سلمان حمید
محفلین
میری ایک عدد خالہ آیا کرتی تھیں ولایت سے اور ان کو لینے کے لیے سارا خاندان ایک رات پہلے لاہور میں اکٹھا ہو جایاکرتا اور پھر ساری رات جاگ کر صبح کا انتظار کیا جاتا۔ ائیرپورٹ پر چار سے پانچ گاڑیاں جایا کرتیں اور اکثر خواتین کو گاڑی میں جگہ نہ ہونے، زیادہ عمر ہو جانے کی وجہ سے چل نہ پانے یا آنے والے مہمانوں کے لیے ناشتہ تیار رکھنے کی غرض سے گھر پر ہی چھوڑ دیا جاتا۔
مجھے بچپن سے ہی ایسا پروٹوکول حاصل کرنے کی دلی خواہش تھی۔
جرمنی جاتے وقت مجھے ائیرپورٹ چھوڑنے آنے کے لیے تقریباً دس افراد آئے تھے۔ جن میں سے کچھ میری نئی نویلی دلہن کے گھر سے تھے جس کے لیے میں آج تک ابا جان کا شکر گزار ہوں کہ ان کے اس فیصلے سے مجھے ائیر پورٹ چھوڑنے والوں کی تعداد تو بڑھی۔ یہ اور بات ہے کہ میرے اڑنے سے چار دن پہلے میرے پر باندھ کر میری پرواز کو محدود کردینے والے ان کے اس فیصلے کے بارے میں آج تک فیصلہ نہیں کر پایا کہ یہ میرے حق میں تھا یا خلاف۔
پس میں گردن اکڑائے، آنکھوں میں کئی خواب سجائے اور اپنے آپ کو ولائتی سمجھتے ہوئے جھٹ پٹ جہاز پر سوار ہو گیا تھا۔
"تجھے ہیمبرگ ائیرپورٹ پرمیرا ایک دور پار کا جاننے والا لینے کے لیے آئے گا"، بڑے بھائی کی اس بات پر غور میں نے جہاز میں بیٹھ کر کیا تھا- "صرف ایک بندہ آئے گا؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟" میں نے سیٹ بیلٹ باندھتے ہوئے حیرت سے خود کلامی کی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ انجانے دیس میں، ایک انجانی زبان بولتے ہوئے انجانے لوگوں کے بیچ مجھے وہ ایک بندہ بھی غنیمت لگا تھا۔ یہ پردیس کی پہلی حقیقت تھی جس سے آشنائی ہوتے ہی دل کو ایک کچوکہ لگا تھا کہ یہاں گاڑیاں بھر کر لوگ ائیرپورٹ پر لینے نہیں آتے بے شک آپ دوسرے ملک سے دن بھر کا سفر کر کے ہی کیوں نہ آئے ہوں۔
اس پہلی حقیقت کے بعد بہت سارے حقائق سے واسطہ پڑا جن میں سے کچھ دلچسپ اور کچھ تلخ تھے۔ اور کچھ کا فیصلہ نہیں کر پایا کہ دلچسپ تھے یا تلخ۔ جیسے کہ پاکستان سے نکل کر پتہ چلا کہ ہر مسکرا کر دیکھنے والی لڑکی آپ کے ساتھ سیٹ نہیں ہونا چاہتی۔ ہر وہ لڑکی جو آپ کی بات کا خوش اخلاقی سے جواب دے، وہ آپ کو بات چیت بڑھا کر نمبر مانگنے یا دینے کا نہیں کہہ رہی ہوتی اور آپ کے ساتھ تنہائی میں بیٹھی لڑکی، ضروری نہیں کہ آپ کو دعوتِ گناہ دے رہی ہو۔ دے بھی رہی ہو تو مجھے کیا پتہ، مجھے تو ابا جان نے باندھ کر بھیجا تھا۔
پاکستان سے نکلنے سے پہلے تک ہندوستان ایک دشمن ملک تھا اور وہاں کے رہنے والے لوگ مکار ہندو جو چوبیس گھنٹے اپنے مندروں میں بیٹھے مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے پلان بناتے رہتے ہیں۔ یہاں آ کر پتہ چلا کہ ان میں اور ہم میں زیادہ فرق نہیں (اگر ان میں سے کچھ مکار ہیں بھی تو منافقت ہم پاکستانیوں پر بھی ختم ہے)۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میرا اپنے ملک کی نسبت دشمن ملک کے لوگوں کے ساتھ زیادہ اچھا وقت گزرا اور کچھ بہترین دوست بھی بنائے۔
یہ جان لینا اور پھر ذہن نشین کر لینا کہ انڈے حلال ہوتے ہیں کہ حرام، ڈبل روٹی یا کیک بھی حرام ہو سکتے ہیں، چیونگم حرام ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ نے اب تک ساتھ نہیں چھوڑا۔ بسکٹ خریدتے وقت حلال اور حرام کا خیال رکھنا نماز ادا کرنے سے زیادہ ضروری بن گیا تھا۔
خیر اب تو گرمیوں میں روزے آ جانے پر شکایت بھری نگاہوں سے اوپر دیکھنے، سردیوں میں اپنا آپ لپیٹ کر تیز تیز قدموں سے گھر کی جانب چلنے، گرتی ہوئی برف یا بارش کی بوندوں سے بچنے کے لیے سر پر چھتری کھول لینے، تیزی سے بڑے ہوتے بچوں، واپس پاکستان چلے جانے کے معدوم ہوتے خیال اور بڑھتی ہوئی خواہشات کے ساتھ زندگی ایڈجسٹ ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن پھر بھی اندر کہیں دقیانوسی خیالات کا مالک وہ انسان آج بھی زندہ ہے جو ابھی بھی مغربی پہناوے میں ملبوس مشرقی وجود کو بدل نہیں پایا۔ یہ سب حقائق دلچسپ ہوں یا تلخ، ان کو ہمیشہ کے لیے زندگی سے نکال پھینکنے کے لیے کوئی ابھی بھی ہولے ہولے اکساتا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ بالآخر جیت کس کی ہوگی۔
مجھے بچپن سے ہی ایسا پروٹوکول حاصل کرنے کی دلی خواہش تھی۔
جرمنی جاتے وقت مجھے ائیرپورٹ چھوڑنے آنے کے لیے تقریباً دس افراد آئے تھے۔ جن میں سے کچھ میری نئی نویلی دلہن کے گھر سے تھے جس کے لیے میں آج تک ابا جان کا شکر گزار ہوں کہ ان کے اس فیصلے سے مجھے ائیر پورٹ چھوڑنے والوں کی تعداد تو بڑھی۔ یہ اور بات ہے کہ میرے اڑنے سے چار دن پہلے میرے پر باندھ کر میری پرواز کو محدود کردینے والے ان کے اس فیصلے کے بارے میں آج تک فیصلہ نہیں کر پایا کہ یہ میرے حق میں تھا یا خلاف۔
پس میں گردن اکڑائے، آنکھوں میں کئی خواب سجائے اور اپنے آپ کو ولائتی سمجھتے ہوئے جھٹ پٹ جہاز پر سوار ہو گیا تھا۔
"تجھے ہیمبرگ ائیرپورٹ پرمیرا ایک دور پار کا جاننے والا لینے کے لیے آئے گا"، بڑے بھائی کی اس بات پر غور میں نے جہاز میں بیٹھ کر کیا تھا- "صرف ایک بندہ آئے گا؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟" میں نے سیٹ بیلٹ باندھتے ہوئے حیرت سے خود کلامی کی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ انجانے دیس میں، ایک انجانی زبان بولتے ہوئے انجانے لوگوں کے بیچ مجھے وہ ایک بندہ بھی غنیمت لگا تھا۔ یہ پردیس کی پہلی حقیقت تھی جس سے آشنائی ہوتے ہی دل کو ایک کچوکہ لگا تھا کہ یہاں گاڑیاں بھر کر لوگ ائیرپورٹ پر لینے نہیں آتے بے شک آپ دوسرے ملک سے دن بھر کا سفر کر کے ہی کیوں نہ آئے ہوں۔
اس پہلی حقیقت کے بعد بہت سارے حقائق سے واسطہ پڑا جن میں سے کچھ دلچسپ اور کچھ تلخ تھے۔ اور کچھ کا فیصلہ نہیں کر پایا کہ دلچسپ تھے یا تلخ۔ جیسے کہ پاکستان سے نکل کر پتہ چلا کہ ہر مسکرا کر دیکھنے والی لڑکی آپ کے ساتھ سیٹ نہیں ہونا چاہتی۔ ہر وہ لڑکی جو آپ کی بات کا خوش اخلاقی سے جواب دے، وہ آپ کو بات چیت بڑھا کر نمبر مانگنے یا دینے کا نہیں کہہ رہی ہوتی اور آپ کے ساتھ تنہائی میں بیٹھی لڑکی، ضروری نہیں کہ آپ کو دعوتِ گناہ دے رہی ہو۔ دے بھی رہی ہو تو مجھے کیا پتہ، مجھے تو ابا جان نے باندھ کر بھیجا تھا۔
پاکستان سے نکلنے سے پہلے تک ہندوستان ایک دشمن ملک تھا اور وہاں کے رہنے والے لوگ مکار ہندو جو چوبیس گھنٹے اپنے مندروں میں بیٹھے مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے پلان بناتے رہتے ہیں۔ یہاں آ کر پتہ چلا کہ ان میں اور ہم میں زیادہ فرق نہیں (اگر ان میں سے کچھ مکار ہیں بھی تو منافقت ہم پاکستانیوں پر بھی ختم ہے)۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میرا اپنے ملک کی نسبت دشمن ملک کے لوگوں کے ساتھ زیادہ اچھا وقت گزرا اور کچھ بہترین دوست بھی بنائے۔
یہ جان لینا اور پھر ذہن نشین کر لینا کہ انڈے حلال ہوتے ہیں کہ حرام، ڈبل روٹی یا کیک بھی حرام ہو سکتے ہیں، چیونگم حرام ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ نے اب تک ساتھ نہیں چھوڑا۔ بسکٹ خریدتے وقت حلال اور حرام کا خیال رکھنا نماز ادا کرنے سے زیادہ ضروری بن گیا تھا۔
خیر اب تو گرمیوں میں روزے آ جانے پر شکایت بھری نگاہوں سے اوپر دیکھنے، سردیوں میں اپنا آپ لپیٹ کر تیز تیز قدموں سے گھر کی جانب چلنے، گرتی ہوئی برف یا بارش کی بوندوں سے بچنے کے لیے سر پر چھتری کھول لینے، تیزی سے بڑے ہوتے بچوں، واپس پاکستان چلے جانے کے معدوم ہوتے خیال اور بڑھتی ہوئی خواہشات کے ساتھ زندگی ایڈجسٹ ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن پھر بھی اندر کہیں دقیانوسی خیالات کا مالک وہ انسان آج بھی زندہ ہے جو ابھی بھی مغربی پہناوے میں ملبوس مشرقی وجود کو بدل نہیں پایا۔ یہ سب حقائق دلچسپ ہوں یا تلخ، ان کو ہمیشہ کے لیے زندگی سے نکال پھینکنے کے لیے کوئی ابھی بھی ہولے ہولے اکساتا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ بالآخر جیت کس کی ہوگی۔
آخری تدوین: