حقوق الزوجین::::: 1::::: خاوند کا رُتبہ و حیثیت :::::


:::::حقوق الزوجین ::: میاں بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق :::::
::::: خاوند کا رُتبہ و حیثیت :::::

اِس موضوع پر بات کرتے ہوئے کچھ ڈر سا لگتا ہے :beating: کیونکہ ہمارے معاشرے میں اور مسلم معاشرے میں عام طور پر خواتین کا اثر و رسوخ یا واضح الفاظ میں یہ کہنا چاہیے کہ خواتین کا رعب و دبدبہ مناسب حدود سے بہت باہر ہو چکا ہے اور اکثر مرد حضرات ۔۔'''بے چارگی ''' کی حالت میں نظر آتے ہیں اور کچھ اسی طرح کا معاملہ دوسری طرف بھی ہے کہ مرد حضرات بھی کم نہیں کرتے اور جہاں بھی موقعہ ملے اپنی مردانگی کاناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں ۔
اِنشاء اللہ تعالیٰ اِس مضمون میں مختصر طور پر یہ بیان کروں گا کہ میاں بیوی کے لیے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کیا حقوق اور کیا فرائض مقرر کیئے گئے ہیں ، سب سے پہلے یہ بات جاننے اور اس پر ایمان لانے والی ہے کہ مرد عورت سے افضل ہیںاور بلند درجہ رکھتے ہیں ،
اللہ العلیم الحکیم کا فرما ن ہے (الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعضَہُم عَلَی بَعضٍ وَبِمَا اَنفَقُوا مِن اَموَالِہِم ) ( مرد عورتوں سے برتر ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان میں سے کچھ کو کچھ پرفضیلت دی ہے اور اِس لیے کہ مرد عورتوں پراپنے مال میں سے خرچ کرتے ہیں ،،،،،،) سورۃ النساء /آیت ٣٤
::::: ایک فلسفہ اور اُس کا جواب ::::: اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ اکیلا خالق ہے اور اُس کے عِلاوہ جو کچھ ہے اُس کی مخلوق ہے ، لہذا جِس کو اُس نے جیسا چاہا ویسا بنایا اور جو دینا چاہا عطاء فرمایا اور جو نہ دینا چاہا اُس سے روک لیا ، مَردوں کو عورتوں پر برتری بھی اِسی طرح اکیلے لا شریک خالق و مالک و داتا ، اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی سے دی ہے ، کِسی کے لیے کوئی گُنجائش نہیں کہ وہ کوئی فلسفہ گھڑ کر اللہ تعالیٰ کے کِسی بھی کام کا اِنکار کرے یا اُس پر اعتراض کرے ، ایسا کرنے والا دائرہِ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ، مثلاً اگر کوئی یا سوچے کہ عورتیں مرد سب برابر ہیں ، ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں ، مرد کی برتری کیسی ؟ ایسا کہنے والے بے چارے یہ تک بھی نہیں جانتے کہ گاڑیوں کے چلنے کا کیا نظام ہوتا ہے ، پہیے دو ہوں یا دس اُن کو گھمانے اور اُن کے ذریعے گاڑی چلانے کے لیے کوئی قوت درکار ہوتی ہے اور وہ قوت مہیا کرنے والی چیز کو انجن کہا جاتا ہے ، اگر انجن کام نہ کرے یا مُناسب قوت مہیا نہ کرے تو برابری کا دعویٰ کرنے والیاں پہیہ صاحبات کب تک اور کیسے گھومتی ہیں ؟ اوراُنکی شخصیت اور اُن کے خاندان کی گاڑی کہاں پہنچتی ہے ؟ اور جِس معاشرے میں یہ پہیے کِسی تحکم (Control ) کے بغیرگھومتے ہیں اُس معاشرے کی گاڑی کہاں پہنچتی ہے ؟ یہ باتیں درست عقل رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے ، دیکھتا اور سُنتا ہے ، لہذا یہ فلسفہ عملی طور پر خود کو جھوٹاثابت کرتا ہے ، اور یہ بات روزِ روشن کی طرح صاف اور واضح نظر آتی ہے کہ مَرد و عورت کِسی بھی معاشرے میں ہوں کِسی بھی دِین اور دِین کے کِسی بھی مذھب و مسلک سے وابستہ ہوں ،کِسی بھی صورت ایک گاڑی کے دو پہیے قرار نہیں پا سکتے ہیں ،
::::: فلسفہ در فلسفہ اور اُس کا جواب :::: مرد و عورت کی برابری کے دعویٰ دار ، اور عورت کی آزادی اور کارِ حیات میں برابر کی شرکت کے طلبگار وں میں سے کچھ لوگ بغیر انجن کے پہیے گھمانے والے فلسفے کو ذرا اِسلامی رنگ دیتے ہوئے ایک اور فلسفہ شامل کرتے ہیں کہ ، مرد کے برتر ہونے کی وجہ یہ کہ وہ عورت پر خرچ کرتا ہے ، اور یہ اِس لیے ہوتا ہے کہ عورت کو خود کمانے کا موقع نہیں دِیا جاتا ، اگر عورت خود کمائے تو پھر مرد کو اُس پر خرچ کرنے کی ضرورت رہتی ہے نہ عورت کو مرد سے خرچہ لینے کی ، لہذ ثابت ہوا کہ عورتیں مَردوں کے برابر ہیں مگر اُنہیں اُن کی صلاحیات استعمال کرنے کا موقع نہیں دِیا جاتا ،
اِن بے چاروں کو اللہ تعالیٰ کے فرمان میں یہ نظر نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک مخلوق مَرد کو دوسری مخلوق عورت پر اپنی مرضی سے افضلیت عطاء فرمائی ، اورمَردوں کا عورتوں پر خرچ کرنے والا معاملہ دُنیا کے مادی اسباب میں سے ایک سبب بنایا ہے، نہ کہ اکلوتا اور حقیقی سبب کہ اگر اِسے ختم کر لیا جائے تو افضلیت بھی ختم ہو جائے گی ، اور ''' صاحب ''' اور ''' بیگم''' برابر ہو جائیں گے ،
اِس مضمون کا موضوع عورت کی آزادی یا برابری نہیں ، اِس موضوع پر بات پھر کِسی وقت ہو گی اِنشاء اللہ تعالیٰ ، فی الحال اتنا ہی کہنا کافی ہو گا اِنشاء اللہ کہ معاشرتی اور دینی معاملات میں عورت و مرد کی برابری کی سوچ یا اِس کی بنیاد پر گھڑا گیا کوئی بھی فلسفہ اللہ تعالیٰ کے ایک کام کا اِنکار اور اُس پر اعتراض ہے ، جو یقینا ایسا کُفرہے جو اسلام سے خارج کردیتا ہے ،اِسلام سے خارج کرنے والے کاموں کا تعارف عقیدے کے تعارفانہ رواں خاکہ جات (Flow Charts ) میں مُیسر ہے ،
اللہ تعالیٰ سب مُسلمانوں کو اپنا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع فرمان بننے کی توفیق عطاے فرمائے اور اِسی تابع فرمانی پر ہمارے خاتمے فرمائے اور اِسی پر ہمارا حشر فرمائے ،
اللہ تعالیٰ کے اِس مذکورہ بالا ( اُوپر ذِکر کیے گئے) فرمان سے ہمیں پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مکمل ترین بے عیب حکمت سے مَردوں کو عورتوں پر برتری عطاء فرمائی ہے ، یہ برتری بحیثیتِ جنس عام ہے یعنی مَرد بہر صورت عورت پر برتر ہے ، رہا معاملہ مختلف رشتوں کے حقوق کا تو وہ اللہ تعالیٰ نے او ر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف رکھے ہیں جو کہ مَرد کی عورت پر برتری کو ختم نہیں کرتے اور نہ ہی عورت کی عِزت و احترام میں کمی کرتے ہیں ، میاں بیوی کے رشتے میں منسلک ہونے کے بعد مَرد کی حیثیت اور حق کتنا بڑھ جاتا ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زُبانی سنیئے :::
::::: (١) عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں ، کہتے ہیں جب معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہُ شام سے واپس آئے تو اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ( مَا ہَذا یا مُعَاذ ؟)( یہ کیا معاذ ؟ ) معاذ رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کیا ::: میں شام گیا تھا وہاں میں نے دیکھا کہ عیسائی اور یہودی اپنے اپنے مذہبی رہنماوں اور عالِموں کو سجدہ کرتے ہیں ، لہذا میرے دِل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ہم آپ کو سجدہ کریں ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (فَلا تَفعَلُوا فَاِنِی لَو کُنت ُ آمِراً احداً ان یَسجُدَ لِغَیرِ اللَّہِ لامَرت ُ المَراَئۃَ ان تَسجُدَ لِزَوجِہَا وَالَّذِی نَفسُ مُحَمدٍ بِیدِہِ لا تُؤَدِّی المَراۃُ حَق َّ رَبِّہَا حَتٰی تُؤَدِّی حَق َّ زَوجِہَا وَلَو سَاَئلَہَا نَفسَہَا وَہِیَ عَلَی قَتبٍ لَم تَمنَعہ ُ)( تُم سب ایسا مت کرو (یعنی مجھے سجدہ مت کرو)، اگر میں کِسی یہ حُکم دینے والا ہوتا کہ وہ اللہ کے عِلاوہ کِسی اور کو سجدہ کرے ( یعنی اگر یہ کام حلال ہوتا ) تو عورت کو حُکم دیتا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے ، اُس کی قسم جِس کے ہاتھ میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے ، عورت اپنے رب کا حق اُس وقت تک ادا نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ اپنے خاوند کا حق ادا نہ کرے ، اور (خاوند کا حق اتنا زیادہ ہے کہ ) اگر بیوی اُونٹ کے کاٹھی پر بیٹھی ہو اور خاوند اپنی بیوی کو ( اپنی جنسی طلب پوری کرنے کے لیے ) بلائے تو بھی وہ خاوند کو منع نہیں کرے گی ) صحیح ابن حبان / حدیث ٧١٤١ او ١٣٩٠ ، سنن ابن ماجہ /حدیث١٨٥٣/کتاب النکاح/باب٤، المستدرک الحاکم / حدیث ٧٣٢٥ ،کتاب البر و الصلۃ، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ / حدیث ٣٣٦٦ ، ٣٤٩٠ ، ١٢٠٣۔
::::: (٢) انس بن مالک رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( لا یَصلَحُ لِبَشرٍ ان یَسجُدَ لِبشرٍ ولَو صَلَحَ ان یَسجُدَ بَشَرٌ لِبشرٍ لامرتُ المراۃَ ان تَسجُدَ لَزوجِہا مِن عَظَمِ حَقِہِ عَلِیہَا ، والذِی نَفسِی بِیَدہِ لَو ان مِن قَدمِیِ اِلیٰ مَفرَقِ راسِہِ قَرحَۃً تَنبَجس بالقیحِ و الصدیدِ ثُمَ اقبَلَت تَلحَسہُ ما ادَت حَقَہ ُ ) ( کِسی اِنسان کے لیے حلال نہیں کہ وہ کِسی اِنسان کو سجدہ کرے ، اگر ایسا کرنا حلال ہوتا تو عورت پر خاوند کے حق کی عظمت ( بڑائی ) کی وجہ سے میں ضرور عورت کو حُکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے ) اِمام النسائی کی کتاب، عِشرۃ النساء /حدیث ٢٦٨ /باب حق الرجُلِ علیٰ المراۃِ ، مُسند احمد (عالم الکتب کی پہلی طباعت میں)/ حدیث ١٢٦٤١، اِمام الالبانی نے صحیح قرار دِیا، صحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ ٧٧٢٥ ،
مضمون """ حقوق الزوجین """ جاری ہے ، اگلا حصہ ان شا اللہ بعنوان ’’’ خاوند کے بیوی پر حقوق ‘‘‘ ملاحظہ فرمائیے گا ۔
 

خاور بلال

محفلین
سب سے پہلے یہ بات جاننے اور اس پر ایمان لانے والی ہے کہ مرد عورت سے افضل ہیںاور بلند درجہ رکھتے ہیں
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعضَہُم عَلَی بَعضٍ وَبِمَا اَنفَقُوا مِن اَموَالِہِم
مرد عورتوں سے برتر ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان میں سے کچھ کو کچھ پرفضیلت دی ہے اور اِس لیے کہ مرد عورتوں پراپنے مال میں سے خرچ کرتے ہیں۔ سورۃ النساء /آیت ٣٤

اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ اکیلا خالق ہے اور اُس کے عِلاوہ جو کچھ ہے اُس کی مخلوق ہے ، لہذا جِس کو اُس نے جیسا چاہا ویسا بنایا اور جو دینا چاہا عطاء فرمایا اور جو نہ دینا چاہا اُس سے روک لیا ، مَردوں کو عورتوں پر برتری بھی اِسی طرح اکیلے لا شریک خالق و مالک و داتا ، اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی سے دی ہے ، کِسی کے لیے کوئی گُنجائش نہیں کہ وہ کوئی فلسفہ گھڑ کر اللہ تعالیٰ کے کِسی بھی کام کا اِنکار کرے یا اُس پر اعتراض کرے ، ایسا کرنے والا دائرہِ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے

اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک مخلوق مَرد کو دوسری مخلوق عورت پر اپنی مرضی سے افضلیت عطاء فرمائی ، اورمَردوں کا عورتوں پر خرچ کرنے والا معاملہ دُنیا کے مادی اسباب میں سے ایک سبب بنایا ہے، نہ کہ اکلوتا اور حقیقی سبب کہ اگر اِسے ختم کر لیا جائے تو افضلیت بھی ختم ہو جائے گی ، اور ''' صاحب ''' اور ''' بیگم''' برابر ہو جائیں گے۔

اللہ تعالیٰ کے اِس مذکورہ بالا ( اُوپر ذِکر کیے گئے) فرمان سے ہمیں پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مکمل ترین بے عیب حکمت سے مَردوں کو عورتوں پر برتری عطاء فرمائی ہے ، یہ برتری بحیثیتِ جنس عام ہے یعنی مَرد بہر صورت عورت پر برتر ہے۔

سورۃ النساء کی جو آیت آپ نے پیش کی ہے اس میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ مردوں کا رتبہ عورتوں سے بلند ہے۔ اس آیت میں لفظ قوام آیا ہے۔ قوام اور برتر میں فرق ہوتا ہے۔ اگر یہ فرق ملحوظ نہ رکھا جائے تو درست مطلب واضح نہیں ہوتا۔ تفہیم القرآن میں اس آیت کا ترجمہ یوں ہے:

ترجمہ: "مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔"

تفسیر: "یہاں فضیلت بمعنی شرف اور کرامت و عزت نہیں ہے، جیسا کہ ایک عام اردو خواں آدمی اس لفظ کا مطلب لے گا، بلکہ یہاں یہ لفظ اس معنی میں ہے کہ ان میں سے ایک صنف (یعنی مرد) کو اللہ نے طبعاً بعض ایسی خصوصیات اور قوتیں عطا کی ہیں جو دوسری صنف (یعنی عورت) کو نہیں دیں یا اس سے کم دی ہیں۔ اس بنا پر خاندانی نظام میں مرد ہی قوام ہونے کی اہلیت رکھتا ہے اور عورت فطرتاً ایسی بنائی گئی ہے کہ اسے خاندانی زندگی میں مرد کی حفاظت و خبر گیری کے تحت رہنا چاہیے۔ قوام یا قیم اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو درست حالت میں چلانے اور اس کی حفاظت و نگہبانی کرنے اور اس کی ضروریات مہیا کرنے کا ذمہ دار ہو۔" (تفہیم القرآن۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی)

خدا کے دربار میں کوئی عورت کسی مرد سے اس لیے پیچھے نہیں ہوگی کہ وہ عورت تھی۔ بلکہ وہاں رتبوں کا تعین تو اس بنا پر ہوگا کہ آیا زندگی خدا کے احکام کے مطابق گذاری یا نہیں۔ ایک آئیڈیل معاشرہ تشکیل دینے کے لیے بعض معاملات میں عورت کو مرد کی فرمانبرداری کا حکم دیا گیا ہے، یہ اس لیے نہیں ہے کہ مرد عورت سے اشرف ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں خاندانی نظام میں انتشار کا خدشہ ہوتا ہے جو اسلام نہیں چاہتا۔ خدا نے جہاں جہاں عورت کو مرد کا تابع کیا ہے وہ معاشرتی وجوہات کی بنا پر کیا ہے۔ اس سے کسی کو یہ خوش فہمی نہ ہونی چاہیے کہ خدا کے ہاں مرد عورتوں سے زیادہ محبوب ہیں۔
 
سورۃ النساء کی جو آیت آپ نے پیش کی ہے اس میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ مردوں کا رتبہ عورتوں سے بلند ہے۔ اس آیت میں لفظ قوام آیا ہے۔ قوام اور برتر میں فرق ہوتا ہے۔ اگر یہ فرق ملحوظ نہ رکھا جائے تو درست مطلب واضح نہیں ہوتا۔ تفہیم القرآن میں اس آیت کا ترجمہ یوں ہے:

ترجمہ: "مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔"

تفسیر: "یہاں فضیلت بمعنی شرف اور کرامت و عزت نہیں ہے، جیسا کہ ایک عام اردو خواں آدمی اس لفظ کا مطلب لے گا، بلکہ یہاں یہ لفظ اس معنی میں ہے کہ ان میں سے ایک صنف (یعنی مرد) کو اللہ نے طبعاً بعض ایسی خصوصیات اور قوتیں عطا کی ہیں جو دوسری صنف (یعنی عورت) کو نہیں دیں یا اس سے کم دی ہیں۔ اس بنا پر خاندانی نظام میں مرد ہی قوام ہونے کی اہلیت رکھتا ہے اور عورت فطرتاً ایسی بنائی گئی ہے کہ اسے خاندانی زندگی میں مرد کی حفاظت و خبر گیری کے تحت رہنا چاہیے۔ قوام یا قیم اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو درست حالت میں چلانے اور اس کی حفاظت و نگہبانی کرنے اور اس کی ضروریات مہیا کرنے کا ذمہ دار ہو۔" (تفہیم القرآن۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی)
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
خاور بلال بھائی ، جزاک اللہ خیر ا ، بہت شکریہ ایک علمی اعتراض واردکرنے پر بہت شکریہ ، ایسی باتیں یقینا علم میں اضافے کا باعث بنتی ہیں ، باِذن اللہ ،
میرے بھائی ، گذارش یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام صرف لغت کے قواعد اور تراجم کی مدد سے نہیں سمجھا جاسکتا ، اور نہ ہی یوں اس کی تفسیر ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے ہمیشہ اپنے نبی اور رسول بھیجے ہیں کہ وہ اللہ کے کلام اور پیغامات کا مطوب و مقصود لوگوں پر واضح کریں ، اور یہ ذمہ داری بدرجہ اتم اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بھی تھی ، جو انہوں نے بہترین اور مکمل طور پر نبھا دی ،
اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے ((( وَمَآ أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلاَّ لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ::: اور ہم نے آپ پر کتاب صرف اس لیے نازل فرمائی ہے کہ لوگ جس میں اختلاف کرتے ہیں آپ لوگوں پر اُس (کا حل ) کو واضح فرما دیں ، اور (یہ کتاب ہم نے ) ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت (کے طور پر)نازل فرمائی ہے ))) سورت النحل ، آیت 64
اور فرمایا ہے ((( وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ :::اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذِکر (قُران) اس لیے نازل کیا کہ آپ لوگوں پر واضح فرمائیں کہ اُن کی طرف کیا نازل کیا گیا ہے ، اور تا کہ وہ لوگ (اس قران اور آپ کے بیان میں) غور وفِکر کریں ))) سورت النحل ، آیت 44 ،
تو میرے بھائی ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے جو فرامین میں نے ذِکر کیے وہ اس کی وضاحت میں بہت کافی ہیں کہ مَرد کو اللہ نے افضلیت دی ہے اور اتنی زیادہ ہے کہ اگر اللہ کی علاوہ کسی اور کو سجدہ کرنے گنجائش ہوتی تو خاوند کو سجدہ کروایا جاتا ،
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ چونکہ مَرد عورتوں کے معاملات کی نگہبانی کرتے ہیں اس لیے وہ افضل ہیں ، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ ((( الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاءِ ::: مَرد عورتوں پر حاوی ہیں ))) ایسا کیوں ہے یا اللہ ؟ :::
((( بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعضَہُم عَلَی بَعضٍ :::اس لیے کہ اللہ نے کچھ پر کچھ کو افضلیت دی ہے))) اے اللہ پاک یہ تو ہوا اصل سبب ، کیا اس کے علاوہ کوئی اور سبب بھی ہے میرے مولا ؟ :::
(((وَبِمَا اَنفَقُوا مِن اَموَالِہِم ::: اور اِس لیے کہ مرد عورتوں پراپنے مال میں سے خرچ کرتے ہیں))) ،
خاور بھائی ، میں پہلے عرض کر چکا ہوں او ر اب کچھ مختلف الفاظ میں کہتا ہوں ، کہ ، مَرد کو اللہ نے اپنی حکمت بے عیب سے افضلیت دی ہے ، کسی اور سبب سے نہیں ، اور عورتوں پر حاوی رکھا ہے ، اُس افضلیت کے سبب سے ، اور عورتوں پر حاوی رہنے کے اسباب میں ایک سبب یہ بنایا کہ مَرد عورتوں کے معاشی ضروریات پوری کرتے ہیں ، نہ کہ مَردوں کی افضلیت کا سبب یہ ہے کہ وہ عورتوں کی معاشی اور معاشرتی ضروریات پوری کرنے میں خرچ کرتے ہیں ،
اگر بات لغت کی کی جائے تو لغتا بھی یہ درست نہیں کہ کسی لفظ کے صاف ظاہری معانی اور مفہوم کو ترک کر کے کوئی اور مفہوم لیا جائے ، ایسا کرنے کے لیے کوئی قرینہ درکار ہوتا ہے ، جو کسی لفظ کے ظاہری معانی یا عام مفہوم کو تبدیل کرے ، اور یہاں بیاں کردہ افضلیت کا مفہوم تبدیل کرنے لے لیے کوئی قرینہ میسر نہیں ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس آیت میں مَرد کی فضیلت مُطلقا بیان فرمائی ہے ، اور اسی اطلاق کو ، اس کے مفہوم کو ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے مذکوہ بالا فرامیں میں اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے واضح فرمایا ہے ،

خدا کے دربار میں کوئی عورت کسی مرد سے اس لیے پیچھے نہیں ہوگی کہ وہ عورت تھی۔ بلکہ وہاں رتبوں کا تعین تو اس بنا پر ہوگا کہ آیا زندگی خدا کے احکام کے مطابق گذاری یا نہیں۔ ایک آئیڈیل معاشرہ تشکیل دینے کے لیے بعض معاملات میں عورت کو مرد کی فرمانبرداری کا حکم دیا گیا ہے، یہ اس لیے نہیں ہے کہ مرد عورت سے اشرف ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں خاندانی نظام میں انتشار کا خدشہ ہوتا ہے جو اسلام نہیں چاہتا۔ خدا نے جہاں جہاں عورت کو مرد کا تابع کیا ہے وہ معاشرتی وجوہات کی بنا پر کیا ہے۔ اس سے کسی کو یہ خوش فہمی نہ ہونی چاہیے کہ خدا کے ہاں مرد عورتوں سے زیادہ محبوب ہیں۔
اگر """ خُدا """ سے آپ کی مُراد """ اللہ """ ہے ، جو کہ درست نہیں ، کیونکہ """ خُدا """ آتش پرست مجوسیوں کے باطل معبودوں کا نام تھا ، اور """ اللہ """ کے لیے اسے استعمال کرنا جائز نہیں ، خواہ کوئی بھی تاویل کی جائے ، اس موضوع پر میرا ایک تفصیلی مضمون یہاں ، اور ، یہاں سے اتارا جا سکتا ہے
خصوصی گذارش ہے خاور بھائی کہ اس مضمون کو بھی پڑھ کر اپنی علمی رائے سے نوازیے، جزاک اللہ خیرا ،
بہر حال ، اگر ایسا ہی ہے تو ، میرے بھائی ، اللہ کے ہاں رتبے اور اجر و ثواب کے بارے میں تو میرے مضمون میں تو کوئی بات نہیں ہے ، چہ جائیکہ کسی جنس کے اللہ کے ہاں برتر یا کم تر ، بر بنائے جنس ، ہونے کی کوئی بات ہو ، بھائی کہیں ایسی کوئی بات نہیں کی گئی جس کی بنا پر آخرت کے معاملات میں بنائے جنس افضلیت کا ذکر کیا گیا ہو ، آخرت کے اجر و ثواب ، یا ، معاذ اللہ سزا و عذاب کا انحصار تو انسان کے اپنے ذاتی اعمال پر ہے اور اس میں عورت و مَرد کی کوئی تفریق نہیں ،
خاور بھائی ، ابھی اس مضمون کے تین حصے باقی ہیں ، ان شا ء اللہ اُن کے مطالعہ سے آپ کو مزید وضاحت ہو جائے گی ، کہ عنوان کے مطابق """ میاں بیوی کے حقوق """ کا ذکر ہو رہا ہے ، مرد و عورت کی آخرت کے درجات یا نتائج کا نہیں ،
آخر میں ایک دفعہ پھر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں ، بھائی ، آپ کے اس علمی مراسلے پر مجھے بہت خوشی ہوئی ، میرے دیگر مضامین پر اور اس موضوع کے باقی مضامین پر بھی نظر رکھیے گا ، اللہ ہم سب کو حق سمجھنے ، اور اپنانے کی توفیق عطاء فرمائے ، والسلام علیکم۔
 

خاور بلال

محفلین
میرے بھائی ، اللہ کے ہاں رتبے اور اجر و ثواب کے بارے میں تو میرے مضمون میں تو کوئی بات نہیں ہے ، چہ جائیکہ کسی جنس کے اللہ کے ہاں برتر یا کم تر ، بر بنائے جنس ، ہونے کی کوئی بات ہو ، بھائی کہیں ایسی کوئی بات نہیں کی گئی جس کی بنا پر آخرت کے معاملات میں بنائے جنس افضلیت کا ذکر کیا گیا ہو ، آخرت کے اجر و ثواب ، یا ، معاذ اللہ سزا و عذاب کا انحصار تو انسان کے اپنے ذاتی اعمال پر ہے اور اس میں عورت و مَرد کی کوئی تفریق نہیں۔[/size]

عادل بھائ
بہت شکریہ وضاحت کرنے کا۔ میں صرف یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ حقوق زوجین نازک معاملہ ہے اور اس معاملے میں مبہم الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔ آپ نے اپنی پہلی پوسٹ میں لکھا کہ مرد عورت سے برتر ہیں اور ان کا درجہ بلند ہے۔ مجھے بس اتنا اعتراض تھا کہ جہاں جہاں ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں وہاں یہ وضاحت ضرور کی جانی چاہیے کہ مرد کو جو برتری حاصل ہے وہ صرف اور صرف معاشرتی اعتبار سے ہے، اخروی اعتبار سے نہیں۔ یہ بات تو آپ کو معلوم ہوگی کہ عموماً مرد خود تو زیادہ علم نہیں رکھتے لیکن علماء سے سنی ایسی باتوں کو جوں کا توں تصور کرلیتے ہیں اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ مرد عورت سے اشرف ہے۔ بہت سے مرد اس طرح کی باتوں کو عورتوں کے لیے طعنہ بنادیتے ہیں اور عورت یہ سوچنے لگ جاتی ہے کہ آخر اللہ نے اس سے یہ ناروا سلوک کیوں کیا۔

کئی احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ایک بیوی کو اپنے خاوند کی جنسی خواہش شرعی عذر کے بغیر رد نہیں کرنی چاہیے۔ اس گنجائش سے بھی مردوں کو یہ غلط فہمی لاحق ہوجاتی ہے ان کا درجہ عورت سے بلند ہے اس لیے ان کی خواہش کے سامنے بیوی کی خواہش کی کوئی حیثیت نہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ تو خاوند کو سیدھی راہ پر رکھنے کے لیے اسلام نے بیوی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شوہر کی خواہش کے مقابل اپنی خواہش کی قربانی دیدے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو یہ اندیشہ ہے کہ مرد اپنی خواہش سے بے قابو ہوکر زنا کاری کر بیٹھے اور زنا کی سزا اسلام میں بہت سخت ہے۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ بہت سے ایسے معاملات جن میں عورت اپنے حق کی قربانی دے کر اجر و ثواب کمارہی ہوتی ہے اسے مرد اپنے مقام و مرتبے کی بلندی کا ٹیکس سمجھ رہے ہوتے ہیں۔

جہاں ماڈرن طبقے میں عورت کی آزادی حد سے تجاوز کرگئی ہے تو وہیں دوسری جانب وہ لوگ بھی ہیں جو عورت کو مردوں کا ضمیمہ خیال کرتے ہیں اور اس کی ایک مستقل شخصیت تسلیم کرنے سے ہی انکاری ہیں۔ اور اس میں ان علماء کی بھی غلطی ہے جو عورتوں کو تو ان کے حصے کی پوری بات نہیں بتاتے لیکن مردوں کو تمام تر ہتھیار فراہم کردیتے ہیں جس سے وہ اپنی برتری کے زعم میں ناجائز خواہشات بھی عورت سے پوری کرواتے ہیں اور عورت اپنی قسمت کو روتی ہے کہ کاش وہ مرد ہوتی۔

عادل بھائی میں نے یہ بات عمومی طور پر کہی ہے اس مضمون سے متعلق نہیں۔ آپ کی وضاحت کے بعد میرا شبہ دور ہوگیا ہے اور اب مزید قسطوں کا انتظار ہے۔
والسلام
 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ خیرا ، بھائی خاور بلال ، آپ کا کہنا بجا ہے ، الفاظ کا استعمال زیادہ سے زیادہ واضح ہونا چاہیے ، میرا خیال تھا کہ عنوان ، اور داخل مضمون یہ وضاحت کافی رہے گی کہ یہ بات معاشرتی اور دینی درجہ بندی کی ہے ، بپرحال ، آپ کی تجویز یا مشورہ بالکل درست ہے ، جزاک اللہ خیرا ، مضمون کا اگلا حصہ میں نے ارسال کر دیا ہے ، اُس کا بھی مطالعہ فرمایے ، اور اپنے قیمتی مشوروں سے نوازیے ، و السلام علیکم۔
 
Top