کم ہوا کہ اسلامی معاشرے کے تمام گوشے بیک وقت کسی بگاڑ کی زد میں آگئے ہوں جو طبقہ بگاڑ کی زد میں آجاتا تھا اس کے خلاف اصلاح کی ایک لہر ابھرتی تھی اور اس طرح مجموعی طور پر اسلامی معاشرہ صحیح خطوط پر چلتا رہا۔ جب تک بگاڑ جزوی تھے ان کی اصلاح کے لئے جزوی اور ہنگامی تحریکیں تشکیل پذیر ہوتی رہیں مگر گزشتہ اڑھائی صدیوں سے مسلمانوں کا بگاڑ جزوی نہیں، سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی اقدار میں جو زوال آیا اس نے اخلاقی، روحانی، مذہبی، فکری، تعلیمی اور دیگر ہر طرح کی اقدار کو ملیا میٹ کردیا اب دو صدیوں سے پیدا ہونے والا بگاڑ جزوی نہیں رہا یہ کلی بگاڑ ہے ایسے بگاڑ کا ازالہ کلی اور ہمہ گیر انقلابی تحریک سے ہی ممکن ہے۔ جزوی اصلاحی کاموں کی برکتوں سے بیمار اسلامی معاشرے کو چلایا تو جاسکتا ہے مگر اسے از سر نو توانا اور صحت مند نہیں بنایا جاسکتا۔ میرے دل میں یہ آرزو اور تڑپ پیدا ہوئی کہ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے لئے ایک ہمہ جہتی پروگرام ترتیب دیا جائے۔
ادارہ منہاج القرآن کا قیام وقت کی اس اہم ترین ضرورت کے پیش نظر عمل میں لایا گیا ہے۔ عالمگیر سطح پر غلبہ دین حق کی بحالی اور ملت اسلامیہ کے احیاء و اتحاد کے لئے عالمگیر اسلامی انقلاب کایہی وہ تصور ہے جس کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث پاک بیان کرتے ہیں۔
’’کوئی شخص اس وقت تک دین کو زندہ نہ کرسکے گا جب تک کہ وہ اس کے تمام اطراف و جوانب کو (بیک وقت) اپنی جدوجہد کے احاطے میں نہ لے لے‘‘۔
چنانچہ ادارہ منہاج القرآن کے قیام کا مقصد وحید قومی و ملی سطح پر ایک ایسا ہمہ گیر اور ہمہ جہت انقلاب بپا کرنا ہے جو بیک وقت علمی و فکری جمود کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی و روحانی زندگی کی روبہ زوال قدروں کو پھر سے بحال کردے، امت مسلمہ کی سیاسی و اقتصادی اور سماجی و معاشرتی زندگی میں موجودہ تمام موانعات کا تدارک کرکے ملت اسلامیہ کو اقوام عالم کی صف میں باعزت مقام دلادے۔ مزید برآں امت مسلمہ کے منتشر وسائل اور متفرق طبقات کو عالمی سطح پر ایک موثر وحدت میں اس طرح منسلک کردے کہ پورا عالم اسلام کامن ویلتھ کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ایک عظیم قوت بن کر ابھر سکے۔ یہی ادارہ منہاج القرآن کی منزل ہے اور یہی اس کے قیام کا مقصد‘‘۔
(تحریک منہاج القرآن قائد انقلاب پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے انٹرویوز کی روشنی میں 131۔132)
اس طویل اقتباس سے ادارہ منہاج القرآن کے قیام کے مقاصد کے حوالے سے جو افکار و نظریات نمایاں و ممتاز نظر آتے ہیں ان میں روحانی واخلاقی اقدار کا احیاء، اسلامی نظام تعلیم کا فروغ اور امت مسلمہ کا عالمگیر اتحاد جیسے اہم افکار شامل ہیں۔
مسلمان معاشرے کے ہمہ گیر زوال کے اسباب پر اگر غور کیا جائے تو دو اسباب ایسے ہیں جن کو ہم باقی جملہ اسباب کی بنیاد قرار دے سکتے ہیں ان میں سے ایک اخلاقی و روحانی اور مذہبی بیگانگی ہے جبکہ دوسرا علمی زندگی میں جمود اور تعطل کا واقع ہونا ہے۔ انہی دو اسباب کی وجہ سے ملی اتحاد کا شیرازہ منتشر ہوا اور انہیں کے سبب اقتصادی ناہمواری اور سیاسی خلفشار پیدا ہوا۔ ہمارے اس موقف کی تائید مفکر اسلام قائد انقلاب کے ایک اقتباس سے بھی ہوتی ہے فرماتے ہیں:
’’اس قسم کا ذہنی التباس قوم کو پراگندہ خیالی، فکری انتشار اور تشتت و افتراق کی نظر کردیتا ہے۔ قوم خود اعتمادی اور عزت نفس کے جوہر سے محروم ہوکر نظریاتی دریوزہ گری کرنے لگتی ہے یہ دور کچھ عرصہ کے بعد مذہبی، قومی اور ملی نظام حیات سے تمرد و انحراف پیدا کردیتا ہے اور پھر پوری قوم اغیار سے افکار و نظریات کی بھیک مانگتی نظر آتی ہے۔ یہ افکار و نظریات کی بھیک ذہنی غلامی سے شروع ہوکر مادی و سیاسی احتیاج پر منتج ہوتی ہے۔ اس طرح قومیں غلامی اور محکومی کی ڈگر پر چل کر آزادی کی نعمت سے محروم ہوجاتی ہیں۔ اس ساری خرابی کی علت دراصل قوموں کا اپنے بنیادی عقائد و نظریات اور ان کی حقانیت اور افادیت سے صحیح طور پر واقف نہ ہونا ہے‘‘۔
(نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایمان افروز اصطلاح اور انقلاب آفریں پیغام)
ملت کے اس زوال و انحطاط کے مرض کی تشخیص کرنے کے بعد قائد انقلاب اس کا علاج یہ تجویز کرتے ہیں۔
’’آج کا نوجوان طبقہ علمی، فکری، سائنسی اور فلسفیانہ سطح پر اسلام کی حقانیت کے حوالے سے مطمئن نہیں ہے۔ فکر، عمل کے لئے مہمیز ہوتی ہے جب تک فکر، اسلام سے منحرف ہے تو عمل کا بجبر نفاذ تو ممکن ہے لیکن دل کی گہرائیوں سے اسلام کے عملی نظام کو قبول کرکے اس پر عمل پیرا ہونا آج کے نوجوان کے لئے انتہائی مشکل ہے اور جب دین کے نام لیواؤں کا کردار تضادات کا شکار ہو تو نوجوانوں کے لئے اسلام پر عمل پیرا ہونا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے کیونکہ اہل دین کا کردار انہیں دین سے بھی نفرت دلادیتا ہے۔
جب اسلامی اقدار کا روحانی سہارا آج کے نوجوان کے قلب ذہن اور روح کو میسر نہ آسکا اور مادی دور کی نام نہاد فکر، فلسفیانہ اور ثقافتی یلغار نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا تو آج کے نوجوان کی شخصیت درد و کرب اور بے چینی کا سمندر بن کر رہ گئی۔
منہاج القرآن نے اس فساد کی تشخیص کے بعد جو علاج تجویز کیا ہے وہ یہ ہے کہ آج کے نوجوان کو تین پہلوؤں سے اسلام کی حقانیت کا یقین دلانا ضروری ہے اور ان تین پہلوؤں سے اسلام کی نمائندگی بالخصوص نوجوانوں کی سطح پر اور بالعموم عامۃ الناس کی سطح پر وقت کی پکار ہے۔
اسلام کی فکری، فلسفیانہ، سائنسی اور علمی حقانیت کا یقین دلانا۔
اسلام کے عملی نظام کی علمیت (Practicability) اور برکتوں کا شعور دلانا۔
اسلام کے روحانی نظام کی برکتوں اور تعمیر شخصیت میں اس کے کردار کو آشکار کرنا۔
گویا منہاج القرآن بیک وقت نوجوانوں اور عام لوگوں کے دماغ، مشاہدہ و عمل اور دل کے اندر اسلامیت کو پوری طرح اتار دینا چاہتا ہے‘‘۔
(ہمارا دینی زوال اور اس کے تدارک کا سہ جہتی منہاج: 4، 5)
رجوع الی القرآن
موجودہ دور میں تحریک منہاج القرآن کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے ملی زوال کے اسباب کی تشخیص کے بعد اس کا جو سب سے پہلا علاج تجویز کیا ہے وہ رجوع الی القرآن ہے۔ ہماری ملی تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ ہم نے علم کے اصل سرچشمہ اور منبع قرآن کو چھوڑ کر فکر و فلسفہ اور رائے کو ہی عقل کل قرار دے دیا ہے یہی اسی بات کا نتیجہ ہے کہ آج امت مسلمہ کی علمی، فکری، نظریاتی، سیاسی، معاشرتی، معاشی، تعلیمی، تہذیب و ثقافتی بنیادیں کمزور ہی نہیں بلکہ کھوکھلی ہوچکی ہیں جس کے باعث ہماری علمی زندگی پر جمود اور تعطل چھاگیا ہے اور یوں مسلمان موجودہ علمی دور میں پیچھے رہ گئے۔ چنانچہ آپ اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’حقیقت جہاد‘‘ میں امت مسلمہ کو رجوع الی القرآن کی دعوت دیتے ہوئے اسے یوں مخاطب کرتے ہیں۔
’’شومئی قسمت کہ ہم نے نام نہاد دینداری اور جھوٹے بھرم کے پیمانے وضع کررکھے ہیں۔ ہم قرآن سے روشنی لینے کی بجائے ایسے طور طریقے اختیار کئے ہوئے ہیں جو قرآن کے بتائے ہوئے طریقوں کے منافی ہیں ہمارے غم اور خوشی کے تہوار، باہمی میل ملاپ کے انداز اور رسم و رواج خلاف اسلام ہیں۔ ہم نے قرآنی علم کا جھنڈا ہاتھ میں اٹھانے کی بجائے زندگی کے تمام معاملات کو اپنی خواہشات اور ہوا و ہوس کے سانچے میں ڈھال رکھا ہے۔ یہ امر انتہائی ضروری اور لابدی ہے کہ ہم اپنے شب و روز کے معمولات قرآنی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں۔ حکیم الامت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس بارے میں کیا خوب کہا ہے۔
قرآن پیش خود آئینہ آویز دگر گوں گشتہ از خویش گریز
(اپنے سامنے قرآن کا آئینہ رکھ اور اپنے خدوخال کو سنوار لے جو بگڑ چکے ہیں)
ہمیں چاہئے کہ اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہیں اور اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے ان احوال روزو شب کو بدل ڈالیں جو قرآنی تعلیمات کو ترک کرنے کے نتیجے میں دگر گوں ہوچکے ہیں۔ اپنی زندگی کو انقلاب آشنا کرنے کے لئے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے معمولات و احوال حیات کو قرآن و سنت کے احکام اور شریعت مطہرہ کے اوامر و نواہی کے سانچے میں ڈھال لیں تاکہ ہماری زندگی صدق و اخلاص کا نمونہ بن سکے اور ہمیں قول و فعل کے تضاد اور منافقت سے چھٹکارا مل جائے‘‘۔ (حقیقت جہاد 52، 53)
اخلاقی و روحانی اقدار کی بحالی
تصوف اخلاقی و روحانی اقدار کی اصلاح میں اہم کردار ادا کرتا ہے اسی کو علم الاحسان اور علم الاخلاق کا نام دیا جاتا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرنا اشد ضروری ہے کہ غلبہ اسلام، احیائے دین اور اتحاد امت کی کوئی بھی تحریک اس وقت تک کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتی جب تک اس کے خمیر میں تصوف کی تعلیمات شامل نہ ہوں اور وہ اپنے پروگرام میں تطہیر باطن اور تزکیہ نفس کا کوئی سامان نہ رکھتی ہو۔
تحریک منہاج القرآن کو اپنی ہم عصر دیگر تحریکات میں یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ اس کی روشن ضمیر اور فکر رسا کی حامل قیادت ملت اسلامیہ کو موجودہ زوال و انحطاط اور ذلت و نکبت سے نکالنے کے لئے نہ صرف خود صوفیانہ مزاج رکھتی ہے بلکہ وہ غلبہ اسلام اور احیائے دین کے لئے اس کو معاشرے کے ہر فرد کی ضرورت سمجھتی ہے۔ چنانچہ قائد تحریک فرماتے ہیں:
’’اسلامی معاشرے کا ہر فرد انفرادی طور پر تصوف کا محتاج ہے۔ یہ امر مسلم ہے کہ اسلامی معاشرے کا وجود و بقا ایسے افراد پر منحصر ہے جو اخلاقی جدوجہد کرنے والے اور روحانی الذہن ہوں۔ ایسے مطلوبہ افراد صرف اسی صورت میں میسر آسکتے ہیں اگر انسانی شعور، انحراف کے تمام میلانات سے پاک ومنزہ ہو۔ جب تک نفس انسانی کا تزکیہ نہ ہو انحراف شعور اور اختلال سیرت کے رفع ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ غیر مزکی نفس، انسان کو ہمیشہ بداعمالیوں پر اکساتا ہے‘‘۔
قائد انقلاب ایک نظریئے کی حد تک ہی تصوف کے قائل نہیں بلکہ وہ اس کی اہمیت کے پیش نظر دروس تصوف کا معمول جاری رکھتے ہیں اور وابستگان تحریک کو تصوف کی عملی تعلیم بھی ارشاد فرماتے ہیں اور اس رنگ کو مزید گہرا کرنے کے لئے شب بیداری کا معمول بھی تحریک منہاج القرآن کا ایک امتیازی پہلو ہے۔
اقتصادی اور سیاسی فکر
جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا ہے کہ غربت و افلاس بندے کو ایمان کے دائرے سے نکال کر کفر کی حد تک لے جاتی ہے اس لئے خلاق عالم نے اپنی حکمت و قدرت کے مطابق ہر مخلوق کی معاش کا بندوبست کیا ہے۔ لوگوں کو یہ باور کرانے کے لئے کہ ان کے پاس جو مال ہے وہ اس کے مالک نہیں بلکہ ’’امین‘‘ ہیں اس لئے ان کے مال میں معاشرے کے غریب، خستہ حال اور پسے ہوئے لوگوں کا حق ہے۔
وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِO
(ذاریات، 51 : 19)
’’ان کے مالوں میں سوالیوں، محرومین کا حق ہے‘‘۔
موجودہ قومی زندگی میں پائے جانے والے معاشی تعطل اور اقتصادی ناہمواری کی وجوہات و اسباب اور اس کے مقاصد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’قومی سطح پر معاشی زندگی کا بگاڑ استحصالی، خودغرضانہ اور مفاد پرستانہ طرز عمل کا نتیجہ ہے۔ انسانی عمل پر حرص و لالچ، بخل، اکتناز اور خود غرضی ومفاد پرستی اس حد تک غالب ہوتی ہے کہ اجتماعی مفاد کی خاطر ایثار و انفاق اور عام نفع بخشی و فیض رسانی کا وطیرہ مفقود ہوجاتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں ایک طرف ارتکازِ زر اور دوسری طرف معاشی تعطل پیدا ہوجاتا ہے۔ چنانچہ معاشرتی زندگی میں یہ غیر فطری حد تک اقتصادی تفاوت ہر سمت سے مجرمانہ اور معصیانہ طرز عمل کو جنم دیتا ہے۔ خود غرضی اور مفاد پرستی کے طرز عمل سے غیر عادلانہ معیشت وجود میں آتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں اخلاق رذیلہ، بزدلی و مایوسی، اجتماعی حاجتمندی، عزت نفس کے تصور سے محرومی بالآخر محکومی و غلامی جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس بگاڑ کی اصلاح یوں ممکن ہے کہ افراد معاشرے کے دل ودماغ سے خوف افلاس کو رفع کرکے معاشی تعطل اور غیر فطری اقتصادی تفاوت کے خاتمے کا ایسا موثر نظام وضع کیا جائے کہ ہر شخص کی تخلیقی جدوجہد بحال ہوسکے۔
یہ اصلاح اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سرمایہ دارانہ اور استحصالی تصور ملکیت کو اسلام کے انقلابی تصور ملکیت سے نہیں بدل دیا جاتا کیونکہ تمام مفاد پرست، دسیسہ کار اور اجارہ دار قوتیں اس معاشی انقلاب کے راستے میں مزاحم ہوں گی‘‘۔ (اسلامی فلسفہ زندگی، 355 - 356)
مختصر یہ کہ معاشرے کے اندر پیدا ہونے والے بگاڑ کی اصلاح میں اقتصادی و معاشی توازن ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتا ہے یہی وجہ ہے تجدید دین اور اصلاح احوال کا فریضہ سرانجام دینے والے تمام مفکرین نے اس کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اور قائد انقلاب کے باہمی اشتراک کا حسن اتفاق
اسے قدرت کی طرف سے حسن اتفاق کہا جائے یا اس کی مشیت قرار دیا جائے کہ اٹھارویں صدی میں قومی و ملی زوال کے ماحول میں انقلاب کا نعرہ بلند کرنے والے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش بھی فروری میں ہوئی اس کے بعد بیسویں صدی میں جب مسلمانان عالم پھر زوال اور مسکنت کے عمیق گڑھے میں گرنے لگے اور ان کی زندگی میں کلی اور ہمہ جہت زوال کے سائے گہرے ہونے لگے تو اس صدی میں بھی جس شخصیت نے پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں انقلاب مصطفوی کا نعرہ بلند کیا اس کی پیدائش بھی اس ماہ فروری میں ہوئی ہے۔ (تاریخ پیدائش 19 فروری 1951ء) اور پھر یہ بات بھی کہ دونوں کی انقلابی سوچ دو اڑھائی صدیوں کا فاصلہ ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی سوچ کا پرتو معلوم ہوتی ہے۔ جس طرح حضرت شاہ صاحب نے ’’فک کل نظام‘‘ کا انقلابی نعرہ لگایا تھا۔ قائد تحریک منہاج القرآن بھی موجودہ زوال و انحطاط سے مسلمانوں کی نجات کا واحد ذریعہ ایک ہمہ گیر مصطفوی انقلاب ہی میں مضمر قرار دیتے ہیں۔
’’مقام تاسف ہے کہ آج پورا عالم اسلام یہودیت، عیسائیت اور اشتراکیت کے ہاتھوں چار دانگ عالم میں ذلیل و خوار ہورہا ہے۔ اس کا بنیادی سبب من حیث القوم مسلمانوں کی بدکرداری اور سپاہیانہ زندگی سے بیزاری ہے۔ یاد رکھئے کہ مسلمان اس وقت تک صحیح معنوں میں مسلمان ہوہی نہیں سکتا جب تک اس کے شب و روز مجاہدانہ شان میں بسرنہ ہوتے ہوں۔ جہاد سے نا آشنا زندگی سب کچھ ہوسکتی ہے مگر اسلام کی زندگی نہیں ہوسکتی۔ اسلامی زندگی ہم سے اس بات کی متقاضی ہے کہ زندگی کو انقلاب کی طرز پر ڈھالا جائے اور مجاہدانہ رنگ ڈھنگ کی خوئے جانبازی پیدا کی جائے لیکن بدقسمتی سے آج کے نوجوان کی حالت علامہ اقبال کے اس شعر کا عکس ہے۔
تیرے صوفے ہیں افرنگی تیرے قالین ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
(حقیقت جہاد : 22)
فکر طاہر کا امتیازی پہلو
تجدید و احیائے دین کی تاریخ میں آج تک جتنے بھی مجددین و مفکرین ہوئے ہیں ان میں سے ایک ہر ایک مرد قلندر کی خدمات سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں ہر قسم کے حالات کا سامنا کرکے اس اہم دینی فریضہ کو سرانجام دیا اور یوں اللہ کے دین کو سربلند کیا۔ لیکن عصر حاضر میں جتنی بھی اصلاحی تحریکیں چل رہی ہیں ان سب کی قیادتوں میں اپنی فکر کے حوالے سے وہ خالصیت نظر نہیں آتی جوکہ آنی چاہئے چنانچہ اس بات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انہیں اپنی دعوت، تحریک اور پیغام کی کامیابی پر بھی کامل یقین نہیں ہوتا اور یوں وہ دنیا میں کامیابی یا ناکامی کے تصور سے بے نیاز ہوکر آگے بڑھتے جاتے ہیں لیکن ان کے مقابلہ میں تحریک منہاج القرآن اور فکر طاہر میں سورج کی مانند چمکتی خالصیت کے ساتھ فکری واضحیت اور اپنے مشن کی کامیابی کا غیر متزلزل یقین جو ہمیں یہاں نظر آتا ہے وہ ہم عصر کسی بھی اصلاحی تحریک کی قیادت میں نظر نہیں آتا۔ کامیابی کا یقین اور اتنا کامل یقین یہ وہ چیز ہے جو کسی بھی دوسری تحریک سے اس کو ممتاز کرتی ہے۔ امید واثق ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری حضرت شاہ ولی اللہ کے نقوش پا سے اکتساب شعور کرتے ہوئے مصطفوی انقلاب کی منزل کو جلد حاصل کرلیں گے۔
بشکریہ منہاج ڈاٹ آرگ