عادل ـ سہیل
محفلین
:::::حقوق الزوجین ::: میاں بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق :::::
::::: خاوند کا رُتبہ و حیثیت :::::
اِس موضوع پر بات کرتے ہوئے کچھ ڈر سا لگتا ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں اور مسلم معاشرے میں عام طور پر خواتین کا اثر و رسوخ یا واضح الفاظ میں یہ کہنا چاہیے کہ خواتین کا رعب و دبدبہ مناسب حدود سے بہت باہر ہو چکا ہے اور اکثر مرد حضرات ۔۔'''بے چارگی ''' کی حالت میں نظر آتے ہیں اور کچھ اسی طرح کا معاملہ دوسری طرف بھی ہے کہ مرد حضرات بھی کم نہیں کرتے اور جہاں بھی موقعہ ملے اپنی مردانگی کاناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں ۔
اِنشاء اللہ تعالیٰ اِس مضمون میں مختصر طور پر یہ بیان کروں گا کہ میاں بیوی کے لیے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کیا حقوق اور کیا فرائض مقرر کیئے گئے ہیں ، سب سے پہلے یہ بات جاننے اور اس پر ایمان لانے والی ہے کہ مرد عورت سے افضل ہیںاور بلند درجہ رکھتے ہیں ،
اللہ العلیم الحکیم کا فرما ن ہے (الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعضَہُم عَلَی بَعضٍ وَبِمَا اَنفَقُوا مِن اَموَالِہِم ) ( مرد عورتوں سے برتر ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان میں سے کچھ کو کچھ پرفضیلت دی ہے اور اِس لیے کہ مرد عورتوں پراپنے مال میں سے خرچ کرتے ہیں ،،،،،،) سورۃ النساء /آیت ٣٤
::::: ایک فلسفہ اور اُس کا جواب ::::: اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ اکیلا خالق ہے اور اُس کے عِلاوہ جو کچھ ہے اُس کی مخلوق ہے ، لہذا جِس کو اُس نے جیسا چاہا ویسا بنایا اور جو دینا چاہا عطاء فرمایا اور جو نہ دینا چاہا اُس سے روک لیا ، مَردوں کو عورتوں پر برتری بھی اِسی طرح اکیلے لا شریک خالق و مالک و داتا ، اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی سے دی ہے ، کِسی کے لیے کوئی گُنجائش نہیں کہ وہ کوئی فلسفہ گھڑ کر اللہ تعالیٰ کے کِسی بھی کام کا اِنکار کرے یا اُس پر اعتراض کرے ، ایسا کرنے والا دائرہِ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ، مثلاً اگر کوئی یا سوچے کہ عورتیں مرد سب برابر ہیں ، ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں ، مرد کی برتری کیسی ؟ ایسا کہنے والے بے چارے یہ تک بھی نہیں جانتے کہ گاڑیوں کے چلنے کا کیا نظام ہوتا ہے ، پہیے دو ہوں یا دس اُن کو گھمانے اور اُن کے ذریعے گاڑی چلانے کے لیے کوئی قوت درکار ہوتی ہے اور وہ قوت مہیا کرنے والی چیز کو انجن کہا جاتا ہے ، اگر انجن کام نہ کرے یا مُناسب قوت مہیا نہ کرے تو برابری کا دعویٰ کرنے والیاں پہیہ صاحبات کب تک اور کیسے گھومتی ہیں ؟ اوراُنکی شخصیت اور اُن کے خاندان کی گاڑی کہاں پہنچتی ہے ؟ اور جِس معاشرے میں یہ پہیے کِسی تحکم (Control ) کے بغیرگھومتے ہیں اُس معاشرے کی گاڑی کہاں پہنچتی ہے ؟ یہ باتیں درست عقل رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے ، دیکھتا اور سُنتا ہے ، لہذا یہ فلسفہ عملی طور پر خود کو جھوٹاثابت کرتا ہے ، اور یہ بات روزِ روشن کی طرح صاف اور واضح نظر آتی ہے کہ مَرد و عورت کِسی بھی معاشرے میں ہوں کِسی بھی دِین اور دِین کے کِسی بھی مذھب و مسلک سے وابستہ ہوں ،کِسی بھی صورت ایک گاڑی کے دو پہیے قرار نہیں پا سکتے ہیں ،
::::: فلسفہ در فلسفہ اور اُس کا جواب :::: مرد و عورت کی برابری کے دعویٰ دار ، اور عورت کی آزادی اور کارِ حیات میں برابر کی شرکت کے طلبگار وں میں سے کچھ لوگ بغیر انجن کے پہیے گھمانے والے فلسفے کو ذرا اِسلامی رنگ دیتے ہوئے ایک اور فلسفہ شامل کرتے ہیں کہ ، مرد کے برتر ہونے کی وجہ یہ کہ وہ عورت پر خرچ کرتا ہے ، اور یہ اِس لیے ہوتا ہے کہ عورت کو خود کمانے کا موقع نہیں دِیا جاتا ، اگر عورت خود کمائے تو پھر مرد کو اُس پر خرچ کرنے کی ضرورت رہتی ہے نہ عورت کو مرد سے خرچہ لینے کی ، لہذ ثابت ہوا کہ عورتیں مَردوں کے برابر ہیں مگر اُنہیں اُن کی صلاحیات استعمال کرنے کا موقع نہیں دِیا جاتا ،
اِن بے چاروں کو اللہ تعالیٰ کے فرمان میں یہ نظر نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک مخلوق مَرد کو دوسری مخلوق عورت پر اپنی مرضی سے افضلیت عطاء فرمائی ، اورمَردوں کا عورتوں پر خرچ کرنے والا معاملہ دُنیا کے مادی اسباب میں سے ایک سبب بنایا ہے، نہ کہ اکلوتا اور حقیقی سبب کہ اگر اِسے ختم کر لیا جائے تو افضلیت بھی ختم ہو جائے گی ، اور ''' صاحب ''' اور ''' بیگم''' برابر ہو جائیں گے ،
اِس مضمون کا موضوع عورت کی آزادی یا برابری نہیں ، اِس موضوع پر بات پھر کِسی وقت ہو گی اِنشاء اللہ تعالیٰ ، فی الحال اتنا ہی کہنا کافی ہو گا اِنشاء اللہ کہ معاشرتی اور دینی معاملات میں عورت و مرد کی برابری کی سوچ یا اِس کی بنیاد پر گھڑا گیا کوئی بھی فلسفہ اللہ تعالیٰ کے ایک کام کا اِنکار اور اُس پر اعتراض ہے ، جو یقینا ایسا کُفرہے جو اسلام سے خارج کردیتا ہے ،اِسلام سے خارج کرنے والے کاموں کا تعارف عقیدے کے تعارفانہ رواں خاکہ جات (Flow Charts ) میں مُیسر ہے ،
اللہ تعالیٰ سب مُسلمانوں کو اپنا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع فرمان بننے کی توفیق عطاے فرمائے اور اِسی تابع فرمانی پر ہمارے خاتمے فرمائے اور اِسی پر ہمارا حشر فرمائے ،
اللہ تعالیٰ کے اِس مذکورہ بالا ( اُوپر ذِکر کیے گئے) فرمان سے ہمیں پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مکمل ترین بے عیب حکمت سے مَردوں کو عورتوں پر برتری عطاء فرمائی ہے ، یہ برتری بحیثیتِ جنس عام ہے یعنی مَرد بہر صورت عورت پر برتر ہے ، رہا معاملہ مختلف رشتوں کے حقوق کا تو وہ اللہ تعالیٰ نے او ر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف رکھے ہیں جو کہ مَرد کی عورت پر برتری کو ختم نہیں کرتے اور نہ ہی عورت کی عِزت و احترام میں کمی کرتے ہیں ، میاں بیوی کے رشتے میں منسلک ہونے کے بعد مَرد کی حیثیت اور حق کتنا بڑھ جاتا ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زُبانی سنیئے :::
::::: (١) عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں ، کہتے ہیں جب معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہُ شام سے واپس آئے تو اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ( مَا ہَذا یا مُعَاذ ؟)( یہ کیا معاذ ؟ ) معاذ رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کیا ::: میں شام گیا تھا وہاں میں نے دیکھا کہ عیسائی اور یہودی اپنے اپنے مذہبی رہنماوں اور عالِموں کو سجدہ کرتے ہیں ، لہذا میرے دِل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ہم آپ کو سجدہ کریں ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (فَلا تَفعَلُوا فَاِنِی لَو کُنت ُ آمِراً احداً ان یَسجُدَ لِغَیرِ اللَّہِ لامَرت ُ المَراَئۃَ ان تَسجُدَ لِزَوجِہَا وَالَّذِی نَفسُ مُحَمدٍ بِیدِہِ لا تُؤَدِّی المَراۃُ حَق َّ رَبِّہَا حَتٰی تُؤَدِّی حَق َّ زَوجِہَا وَلَو سَاَئلَہَا نَفسَہَا وَہِیَ عَلَی قَتبٍ لَم تَمنَعہ ُ)( تُم سب ایسا مت کرو (یعنی مجھے سجدہ مت کرو)، اگر میں کِسی یہ حُکم دینے والا ہوتا کہ وہ اللہ کے عِلاوہ کِسی اور کو سجدہ کرے ( یعنی اگر یہ کام حلال ہوتا ) تو عورت کو حُکم دیتا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے ، اُس کی قسم جِس کے ہاتھ میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے ، عورت اپنے رب کا حق اُس وقت تک ادا نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ اپنے خاوند کا حق ادا نہ کرے ، اور (خاوند کا حق اتنا زیادہ ہے کہ ) اگر بیوی اُونٹ کے کاٹھی پر بیٹھی ہو اور خاوند اپنی بیوی کو ( اپنی جنسی طلب پوری کرنے کے لیے ) بلائے تو بھی وہ خاوند کو منع نہیں کرے گی ) صحیح ابن حبان / حدیث ٧١٤١ او ١٣٩٠ ، سنن ابن ماجہ /حدیث١٨٥٣/کتاب النکاح/باب٤، المستدرک الحاکم / حدیث ٧٣٢٥ ،کتاب البر و الصلۃ، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ / حدیث ٣٣٦٦ ، ٣٤٩٠ ، ١٢٠٣۔
::::: (٢) انس بن مالک رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( لا یَصلَحُ لِبَشرٍ ان یَسجُدَ لِبشرٍ ولَو صَلَحَ ان یَسجُدَ بَشَرٌ لِبشرٍ لامرتُ المراۃَ ان تَسجُدَ لَزوجِہا مِن عَظَمِ حَقِہِ عَلِیہَا ، والذِی نَفسِی بِیَدہِ لَو ان مِن قَدمِیِ اِلیٰ مَفرَقِ راسِہِ قَرحَۃً تَنبَجس بالقیحِ و الصدیدِ ثُمَ اقبَلَت تَلحَسہُ ما ادَت حَقَہ ُ ) ( کِسی اِنسان کے لیے حلال نہیں کہ وہ کِسی اِنسان کو سجدہ کرے ، اگر ایسا کرنا حلال ہوتا تو عورت پر خاوند کے حق کی عظمت ( بڑائی ) کی وجہ سے میں ضرور عورت کو حُکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے ) اِمام النسائی کی کتاب، عِشرۃ النساء /حدیث ٢٦٨ /باب حق الرجُلِ علیٰ المراۃِ ، مُسند احمد (عالم الکتب کی پہلی طباعت میں)/ حدیث ١٢٦٤١، اِمام الالبانی نے صحیح قرار دِیا، صحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ ٧٧٢٥ ،
مضمون """ حقوق الزوجین """ جاری ہے ، اگلا حصہ ان شا اللہ بعنوان ’’’ خاوند کے بیوی پر حقوق ‘‘‘ ملاحظہ فرمائیے گا ۔