طارق شاہ
محفلین
غزل
حفیظ ہوشیارپوری
آج اُنہیں کچھ اِس طرح جی کھول کر دیکھا کئے
ایک ہی لمحے میں، جیسے عمْر بھر دیکھا کئے
دل اگر بیتاب ہے، دل کا مُقدّر ہے یہی
جس قدر تھی ہم کو توفیقِ نظر دیکھا کئے
خود فروشانہ ادا تھی میری صورت دیکھنا
اپنے ہی جلوے، بہ اندازِ دِگر دیکھا کئے
نا شناسِ غم فقط دادِ ہُنر دیتے رہے
ہم متاعِ غم کو رُسوائے ہُنر دیکھا کئے
دیکھنے کا اب یہ عالم ہے، کوئی ہو یا نہ ہو
ہم جدھر دیکھا کئے، پہروں اُدھر دیکھا کئے
حُسن کو دیکھا ہے ہم نے، حُسن کی خاطر حفیظ
ورنہ سب اپنا ہی معیارِ نظر دیکھا کئے
حفیظ ہوشیارپوری