اقبال کے شعر کی تشریح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بیان کرنے والا کم از کم قلندر ہو اور سننے والا کم از کم رموز قلندری سے آگاہ ہو
اپنی لاعلمی کے احساس کا نام علم ہے۔
ہم معلوم کو علم کہتے ہیں حالانکہ نامعلوم اور لامعلوم بھی علم ہے۔
علم باد صبح گاہی اور آہِ سحر گاہی سے ملتا ہے۔
کتاب کا علم فیضِ نظر تک نہیں ثہنچا سکتا، تزکیہ کے بغیر کتاب کا علم خطرے سے خالی نہیں۔
ہر عارف عالم ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ ہر عالم عارف بھی ہو۔
ضرورت کا علم اور شئے ہے اور علم کی ضرورت اور شئے ہے۔
علم کا مخزن نگاہ ہے اور اس کا مدفن کتاب ہے۔
لاعلمی سے بے علمی بہتر ہے۔
آج کی تعلیم کا علمیہ یہ ہے کہ تلاش روزگار کے لیے ہے اور تقرب پروردگار کے لیے نہیں۔
وہ علم نور ہے جس سے اللہ کی پہچان ہو اور جس علم سے غرور پیدا ہو وہ حجاب اکبر ہے۔
زیادہ علم جاننے کا غرور اگر نہ جاننے کی عاجزی میں بدل جائے تو حجاب اٹھ جاتا ہے۔