حضرت مولانا سید ابوالحسنات احمد قادری کی ایک غزل

تسنیم کوثر

محفلین
600393_229068053899056_2018390398_n.jpg
 

تسنیم کوثر

محفلین
مولانا قادری صاحب تو جذباتی ہو گئے!
کہاں علامہ اقبال کی غزل اور کہاں ۔۔۔

مولانا قادری نے اسی مجلس میں فی البدیہہ یہ غزل لکھ کر پڑھی تھی جس میں علامہ اقبال نے ان کی غزل پڑھی تھی۔۔۔ مولانا ابوالحسنات احمدقادری اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کچھوچھہ شریف کے خلفا میں سے تھے۔۔
اور علامہ اقبال کے ہم عصر
 
مولانا قادری نے اسی مجلس میں فی البدیہہ یہ غزل لکھ کر پڑھی تھی جس میں علامہ اقبال نے ان کی غزل پڑھی تھی۔۔۔ مولانا ابوالحسنات احمدقادری اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کچھوچھہ شریف کے خلفا میں سے تھے۔۔
اور علامہ اقبال کے ہم عصر
ما شاء اللہ!
کیا شرف پایا مولانا قادری صاحب نے اقبال کی ہم عصری کا۔ باقی بہر حال جو فی البدیہہ اشعار انہوں نے پڑھے، کسی قابل نہیں۔ اگر ہیں تو ہم بھی فی البدیہہ ان اشعار پر اشعار لگا دیتے ہیں۔ کونسا بڑی بات ہے!

چلو آج فاتحِ بے نوا میاں قادری کو نیاز میں​
یہ غزل سنانے چلیں کہ ہو ذرا فرق سوز میں ساز میں​
اے محیطِ ظلمتِ شامِ غم ذرا کیجو حلقۂ رنج کم​
مری زندگی نہ تمام ہو ترے دامِ زلفِ دراز میں​
کی دعائے صحتِ جان و دل سرِ ابتدائے صلوۃِ وصل​
کہ حصولِ شہرِ عدم تلک تو رہیں لباسِ مجاز میں​
درِ کعبہ مجھ پہ کھلا نہیں تو کلیسا مجھ کو جچا نہیں​
ابھی بِکنے واسطے منتظر ہوں دکانِ آئینہ ساز میں​
نہ بکو اے فاتحِ بے خبر! یہ زمیں ہے مرشدِ پاک کی​
گو نہ قادری یہاں چل سکیں پہ رکھو یہ صیغۂ راز میں​
(ق)​
کہو کوثرِ مہارشترا نہ میں لوٹ لیتا مشاعرہ؟​
جو عبور ہے مجھے شعر پر جو یہ سوز ہے مرے ساز میں​
نہیں میر و غالب و ذوق سا تو یہ کہنا بہرِ لحاظ ہے​
کہ دماغ ہے مجھے عجز کا ہے سکوں سرشتِ گداز میں​
یہ نیا زمانہ بھی لیجئے تو وہ دم ہے فاتحِ زار میں​
نہ ہی جون میں نہ قتیل میں نہ ہی فیض میں نہ فراز میں​
 
Top