حقِ عشق ہم کو نبھانا نہ آیا

ایم اے راجا

محفلین
حقِ عشق ہم کو نبھانا نہ آیا
سرِ راہ خود کو مٹانا نہ آیا

ہزاروں فسانے سنائے انھوں نے
مگر لب پہ میرا فسانہ نہ آیا

ہمیں بھی بلاتے کبھی پاس اپنے
رہِ عشق میں وہ زمانہ نہ آیا

ہمیشہ رہے طنز کی نوک پر ہم
سرِ بزم خود کو بچانا نہ آیا

جو سوچا، انھیں تو، وہی کہہ بھی ڈالا
کسی بات کو بھی چھپانا نہ آیا

میں رویا بہت ہوں زمانے میں لیکن
مجھے تو کسی کو رلانا نہ آیا

بڑی عمر گذری، ہمیں تو کسی شب
نگاہوں کو اپنی سلانا نہ آیا

رہا ہے یہ خونِ جگر تو میسر
ہتھیلی کسی پر سجانا نہ آیا

کئی بار راہوں میں ہمراز آئے
مگر حا ل دل کا سنانا نہ آیا

سوائے ترے، شہر سارا، مرا تھا
تجھے ہی تو اپنا بنانا نہ آیا

ہمیں بھی محبت تو ملتی تھی راجا
کسی سے مگر دل لگانا نہ آیا
 

الف عین

لائبریرین
لو ایک اور غزل۔۔۔ لیکن یہ بھی تو متقارب میں ہی ہ راجا۔۔ اس کو تقطیع کریں میں ہی چلنے دیتے۔ رمل کی رمل والے سلسلے میں، اور خفیف کی اس کے سلسلسے میں تو بہتر رہتا نا۔۔
یہ غزل ویسے بس اوسط ہی لگی ہے۔ کسی شعر میں ایسی خاص بات نہیں ہے، بری نہیں ہے تو بہت اچھی بھی نہیں ہے۔
ہاں۔ ’ہتھیلی رچانا‘ کی محاورہ ہے؟ سمجھ میں نہیں آیا۔ ہتھیلی پر مہندی رچائی جاتی ہے، سرسوں جمائی جاتی ہے۔ ہاں مہندی کا خوب رنگ نکھر جائے تو کہتے ہیں کہ ہتھیلی کیا رچ گئی۔ لیکن یہ عمل از خود ہوتا ہے، کوشش کر کے مہندی لگانے والا ایسا اکسپرٹ نہیں ہوتا۔۔ خواتین اس پر روشنی ڈال سکتی ہیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
شکریہ اعجاز صاحب،
آپ کو اوسط لگی تو سمجھتا ہوں اچھی ہے:) استادوں کو چیز اوسط اور بری نہ لگے شاگردوں کے لیئے راحت کا باعث ہوتی ہے، بہت شکریہ۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بہت خوب راجا بھائی متعقارب ، رمل اور حفیف کے علاوہ اگر کسی بحرمیں غزل لکھے تو اس کو اصلاح سخن میں ارسال کیا کرے غزل بہت اچھی ہے جاری رکھے بہت شکریہ
 
Top